شاہ ولی اللہ اور اسلامی حدود از ڈاکٹر محمد امین

Ahmad Umar Miana
0


شاہ ولی اللہ اور اسلامی حدود از ڈاکٹر محمد امین

FIKR O NAZAR Vol. 32 No. 2 (1994)


حضرت شاہ ولی اللہ الدہلوی” بر صغیر کی اسلامی تاریخ ہی کے نہیں پورے عالم اسلام کے وہ مایہ ناز دانشور ہیں جنہوں نے اسلامی احکام کے اسرار و رموز اور حکمتوں کی بھر پور وضاحت کی ہے۔ ان کی تصنیف لطیف حجہ اللہ البالغہ اپنی نوعیت کی ایک بے نظیر چیز ہے اور اپنے موضوع پر سند کا درجہ رکھتی ہے۔ اسلامی حدود کی حکمتوں کو بھی شاہ صاحب نے اپنی اس کتاب میں خوب نمایاں کیا ہے اور معاشرے پر ان کے پاکیزہ اور مفید اثرات کی تعریف کی ہے۔ بد قسمتی سے شاہ صاحب کی ایک عبارت کو سمجھنے میں علامہ شبلی سے معمولی تساہل ہوا اور پھر جو شبلی نے نہیں کہا تھا وہ بھی بعض لوگوں نے ان کے سر منڈھ دیا بلکہ اسے ہی علامہ اقبال کا موقف بھی قرار دے ڈالا کیونکہ اقبال نے بھی اپنے چھٹے خطبے میں شاہ ولی اللہ صاحب کی اس عبارت سے استشہاد کیا تھا۔ لہذا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ شاہ صاحب کی مذکورہ عبارت کا وقت نظر سے جائزہ لیا جائے اور شبلی و اقبال کی آراء کی بھی تنقیح کی جائے تاکہ حقیقت حال واضح ہو سکے۔
شاہ ولی اللہ نے حجتہ البالغہ کے سترہویں باب میں اس امر پر بحث کی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت انسانیت ذہنی ، روحانی اور تمدنی ارتقاء کے حوالے سے اس سطح تک پہنچ چکی تھی کہ اب ایک ایسی شریعت نازل کر دی جاتی جو سابقہ شریعتوں کی ناسخ ہوتی اور اب یہی شریعت قیامت تک کے لئے نافذ العمل رہتی چنانچہ وہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جو شریعت نازل ہوئی وہ اپنے اندر یہ صلاحیت رکھتی تھی کہ وہ تا قیامت انسانوں کے مسائل حل کر سکتی۔ شریعت اسلامی میں یہ خوبی کیسے پیدا ہوتی ہے اور اس میں ناقابل تغیر اور قابل تغیر احکام کی حکمت کے ساتھ سموئے گئے ہیں اس پر بحث کرتے ہوئے شاہ صاحب” لکھتے ہیں

وهذا الامام الذي يجمع الأمم على ملة واحدة يحتاج الى أصول اخرى غير الأصول المذكوره فيما سبق – منها ان يدعو قوما إلى السنة الراشدة ، ويزكيهم ويصلح شانهم ” ثم يتخذهم بمنزلة جوارحه فيجاحد اهل الأرض، ويفرقهم في الافاق، وهو قوله تعالى كنتم خير امة اخرجت للناس …… وذلك لان هذا الامام نفسه لايتاني منه مجاهده امم غير محصورة واذا كان كذلك وجب ان تكون مادة شريعته ما هو بمنزلة المذهب الطبيعي لاهل الاقاليم الصالحة عربهم وعجمهم ثم ما عند قومه من العلم والارتفاتات ويراعى فيه حالهم أكثر من غيرهم ثم يحمل الناس جميعا على اتباع تلك الشريعة لانه لاسبيل الى ان يفوض الأمر الى كل قوم او الى ائمة كل عصر اذ لا يحصل منه فائدة التشريع اصلا، ولا الى ان ينظر ما عند كل قوم، ويمارس كلا منهم فيجعل لكل شريعة اذ الاحاطة بعاداتهم وما عندهم على اختلاف بلدانهم و تباين اديانهم كالممتنع وقد عجز جمهور الرواة عن رواية شريعة واحدة فما ظنك بشرائع مختلفة والأكثر انه لا يكون انقياد الآخرين الا بعد عدد و مدد لا يطول عمر النبي اليها كما وقع في الشرائع الموجودة الآن فان اليهود والنصارى والمسلمين ما آمن من اوائلهم الا جمع ” ثم اصبحوا ظاهرين بعد ذلك فلا احسن ولا ايسر من ان يعتبر في الشعائر والحدود والارتفاتات عادة قومه المبعوث فيهم ولا يضيق كل التضييق على الآخرين الذين ياتون بعد ويبقى عليهم في الجملة …. انتہی
اس رہنما (پیغمبر) کو جو مختلف قوموں کو ایک ملت کی صورت میں جمع کرتا ہے ایسے اصولوں کی ضرورت ہوتی ہے جو اول الذکر اصولوں سے مختلف ہوں (یعنی اس پیغمبر کے اصولوں سے جو کسی ایک قوم کی طرف مبعوث ہوا ہو) جن میں سے ایک یہ ہے کہ وہ (پہلے) ایک قوم کو مخاطب کرتا اور اس کی تربیت و اصلاح کرتا ہے اور پھر اس کے ذریعے سے دوسری قوموں کی اصلاح کی جدو جہد کرتا ہے جیسا کہ قرآن مجید میں کہا گیا ہے
 (1) کنتم خير امة اخرجت للناس ……) 
(اے مسلمانو) تم وہ بہترین امت ہو جسے دوسرے لوگوں کی طرف بھیجا گیا ہے تاکہ تم انہیں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا حکم دو اور …. الخ)
 (۲) اس لئے (بھی) کہ یہ ایک فرد کے لئے ممکن نہیں ہے کہ وہ سارے عالم کی ذاتی طور پر اصلاح کرے لہذا ضروری ہے کہ اس پیغمبر کی شریعت ایسی ہو اور ایسے فطری مذہبی اصولوں پر مبنی ہو جو عرب و عجم سب کے لئے موزوں ہوں اور اس میں اس کی اولین مخاطب قوم کے علوم اور اعراف کو بھی ملحوظ رکھا گیا ہو۔ پھر سب لوگوں کو اس ایک شریعت کی پیروی کا حکم دیا جائے۔ کیونکہ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ ہر محمد کے لوگوں کو یہ چھوٹ دے دی جائے کہ وہ اپنے قوانین (شریعت) خود بنائیں کہ اس سے تو شریعت الہی کا مقصد ہی فوت ہو جائے گا اور نہ یہ ممکن ہے کہ ایسی شریعت میں ہر ایک قوم کے رسم و رواج کا لحاظ رکھا جائے اور (گویا) ہر قوم کے لئے الگ شریعت بنا دی جائے کیونکہ ہر قوم دوسری سے الگ علاقائی اور مذہبی پس منظر رکھتی ہے اور ہر قوم کے لئے الگ شریعت مقرر کرنے والی بات اس لئے بھی ممکن نہیں ہے) کہ ایک شریعت کی روایت بعد والی نسلوں تک اس کا صحیح طور پر پہنچانا ہی مشکل ہے چہ جائیکہ (ایک دین کے اندر) کئی شریعتوں کا روایت کئے جانا (جس سے معاملات خلط ملط ہو کر رہ جائیں گے) کیونکہ دوسری قو میں عام طور پر پیغمبر کی اپنی زندگی میں اس کی اطاعت قبول نہیں کرتیں جیسا کہ موجودہ شریعتوں کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ یہودیوں ، عیسائیوں اور مسلمانوں میں سے بھی پیغمبر کی زندگی میں کم ہی ایمان لائے اور دوسری قوموں پر غلبہ انہیں بعد میں حاصل ہوا۔ ان حالات میں بہترین اور آسان طریقہ میں ہے کہ وہ (پیغمبر) شعائر (دینی) حدود (اللہ) اور اجتہادی اداروں کی تشکیل میں فطری مذہبی اصولوں کے علاوہ) اس قوم کی عادات کا ہی خیال رکھے جس میں وہ مبعوث ہوا ہے اور بعد میں آنے والوں پر ان معاملات (یعنی جو اس خاص قوم کی عادات پر مبنی ہیں اور یونیورسل نوعیت کے نہیں) پر عمل میں سختی نہ کی جائے اگر چہ بحیثیت مجموعی وہ ان پر لاگو ہی ہوں گے۔
اگر چہ قوسین میں دیئے گئے الفاظ سے ترجمہ کافی واضح ہو گیا ہے لیکن شاہ صاحب” کے مدعا کو مزید واضح کرنے کے لئے عرض ہے کہ ایک پیغمبر جو صرف ایک مخصوص قوم کی طرف نازل ہوتا ہے اس کی شریعت میں اس قوم کے احوال و اعراف کا خیال رکھا جاتا ہے لیکن ایک ایسا پیغمبر جس کی شریعت کو قیامت تک کے لئے مختلف زمان و مکان میں رہنے والے لوگوں کے لئے نافذ العمل رہنا ہو یہ نہیں ہو سکتا کہ اس کی شریعت میں صرف اولین مخاطب قوم کے احوال و اعراف کا خیال رکھا جائے کیونکہ اگر ایسا ہو تو ایسی شریعت بعد میں آنے والے لوگوں کے لئے قابل عمل نہ رہے گی جو اس سے مختلف احوال و اعراف رکھتے ہوں۔ اس کا حل شارع یہ اختیار فرماتا ہے کہ اس پیغمبر کی شریعت کی بنیاد ان اصول و اقدار پر رکھی جاتی ہے جو انسان کی سعید فطرت اور طبیعی انصاف پر مبنی ہوتی ہیں جو نہ صرف پیغمبر کی اولین مخاطب قوم کی اقدار و اعراف پر مبنی ہوتی ہیں بلکہ ماضی میں بھی بحیثیت مجموعی یعنی ضروری تفاصیل سے قطع نظر ان پر عمل رہا ہوتا ہے اور آنے والے وقتوں اور معاشروں کے لئے بھی وہ صالح ہوتی ہیں ۔ اور یہی وہ اصول و اقدار ہیں جو شریعت کا بنیادی ڈھانچہ بناتی ہیں اور انہی پر شریعت کے اکثر احکام (عبادات و معاملات وغیرہ) مبنی ہوتے ہیں۔
رہے وہ معاملات جن میں زمان و مکان کی تبدیلی سے تغیر واقع ہو سکتا ہے تو یہاں شارع یہ حکیمانہ طریقہ اختیار فرماتا ہے کہ وہ ایسے امور میں محض پالیسی کے اصول بیان فرما دیتا ہے اور تفصیلات ہر زمانے اور علاقے کے مسلمان اہل علم اور اہل حل و عقد پر چھوڑ دیتا ہے کہ وہ شریعت کے اصولوں کی روشنی میں ان تفصیلات کو طے کر لیں۔ تاہم ان دو بڑے دائروں سے بیچ کر کچھ احکام ایسے بھی ہو سکتے ہیں جن میں پیغمبر کی اولین مخاطب امت اور اس کے خصوصی و مقامی احوال و ظروف کا ہی خیال رکھا گیا ہو اور یہ ایسے احوال و اعراف ہوں جو آفاقی نوعیت کے نہ ہوں ۔ ظاہر ہے کہ بعد میں آنے والی امتوں پر یہ احکام بعینہ نافذ نہ ہوں گے ۔ اصولی طور پر تو یہ ان پر بھی لاگو ہوں گے لیکن ان کا جو جزء مقامی عرف پر مبنی ہو گا بعد میں آنے والوں کے لئے اس پر عمل ضروری نہ ہو گا کہ اس میں ان کے لئے تنگی ہے جب کہ شریعت آسانی کی داعی ہے اور اس کی ضامن بھی۔
مزید وضاحت کے لئے تشریح کے ان تینوں دائروں کی ایک ایک مثال ملاحظہ ہو:
ان امور کی حفاظت کے لئے جن کے بغیر کوئی معاشرہ قائم نہیں رہ سکتا اور نہ فرد اطمینان اور خوشی کی زندگی بسر کر سکتا ہے شارع نے سخت سزائیں اپنی طرف سے مقرر کر دیں جیسے جان کی حفاظت (قصاص) ، مال کی حفاظت ( قطع ید) نسل و آبرو کی حفاظت (کوڑے اور رحم) دین کی حفاظت (حدار تداد) اور عقل کی حفاظت (حد) شرب خمر) وغیرہ ۔ اب یہ ایسے امور ہیں جن کی حفاظت و حرمت کے بارے میں دو رائیں نہیں ہو سکتیں ۔ ہر صاحب عقل یہ دیکھ سکتا ہے کہ اگر ان پانچ مقاصد کی حفاظت نہ کی جائے تو کوئی معاشرہ بھی قائم نہیں رہ سکتا۔ اس لئے ان مقاصد کی حفاظت کے لئے ہر زمانے میں اور ہر قوم میں سخت قوانین بنائے گئے۔ قرآن بتاتا ہے کہ ان مقاصد کے خلاف جرائم کی سزائیں پہلی قوموں میں بھی نافذ تھیں اور آج بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ہر معاشرے نے ان امور کی حفاظت کے لئے سخت قوانین بنا رکھے ہیں ۔ لہذا ان مقاصد کی حفاظت کے لئے شارع نے سزائیں خود مقرر فرما دیں ۔ اور جب تک انسانی معاشرہ باقی ہے یہ مقاصد بھی باقی رہیں گے لہٰذا یہ سزائیں بھی باقی رہیں گی۔ اور شریعت نے ان سزاوں میں جن مقداروں کا تعین کیا ہے وہ بھی ہمیشہ کے لئے باقی رہیں گی۔ یہ سزا میں ماضی میں بھی نافذ رہی ہیں، آج بھی نافذ ہونی چاہئیں اور مستقبل میں بھی کیونکہ ان کا تعلق ایسی اقدار اور ایسے مقاصد سے ہے جو عارضی نوعیت کے نہیں اور نہ ان کا تعلق کسی خاص معاشرے یا زمانے سے ہے۔
دوسرے دائرے کی مثال سیاسی نظام کی ہے۔ شارع نے اپنی سیاسی تعلیمات میں پالیسی کے بنیادی اصول تو بیان کر دیئے لیکن اپنی رحمت و مہربانی سے تفصیلات کا تعین نہیں کیا تاکہ بدلتے ہوئے زمان و مکان میں لوگ اپنی ضرورت کے مطابق تفصیلات کا تعیین خود کر لیں مثلاً شارع نے مسلمانوں کو سیاسی معاملات میں مشاورت کا حکم دیا لیکن مشاورت کی کوئی خاص شکل معین نہیں کی ۔ فرض کیجئے کہ عہد رسالت ماب ” میں کوئی خاص شکل معین کر دی جاتی تو یقینا آج اس پر عمل نا ممکن ہوتا۔ اس لئے لوگوں کو تنگی سے بچانے کے لئے شارع نے ایسے امور امت کے اہل علم اور اہل حل و عقد) پر چھوڑ دیئے کہ منصوص بنیادی اصولوں کی روشنی میں اپنے حالات و ضروریات کے مطابق تفصیلات کا تعین وہ خود کر لیں۔
تیسرے دائرے کی مثال دیت میں عاقلہ کا تصور ہے ۔ عربوں میں دیت کا رواج تھا۔ اسلامی شریعت نے اسے باقی رکھا کیونکہ یہ انسانی فطرت اور طبعی انصاف کے اصولوں کے عین مطابق ہے کہ اگر کسی شخص سے بغیر ارادے کے انسانی جان کا ضیاع ہو جائے تو وہ متاثرہ خاندان کو مالی تاوان ادا کرے۔ لیکن دیت کے لئے عاقلہ کا تصور یہ ہے کہ اگر ملزم خود مالی تاوان ادا نہ کر سکے تو عاقلہ اس کی مدد کرے۔ عاقلہ وہ لوگ ہیں جن کے ساتھ ملزم اپنے معاشرتی اور معاشی مفاد میں بندھا ہوا ہے۔ عہد رسالت ماب کے معاشرتی نظام میں عاقلہ قبائلی نظام تھا۔ آج کے پاکستانی معاشرے میں قبائلی نظام باقی نہیں رہا لہذا آج یہ ممکن نہیں ہے کہ ہمارے ہاں پائی جانے والی برادریاں اور خاندان ملزم کی جگہ دیت ادا کریں۔ ہمارے ہاں عاقلہ ڈرائیوروں کی یونین ہو سکتی ہے یا کوئی انشورنس کمپنی ہو سکتی ہے اور کل کلاں کوئی دوسرا ادارہ ہو سکتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ عاقلہ کا حکم تو من حیث المجملہ باقی رہے گا لیکن عاقلہ کون ہے؟ اس کا حکم زمان و مکان کے بدلنے سے بدل جائے گا۔
اس وضاحت کے بعد اب شاہ ولی اللہ صاحب کا موقف سمجھنے میں کوئی وقت باقی نہیں رہتی ۔ جب وہ یہ کہتے ہیں کہ دینی شعائر اسلامی حدود (حدود سے مراد یہاں حدود و تعزیرات والی اصطلاحی و شرعی حدود مراد نہیں یعنی مقاصد حصول خمسہ کے لئے شارع کی طرف سے معین کردہ سزائیں قطع ید و رجم وغیرہ بلکہ اس سے مراد وہ حدیں ہیں جو شریعت نے ہر معاملے میں قائم کی ہیں یعنی یہ چیز جائز ہے، وہ نا جائز ہے یہ غلط ہے اور وہ صحیح ہے مثلاً وضو کس وقت ٹوٹ جاتا ہے، روزہ کسی وقت افطار کرنا چاہئے، حج کس چیز سے فاسد ہوتا ہے، حلال کمائی کب حرام ہوتی ہے وغیرہ۔ گویا یہاں حدود سے مراد ہیں وہ حدیں جو اسلام نے مختلف امور میں مقرر کی ہیں ۔ یا دوسرے لفظوں میں یوں سمجھئے کہ یہاں اسلامی حدود سے مراد ہیں اسلامی احکام اور معاشرتی و معاشی اداروں کی تنظیم کے لئے دی گئی تعلیمات کے وہ حصے جن کا تعلق ایسے مقامی احوال واعراف سے ہو جو یونیورسل نوعیت کے نہ ہوں ان پر بعینہ عمل بعد کے زمانے میں ضروری نہیں ہوتا بلکہ وہ احکام اصولی طور پر تو باقی رہتے ہیں لیکن ان کے ایسے اجزاء کا تعین جو خالص مقامی اعراف و احوال پر مشتمل تھے نئے سرے سے کر لیا جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسے امور کا تعلق احکام کے اس تیسرے دائرے سے ہے جس کا ہم اوپر ذکر کر چکے ہیں اور یہ بھی واضح کر چکے ہیں کہ دین کے اکثر و بیشتر احکام کا تعلق پہلے اور دوسرے دائرے سے ہے۔ چند بچی کچی چیزیں ہی اس تیسرے دائرے میں آتی ہیں ۔
اسلامی تشریح کے حوالے سے شاہ ولی اللہ صاحب کا موقف سمجھنے کے بعد آئیے اب دیکھیں کہ علامہ شبلی کو شاہ صاحب” کا موقف سمجھنے میں کیا تسامح پیش آیا؟ علامہ شبلی بر صغیر کے مشہور عالم اور ادیب ہیں۔ الکلام و علم الکلام ان کی عظیم تصنیف ہے ۔ الکلام میں انبیاء کی تعلیم و ہدایت کا طریقہ کے عنوان سے انہوں نے ان اصول و قواعد کا ذکر کیا ہے جن پر انبیاء کی تعلیمات مبنی ہوتی ہیں ۔ اس سلسلے میں انہوں نے چھ اصول بیان کئے ہیں اور اس کے بعد یہ کہا ہے کہ ان اصولوں کا اطلاق اپنے عموم کے لحاظ سے ہر نبی کی تعلیم پر ہوتا ہے لیکن اس نبی کا معالمہ ان سے مختلف ہوتا ہے جس کی شریعت کو ہمیشہ کے لئے باقی رہنا ہو ۔ اور یہاں وہ شاہ ولی اللہ صاحب کا ذکر کردہ یہ اصول بیان کرتے ہیں کہ وہ احکام جو نبی کی اولین مخاطب قوم کے مقامی اور خصوصی احوال و اعراف پر مبنی ہوں بعد کے زمانے میں ان کی بعینہ پیروی ضروری نہیں ہوتی بلکہ ان کی تفصیلات میں حسب ضرورت تغیر کر لیا جاتا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے شاہ ولی اللہ صاحب کی وہ عبارت نقل کی ہے، جو ہم نے اس مقالے کے ابتداء میں درج کی ہے اور اس کا ترجمہ دیا ہے۔ اور اس کے بعد اس اصول پر یہ تبصرہ کیا ہے۔
اس اصول سے یہ بات ظاہر ہو گی کہ شریعت اسلامی میں چوری ، زنا، قتل کی جو سزائیں مقرر کی گئی ہیں ان میں کہاں تک عرب کی رسم و رواج کا لحاظ رکھا گیا ہے۔ اور یہ کہ ان سزاوں کا جینا اور مخصوصا پابند رہنا کہاں تک ضروری ہے ۔ (۳)
اس کے باوجود کہ شبلی نے شاہ ولی اللہ صاحب کی عبارت میں لفظ “حدود” کا ترجمہ تعزیرات کیا ہے ان کے مذکورہ بالا جملے مجمل بلکہ مہم ہیں۔ انہوں نے واضح لفظوں میں یہ نہیں کہا کہ اسلامی حدود عربوں کے خالص مقامی اعراف پر مبنی تھیں اور یہ کہ آئندہ زمانوں میں ان پر بعینہ عمل نہیں ہو گا بلکہ وہ یہ کہ رہے ہیں کہ اس اصول کی روشنی میں یہ دیکھنا چاہئے کہ کیا اسلامی حدود ایسے مقامی اعراف و احوال پر مبنی تھیں جو خالص مقامی نوعیت کے تھے اور یونیورسل شریعت کا جزو نہیں بن سکتے تھے یا پھر اسلامی حدود ایسے اعراف پر مبنی تھیں جو یونیورسل نوعیت کے تھے اور وہ ہمیشہ کے لئے باقی رہنے والی شریعت کا جزو بن سکتے تھے۔ شبلی کے ان الفاظ سے پتہ چلتا ہے کہ وہ محض دعوت فکر دے رہے ہیں کوئی فیصلہ نہیں کر رہے اور ان الفاظ کا وہی مفہوم سمجھنا چاہئے جو شاہ ولی اللہ کا اور امت کے دیگر اہل علم کا موقف ہے اور یہی سمجھنا اولی ہے کیونکہ علامہ شبلی کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ حدود کے باب میں شاہ ولی اللہ کے موقف سے واقف نہ تھے (جو انہوں نے حجتہ اللہ البالغہ ہی میں دوسری جگہوں پر وضاحت کے ساتھ بیان لیا ہے یا یہ کہ خود علامہ شبلی کا موقف ساری امت سے الگ تھا اور وہ حدود اسلامی کو قابل تغیر سمجھتے تھے تو یہ علامہ شبلی سے سوء ظن بلکہ ان پر محض ایک اتمام اور دعوی بلا دلیل ہے۔
تاہم علامہ شبلی سے یہاں یہ تسامح ضرور ہوا ہے کہ انہوں نے حدود کا ترجمہ تعزیرات کرنے کے باوجود مثال دیتے ہوئے یہاں حدود کو شرعی اور اصطلاحی حدود سمجھ لیا ہے حالانکہ عبارت کا سیاق و سباق اس کا تقاضا کرتا ہے کہ یہاں حدود کو اسلامی احکام کے معنی میں لیا جائے (جیسا کہ علامہ اقبال نے کیا ہے نہ کہ شرعی اور اصطلاحی حدود کے معنی میں معروف اصطلاحی معنوں میں حدود سے مراد وہ سزائیں ہیں جو شارع نے خود مقرر کی ہیں اور جنہیں امت تبدیل نہیں کر سکتی ۔ پھر یہاں علامہ شبلی کو یہ وضاحت بھی کرنی چاہئے تھی کہ شریعت محمدی کی یہ اضافی خوبی اس کی تشریح کا کوئی بنیادی اصول نہیں بلکہ جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا ہے، شریعت محمدی کے اکثر و بیشتر احکام تو تشریح کے پہلے دو دائروں پر مبنی ہیں ۔ تیسرا دائرہ مختصر اور تنگ دائرہ ہے جس میں بہت کم احکام آتے ہیں ۔ تاہم، ہماری ان ساری وضاحتوں کے باوجود اگر کوئی علامہ شبلی کے الفاظ کی اس توجیہ پر اصرار کرے کہ شبلی نے یہاں شاہ ولی اللہ صاحب کی یہ رائے بیان کی ہے کہ اصطلاحی حدود پر بعد کے ادوار میں عمل نہیں ہو گا تو ہم اسے کہیں گے کہ وہ اصطلاحی اور شرعی حدود کے باب میں حجتہ اللہ البالغہ ہی میں بیان کئے گئے شاہ صاحب” کے موقف کو جان لے تو شائد اس کا اطمینان ہو جائے۔
حجتہ اللہ البالغہ میں شاہ ولی اللہ شرعی حدود کی حکمتیں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
جس معصیت کے ارتکاب پر شرع نے حد مقرر کی ہے وہ متعدد مفاسد پر مشتمل ہوتی ہے مثلاً وہ کوئی ایسی معصیت ہو جو نظام تمدن میں خلل انداز ہونے کے علاوہ مسلمانوں کے لئے طمانیت اور سکون قلب کے زوال کا باعث ہو لوگوں کے دلوں میں بار بار اس کے کرنے کا داعیہ پیدا ہوتا ہو اور اس کے دو چار مرتبہ عمل میں لانے سے اس کی لت پڑ جاتی ہو جس سے کہ پیچھا چھڑانا مشکل ہو جائے کیونکہ اس کے اثرات اعماق قلب میں سرایت کر جاتے ہیں ۔ اس قسم کی معصیت میں ایک خرابی یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ مظلوم جو اس کا نشانہ بنتا ہے عموماً آپ اپنی حمایت کرنے سے عاجز ہوتا ہے، مزید برآں وہ ایک كثير الوقوع معصیت ہوتی ہے۔ اس نوع کی معصیت کے لئے صرف عذاب آخرت کی دعید و تهدید کافی نہیں بلکہ یہ نہایت ضروری ہے کہ اس کے ارتکاب پر اس دنیا میں بھی کوئی سخت عبرتناک سزا مقرر ہو اور اس کا مرتکب اپنی سوسائٹی میں سخت نفرت کی نگاہ سے دیکھا جائے تاکہ ان نتائج کے پیش نظر بہت کم اشخاص اس کے ارتکاب پر اقدام کرنے کی جرات کر سکیں۔ اس کی ایک واضح مثال کسی محترم خاتون کی عصمت دری کرنا ہے کیونکہ اس کا محرک صنفی خواہش کا غلبہ ہوتا ہے اور صنف نازک کے حسن و جمال سے اس جذبہ کو تقویت حاصل ہوتی ہے ۔ جیسے کہ ہم کہہ چکے ہیں یہ وہ برا فعل ہے جس کے ایک دوبار کرنے سے اس کا چسکا پڑ جاتا ہے۔ اس خاتون کے شوہر اور اس کے دیگر اقرباء کے ماتھے پر اس کلنک کا بد نما ٹیکہ ہمیشہ کے لئے مثبت ہو جاتا ہے اور وہ کسی کو اپنا منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتے۔ یہ ایک ایسا فعل ہے جس کو انسان کی فطری غیرت ہر گز گوارا نہیں کرتی الا یہ کہ کسی کی فطرت منح ہو چکی ہو ۔ علاوہ ازیں اس سے کئی قسم کے تنازعات پیدا ہوتے ہیں جس کا نتیجہ کشت و خون ہوتا ہے۔ اکثر یہ فعل قبیحفریقین کی رضامندی سے واقع ہوتا ہے اور اس کا محل ارتکاب عموماً کوئی پوشیدہ جگہ ہوتی ہے جو لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہو۔ اب اگر اس کے لئے شریعت میں سخت اور عبرتناک سزا مقرر نہ ہو تو اس فعل شنیع کے عام طور پر پھیل جانے میں ذرہ بھی شک نہیں ۔ (۴) اس کے بعد شاہ صاحب نے چوری، رہزنی، شراب خوری اور قذف کا ذکر کیا ہے اور ان جرائم کی سخت سزاوں کی عصمتیں بیان کی ہیں۔
بعد ازاں شاہ صاحب نے حدود کے اس باب میں یہ لکھا ہے کہ یہ ایسے شنیع جرائم ہیں کہ سابقہ انبیاء کی شریعتوں میں بھی ان کے لئے ایسی ہی سخت سزائیں مقرر تھیں چنانچہ فرماتے ہیں
ہم سے پہلے جو شریعتیں تھیں ان کا حکم یہ تھا کہ اگر کوئی شخص قتل کا مرتکب ہو تو اس کو قصاص کے طور پر قتل کر دیا جائے ، زنا کی سزا رجم مقرر تھی اور چوری کے ارتکاب پر مجرم کا ہاتھ کاٹا جاتا ۔ یہ تینوں سزائیں انبیاء علیہم السلام کی شریعتوں میں متوارث چلی آتی تھیں۔ جملہ انبیائے سابقین کی شریعتوں میں ان جرائم کے لئے میں سزائیں مقرر تھیں اور ان کی امتوں میں انہی احکام پر عمل درآمد ہوتا تھا۔ یہ حدود اور شرائع اس قابل تھے کہ شریعت محمدیہ میں بھی انہی کو برقرار رکھا جائے۔ اتنی بات ضرور ہے کہ شریعت ہذا نے ان کی مناسب اصلاح کی – (۵)
اس کے بعد شاہ صاحب نے لکھا ہے کہ ان سخت سزاوں کو تبدیل کر کے ہلکی سزائیں مقرر کرنا دین میں تحریف ہے اور یہ کہ حدود کی سزائیں بغیر کسی مداہنت کے سختی سے نافذ کرنی چاہئیں چنانچہ فرماتے ہیں:
یہودیوں میں جب اپنی شریعت کی پابندی کے بارے میں تساہل آگیا تو وہ ہر کہہ دمہ پر رجم کا جو زنا کی شرعی سزا تھی اجراء نہ کر سکے اور انہوں نے اس کو تجیبہ اور تحیم سے بدل دیا (یعنی مجرم کا منہ کالا کر کے اور گدھے پر سوار کر کے شہر کے بازاروں اور گلی کوچوں میں پھرانا) یہ علماء یہود کی تحریف تھی ۔ (۲) آگے چل کر فرماتے ہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی سخت تاکید فرمائی کہ حدود شرعیہ کی تعمیل اور اجراء میں کسی سے بھی مداہنت اور نرمی کا برتاو نہ کیا جائے بلکہ حکم شرعی کی موبمو تعمیل کی جائے ۔ انیاء اور اصحاب عز و جاہ کے ساتھ کسی قسم کی رو رعایت تشریع حدود کے منافی ہے اور
اس سے شرائع المیہ کا ابطال اور ان کی بے وقتی ہوتی ہے۔ (۷)
اب آئیے اقبال کی طرف ۔ اقبال کی تشکیل جدید الہیات اسلامیہ کے چھٹے خطبے کا موضوع اسلام کا حرکی تصور اور اجتہاد ہے۔ یہاں انہوں نے اسلامی قانون کے ماخذ پر بھی مختصر بحث کی ہے اور اس ضمن میں قرآن، سنت، اجماع اور قیاس پر گفتگو کی ہے ۔ سنت کے ماخذ
قانون ہونے کی حیثیت سے جب وہ گفتگو کرتے ہیں تو کہتے ہیں:

“For our present purposes, however, we must distinguish traditions of a purely legal import from those which are of a non-legal character. With regard to the former, there arises a very important question as to how for they embody the Pre-Islamic usages of Arabia which were in some cases left infact, and in others modified by the Prophet. It is difficult to make this discovery, for our early writers do not always refer to Pre-Islamic usages. Nor is it possible to discover that usages, left intact by express or tacit approval of the Prophet, were intended to be universal in their application. Shah Waliullah has a very illumenating discussion on the point. I reproduce here the substance of his view. The Prophetic method of teaching, according to Shah Waliullah, is that, generally speabing, the law revealed by a Prophet takes especial notice of the habits, ways, and peculiarities of the People to when he is specifically sent. The Prophet who aims at all-embracing principles, however, can neither reveal different princeples for different peoples, nor leaves them to workout their own rules of conduct. His method is to train one particular people, and to use them as a nucleus for the building up of a universal Shariah. In doing so he accentuates the principles under lying the social life of all mankind, and applies them to concrete cases in the light of the specific habits of the people immediately before him. The Shariah values (Ahkam) resulting from this application (e.g. rules relating to penalifies for crimas) are in a sense specific to that people; and since their observance is not an end in itself they cannot be strictly enforced in the case of future generations”

اس عبارت کا ترجمہ نذیر نیازی صاحب نے یوں کیا ہے:
لیکن جہاں تک مسئلہ اجتہاد کا تعلق ہے ہمیں چاہئے ان احادیث کو جن کی حیثیت سرتاسر قانونی ہے ان احادیث سے الگ رکھیں جن کا قانون سے کوئی تعلق نہیں ۔ پھر اول الذکر کی بحث میں بھی ایک بڑا اہم سوال یہ ہوگا کہ ان میں عرب قبل اسلام کے اس رسم و رواج کا جسے جوں کا توں چھوڑ دیا گیا یا جس میں حضور رسالت ماب صلعم نے تھوڑی بہت ترمیم کر دی کس قدر حصہ موجود ہے۔ لیکن یہ وہ حقیقت ہے جس کا اکتشاف مشکل ہی سے ہو سکے گا کیونکہ علماء حقد مین شاذ ہی اس رسم و رواج کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔ ہمیں تو شائد یہ بھی معلوم نہیں کہ جس رسم و رواج کو جوں کا توں چھوڑ دیا گیا، خواہ حضور رسالت ماب صلعم نے اس کی بالصراحت منظور دی یا خاموشی اختیار فرمائی اس پر کیا سچ مچ ہر کہیں اور ہر زمانے میں عمل کرنا مقصود تھا، شاہ ولی اللہ نے اس مسئلے میں بڑی سبق آموز بحث اٹھائی ہے۔ ہم اس کا مفاد ذیل میں پیش کریں گے۔
شاہ ولی اللہ کہتے ہیں انبیاء کا عام طریق تعلیم تو یہی ہے کہ وہ جس قوم میں مبعوث ہوتے ہیں ان پر اس قوم کے رسم و رواج اور عادات و خصائص کے مطابق شریعت نازل کی جاتی ہے ۔ لیکن جس نبی کے سامنے ہمہ گیر اصول ہیں، اس پر نہ تو مختلف قوموں کے لئے مختلف اصول نازل کئے جائیں گے، نہ یہ ممکن ہے کہ وہ ہر قوم کو اپنی اپنی ضروریات کے لئے الگ الگ اصول عمل متعین کرنے کی اجازت دے۔ وہ کسی ایک قوم کی تربیت کرتا اور پھر ایک عالمگیر شریعت کی تشکیل میں اس سے تمہید کا کام لیتا ہے (یہاں شاہ صاحب کی عبارت سے ایک غلط فہمی کا اندیشہ ہے، لہذا اس امر کی صراحت ناگزیر ہو جاتی ہے قرآن پاک میں تو یہی عالگیر شریعت نازل ہوئی جس کی طرف شاہ صاحب اشارہ فرما رہے ہیں ۔ رہا اس کے اطلاق میں قوموں کے احوال اور خصائص کا مسئلہ سو یہ قانون کا مسئلہ ہے، شریعت کا نہیں، قرآن پاک کا صاف و صریح ارشاد ہے ۔ شرع لكم من الدين ما قصی به نوحنا والذي الحينا الیک و ما وصینا به ابراهیم و موسی و عیسی ان اقيموا الدين ولا تتفر قوافیه (۸ الف) لیکن ایسا کرنے میں وہ اگرچہ انہی اصولوں کو حرکت دیتا ہے جو ساری نوع انسانی کی حیات اجتماعیہ میں کار فرما ہیں، پھر بھی ہر معاملے اور ہر موقع پر عملاً ان کا اطلاق اپنی قوم کی مخصوص عادات کے مطابق ہی کرتا ہے لہذا اس طرح جو احکام وضع ہوتے ہیں (مثلاً تعزیرات) ایک لحاظ سے اس قوم کے لئے مخصوص ہوں گے ۔ پھر چونکہ احکام مقصود بالذات نہیں ، اس لئے یہ بھی ضروری نہیں کہ ان کو آئندہ نسلوں کے لئے بھی واجب ٹھرایا جائے ۔ (۹) ۔
اقبال نے یہاں یہ مسئلہ اٹھایا ہے کہ جو قوانین احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ماخوذ ہیں ان کے بارے میں آج تیقین سے یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ کسی خالص مقامی نوعیت کے عرف پر مبنی ہیں یا پھر ایسے عرف پر مبنی ہیں جو یونیورسل نوعیت کا ہے کیونکہ راویوں نے عام طور پر اس کو بیان کرنے کی طرف توجہ نہیں دی۔ اس لئے اس مسئلے کا حل یہی ہے کہ ان احکام کو (جن کے بارے میں یہ خیال ہو کہ وہ یونیورسل نوعیت کے مقامی اعراف پر مبنی نہیں آئندہ زمانے میں بعینہ نافذ نہ کیا جائے۔ یہاں حدود کا ترجمہ اقبال نے بجا طور پر احکام اور Shariah Values کیا ہے اور اس کے ساتھ ہی تو سین میں یہ بھی کہہ دیا ہے ۔ مثلاً جرائم کی سزاوں سے متعلق احکام” ۔ یہاں اگر “جرائم کی سزاوں سے متعلق احکام سے مراد تعزیری احکام ہیں، جیسا کہ اس کا ترجمہ نذیر نیازی صاحب نے کیا ہے، تو یہ بالکل صحیح ہے کیونکہ تعزیری احکام کی تفصیلات میں زمان و مکان کے بدلنے سے تغیر کا واقع ہونا ایک امر ظاہر ہے لیکن اگر اس سے مقصود اصطلاحی حدود ہیں تو اس پر وہی اعتراض وارد ہو گا جو اس سے پہلے ہم علامہ شبلی کے بارے میں بیان کر چکے ہیں ۔ لیکن چونکہ اقبال نے یہاں حدود کا لفظ استعمال نہیں کیا اس لئے اسلامی حدود کا لفظ خواہ مخواہ اقبال کے سرکیوں منڈھا جائے؟
موضوع زیر بحث کی رعایت سے ہم یہاں احادیث کی شرعی حیثیت کے حوالے سے ایک ضروری بات کہنا چاہیں گے اور وہ یہ کہ احادیث ، خواہ احکامی ہوں یا غیر ادکامی ہمارے لئے حجت ہیں۔ کسی حدیث کے بارے میں علمی اور فنی لحاظ سے تو یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ وہ قول رسول ہے یا نہیں لیکن ایک دفعہ یہ ثابت ہو جانے کے بعد کہ یہ حکم رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) ہے۔ اس کے حجت اور قابل اتباع ہونے کے بارے میں کوئی مسلمان سوال نہیں اٹھا سکتا کیونکہ قرآن کی رو سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے کسی حکم کی اطاعت سے انکار آج بھی اس طرح موجب گمراہی و کفر ہے جس طرح وہ حضور کی زندگی میں تھا (۱۰) قرآن اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ حضور جو کچھ فرماتے ہیں وہ مبنی بر وحی ہوتا ہے، وہ اپنے پاس سے کچھ نہیں کہتے (11) ۔ پھر ساتھ ہی یہ بھی سمجھ لینا چاہئے کہ جب تک حضور” زندہ تھے اور آپ پر وحی آتی تھی تو یہ آپ کے احکام کے صحیح ہونے کی ضمانت تھی خواہ وہ احکام وحی خفی پر مبنی ہوں یا آپ کے اجتہادات ہوں کیونکہ اس صورت میں اگر آپ خدانخواستہ غلطی کرتے تو وحی کے ذریعے فورا آپ کی تصویب کر دی جاتی۔ جیسا کہ قرآن مجید کی کئی آیات سے پتہ چلتا ہے کہ حضور” کے بعض افعال و احکام کو جب اللہ تعالی نے آپ کے مرتبہ کمال کے مناسب نہ سمجھا تو تنبیہہ کر دی (۱۳) اس سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ حضور ” جب عربوں کے کسی ایسے عرف کو مسلمانوں کے لئے ایک آفاقی شریعت کے طور پر حکم فرماتے تھے تو اس کے پیچھے وحی کی سند موجود ہوتی تھی مثلا عربوں میں نکاح کے کئی طریقے مروج تھے ۔ اب نبی کریم نے نکاح کے جس طریقے کو پسند فرمایا اور وہ امت کو تعلیم فرمایا وہ ہمیشہ کے لئے ساری امت کے لئے شریعت بن گیا تو آج اس کے بارے میں یہ سوال نہیں اٹھایا جا سکتا کہ یہ تو عربوں کا طریقہ تھا اور آج صدیوں بعد کسی غیر عرب معاشرے کے لئے یہ موزوں نہیں ہے کیونکہ نکاح کا یہ طریقہ اگر یونیورسل شریعت کا جزو بننے کے لئے موزوں نہ ہوتا، جبکہ حضور ایسا قرار دے چکے تھے، تو ضروری تھا کہ وحی کے ذریعے اللہ تعالی اس کی تصحیح کر دیتے لیکن چونکہ ایسی کوئی تصحیح نہیں کی گئی لہذا آج یہ سوال ہی خارج از امکان ہے کہ آیا یہ محض مقامی نوعیت کے عرف پر مبنی ہونے کی وجہ سے خالص مقامی حکم تھا یا ایسے عرف پر مبنی جو آفاقی نوعیت کا تھا۔
پھر یہ بھی ذہن میں رہے کہ جن معاملات کے بارے میں فقہ و اصول فقہ کے ماہرین نے یہ رائے ظاہر کی ہے کہ یہ مقامی نوعیت کے ہیں اور آفاقی نوعیت کے نہیں ۔ ان کے بارے میں بھی یہ فیصلہ انہوں نے محض اپنی رائے سے نہیں دیا بلکہ احادیث کی داخلی شہادتوں پر دیا ہے مثلاً کسی کے بارے میں انہوں نے یہ کہا ہے کہ یہ حضور ” کا عمومی حکم نہیں بلکہ بطور حکمران کے آپ نے یہ انتظامی فیصلہ کیا ہے مثلاً بنجر زمینوں کو آباد کرنے پر حق ملکیت حاصل ہوتا۔ یا بطور قاضی نے کوئی فیصلہ دیا ہے مثلاً بیوی کو شوہر کے مال میں بغیر اجازت کفاف کی حد تک تصرف کا حق دینا ۔ یا احکام کی نوعیت ہی بتا دیتی ہے کہ یہ کوئی مستقل حکم نہیں بلکہ عارضی حکم ہے مثلا حضور کا یہ فرمانا کہ حکمران قریش میں سے ہوا کریں گے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ قیامت تک ساری دنیا میں مسلمانوں کے حکمران صرف قریش ہی ہوں گے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت جزیرہ نما عرب میں قریش کو سیاسی بالا دستی اور قوت حاصل تھی اور ان کی موجودگی میں کسی دوسرے قبیلے کو حکومت سازی کا اختیار دیتا ایک ایسی بات ہوتی جو چل نہ سکتی بلکہ الٹا معاشرے کو نقصان پہنچاتی۔ اس کا یہ مطلب بھی لیا جا سکتا ہے کہ جب تک قریش کو عربوں میں یہ سیاسی قوت رسوخ اور بالادستی حاصل رہے گی یہ ضروری ہے کہ حکمران انہی میں سے ہوں لیکن اس حدیث کا یہ مطلب کسی نے بھی نہیں لیا کہ قیامت تک مسلمانوں کے حکمران قریشی ہوں گے اور نہ ہی امت کا اس پر عمل ہے۔ اور جیسا کہ ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ ایسے امور کا تعلق اسلام کے عمومی احکام سے نہیں بلکہ اکثر و بیشتر احکام تشریح کے پہلے اور دوسرے دائرے میں آ جاتے ہیں اور اس تیسرے دائرے کی تنگنائے میں محض چند استثنائی احکام رہ جاتے ہیں مثلاً فوجیوں میں تقسیم نیمت دیت میں عاقلہ کا تصور ، بیوی کا شوہر کے مال میں بغیر اجازت تصرف، بنجر زمینوں کو آباد کرنے پر حق ملکیت اور حکومت کا قریش میں محدود ہونا وغیرہ۔ یہی وہ چند احکام ہیں جو فقہاء نے عموماً اس ضمن میں بیان کئے ہیں۔
دینی علوم سے بے بہرہ جو دانشور شاہ ولی اللہ علامہ شبلی یا علامہ اقبال کی مذکورہ عبارات کے حوالے سے یہ کہتے ہیں کہ اتنی سخت اور وحشیانہ سزائیں تو اس وقت کے عرب بدووں کے لئے تھیں، آج کے مہذب معاشرے میں یہ نافذ نہیں کی جاسکتیں، وہ یہ نہیں جانتے کہ اس طرح کی اکثر و بیشتر سزائیں خود قرآن میں مذکور ہیں، یہ اصلاً حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی مقرر کردہ نہیں کہ ان پر مقامی عرف ہونے کے حوالے سے تنقید کی جاسکے چنانچہ دیکھئے قرآن میں
مندرجہ ذیل سزا میں مذکور ہیں:
چوری کی سزا : ہاتھ کاٹنا (۱۳)
زنا (غیر محصن) کی سزا : ۱۰۰ کوڑے (۱۴)
قتل عمد کی سزا : مقتل (۱۵)
قذف کی سزا: ۸۰ کوڑے (۲۲)
حرابے (ڈکیتی، خلل امن) کی سزا قتل یا سولی
یا ہاتھ پاوں کا کاٹنا یا ملک بدری (۱۷)
باقی رہیں زانی محسن کی سزا یا شرب خمر اور ارتداد و توہین رسالت کی سزا تو بلاشبہ یہ حضور ختمی المرتبت (صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں جو اللہ کے مقرر کردہ شارع ہیں لیکن اہل علم جانتے ہیں کہ یہ سزائیں بھی دراصل قرآن ہی سے مستنبط ہیں اور وحی خفی و جلی کی اتھارٹی کی وجہ ہی
سے ہمارے لئے حجت ہیں۔
ہم یہ سمجھنے سے بھی قاصر ہیں کہ مغربی فکر و تہذیب اور قانون سے مرعوب یہ دانشور اسلامی سزاوں کو سخت اور وحشیانہ کیوں کر کہتے ہیں جب کہ ان کے قبلہ و کعبہ مغرب میں کیفیت یہ ہے کہ آج بھی امریکہ جیسے متمدن اور مہذب معاشرے میں اہ جرائم ایسے ہیں جن کی سزا موت ہے (۱۸) جب کہ اسلام میں تو صرف تین چار جرائم کی سزا شارع نے موت مقرر کی ہے۔

حواشی
حجتہ اللہ البالغہ ص ۹۳ مطبع الخيرية بمصر طبع ۱۳۸۶
آل عمران : ۱۱۰
الكلام و علم الکلام، شبلی نعمانی ، ص ۱۵ طبع لکھنو ۱۹۳۶ء
حجتہ اللہ البالغہ اردو ترجمہ مولانا عبدالرحیم طبع قومی کتب خانه ص ۶۳۶٬۶۳۵
ایضا ص ۱۳۸
ایضا ص ۶۳۹
ایضاً ص ۶۶۰
Allama Mohammad Iqbal, the Reconstruction of Religious thought in lalam, Published Jointly by Iqbal Academy and Institute of Islamic Culture, Lahore, 1989 Edition р-136, 137,
الف الشورى ۱۳
تشکیل جدید الهیات اسلامیه ترجمه نذیر نیازی مطبوعه بزم اقبال کلب روڈ لاہور طبع سوم مئی ۱۹۸۶ء
ص ۲۶۶ – ۲۶۴
آل عمران ۳۲ االنساء ۸۰، ۶۵، ۵۹، محمد ۳۳ الاحزاب ۳۶ و غیره
النجم ۳،۴
التوبه ۴۳ التحریم1 عبس 01 -10وغیرہ
المائده ۳۸
النور 2
البقره ۱۷۸
النور ۳،۵
المائده ۳۲
“Times” JulY 22,1991.

Post a Comment

0Comments

Please Select Embedded Mode To show the Comment System.*