تحریک ریشمی رومال میں مولانا عبدالرحیم رائے پوری کا کردار از بدر عالم




تحریک ریشمی رومال میں مولانا عبدالرحیم رائے پوری کا کردار
بدر عالم

ریسرچ اسکالر ، شعبہ اسلامک اسٹڈیز، جامعہ ملیہ اسلامیہ ، نئی دہلی

مولانا شاہ عبدالرحیم رائے پوری کی ولادت ۱۲۷۰ھ مطابق ۱۸۵۳ء میں موضع گیری میں ہوئی (1)      تگری اُس وقت تحصیل تھانیسر »، ضلع کرنال»، صوبہ پنجاب کا حصہ تھا اور موجودہ جغرافیہ میں تحصیل جگا دھری، ضلع یمنا نگر، صوبہ ہریانہ کا حصہ ہے۔ سنہ ۱۲۹۱ھ / ۱۸۷۴ء میں انھوں نے مظاہر علوم سہارنپور سے درس نظامی کی تکمیل کی (۲)۔ انھوں نے شیخ میاں عبدالرحیم سرساوی ثم سہارنپوری (م۱۳۰۳ھ / ۱۸۸۵ء) اور مولانا رشید احمد گنگوہی (۱۹۰۵ - ۱۸۲۶ء) سے تصوف و سلوک میں کسب فیض کیا اور دونوں مشائخ سے مختلف سلسلوں میں خرقہ خلافت حاصل ہوا (۳) مولانا گنگوہی سے قبل حاجی امداد اللہ مہاجر مکی(۱۸۹۹-۱۸۱۸ء) سے بھی بیعت وارادت کا تعلق . رہا اور اُن سے بھی مجاز بیعت ہوئے (۴)۔ آپ نے پہلے شیخ میاں عبد الرحیم سہارنپوری کی ہدایت پر ۱۳۰۰ھ مطابق ۱۸۸۲ء میں رائے پور" میں مستقل سکونت اختیار کی۔ رائے پور میں انھوں نے مسجد، مدرسہ اور خانقاہ قائم کر کے ایک علمی اور تعلیمی و تربیتی مرکز قائم کیا۔ رائے پور کے اس مرکز کو خانقاہ رحیمی رائے پور کے نام سے شہرت حاصل ہوئی (۵)۔ اُن کی وفات ۲۵ ربیع الثانی ۱۳۳۷ھ / ۲۸ جنوری ۱۹۱۹ء میں ہوئی اور رائے پور میں سپرد خاک ہوئے (۶)۔ اُن کے جانشین ان کے شاگرد رشید مولانا عبد القادر رائے پوری (۱۸۷۴- ۱۹۶۲ء) ہوئے جو اپنے عہد کے مشہور شیخ طریقت اور مصلح و مربی تھے۔

جہد و کردار:

مولانا عبد الرحیم رائے پوری نے مختلف میدانوں میں خدمات انجام دی ہیں۔ انفرادی تزکیه و تربیت، حصول آزادی، دینی تعلیم کی اشاعت، اصلاح عقائد و اعمال اور رسوم و بدعات کا ازالہ ان کی جد و جہد کے نمایاں میدان رہے ہیں۔
اپنے عہد میں قومی سیاست اور تحریک آزادی میں بھی انھوں نے بھر پور حصہ لیا۔ جد و جہد آزادی میں اُن کا کردار تحریک ریشمی رومال کے حوالے سے زیادہ نمایاں ہے۔ اس تحریک کے ایک اہم رازدان، قائد و سر پرست اور ناظم اعلیٰ کی حیثیت سے انھوں نے جس طرح سر پرستانہ جدوجہد کی، اسی طرح ضروری تقاضوں کے پیش نظر عملی جدوجہد میں بھی حصہ لیا۔

سرپرستانه جہد و کردار:

مولانا رشید احمد گنگوہی، جن کے بڑے خلفاء میں مولانا رائے پوری بھی تھے، کی وفات کے بعد مولانا رائے پوری کو جماعت کے بزرگ سر پرست کی حیثیت سے دیکھا جاتا تھا۔ اپنے رفقاء اور معاصرین کے درمیان ان کی رائے ایک وزن رکھتی تھی اور ہر اہم معاملے میں ان سے مشاورت کی جاتی تھی۔ اپنے شیخ کی وفات کے بعد وہ اپنے مشائخ و اسلاف سے متعلق اداروں اور جماعتوں اور تحریکوں کے حوالے سے سر پرستانہ اور مربیانہ کر دار ادا کر رہے تھے۔ چناں چہ انھوں نے تحریک ریشمی رومال میں بھی سر پرستانہ کردار ادا کیا۔
بہت سے مکاتب و مدارس اور اداروں و تحریکوں کی طرح ان کے وقیع اور دور رس مشورے تحریک ریشمی رومال کے قائدین میں قدر و وقعت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ تحریک کے قائد اعلی شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی (۱۸۵۱ء-۱۹۲۰ء) جس طرح ان کا بڑا احترام اور اُن پر آخری درجہ کا اعتماد کرتے تھے، اسی طرح ان کے قیمتی مشوروں سے مستفید ہوتے تھے (۷)۔ چناں چہ تحریک کی اعلیٰ قیادت، بشمول شیخ الہند اور مولانا خلیل احمد سہارنپوری (۱۸۵۲ء ۱۹۲۷ء) وغیرہ، رائے پور میں جمع ہوتی تھی جو اُس وقت کے سیاسی ہنگامے میں اپنے آبادیاتی اور جغرافیائی حالات کے لحاظ سے موزوں تھا اور مولانا رائے پوری کی خانقاہ میں باہمی مشاورت، فیصلہ سازی اور منصوبہ بندی کیا کرتے تھے ۔ (۸)
تحریک کے اہم امور میں جو مشاورت ہوتی، جو اہم فیصلے کیے جاتے اور جو حضرات منصوبہ بندی اور فیصلہ سازی کرتے، اُن میں ایک اہم نام مولانا رائے پوری کا ہے۔ مولانا رائے پوری کی وفات پر شیخ الہند نے، جو اُس وقت مالٹا میں اسیر تھے، انھیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے جو طویل مرثیہ لکھا اور جو مسدس مالٹا کے نام سے شائع ہوا، اس میں بھی ان کی رائے اور مشورے کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے یہ اشعار تحریر کیے ہیں:
ہمدمو! رائے کس سے لوگے، کہو
مشورے کس سے اب کرو گے، کہو
راز دل کس سے اب کہو گے، کہو
رائے پور بھی کبھی چلوگے، کہو
زینت و زیب الف ثانی مرد
شاہ عبد الرحیم ثانی مرد     (٩)

افرادی قوت کی فراہمی اور مالی امداد کی ترسیل: 

سرپرستانہ جد وجہد کے ساتھ مولانا رائے پوری نے تحریک ریشمی رومال میں عملی جدوجہد کا بھی ساتھ دیا۔ تحریک کو افرادی طاقت اور مالی امداد کی فراہمی میں انھوں نے بھر پور حصہ لیا۔ صوبہ جات متحدہ، پنجاب اور ریاست بہاول پور کے وسیع خطے اور ان کے نواحی علاقوں میں ان کا وسیع حلقہ اثر تھا۔ اپنے حلقہ اثر میں ایک جانب انھوں نے تحریک کے قائد شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی کا اعتماد قائم کیا تا کہ طے شدہ منصوبے کے مطابق جیسے ہی اُن کی جانب سے اعلان جنگ ہو ، لوگ بغاوت و انقلاب اور حریت و آزادی کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔ دوسری جانب انھوں نے معتمد احباب ورفقاء کے ذریعے چندہ اکٹھا کر کے خفیہ طریقے سے تحریک کے متعلقہ کارکنان تک پہنچایا (١٠) تا کہ وہ مقاصد و عزائم بروئے کار لائے جائیں جن کا تحریک کے ایک راز دار کی حیثیت سے انھیں علم رہتا تھا۔
پنجاب کی سی آئی ڈی پولیس نے تحریک کے کارکنان کا جور ریکارڈ تیار کیا تھا اور بعد میں جس کا اردو ترجمہ ریشمی خطوط کے کیس میں کون کیا ہے“ کے عنوان سے ہوا، اس میں بھی تحریک کے لیے مولانا رائے پوری کے اس کردار کا ذکر ملتا ہے کہ وہ شیخ الہند کی جہاد کی اسکیم میں شریک تھے، دیوبند کے مدرسے کی کمیٹی میں شامل تھے اور شیخ الہند کی عدم موجودگی میں ان کے نائب کے طور پر روپیہ جمع کرنا اور اسے تحریک کے ناظم مالیات مولوی حمد اللہ پانی پتی کو پہنچانا ان کی ذمہ داری تھی (۱١)۔

انگریز فوج کی خفیہ معلومات سے واقفیت کا طریقہ :

تحریک میں مولانا رائے پوری کا عملی کردار اس لحاظ سے منفرد تھا کہ انھوں نے خفیہ طور پر کسی نہ کسی شکل میں انگریزوں کے فوجی مراکز اور راستوں، اور اُن کی نقل و حرکت اور خفیہ منصوبوں سے واقفیت کی راہ نکال رکھی تھی تاکہ اُن کی فوجی معلومات اور اُن کی نقل و حرکت معلوم ہوتی رہے اور انقلاب اور جنگ کے اعلان کے موقع پر اُن کے ٹھکانوں کو نشانہ بھی بنایا جائے۔
اس کی شکل اس طرح پیدا ہوئی کہ اُن کے ایک معتمد مرید مستری احمد حسن مسوری (دہرادون، اتراکھنڈ) میں واقع انگریزوں کے فوجی سروے آفس میں ملازم تھے جہاں انگریز حکومت کے نقشے تیار ہوتے تھے۔ مستری احمد حسن پر انگریز افسروں کا اس حد تک اعتماد تھا کہ وہ اتوار کو چھٹی کے روز دفتر کی چابیاں اُن کے سپرد کر جاتے تھے۔ مستری احمد حسن خفیہ طور پر نقشے لے کر خانقاہ رائے پور پہنچ جاتے اور وہ نقشے اور دستاویزات مولانا کو دکھاتے اور پھر نقشوں کو واپس آفس میں رکھ دیتے۔ مولانا رات کی تنہائی میں اُن نقشوں کو ملاحظہ کرتے اور حساس ٹھکانوں کی معلومات حاصل کرتے تھے (۱۲) مولانا تحریک کے مراکز اور اُن کے راستوں سے واقفیت کو بھی بڑی اہمیت دیتے تھے تاکہ مالی امداد کی فراہمی جسے وہ از خود انجام دیتے تھے اور ہدایت و پیغام کی ترسیل آسان ہو (۱۳)۔

انگریز اقتدار کے خلاف بیعت: 

تحریک ریشمی رومال کا مقصد انگریز اقتدار کے خلاف انقلاب لانا تھا اور وہ اس مقصد کے لیے خفیہ طور پر کام کر رہی تھی۔ اُس کے طریقہ کار کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ اُس کے چننده قائدین در هبران انگریز اقتدار کے خاتمے کے لیے اپنے اپنے حلقہ اثر میں معتمد افراد و کارکنان سے خفیہ طور پر بیعت جہاد لیتے تھے تا کہ جیسے ہی آزادی کی جنگ اور انقلاب کا اعلان ہو ، بیعت کے ذریعہ عہد جہاد کرنے والے افراد انگریز اقتدار سے آزادی حاصل کرنے کے لیے اُس میں حصہ لیں۔ ان بیعت جہاد لینے والوں میں شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی، مولانا خلیل احمد سہارنپوری کے ساتھ مولانا رائے پوری کا اسم گرامی شامل تھا۔ مولانا رائے پوری نے اپنے تلمیذ رشید مولانا عبد القادر رائے پوری کو اپنے مرضِ وفات میں ہدایت کی تھی کہ وہ ان کی جانب سے بھی اور اپنی جانب سے بھی مولانا خلیل احمد سہارنپوری سے بیعت جہاد کریں۔ اس واقعہ کو مولانا عبد القادر نے بیان کیا ہے (١٤)۔
چوں کہ یہ مولانا رائے پوری کا آخری زمانہ حیات تھا، لہذا ان کی یہ ہدایت اس معنی میں تھی کہ تحریک ریشمی رومال کے پلیٹ فارم سے حریت و آزادی کی جو جد وجہد ہو رہی ہے، وہ اُن کے بعد بھی جاری رہے اور ان کے متعلقین اگلے دور میں بھی اسے جاری رکھیں۔

نائب سالار:

تحریک ریشمی رومال کی تاریخ و سرگزشت سے معلوم ہوتا ہے کہ تحریک کو منتظم و مربوط کرنے اور مختلف علاقوں میں مختلف ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لیے مختلف عہدے و مناصب وجود میں لائے گئے تھے اور بہت سے عہدے داران کا تعین کیا گیا تھا۔ چوں کہ ابھی تک یہ تحریک خفیہ تھی، لہذا یہ تعین بھی خفیہ طریقے سے کیا گیا تھا جس کا علم تحریک کے راز داران تک محدود تھا۔ تحریک میں مولانا رائے پوری کا کیا کردار تھا اور ان کی شخصیت کسی عظمت و اہمیت کی حامل تھی اور تحریک کے قائدین وارکان میں ان کا کیا مقام و مرتبہ تھا، اس کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ مولانا عبید اللہ سندھی نے جب تحریک کے منصب دارانِ جنود ربانیہ کی فہرست مرتب کی، تو اس کے نائب سالاروں میں دوسرا نام مولانا رائے پوری کا تھا (۱۵)۔

شیخ الہند کے قائم مقام اور تحریک کے ناظم اعلیٰ و سرپرست: 

تحریک کے متعین کردہ ہدف کہ انگریز اقتدار کے خلاف ایک ہمہ گیر انقلاب شروع کیا جائے ، کی تیاریوں کے آخری مرحلے میں طے شدہ منصوبے کے مطابق جب شیخ الہند کے لیے حجاز کے قیام کا فیصلہ ہوا اور ۱۹۱۵ء میں وہ حجاز روانہ ہونے لگے تو انھوں نے مولانا رائے پوری کو اپنا قائم مقام مقرر کیا اور تمام کارکنان کو تاکید کی کہ اہم امور و معاملات مولانا سے مشاورت کے بعد انجام دیے جائیں (١٦)۔
وہ اجلاس جس میں شیخ الہند اور مولانا خلیل احمد سہارنپوری کی قیام حجاز کی تجویز منظور ہوئی تھی اور مولانا رائے پوری کو تحریک کی قیادت سونپی گئی تھی، مظاہر علوم سہارنپور میں منعقد ہوا تھا۔ اُس کی کچھ تفصیلات شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی نے اپنی تالیف ”آپ بیتی“ میں تحریر کی ہیں اور مولانا عبد الرشید ارشد ، مدیر ماہ نامہ الرشید ، ساہیوال کے نام اپنے ایک مکتوب میں بھی ذکر کی ہیں (١٧)۔
تحریک کی قیادت و سیادت شیخ الہند طے شدہ منصوبے کے مطابق حجاز میں قیام پذیر تھے اور وہاں سے تحریک کی قیادت کر رہے تھے کہ اُن کے نام لکھا گیا مولانا عبید اللہ سندھی کا ایک خط انگریزوں کے ہاتھ لگ گیا۔ اس طرح انگریزوں کو اس تحریک کی بھنک لگ گئی۔ چناں چہ شیخ الہند کو حجاز سے گرفتار کر لیا گیا اور مالٹا میں نظر بند کر دیا گیا۔ بہت سے مقامات پر چھاپے مارے گئے اور بہت سے سر گرم کارکنان کو گرفتار کر لیا گیا (۱۸)۔
شیخ الہند کے ۱۹۱۵ء میں حجاز روانگی کے بعد سے لے کر ۱۹۱۹ء میں اپنی وفات تک ، جب کہ ابھی شیخ الہند مالٹاہی میں قید تھے ، مولانا نے تحریک کی قیادت و سر پرستی کی اور پورے عزم و استقلال اور راز داری سے تحریک کے اعلیٰ سطح کے کام انجام دیے (١٩)
۱۹۱۵ء کے بعد کا زمانہ، جب تحریک کا راز فاش ہوا اور شیخ الہند کی گرفتاری ہوئی، تحریک کی تاریخ کا بڑا نازک وقت تھا۔ تحریک کا راز فاش ہونے کے بعد اُس کے قائدین و کارکنان کی گرفتاریاں ہوئیں، کئی مقامات پر چھاپے مارے گئے ، بہت سے کارکنان سے تفتیش کی گئی ، بہت سے افراد شک کے دائرے میں آئے اور بہت سے منتشر اور گوشہ نشین ہو گئے۔ اس طرح تحریک کا شیرازہ منتشر ہو گیا۔ ۱۹۱۵ء سے ۱۹۱۹ء تک، جب مولانا رائے پوری کی وفات ہوئی، انھوں نے تحریک کی شیرازہ بندی اور شیخ الہند کے مشن کو جاری رکھنے کی بھر پور کوشش کی۔ اس زمانے میں رائے پور“ تحریک کے اہم خفیہ مراکز میں سے ایک تھا جہاں مولانا کارکنان کی شیرازہ بندی قائم رکھنے کی مسلسل کوشش کر رہے تھے۔ اپنی زندگی کے آخری ایام تک انھوں نے شیخ الہند کے قائم مقام اور تحریک کے ناظم اعلیٰ کی حیثیت سے تحریک کے اہم امور و معاملات اور اعلیٰ سطح کی کارروائیوں کو نہایت راز دارانہ طریقہ سے انجام دیا جب کہ فروعی امور اور سطحی کارروائیوں کو مولانا احد اللہ پانی پتی انجام دیتے رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تحریک کے انتشار و افتراق کے زمانے میں یہ دونوں حضرات کسی نہ کسی طور پر تحریک کو زندہ رکھے ہوئے تھے اور اسے بچانے کی ہر ممکن تدبیر و کوشش کر رہے تھے۔ ان دونوں کے اس کردار کو مولانا حسین احمد مدنی نے خود نوشت سوانح ” نقش حیات “ میں سراہا ہے (۲۰)۔

انگریز سی آئی ڈی کی تفتیش :

انگریزوں کو جب اس تحریک کی بھنک لگ گئی اور انھیں اس کی وسعت و طاقت سے خوف پیدا ہوا اور بڑے پیمانے پر تحقیقات شروع ہوئی اور تحریک کے مراکز پر چھاپے مارے گئے اور سرکردہ افراد اور سر گرم کارکنان کی گرفتاریاں عمل میں آئیں تو انگریزوں کی سی آئی ڈی خانقاہ رائے پور بھی پہنچی اور مولانا رائے پوری سے تفتیش کی۔ حالاں کہ اُن دنوں میں صاحب فراش تھے، مگر انھوں نے پورے عزم و استقلال اور بے باکی وبے نیازی کے ساتھ انگریزی آئی ڈی افسران کو جوابات دیے۔ مولانا مولانا عبد القادر رائے پوری کے شاگرد رشید شاہ انور حسین نفیس الحسینی نے اپنی کتاب شعر الفراق“ میں ان سوالات و جوابات کو قلم بند کیا ہے (۲١)۔ مولانا حسین احمد مدنی نے بھی اس واقعے کا مختصر تذکرہ اپنی خود نوشت سوانح ” نقش حیات“ میں کیا ہے (۲۲)۔

جرات مندانہ کردار :

(الف)         جرات مندی اور حوصلہ افزائی:

شیخ الہند کی مالٹا اسیری اور تحریک کی نمائندہ قیادت کی گرفتاری کے بعد کا زمانہ تحریک کے انتشار کا زمانہ تھا جب انگریزوں کی قید و بند کے خوف سے بہت سے کارکنان خاموش اور منتشر ہو گئے تھے۔ اس ماحول میں نہ صرف تحریک سے وابستہ افراد، بلکہ عام واقعین و متعلقین بھی عمومی سطح پر تحریک اور اُس کے علماء و قائدین سے لا تعلقی کا اظہار کر رہے تھے۔ اس نازک موقع پر مولانا رائے پوری نے پورے عزم و ثبات کے ساتھ لوگوں کی ہمت سازی اور حوصلہ افزائی کی اور اُن کے دلوں سے انگریزوں کا خوف اور حالات سے مایوسی دور کرنے کا فریضہ ادا کرتے رہے۔
شیخ الہند کو جب انگریزوں نے مال میں نظر بند کر دیا تھا اور اُن سے وابستہ افراد، اداروں اور جماعتوں پر سخت نظر رکھی جارہی تھی تو ان حالات میں بہت سے لوگ ان کا نام زبان پر لانے سے بھی ڈرنے لگے تھے۔ دیوبند میں شیخ الہند کا جو مکان تھا، نہ صرف عام لوگوں نے، بلکہ ان کے اعزاء و اقرباء اور احباب و متعلقین نے بھی وہاں جاتا ترک کر دیا تھا۔ شیخ الہند کی اہلیہ اور صاحب زادیاں مکان پر اس طرح تنہا ہو گئی تھیں کہ انھیں اشیائے خورد و نوش خریدنے میں بھی مشکل پیش آنے لگی۔ حالانکہ یہ ایک پر خطر اور نازک وقت تھا اور شیخ الہند کے تعلق سے کسی بھی قسم کی وابستگی کا اظہار انگریزوں کی تحقیق و تفتیش کو دعوت دینا تھا، تاہم مولانا رائے پوری نے اس کی پرواہ کیے بغیر شیخ الہند کے مکان پر کئی روز قیام کیا اور دارالعلوم دیوبند جس کے وہ ایک سرپرست رکن تھے، کی مجلس شوری کا اجلاس بھی وہیں منعقد کی۔ نیز وہاں کے دوران قیام بلا خوف و خطر حاضرین کو نہ صرف شیخ الہند کے فضائل و کمالات، بلکہ جہاد کے فضائل بھی بدستور وضاحت کے ساتھ ذکر کرتے رہے۔ شاہ اور حسین نفیس الحسینی نے اپنے مضمون تحریک ریشمی رمال کے سر پرست اعلیٰ، حضرت مولانا شاہ عبدالرحیم رائے پوری" میں مولانا رائے پوری کے مستر شد خاص اور مجاز بیعت مستری احمد حسن کے حوالے سے اس واقعہ کو تفصیل سے لکھا ہے (۲۳)۔

(ب)             دوران اسیری شیخ الہند سے خط و کتابت:

مالٹا اسیری کے دوران بھی شیخ الہند اور مولانا رائے پوری کے درمیان خط و کتابت کا سلسلہ جاری رہا۔ حالاں کہ خطوط کئی کئی مہینوں کے بعد مالٹا پہنچتے تھے، کیوں کہ تحقیق و تفتیش کے مقصد سے انھیں جانچ کرنے کے لیے پہلے لندن لے جایا جاتا تھا اور پھر وہاں سے مالٹا پہنچایا جاتا تھا۔ مولانا کے نام شیخ الہند کا ایک اہم خط کتاب شیخ الہند مولانا محمود حسن، ایک سیاسی مطالعہ “ مولفہ ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری میں موجود ہے۔ یہ مولانا کے ارسال کردہ ایک خط کا جواب ہے۔ غالباً مولانا نے اپنے خط میں شیخ الہند کے مالٹا کی قید سے رہائی کے بعد ہندستان تشریف لانے اور نہیں قیام کرنے کی درخواست کی تھی۔ اس خط میں شیخ الہند نے مولانا کی اس درخواست کا جواب بھی تحریر کیا ہے اور مولانا کی شدید خواہش پر قرآن کا جو ترجمہ وہ تحریر کر رہے تھے ، اس کے تعلق سے بھی یہ معلومات تحریر کی ہیں کہ یہ کام بدستور جاری ہے اور سورہ احزاب تک مکمل ہو گیا ہے۔ نیز مالٹا میں اپنی مصروفیات اور اپنے رفقاء کے حالات بھی مختصراً تحریر کیے ہیں (۲۴)۔

Refrence

(1)         ندوی، مسعود عزیزی، مفتی، تذکرہ حضرت مولانا شاہ عبدالرحیم صاحب رائے پوری، رائے پور (ضلع سہارنپور،اتر پردیش)، شعبہ نشر و اشاعت مدرسه فیض هدایت در گلزار رحیمی خانقاہ رائے پور ، ۱۴۳۳ھ / ۲۰۱۳ء ، ص ۴۳
(۲)         آزاد، عبد الخالق، مفتی، سوانح حیات مولانا شاہ عبد الرحیم رائے پوری، رحیمیه مطبوعات، دہلی ، ۲۰۲۱،، طبع سوم، ص ۹۴
(۳)         ندوی، ابوالحسن علی نا علی، سوانح حضرت مولانا عبد القادر رائے پوری ، ، مکتبہ اسلام، لکھنو ۲۰۱۲، ساتواں ایڈیشن ، ص ۳۲۱، حاشیه / الحسینی، سید نفیس، شعر الفراق، سید احمد شہید اکادیمی لاہور ، ۱۹۷۸ء، ص ۷۸)
(٤)         فیوض الرحمن، حافظ ، قاری، ڈاکٹر ، حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر کی اور ان کے خلفاء، مجلس نشریات اسلام، کراچی، ۱۹۸۴ء، ص ۱۸۹ تا ۱۹۳
(۵)         الحسینی، سید نفیس، شعر الفراق، سید احمد شہید اکادیمی، لاہور ، ۱۹۷۸ء، ص ۷۶-۷۷
(٦)         میر تھی، عاشق الہی ، مولانا، تذکرة الخلیل، سہارنپور ، مکتبہ خلیلیه ، ۱۹۹۱ء ، طبع دوم، ص ۲۶۵-۲۶۶
(٧)         الحسینی، سید نفیس، شعر الفراق ، سید احمد شہید اکادیمی لاہور ، ۱۹۷۸ء، ص ۸۲ / رائے پوری، حبیب الرحمن، ارشادات قطب الارشاد حضرت اقدس مولانا شاہ عبد القادر رائے پوری کتب خانہ اختری، سہارنپور ، ۱۹۹۹ء، ص ۱۲
(٨)         آزاد، عبد الخالق، سوانح حیات مولانا شاہ عبدالرحیم رائے پوری، رحیمیه مطبوعات، دہلی ، ۲۰۲۱، طبع سوم، ص ۲۴۹
(٩)         دیوبندی، محمود حسن، شیخ البند ، مسدس مالٹا، (ماہنامہ القاسم) دیوبند ، رمضان المبارک ۱۳۳۸ ، بعنوان ترجیع بند در مرثیه حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب رائے پوری قدس سترہ ، مرتب محمد اعزاز علی، ص ۸ / 
حاشیہ : اس مرثیے سے قبل اعزاز علی کی مندرجہ بالا تحریر درج ہے: ” یہ مسدس قطب العالم حضرت مولانا الحاج المولوی محمود حسن صاحب متعنا اللہ بطول حیاتہ نے مالٹا میں اپنی نظر بندی کے زمانہ میں حضرت شیخ المشائخ مولانا شاہ عبد الرحیم صاحب قدس اللہ سرہ کی وفات سے متاثر ہو کر تحریر فرمایا تھا۔ ہندوستان میں تشریف آوری کے بعد ہم کو ایک دوست کے ذریعہ سے مل گیا، اس لیے ذی علم حضرات کی خدمت میں بطور نادر تحفہ کے پیش کیا جاتا ہے“
(١٠)         تحریک شیخ الہند ، ریشمی خطوط سازش کیس ، مولانا سید محمد میاں دیو بندی، الجمعیۃ بک ڈپو، دہلی، ۱۹۷۵، ص ۳۶۴
(١١)         تحریک شیخ الہند ، ریشمی خطوط سازش کیس ، مولانا سید محمد میاں دیوبندی، الجمعیۃ بک ڈپو، دہلی، ۱۹۷۵، ص ۳۶۴
(۱۲)         الحسینی، سید نفیس، "شعر الفراق، سید احمد شہید اکادیمی، لاہور ، ۱۹۷۸ء، ص ۸۲،۸۵

(١۳)         آزاد، عبد الخالق ، سوانح حیات مولانا شاہ عبد الرحیم رائے پوری ، رحیمیہ مطبوعات، دہلی، ۲۰۲۱، طبع سوم، ص ۲۵۵
(١٤)         رائے پوری، حبیب الرحمن، ارشادات مولانا شاہ عبد القادر رائے پوری ، کتب خانہ اختری، سہارنپور ، ۱۹۹۹ء، مجلس ٦ رمضان المبارک ۱۳۶۷ھ / ١٤ جولائی ۱۹۴۸ء بروز بدھ ، بمقام رائے پور ، ص ۲۲۴- ۲۲۵
(۱۵)         تحریک شیخ الہند ، ریشمی خطوط سازش کیس، مولانا سید محمد میاں دیو بندی، الجمعیت بک ڈپو، دہلی، ۱۳۹۵ھ / ۱۹۷۵، ص ۲۷۴
(١٦)         مدنی، حسین احمد، نقش حیات، مکتبہ شیخ الاسلام، دیو بند ۲۰۰۷، ج ۲، ص ۲۵۴
(۱۷)         کانه علوی، محمد زکریا، شیخ الحدیث ، آپ بیتی، مکتبہ یاد گار یخ سہارنپور ، ۲۰۱۴، ج۱، ص ۳۳۲ تا ۳۳۴ / شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی نے اس واقعہ کو الفاظ کے کچھ فرق کے ساتھ مولانا عبد الرشید ارشد، مدیر ماہنامہ الرشید کے نام اپنے ایک مکتوب میں بھی بیان کیا ہے (ماہنامہ " الرشید ، دار العلوم دیو بند نمبر ، بابت ماہ صفر المظفر ، ربیع الاول ۱۳۹۶ / فروری، مارچ ۱۹۷۶ء، جلد ۴، شماره ۳-۲، مکتوب شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی بنام مولانا عبد الرشید ارشد، مدیر ، ص ۱۳۶-۱۳۵ ، طبع : جامعہ رشیدیہ ساہیوال، پاکستان
(۱۸)         حسینی ، سید نفیس، شعر الفراق " ، سید احمد شہید اکادیمی، لاہور ، ۱۹۷۸ء، ص ۸۴
(١٩)         مدنی، حسین احمد، نقش حیات، مکتبہ شیخ الاسلام، دیو بند ۲۰۰۷ء ، ص ۲۵۴ تا ۲۵۶
(۲۰)         مدنی، حسین احمد ، نقش حیات، مکتبہ شیخ الاسلام ، دیو بند ۲۰۰۷ ،، ج ۲، ص ۲۴۳ / بعض دیگر مورخین کے مندرجہ ذیل بیانات بھی اس بات کی توثیق کرتے ہیں۔ چناں چہ مولانا اسیر اور وی، شاہ انور حسین نفیس الحسینی اور مفتی عبد الخالق آزاد نے اپنی اپنی کتابوں میں اس واقعے کو مختلف الفاظ میں بیان کیا ہے۔ اسیر اور وی، مولانا، حضرت شیخ الہند حیات اور کارنامے ، دیوبند ، شیخ الہند اکیڈمی دار العلوم دیوبند ، ۲۰۱۲، ص ۱۸۸ / الحسینی، سید نفیس، «شعر الفراق سید احمد شہید اکادیمی ، لاہور ، ۱۹۷۸ء ، ص ۸۴ / آزاد، عبد الخالق ، سوانح حیات مولانا شاہ عبد الرحیم رائے پوری ، دہلی ، رحیمیہ مطبوعات، ۲۰۲۱،، طبع سوم، ص ۲۵۴
( ۲۱)         الحسینی، سید نفیس، شعر الفراق، سید احمد شہید اکادیمی، لاہور ، ۱۹۷۸ء، ص ۸۴
(۲۲)         مدنی، حسین احمد ، نقش حیات ، مکتبہ شیخ الاسلام، دیوبند، ۲۰۰۷، ص ۲۵۴ تا ۲۵۶
(۲۳)         آزاد، عبد الخالق، سوانح حیات مولانا شاہ عبدالرحیم رائے پوری، رحیمیه مطبوعات، دیلی ، ۲۰۲۱، طبع سوم، ص ۲۶۶ / روایت مستری احمد حسن، و بحوالہ "تحریک ریشمی رومال کے سر پرست اعلیٰ حضرت مولانا شاہ عبد الرحیم رائے پوری (مضمون) ، سید انور حسین نفیس رقم ، مطبوعہ ماہنامہ تذکرہ، لاہور
(۲۴)         شاہ جہاں پوری، ابو سلمان ، ڈاکٹر ، شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی؛ ایک سیاسی مطالعہ، مجلس یاد گار شیخ الاسلام، کراچی ، ۱۹۸۸، ص ۱۲۵ - ۱۲۶




Comments