اپنی اولاد کو نماز کا حکم دو از افادات: حکیم الہند حضرت الامام شاہ ولی اللہ دہلوی قدس سره مرتب : ( شيخ الحديث والتفسیر حضرت مولانا مفتی عبد القدیر

مُرُوا أَوْلَادَكُمُ بِالصَّلوةِ!
(اپنی اولاد کو نماز کا حکم دو ! )
منتخب احادیث کی بصیرت افروز تشریح



از افادات: حکیم الہند حضرت الامام شاہ ولی اللہ دہلوی قدس سره 
مرتب :  شيخ الحديث والتفسیر حضرت مولانا مفتی عبد القدیر 

 رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ:

اپنی اولاد کو نماز کا حکم دو جب وہ سات سال کی عمر کو پہنچ جائیں اور انہیں نماز چھوڑنے پر سزا دو جب دس سال کے ہو جائیں اور ان کے درمیان بستروں میں علیحدگی کر دو!

(ابوداؤد، باب متی یومر الغلام بالصلاة – ۱۷۰/۱ مشکوۃ شریف ، حدیث نمبر ۵۷۲)

 امام شاہ ولی اللہ قدس سرہ اس حدیث مبارک کی حکیمانہ تشریح کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ:

(1)  بچے کی بلوغت کے دو درجے ہیں:

(1) بلوغت کا پہلا درجہ :

یہ ہے کہ نفسانی صحت اور بیماری کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت کے حوالہ سے بالغ ہو جائے اور یہ بلوغت صرف عقل آجانے کے ساتھ متحقق ( ثابت ) ہوتی ہے ( کہ اگر بچے میں عقل موجود ہے بچہ صحت مند ہے اور اگر عقل موجود نہیں تو بچہ نفسانی طور پر بیمار شمار ہوتا ہے ) اور عقل کے ظہور کی نشانی سات سال کا ہونا ہے ، کیونکہ سات سال کا بچہ لا محالہ ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف ظاہری طور پر منتقل ہوتا ہے۔

جبکہ عقل کا نشونما جو ساتویں سال سے جاری تھا دسویں سال میں پورا ہو جاتا ہے، چنانچہ دس سال کا بچہ مزاج کی سلامتی کے وقت عقلمند شمار ہوتا ہے جو اپنا نفع نقصان پہچانتا ہے اور تجارت وغیرہ معاملات میں مہارت حاصل کر لیتا ہے۔

(۲) بلوغت کا دوسرا درجہ:

جہاد اور حدود اور اپنے اوپر اعمال کے ذمہ داری اور ان پر مواخذے کی صلاحیت کے حوالے سے ہے اور اس اعتبار سے ہے کہ یہ بچہ اب ان مردوں میں شمار ہوتا ہے جو ( زندگی کے اعلیٰ مقاصد کے حصول میں ) تکالیف برداشت کرتے ہیں اور قومی اور اور ملی اور  سیاسی تقاضوں میں ان کی حالت کا اعتبار کیا جاتا ہے۔ اور انہیں زبردستی راہ راست پر چلنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ بلوغت کی یہ صورت اس وقت قابل اعتماد ہوتی ہے جب انسان کی عقل کامل ہو جائے اور اسکی جسامت پوری ہو جائے ، عام طور پر یہ بات پندرہ سال کی عمر میں پائی جاتی ہے، اس بلوغت کی علامتوں میں احتلام اور زیر ناف بالوں کی پیدائش ہے۔

(2)  نماز کی دو حیثیتیں :

(1) نماز کی ایک حیثیت:

ایک تو یہ ہے کہ نماز بندے اور اس کے مولی کے درمیان وسیلہ بنتی ہے اور یہ انسان کو پست ترین حالت میں گر جانے سے بچاتی ہے اس اعتبار سے بلوغت کے پہلے درجہ ہی میں اس کا حکم دے دیا گیا۔

شاہ صاحب دوسری جگہ پست ترین حالت کی تفسیر کرتے ہیں، کہ انسان کی سب سے بڑی  بدبختی یہ ہے کہ انسان میں خدا شناسی کا جو فطری جذبہ اور اعلیٰ جو ہر ودیعت رکھا گیا ہے اس کو ضائع کر کے مخالف حالت اختیار کرلے، خدا کو بھول کر ایسا شخص دھری یا متکبر کافر بن جاتا ہے ( جو کسی اخلاقی اور قانونی ( ضابطہ ) کوتسلیم نہیں کرتا عموماً ایسا شخص اخلاقی حوالے سے حیوانیت سے بھی پست درجہ میں پہنچ جاتا ہے۔ عبادت در حقیقت اندرونی جذبہ کا تقاضا اور اس جذبہ کی فطری صورت ہوتی ہے۔

(حجۃ اللہ البالغہ ج اص ۲۳۵/۲۳۳)

(۲) نماز کی دوسری حیثیت:

دوسرا یہ کہ نماز اسلام کے شعائر (عبادت کی ظاہری علامات) میں سے ہے ، اللہ پر ایمان لانے والوں سے اس کے چھوڑنے پر مواخذہ اور گرفت ہوتی ہے اور وہ  چاہیں یا نہ چاہیں ان کو نماز پڑھنے پر مجبور کیا جاتا ہے تو اس کا حکم اسلام کے باقی امور کی طرح ہو گیا ، کہ جیسے تمام احکامات جہاد، حدود وغیرہ کی ذمہ داری بھی پندرہ سال کی عمر میں لازم کر دی جاتی ہے، نماز بھی اس عمر میں فرض اور واجب ہو جاتی ہے۔

(3)   دس سال کی عمر کے احکام

(1)  اور جب کہ دس سال کی عمر دونوں حدوں کے درمیان میں ایک برزخ (درمیانی کڑی) اور حد فاصل ہے تو اس عمر کے دورانیہ کے بچہ کو دونوں حدوں کا ایک ایک حصہ دے دیا گیا کہ مارنے کا حکم دیا جانا اعلیٰ درجہ کے اعتبار سے ہے، اور نماز کا واجب نہ ہونا بلوغت کے ادنی درجہ کے اعتبار سے ہے۔

(۲)  جبکہ آپس میں اکھٹے سونے سے منع کرنا اور اُن دس سال کے بچوں اور بچیوں کے بستروں کو علیحدہ کر دینے کا حکم اس لیے ہے کہ یہ زمانہ بلوغت کی اعلیٰ درجہ کے قرب کا زمانہ ہوتا ہے یہ بات بعید نہیں کہ ہم بستر ہونا کہیں مباشرت کی شہوت تک نہ پہنچادے۔ لہذا فساد اور خرابی کے پیدا ہونے سے پہلے ہی اس کا راستہ بند کرنا ضروری ہے۔

 (حجۃ اللہ البالغہ ج۱ ص ۵۲۹ مطبوعه قدیمی کتب خانہ کراچی)

Comments