شاہ ولی اللہ دہلوی کا نظریہ ارتفاقات جدید ارتقائی نظریات کی روشنی میں محمود ریاض

 

شاہ ولی اللہ دہلوی کا نظریہ ارتفاقات   جدید ارتقائی نظریات کی روشنی میں

شاہ ولی اللہ دہلوی کا نظریہ ارتفاقات
 جدید ارتقائی نظریات کی روشنی میں
محمود ریاض

ریسرچ اسکالر ، شعبۂ اسلامیات، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدر آباد

بشکریہ ماہنامہ معارف ، اعظم گڑھ

اٹھارویں صدی عیسوی کی عبقری شخصیت شاہ ولی اللہ دہلوی نے تقریباً تمام اسلامی موضوعات پر ایک ماہر فن کی حیثیت سے قلم اٹھایا۔ قرآن و حدیث ، فقہ و اجتہاد، تصوف و سلوک ، ان سارے موضوعات پر ان کی تصانیف سند کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اسرار شریعت کا فہم ان کے قلم کا خاصہ ہے۔ شاہ صاحب نے انسانی سماج کے تعلق سے بھی ایک ماہر فن کی حیثیت سے قلم اٹھایا ہے ۔ انسانی سماج کا مطالعہ جسے ہم آج عمرانیات (Sociology) سے موسوم کرتے ہیں ، اس کے تعلق سے شاہ صاحب کے قلم سے قیمتی مواد سامنے آیا ہے جسے نظریہ ارتفاقات کے نام جانا جاتا ہے۔ یہاں ہم نے اسی نظریہ ارتفاقات کا جدید نظریات کی روشنی میں تجزیہ کرنے کی کوشش کی ہے۔

شاہ صاحب کا نظریہ ارتفاقات: شاہ صاحب کے نظریہ ارتفاقات“ سے مراد ان کا سماج کے تعلق سے وہ نظریہ ہے جس کے مطابق سماج ایک ارتقائی عمل کے ذریعے مختلف مراحل طے کر کے متمدن دور میں داخل ہوتا ہے۔ شاہ صاحب کے نظریہ ارتفاقات کے مطابق یہ چار ارتقائی مراحل ہیں جن سے گزر کر انسانی سماج نے اپنی موجودہ منزل تک سفر طے کیا ہے۔ شاہ صاحب ان مراحل کو ارتفاق اول، ارتفاق دوم، ارتفاق سوم اور ارتفاق چہارم سے موسوم کرتے ہیں۔ اپنے اس نظریے میں شاہ صاحب نے سماج کے تعلق سے اپنے عہد تک کے جدید تجرباتی علوم سے استفادہ کیا ہے جس کی وجہ سے سماج کے تعلق سے اس بحث کا دائرہ اسلامی حلقوں سے لے کر عمرانیات کے جدید ماہرین تیک وسیع ہو گیا۔ شاہ صاحب کی نظر میں سماج کے ارتقاء کے چار مراحل مندرجہ ذیل ہیں:

ارتفاق اول

اس مرحلے میں ان کے نزدیک زمین کے کسی بھی حصے میں، پہاڑوں میں، صحراؤں میں، دور یا قریب کی کسی بھی جگہ جہاں انسان موجود ہوں سماج کی بنیاد پڑتی ہے۔ اس مرحلے میں زندگی کی بنیادی ضروریات جیسے روزی روٹی کا حصول ، رہنے کے لئے گھر اور جنسی حاجت کے لئے زوج کی ضرورت وغیرہ سے سماج کی بنیادیں استوار ہوتی ہیں۔

ارتفاق دوم: 

ارتفاق کا دوسرا مرحلہ پہلے ہی مرحلہ کی ترقی کا نام ہے۔ شاہ صاحب کے نزدیک اس مرحلے میں ان چیزوں میں نکھار آتا ہے جو چیزیں پہلے مرحلہ میں وجود میں آچکی ہوتی ہیں۔

ارتفاق سوم

انسانوں میں اگر انتشار و افتراق واقع ہو تو اس کے لئے ایک ذی حیثیت سردار یا حاکم کا وجود میں آنا لازم ہو جاتا ہے۔ شاہ صاحب کے نزدیک اس مرحلے میں ایک حاکم یا سر دار وجود میں آتا ہے۔

ارتفاق چهارم:

 یہ شاہ صاحب کے نزدیک وہ مرحلہ ہے جس میں ایک عالمی سطح کے حاکم کی ضرورت پڑتی ہے جو زمین کے مختلف حکمرانوں کے درمیان امن امان قائم رکھے۔ شاہ صاحب کے نزدیک وہ خلیفہ ہے۔ (1)

دور جدید میں عمرانیات کے تعلق سے جو نظریات پیش کئے گئے ان میں ایک نظریہ ارتقاء (Evolution Theory ) ہے۔ اس نظریے کے مطابق انسانی سماج ایک ارتقائی عمل کے ذریعہ اپنی موجودہ پوزیشن تک پہنچ سکا ہے۔ اگرچہ یورپ کے ان ماہرین عمرانیات نے ارتقائی عمل کے نظریے کی تفصیل میں کچھ اختلاف بھی کیا ہے مگر بنیادی طور پر وہ سماج کے ارتقائی عمل کے نظریہ کے قائل ہیں۔ ان ماہرین عمرانیات میں مندرجہ ذیل قابل ذکر ہیں: آگسٹ کو مٹے (م: ۱۸۵۷)، کارل مارکس (م: ۱۸۸۳)، ہر برٹ اسپنسر (م: ۱۹۰۳) اور نیکولاس لو ہمان (م: ۱۹۹۸)۔

ان ماہرین میں کچھ بلا واسطہ اور کچھ بالواسطہ نظریہ ارتقاء سے جڑے ہوئے ہیں۔ ارتقائی عمل کے ذریعے پروان چڑھنے کے نظریے کو ماننے کے باوجود ان ماہرین کا نظریہ ارتقاء اس نظریے سے کسی حد تک مماثل یا مختلف ہے جس کے شاہ ولی اللہ دہلوی قائل ہیں۔ ان سطور میں اس حقیقت کا جائزہ جدید ماہرین عمرانیات کے نظریات کی روشنی میں پیش کیا جاتا ہے:

آگسٹ کو مٹے :

 اس کو عمرانیات کا بانی مفکر تسلیم کیا جاتا ہے۔ عمرانیات کو جدید بیانیہ میں Sociology کی اصطلاح سے موسوم کیا گیا ہے۔ اس اصطلاح کو وضع کرنے کا سہرا آگست کو مٹے کے سر باندھا جاتا ہے (۲)۔

آگسٹ کو مٹے کی نظر میں انسانی سماج ارتقاء کے مندرجہ ذیل تین مراحل طے کر کے متمدن دنیا تک پہنچا ہے:

ا۔ مذہبی یا خیالی مرحلہ (Theological or fictional stage):

اس سے کومٹے کی مراد انسانی سماج کا وہ مرحلہ ہے جس میں لوگ خداؤں کی طرف مائل تھے اور ہر چیز ، جیسے بارش کا ہونا، بجلی کا گر جنا اور آگ وغیرہ کے لئے خداؤں کی طرف رجوع کرتے تھے۔

۲۔ مابعد الطبیعی مرحلہ (The Metaphysical Stage): 

اس سے کو مٹے کی مراد انسانی سماج کا وہ مرحلہ ہے جس میں انسان کسی مافوق الفطرت ہستی کے بجائے ایسی مابعد الطبیعی طاقتوں پر یقین رکھتا ہے جس میں کسی شخصیت کا عمل دخل نہ ہو۔

۳- مثبت یا سائنسی مرحله (The positive or Scientific stage):

 انسانی سماج کا وہ دور جس میں انسان نے کائنات اور زندگی سے جڑے مسائل کی حقیقت کو سائنسی اصولوں کی روشنی میں دیکھنا شروع کیا ۔

آگسٹ کو مٹے کے اس ارتقائی نظریے کا تقابل شاہ ولی اللہ کے نظریہ ارتفاقات سے کیا جائے تو اس میں بنیادی طور پر ارتقاء کے باب میں دو مختلف نظریات سامنے آتے ہیں۔ شاہ ولی اللہ کا نظریہ حقیقی طور پر وہ ارتقائی عمل دکھائی دیتا ہے جس میں سماج ایک بنیاد پر قائم ہو کر ترقی کے منازل طے کرتا نظر آتا ہے۔ سماج کا دائرہ وسیع ہونے کی بنا پر اس کا ارتقائی عمل شروع ہوتا ہے ، جیسے شادی شدہ زندگی کے معاملات ، روزی روٹی کے تعلق سے انسانی ضروریات اور اسی طرح انسانوں کارہائش اختیار کرنے کے معاملات کا تذکرہ کیا گیا ہے کہ انسانی سماج میں ترقی کے ساتھ ساتھ ان سب ضروریات زندگی میں نکھار آتا گیا۔ اسی طرح انسانوں کے آپس میں در پیش نزاع کے مسائل کا مقامی دائرے سے نکل کر حاکموں کے درباروں تک پہنچنا۔ یہ سب شاہ ولی اللہ کی نظر میں ترقی کے منازل طے کرتے ہوئے متمدن دنیا تک رسائی حاصل کرنے کے مراحل ہیں۔

آگسٹ کو مٹے کے نظریہ ارتقاء میں ہم واضح طور پر انسانی سوچ کی تبدیلی دیکھتے ہیں۔ اس کی رو سے سماج کا کسی بنیاد پر قائم ہو کر ترقی کرنے کے بجائے انسانی سوچ کا تبدیل ہونا ثابت ہوتا ہے۔ اس میں زمانے کے ساتھ ساتھ انسانی سوچ کا انتقال (Shift) دکھائی دیتا ہے۔ اس نظریے کی رو سے انسان پہلے مذہبی دیوتاؤں اور خداؤں کا پرستار تھا پھر مابعد الطبیعی طاقتوں کے نظریے کا قائل ہوا اور پھر ترقی کے زمانے میں سائنسی اور علمی بنیادوں پر مسائل کو دیکھنے لگا۔ دونوں نظریات کے تقابل کے نتیجہ میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ شاہ ولی اللہ کا نظریہ انسانی سماج کی ترقی کا نام ہے اور آگسٹ کو مٹے کا نظریہ انسانی فکر کی تبدیلی کا نام ہے۔

۲- کارل مارکس:

 مارکس ایک جرمن ماہر سماجیات تھا جسے کمیونزم کے انقلابی نظریے کا بانی قرار دیا جاتا ہے۔ عمرانیات میں اسے تاریخی مادیت (Historical Materialism) کے نظریے کا بانی بھی قرار دیا جاتا ہے۔ (۳)

وہ عمرانیات میں نظریہ تصادم (Conflict Theory) کا قائل ہے جس کی رو سے انسانی سماج دائمی کشمکش میں مبتلا ہے جس میں صاحب ثروت اور معاشی طور پر کمزور طبقات کے درمیان آپسی کشمکش کا سلسلہ جاری ہے۔ مارکس کے نظریے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس کے سامنے سماج میں پیداوار کے تعلق سے گروہوں کے درمیان کشمکش ہی سماج کی اصل ہے۔ یہی کشمکش سماج کے اتار چڑھاؤ اور آگے بڑھنے کی بنیاد ہے۔

مارکس کے نظریے پر پوری طرح مادیت اور مادی کشمکش چھائی ہوئی ہے۔ اس نظریے کی رو سے قدیم زمانے میں شکار پر گزر بسر کرنے والے انسان سے لے کر آج کے صنعتی دور میں بسنے والے انسان تک مادیت ہی سماج کی بنیاد ہے جس کے ارد گرد سماج کا تانا بانا آپس میں بنا اور بندھا ہوا ہے۔ مارکس کی نظر میں مادیت پر مبنی ایک دائمی کشمکش ہی دوسرے اداروں کی اصل ہے یہاں تک کہ وہ مذہبی اشرافیہ کو بھی مادیت کے نتائج میں شمار کرتا ہے۔

شاہ ولی اللہ کا نظریہ ارتفاقات اس ارتقائی نظریے سے بنیادی طور پر مختلف بلکہ متصادم ہے۔ شاہ صاحب کی نظر میں مادہ اگر چہ معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کا کام دیتا ہے مگر سماج کی اصل مادہ انسانی سماج کی ترقی میں اہم بنیاد ہے مگر یہ تصادم کا سبب نہیں بلکہ باہمی تعامل کا ذریعہ ہے۔ شاہ صاحب کے نزدیک مادہ یا معیشت نہیں بلکہ اس کی غیر منصفانہ تقسیم سماج کے لئے نقصاندہ ہے۔ شاہ صاحب اس تعلق سے وضاحت کرتے ہیں:

و غالب سبب خراب البلدان في هذا الزمان شيئان: أحدهما: تضييقهم على بيت المال بأن يعتادوا التكسب بالأخذ منه ... 

(اس زمانہ میں ملک کی ویرانی کے بڑے اسباب دو ہیں۔ ایک : لوگوں کا بیت المال پر بوجھ بننا ہے، اس طرح کہ لوگ بیت المال سے لینے کے ذریعے کمائی کرنے کے عادی بن گئے ہیں)۔

والثاني: ضرب الضرائب الثقيلة على الزراع والتجار والمتحرفة، والتشديد عليهم، حتى يقضى إلى إجحاف المطاوعين واستئصالهم، وإلى تمنع أولى بأس شديد، وبغيهم ...

اور دو سر اسب کاشتکاروں، تاجروں اور پیشہ وروں پر بھاری ٹیکس لگانا ہے اور ان پر سختی کرنا ہے، یہاں تک کہ یہ چیز فرمانبرداروں کو بہالے جاتی ہے اور ان کو جڑ سے مٹادیتی ہے جبکہ طاقتور لوگ ٹیکس دینے سے انکار کرتے ہیں، اور بغاوت پر آمادہ ہو جاتے ہیں) (۵)

اسی طرح مارکس کے نزدیک مادہ سماج میں تصادم کی بنیاد ہے اور یہ تصادم سماج میں نئے نئے روپ دھار کر سماج کو آگے بڑھاتا ہے جبکہ مادہ شاہ ولی اللہ دہلوی کے نزدیک سماج کی ایک اہم بنیاد ہے اور مادہ کی غیر منصفانہ تقسیم سماج میں انتشار پھیلاتی ہے۔ شاہ ولی اللہ کے نزدیک دولت اور اخلاق سماج کے ایک سکے کے دورخ ہیں۔ مارکس کے نظریہ ارتقاء کے مقابلے میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کا نظریہ مادہ ہے اور دولت کے تعلق سے ایک متوازن اور مثبت نظریہ ہے۔

ہربرٹ اسپنر (1903-1820 Herbert Spencer) ایک برطانوی ماہر عمرانیات ہے جس نے ۱۸۹۶ء میں عمرانیات Sociology پر اپنی پہلی کتاب Principles of Sociology لکھی۔ اسپنسر ڈارون کے نظریہ “ نامیاتی ارتقاء " (Organic Evolution) سے متاثر مفکرین میں سے تھا۔ ڈارون کے نظریہ ارتقاء کے مطابق انسان ایک ارتقائی عمل کے ذریعہ اپنے وجود کے اس ترقی یافتہ مرحلے تک پہنچ گیا ہے جسے آج “ انسان ” کہتے ہیں۔ ڈارون کے مطابق انسان کے وجود میں آنے کے درمیان بقاء اقوی ” Survival of The Fittest کا اصول قائم رہا یعنی انسانی جین کے پروان چڑھنے میں طاقتور چین نے نشو و نما پا کر ارتقاء کے ذریعہ انسان کا روپ دھار لیا۔

ہر برٹ اسپنسر نے سماجی ارتقاء Social Evolution کا نظریہ قائم کیا اور سماجیات کے ضمن ” بقاء اقوی “ کے اصول کے تحت یہ نظریہ پیش کیا کہ انسانی سماجوں میں وہی سماج آگے بڑھتا ہے جو قابل اور طاقتور ہو۔ اس نظریے کو سوشل ڈار وینیت Social Darwinism کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔

ہر برٹ اسپنسر کے نظریے کا شاہ ولی اللہ دہلوی کے نظریہ ارتفاقات سے تقابل کیا جائے تو ہمارے سامنے اسپنسر کا نظریہ ایک عمومی نظریے کی حیثیت سے سامنے آتا ہے جس میں سماج کے تعلق سے ایک اصول بتایا گیا ہے کہ کون سا سماج دوسرے سماجوں سے آگے بڑھتا ہے اور اس میں اسپنسر کے نزدیک قابلیت ایک بنیادی چیز ہے۔ شاہ صاحب کا نظریہ ارتفاقات سماج کے تعلق سے مختلف ارتقائی مراحل کا نام ہے جس میں سماج کے ارتقائی عمل کا ذکر بحیثیت مجموعی کیا گیا ہے۔ اس میں کسی سماجی مقابلہ کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ نیکلاس لوهمن (1998-1927) Niklas Luhmann لو ہمن بیسویں صدی عیسوی کا ماہر عمرانیات ہے جو پہلے ایک وکیل کی حیثیت سے پارلیمنٹری ایڈوائزر تھا۔ اس کے بعد اس نے اپنا تعلیمی کیریئر عمرانیات میں شروع کیا۔ لوہمن کی نظر میں سماجی نظام، ماحول کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ اپنے اندر بھی تبدیلی لاتا رہتا ہے تاکہ سماج اور ماحول کے درمیان تعلق قائم رہے۔ لو ہمن نیکلاس کے نظریہ ارتقاء کا سیدھا اور آسان سا مطلب یہ ہے کہ لو ہمن کی نظر میں سماج کو ترقی دینے والا کوئی اور نہیں بلکہ خود وہ بدلتا ہوا ماحول ہے جو سماج کو آمادہ کرتا ہے کہ اپنے نظام میں وسعت لائے اور ماحول کے ساتھ چلے۔

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے نظریہ ارتفاقات کے لو ہمن کے نظریہ ارتقاء سے تقابل کے نتیجے میں جو حقائق سامنے آتے ہیں وہ یہ ہیں:

ا لو ہمن کے سماجی ارتقاء کے نظریے کی رو سے سماج میں ارتقاء کسی ضابطے کے تحت نہیں بلکہ ایک مجبوری کے تحت ہوتا ہے۔ سماج بدلتے ہوئے حالات کی وجہ سے مجبور ہوتا ہے کہ کوئی قدم اٹھائے اور ضروری نہیں کہ وہی قدم صحیح بھی ہو ، جبکہ شاہ ولی اللہ دہلوی کی نظر میں سماج میں ارتقاء ایک ضابطے کے تحت اور ایک فطری تقاضے کے پیش نظر ہوتا ہے جو کہ انسانی فطرت میں ودیعت ہے۔ لو ہمن کی نظر میں سماج اور اس کے ارتقاء میں کوئی ہم آہنگی نظر نہیں آتی بلکہ سماج مجبوری کے تحت نئے حالات سے نمٹنے کے لئے متبادل اختیار کرتا ہے جو صحیح بھی ہو سکتے ہیں اور غلط بھی۔ اس کے برعکس شاہ صاحب کی نظر میں سماج اور اس کے ارتقاء میں ایک زبر دست ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ لو ہمن کی نظر میں سماج اور نئے بدلتے ماحول کے درمیان ایک تصادم کی کیفیت ہوتی ہے جسکے نتیجے میں سماج اس سے مصالحت کرنے پر مجبور ہوتا ہے ، جبکہ شاہ ولی اللہ کی نظر میں سماج اور بدلتا ہو اما حول دونوں ایک ضابطے کے تحت آگے بڑھتے ہیں جس میں کسی ٹکراؤ کی صورت نہیں بلکہ ایک فطری زاویہ کار فرما ہوتا ہے۔

خلاصه بحث:

 متعدد ماہرین عمرانیات نے اپنے عمرانی نظریات میں سماج کے ارتقاء سے کسی حد تک بحث کی ہے۔ اس مضمون میں چار مفکرین کا انتخاب کیا گیا ہے اور ان کے بنیادی نظریات کے تعلق سے بات کی گئی ہے۔ شاہ ولی اللہ کے نظریہ ارتفاق کا عمرانیات کے جدید مفکرین کے ارتقائی نظریات سے تقابل کیا گیا ہے اور ارتقاء کے تعلق سے ولی اللہی نظریات اور اس تعلق سے جدید نظریات کے بنیادی تصورات سامنے لانے کی کوشش کی گئی ہے۔

شاہ صاحب کے نظریہ ارتفاقات میں جو بنیادی تصورات ہیں وہ اسے دوسرے ارتقائی نظریات سے مختلف بناتے ہیں، وہ یہ ہیں:

ا۔ شاہ صاحب سماج کو انسان کی ایک فطری ضرورت قرار دیتے ہیں۔ اسی تصور کی روشنی میں شاہ صاحب کا ارتقائی نظریہ گردش کرتا ہے۔ جبکہ دوسروں کے نزدیک سماج کا پہلے سے کوئی تصور انسان میں موجود نہیں ہے۔

۲۔ شاہ صاحب کی نظر میں سماج انسان کی ضرورت کے مطابق ترقی کرتا ہے۔ ان کی نظر میں انسان کی تخلیق کرنے والا اللہ ہی سماجی فطرت انسان میں ودیعت کرتا ہے اور سماج کو آگے بڑھانے اور اس کو ترقی دینے کی رہنمائی کرتا ہے۔ دوسروں کے نزد یک سماج انسان کا پیدا کر وہ نظام ہے۔

۳۔ شاہ صاحب کی نظر میں سماج کے پورے نظام کو چلانا انسان کا کام ہے۔ سماج کی اکائیوں میں توازن قائم کرنا، جن میں خاص طور پر معیشت ہے، انسان کا کام ہے۔ ان کے نزدیک دولت کی منصفانہ تقسیم سماج کی گاڑی کو چلانے والے پہلے کی مانند ہے جبکہ کارل مارکس جیسے مفکرین کے نظریے کے مطابق دولت ہی اصل سماج ہے اور اس کے ارد گر د سماج کے تمام اقدار گھومتے ہیں۔

۴۔ ان کے نزدیک انسان ان صلاحیتوں سے مالا مال ہے جو سماج کی تعمیر میں اس کی رہنمائی کرتے ہیں جبکہ لو جمن جیسے ماہر عمرانیات کی نظر میں سماج انسان کی کسی فطرت کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ ماحول ہے جو سماج کو بدلنے پر مجبور کرتا ہے۔


خلاصہ یہ کہ شاہ صاحب اسلامی مفکر ہونے کے ساتھ ساتھ تجرباتی علوم سے استفادہ کرتے ہوئے انسانی معاشرے کی تعبیر بیان کرتے ہیں۔





Refrence


(1) دہلوی ، شاہ ولی اللہ ، حجۃ اللہ البالغہ ، کتب خانہ رشید یه ، دہلی ، ص ۳۹- ۴۸۔

‏(۲) Coser، Lewis A, Masters of Sociological Thought, Rawat Publications, Delhi, 2017, p3.‏

(۳) ابراہم ایم فرانسس، معاصر سماجیات، آکسفورڈ یونیورسٹی پریس، 2020، صفحہ 10

(۴) Oxford University press UK, Oxford Dictionary of sociology, Edition 2014, p. 44

(۵) دہلوی، شاہ ولی اللہ ، حجۃ اللہ البالغہ، کتب خانہ رشیدیہ ، دہلی ، ص ۴۵۔





Comments