اسلامی احکام اور عادات شاہ ولی اللہ علامہ شبلی اور علامہ اقبال از محمد خالد مسعود

 


اسلامی احکام اور عادات شاہ ولی اللہ، علامہ شبلی اور علامہ اقبال 

از

 محمد خالد مسعود

ڈاکٹر محمد امین صاحب کے مقالے شاہ ولی اللہ اور اسلامی حدود (مطبوعہ فکر و نظر میں حدود کی اصطلاح اور حدیث کی تشریعی حیثیت کے بارے میں بہت اہم نکات اٹھائے گئے ہیں ۔ لیکن متعدد مهم بیانات دعاوی اور تصرفات کی وجہ سے مقالہ قارئین کے لئے بہت سی غلط فہمیوں کا باعث ہو سکتا ہے۔ ہم مدیر فکر و نظر کی وساطت سے ڈاکٹر صاحب سے درخواست کریں گے کہ ذیل کی سطور میں پیش کردہ معروضات کی روشنی میں ان بیانات کی وضاحت فرمائیں۔

(1 )تحمید اور آخری پیرے سے پتہ چلتا ہے کہ حال ہی میں کسی نے اسلامی حدود کے بارے میں ایسی رائے کا اظہار کیا ہے جس سے ڈاکٹر صاحب کو اختلاف ہے۔ علمی دیانت کا تقاضا تھا کہ ڈاکٹر صاحب ان صاحب یا صاحبان کی آرا انہی کے الفاظ میں نقل فرماتے اور اپنا محاکمہ پیش فرماتے۔

ڈاکٹر صاحب نے صرف فیصلے سنائے ہیں اور وہ بھی ایسے الفاظ میں جن سے اہل علم عام طور پر گریز کرتے ہیں ۔ آپ نے انہیں دینی علوم سے بے بہرہ مغربی فکر و تہذیب اور قانون سے مرعوب فرمایا اور ان کا قبلہ و کعبہ مغرب قرار دیا ہے۔ اس سے قطع نظر کہ ایسی زبان کسی علمی مقالے کو زیب نہیں دیتی خود ڈاکٹر صاحب نے اپنے مقالے میں یونیورسل اور اتھارٹی کے الفاظ بار بار استعمال کئے ہیں حالانکہ ان تصورات کے لئے اصول فقہ میں اصطلاحات موجود ہیں تو کیا یہ کہا جائے کہ ڈاکٹر صاحب اصول فقہ سے بے بہرہ ہیں۔ ان کا قبلہ و کعبہ مغرب ہے یا وہ مغربی زبانوں سے مرعوب ہیں۔

(۲) ڈاکٹر محمد امین صاحب کا استدلال یہ ہے کہ دینی علوم سے بے بہرہ لوگوں نے یہ باتیں خواہ مخواہ شبلی اور علامہ اقبال کے سر منڈھ دی ہیں جبکہ شاہ ولی اللہ کی عبارت کا مطلب سمجھنے میں علامہ شبلی کو تسامح ہوا۔ علامہ اقبال نے بھی شاہ صاحب کی اسی عبارت کا حوالہ دیا جس کا شبلی نے ذکر کیا تھا اس لئے لوگوں میں یہ بات پھیل گئی کہ شاہ صاحب اسلامی سزاؤں میں تخفیف کے قائل تھے۔ ہمارے خیال میں علامہ شبلی اور علامہ اقبال دونوں نے شاہ ولی اللہ کی عبارت کو صحیح سمجھا ہے اور شاہ صاحب واقعی اسلامی سزاوں میں اصول تخفیف اور درجہ بندی کے قائل تھے۔ ذیل کی سطور میں ہم شاہ ولی اللہ کی عبارت کا تفصیلی تجزیہ پیش کریں گے اور علامہ شبلی اور علامہ اقبال نے اس عبارت کا جو مطلب لیا ہے اس کا بھی جائزہ پیش کریں گے۔

شاہ ولی الله

ڈاکٹر محمد امین صاحب نے شاہ ولی اللہ کی عربی عبارت کا جو ترجمہ پیش کیا وہ بہت حد تک ناقص ہے کیونکہ انہوں نے اہم عبارات اور الفاظ کا ترجمہ نہیں کیا اور اپنے مطلب کا مفہوم بیان کر دیا بلکہ ترجمے میں بہت سے تصرفات بھی کئے جن میں سے ایک قوسین کا کثرت سے استعمال ہے۔ اس مختصر شذرے میں اس ترجمے کا تفصیلی جائزہ تو پیش نہیں کیا جا سکتا، چند مثالوں پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ 

مجوزہ ترجمہ ڈاکٹر محمد امین صاحب کا ترجمہ عربی عبارت
قوم کو سنت راشدہ کی طرف بلائے۔ وہ (پہلے) ایک قوم کو مخاطب کرتا ہے بدعة قوما إلى السنة الراشده
ان کو اپنا دست و بازو بنائے اور پھر اہل زمین سے جہاد کرے اور انھیں تمام دنیا میں پھیلا دے۔ پھر اس کے ذریعے سے دوسری قوموں کی اصلاح کی جد و جہد کرتا ہے۔ يتخذهم بمنزلة جوارحه فيجاهد اهل الارض ويفرقهم     في الافاق
لازم ہے کہ اس کی شریعت کا مادہ تمام علاقوں کے رہنے والوں عرب و عجم سب کے لئے طبعی مذہب کی طرح ہو۔  ضروری ہے کہ اس پیغمبر کی شريعت ایسی ہو اور ایسے فطری مذہبی اصولوں پر مبنی ہو جو عرب و حجم سب کے لئے موزوں ہو۔ وجب ان تكون مادة شريعته ما هو بمنزلة المذهب الطبيعي لاهل الا قاليم الصالحة عربهم وعجمهم
پھر وہ اس کی قوم کے علم اور ارتفاقات کے مطابق ہو اور اس میں دوسری اقوام کے مقابلے میں ان کے حال کی زیادہ رعایت رکھی گئی ہو اس میں اس کی اولین مخاطب قوم کے علوم اور اعراف کو بھی ملحوظ رکھا گیا ہو۔ ثم ما عند قومه من العلم والارتفاقات و يراعى فيه مالهم أكثر من غيرهم
اس لئے کہ دوسری اقوام کی عادات اور اطوار کا احاطہ ان کے علاقوں کے اختلاف اور ادیان میں فرق کی وجہ سے نا ممکن ہے۔ کیونکہ ہر قوم دوسری سے الگ علاقائی اور مذہبی پس منظر رکھتی ہے اور ہر قوم کے لئے الگ شریعت مقرر کرنے والی بات اس لئے بھی ممکن نہیں ہے۔ اذ الاحاطه لعاداتهم وما عندهم على اختلاف بلدانهم و تباين اديانهم كالممتنع
اور بعد میں آنے والی اقوام کے۔ لئے ان امور کو بالکل تنگ نہ کر دیا جائے ان اقوام کے لئے انہیں بحیثیت مجموعی باقی رکھا جائے۔ اور بعد میں آنے والوں پر ان معاملات (یعنی جو اس خاص قوم کی عادات پر مبنی ہیں اور یونیورسل نوعیت کے نہیں) پر عمل میں سختی نہ کی جائے۔ اگرچہ بحیثیت مجموعی وہ ان پر لاگو ہی ہوں گے۔ولا يضيق كل التضيق علی الآخرين الذين ياتون بعد ويبقى عليهم في الجملہ
ان چند مثالوں سے یہ واضح کرنا مقصود تھا کہ ڈاکٹر امین صاحب کا ترجمہ بحیثیت مجموعی ناقص ہے ۔ نہ صرف انہوں نے شاہ صاحب کی عربی عبارت کا ترجمہ مکمل نہیں کیا بلکہ ان جملوں میں جو اس عبارت کا اہم ترین حصہ ہیں ایسے تصرفات کئے ہیں کہ مطلب بدل گیا ہے۔ مثلاً تیسرے جملے میں مادہ شریعت اور چوتھے جملے میں مبعوث قوم کی عادات پر دوسری اقوام سے زیادہ اعتبار والی بات گول کر گئے ہیں ۔ پانچویں جملے کا مطلب بالکل بر عکس بتا رہے ہیں ۔ میں وجہ ہے کہ شاہ صاحب کا اصل نکتہ کہ شریعت میں مبعوث قوم کی عادات کا اعتبار دوسری اقوام سے زیادہ ہونے کی وجہ سے ضروری ہے کہ دوسری اقوام پر اس کے نفاذ میں سختی نہ برتی جائے، ترجمہ سے واضح نہیں ہوتا۔ چونکہ ڈاکٹر صاحب کے پیش نظر ایک مخصوص استدلال ہے اس لئے وہ ان عبارات اور الفاظ کو نظر انداز کر گئے ہیں جن سے ان کا استدلال کمزور ہو سکتا تھا۔ خلا کو دور کرنے کے لئے وہ قوسین میں اضافی معانی دینے پر بھی مجبور ہوئے ہیں ۔ کیونکہ ان کے بقول قوسین میں دیئے گئے الفاظ سے ترجمہ کافی واضح ہو گیا ہے۔۔

(۲) سیاق و سباق

 ڈاکٹر امین صاحب نے شاہ ولی اللہ کے مدعا کو واضح کرنے کے لئے تشریح کے تین دائروں کا نظریہ پیش کیا ہے ۔ ایک دائرہ ابدی احکام کا جس میں اصول و فروع دونوں ابدی ہیں، دوسرا جس میں صرف اصول ابدی ہیں، تیسرا جو مقامی عرف پر مبنی ہے اور عرف کی بناء پر قابل تبدیل ہے ۔ آپ نے حدود کو پہلے دائرے میں شامل کیا ہے ۔ ان دائروں کے بیان سے بقول ڈاکٹر صاحب شاہ ولی اللہ کا موقف سمجھنے میں کوئی وقت باقی نہیں رہتی۔ اگر یہ دائرے شاہ ولی اللہ نے بیان کئے ہوتے یا ان کے بیان سے ماخوذ ہوتے تو ڈاکٹر صاحب کی بات قابل تسلیم ہوتی لیکن وہ شاہ صاحب کی آرا کو اپنے مقرر کردہ دائروں میں تقسیم کر کے اپنے موقف کو تو واضح کر رہے ہیں ۔ شاہ صاحب کے موقف کو نہیں ۔ شاہ صاحب کے موقف کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ شاہ صاحب کے اس اقتباس کو اس کے اصل اور مکمل سیاق و سباق میں دیکھا جائے۔
زیر بحث عبارت حجة اللہ البالغہ (۱) کی جلد اول کے المبحث السادس: السياسيات الملی (صفحات ۲۱۱ - (۳۱۴) کے ۶۹ ویں باب میں آئی ہے اس باب صفحات ۲۸۹ - ۲۹۴) کا عنوان ہے الحاجة الى دين ينسخ الاديان (ایسے دین کی ضرورت جو تمام ادیان کو منسوخ کر دے) ۔ جلد اول میں کل سات مباحث ہیں۔ پہلے پانچ مباحث میں اسباب تکلیف دنیا و آخرت کی جزا و سزا ارتفاقات سعادت اور نیکی و بدی کی اصولی بحثیں ہیں اور ساتواں مبحث حدیث نبوی سے استنباط کے بارے میں ہے ۔ شاہ صاحب نے مقدمہ میں وضاحت کی ہے کہ کتاب کی جلد اول میں شرائع کے قواعد کلیہ کی بحث ہے ۔ دوسرے حصے میں ابواب احادیث کے اسرار بیان ہوئے ہیں ۔ پہلے حصے یعنی قواعد کلیہ کے دو بنیادی مسائل ہیں:
 (۱) نیکی و بدی 
(2) قومی اور ملی سیاست - نیکی و بدی کے اصول بیان کرنے کے بعد وہ فرماتے ہیں کہ اب حدود و شرائع مقرر کرنے کے اعتبار سے جو کچھ سیاست امت کے لئے لازم ہوتا ہے ان سے بحث کی جائے گی۔ (۲) گویا مبحث سادس کا تعلق بنیادی طور پر تشریع اور قانون سازی سے ہے۔

(الف) مبحث سادس

مبحث سادس میں ۲۱ ابواب ہیں ۔ پہلا باب اس بحث سے شروع ہوتا ہے کہ ہر قوم کو رہنما کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ان میں نبی بھی شامل ہیں اور غیر نبی بھی دوسرے باب میں نبوت کی حقیقت اور اس کے خواص کی بحث ہے ۔ کسی رہنما کی اطاعت کی بنیاد اس یقین پر ہوتی ہے کہ وہ غلطیوں سے محفوظ ہے ۔ نبی کی اطاعت دو طرح سے ظہور پذیر ہوتی ہے یا تو اس کا انکار کرنے والوں کو تباہ کر دیا جاتا ہے یا ایسی مخاطب قوم تیار کی جاتی ہے جو دوسری قوموں کی رہنمائی کر سکے (صفحات ۲۱۴ - (۲۱۶) ۔ رہنماوں کی ان دو اقسام اور اطاعت کی ان دو قسموں کے بیان کے بعد شاہ صاحب اس مبحث کے بنیادی نکتے کی طرف آتے ہیں کہ دین اور شریعت میں بنیادی فرق یہ ہے کہ دین ایک ہے اور شرائع و مناہج مختلف ہوتے ہیں (صفحات ۲۲۰ - ۲۲۵) ۔ اس اختلاف کے متعدد اسباب ہیں، ان میں زمان و مکان کی تبدیلی کے علاوہ ایک بنیادی عنصر کسی قوم کے عادات و اطوار ہیں ۔ شرائع میں عادات کا خیال رکھا جاتا ہے مثلا ہم پر بہن کی بیٹی کو حرام کر دیا گیا مگر یہود پر ایسا نہیں ہوا ۔ اس لئے کہ وہ لوگ ہمشیرہ کی بیٹیوں اور بیٹوں کو ان کے باپ کی قوم میں سے سمجھتے تھے۔ ان سے کوئی اختلاط نہ رکھتے نہ کوئی ربط و مصاحبت رکھتے۔ ان کے نزدیک یہ اجنبی کا درجہ رکھتی تھی مگر عربوں کے ہاں یہ رواج نہ تھا (۳)
اس کے بعد کے ابواب میں مناہج اور سزا اور احکام کی علت کی بحث ہے ۔ باب ۵۹ (صفحات ۲۴۰ - ۲۴۶) میں سیاست امت کے اصول بیان کرتے ہوئے پہلا اصول یہ بیان کیا ہے کہ حدود دو طرح سے مقرر کی جاتی ہیں زیادہ سے زیادہ اور کم سے کم ۔ اور اس سلسلے میں بنیادی نکتہ یہ ہے کہ سیاست امت کی بنیاد دونوں حدود کے درمیان کے درجے پر رکھی جائے (۳) ۔ قوانین میں مقادیر مقرر کرنے میں اوقات اور تعداد کے جو مسائل سامنے آتے ہیں باب ۲۰ (صفحات ۲۴۱ - ۲۵۱) اور باب ۲۱ صفحات ۲۵۱ - ۲۵۶) میں ان کے اصول کا بیان ہے۔ باب ۶۲ (صفحات ۳۵۷ - ۲۵۹) میں ان مقادیر کی پابندیوں میں نرمی سے متعلق قضا اور رخصت کے اصول بیان ہوئے ہیں ۔ باب ۲۳ صفحات ۲۶۰ - ۲۲۶) میں رسوم اور ارتفاقات کی اہمیت کا اعادہ کرتے ہوئے یہ واضح کیا گیا ہے کہ نہ ترک دنیا کر کے ارتفاقات کو ختم کرنے کی اجازت ہے نہ عیش و طرب میں ڈوب جانے کی بلکہ اعتدال کا حکم ہے ۔ چنانچہ اصول یہ ہے کہ مجموعی طور پر ایسا ہے کہ جس بات کی طرف لوگوں کو لے جایا جا رہا ہے ان کی عقل اس کا انکار نہ کرے بلکہ ان کی عقل کو اطمینان ہو کہ میں صحیح بات ہے ۔ (۵) ۔
یہی وجہ ہے کہ لوگوں کی عقول کے اعتبار سے مختلف انبیاء کی شریعتوں میں اختلاف رہا۔ شریعت نکاح و طلاق قضا اور حدود وغیرہ کے ایسے قوانین مقرر نہیں کرتی جن کا لوگوں کو علم نہ ہو یا اس کے بارے میں تردد ہو۔ شریعت تو لوگوں میں معروف اور موجود قوانین کی خرابیوں کو دور کرتی ہے ۔ مثال کے طور پر شاہ صاحب عرب قبل از اسلام کے معاشرے میں شمار (خون کا بدلہ خون ، میراث اور سود کی خرابیوں کا ذکر کرتے ہیں جن کو قرآن کے احکام کے ذریعے درست کیا گیا ۔ مثلا سود کی رسم میں ایک آدمی قرض دیتا اور زیادہ کی شرط لگا کر سختی کرتا اور زیادہ مال کو اصل قرار دے کر پھر زیادہ کی شرط لگاتا ۔ اسی طرح سود در سود بڑھتا رہتا اور صاحب مال کے پاس دولت کے انبار لگ جاتے ۔ حضور نے سود ختم کر کے اصل مال پر فیصلہ کیا (۲) ۔ اس کے بعد باب ۶۴ تا ۶۸ صفحات ۲۶۶ - ۲۸۹) میں ان مختلف اسباب و وجوہات کا ذکر ہے جن کی وجہ سے احکام کا آپس میں ایک دوسرے پر انحصار ہوتا ہے اور اس کی وجہ سے احکام میں اختلاف اور تبدیلی واقع ہوتی ہے۔ باب ۶۴ میں مقدمات اضداد اور ذریعہ باب ۱۵ میں ابہام اور اشکال باب ۲۶ میں تیسیر (آسانی) باب ۶۷ میں ترغیب و ترہیب کی بناء پر احکام میں اختلاف اور تبدیلی کی بحث ہے۔ باب ۶۸ میں مکلفین کی ذاتی استعداد کے لحاظ سے مختلف طبقات کا ذکر ہے جن کی وجہ سے اطاعت کے مختلف مدارج بنتے ہیں۔ الغرض مبحث سادس کے تمام مباحث میں بنیادی نکتہ قوانین میں اختلاف اور تبدیلی کا مسئلہ اور تخفیف اور آسانی کا اصول ہے۔
باب ۲۹ صفحات ۲۸۹ - ۲۹۴) میں اختلاف اور تبدیلی کے ایک بہت ہی اہم پہلو شخ سے بحث ہے ۔ یہی وہ باب ہے جہاں سے زیر بحث اقتباس لیا گیا ہے ۔ اس باب کے شروع میں شاہ ولی اللہ صاحب نے گزشتہ ابواب کا خلاصہ بیان کر کے ان سے اس طرح ربط قائم کیا ہے کہ پہلے ابواب موجودہ باب کی تحمید ٹھرتے ہیں ۔ دین اور شریعت میں امتیاز کو قائم رکھتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ہر قوم کی ایک سنت اور شریعت ہوتی ہے جس میں وہ اپنے بزرگوں کی عادات کی پیروی کرتی ہے ۔ اس میں وہ اپنی قوم کے سرکردہ لوگوں اور رہنماؤں کے طور طریقوں کو اختیار کرتی ہے، چنانچہ آہستہ آہستہ ہر قوم کا اپنا اپنا مذہب اور اپنے طور طریقے ہو جاتے ہیں ۔ وہ ان کی حفاظت میں سختی پر اتر آتے ہیں ۔ ظلم و ستم بڑھ جاتا ہے ۔ نااہل سربراہ بن بیٹھتے ہیں اور سر کردہ لوگ ست اور غافل ہو جاتے ہیں ۔ اچھی باتیں تقریباً ختم ہو جاتی ہیں اور حق مخفی ہو جاتا ہے ۔ اس وقت ایک رہنما کی ضرورت ہوتی ہے جو ان ظالم حکمرانوں سے نبرد آزما ہو سکے ۔ (۷) ۔ یہاں یہ بات بہت اہم ہے کہ شاہ صاحب اس رہنما کے لئے امام اور خلیفہ راشد کی دو اصطلاحیں استعمال کرتے ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب نے اس کا ترجمہ پیغمبر کیا ہے جو شاہ صاحب کے عمومی مفہوم کے لئے درست معلوم نہیں ہوتا۔ یہاں شاہ صاحب ارتفاق چہارم کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کیونکہ اس ارتفاق میں امام باہم متصادم اقوام کو ایک ملت پر متفق کرتا ہے ۔ اس کے اصول دوسرے ارتفاقات کے اصولوں سے مختلف ہوتے ہیں ۔ اس امام کے سامنے تین اصول ہوتے ہیں۔
  1. وہ ایک ایسی قوم تیار کرے جو دوسری اقوام کے لئے واسطہ بنے۔
  2. دین کی تعلیم عام کر کے خلافت عام قائم کرے تاکہ اس کے بعد لوگ اس کی جگہ لے لیں۔
  3. تمام دیگر ادیان کو منسوخ کر کے ایک دین کو قائم کرے۔
باب ۷۰ (صفحات (۲۹۴ - ۳۰۰) میں بتایا گیا ہے کہ ایسا امام جو سابق ادیان کو منسوخ کرتا ہے وہ اپنے دین کی حفاظت و استحکام کے لئے کون سے طریقے اختیار کرتا ہے ۔ اس باب میں تحریف کے اسباب کے انسداد کا ذکر ہے ۔ باب اے (صفحات ۳۰۰ - ۳۰۳) میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ اسلام یہود و نصاری کے دین سے کس طرح مختلف ہے اور اس کے اسباب کیا ہیں ۔ بنیادی نکتہ یہ ہے کہ مذھبی پیشوا تحریفات کے ذریعے دین کو بدل دیتے ہیں ۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی دو جہتیں ہیں۔ ایک بنی اسماعیل کے لئے اور دوسری تمام اہل زمین کے لئے ۔ پہلی جہت کے لحاظ سے یہ لازم ہے کہ آپ کی شریعت کا مادہ وہ شعائر، عبادات کی وہ سنتیں اور ارتفاقات کی وہ شکلیں ہوں جو ان اپنی اسماعیل) کے پاس تھے۔ کیونکہ شریعت مبعوث قوم میں موجود عادات کی اصلاح کرتی ہے۔ انہیں اس بات کا پابند نہیں بناتی جسے وہ جانتے ہی نہیں۔ (۸) ۔ بعثت کی دوسری جہت کا مقصد تحریف شدہ ادیان کی منسوخی تھی ۔ باب ۷۳ (صفحات ۳۰۳-۳۰۶)
میں اس شیخ کی وضاحت ہے کہ اس کی اقسام کیا ہیں اور اس کے اسباب کیا ہیں۔
اس مبحث کے آخری باب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اصلاحات کا جائزہ پیش کیا گیا ہے ۔ یہ باب انتہائی اہم ہے کیونکہ اس میں شاہ صاحب شیخ کی مثالیں پیش کرتے ہیں ۔ اس باب (۷۲) کے آغاز میں شاہ صاحب فرماتے ہیں اگر آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے مطالب کا جائزہ لینا چاہتے ہیں تو پہلے ان امیوں کے حال کو صحیح طریقے سے سمجھیں جن میں آپ مبعوث ہوئے کیونکہ یہ حال ہی آپ کی تشریح کا مادہ ہے، دوسرے تشریع ، تیسیر اور احکام ملی کے ضمن میں مذکورہ بالا مقاصد کے پیش نظر آپ کی اصلاح کے طریقے کا مطالعہ کریں ۔ (۹) ۔ شاہ صاحب نے تفصیل سے بتایا ہے کہ بنو اسماعیل میں نکاح و طلاق کھانے پینے ، لباس اور محرمات سے نکاح کی ممانعت کے قانون پہلے سے موجود تھے۔ ظلم و ستم پر سزائیں مثلاً قصاص دیات، قسامہ اور زنا اور چوری کی سزائیں مقرر تھیں ۔ حضور نے ان کا جائزہ لیا جہاں سنت را شدہ موجود تھی اسے قائم رکھا جہاں تحریف ہو چکی تھی اس رواج کو مٹا دیا۔
مبحث سارس کا تفصیلی خلاصہ پیش کرنے کا مقصد زیر بحث اقتباس کا سیاق و سباق بیان کرنا تھا ۔ پورے مبحث میں شریعت میں اختلاف شیخ اور تغیر کی بحث ہے اور اس کے اسباب کی وضاحت ہے ۔ سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ شریعت کی بنیاد مبعوث قوم کی عادات ہوتی ہیں ۔ شاہ صاحب اسی اصول سے بحث کر رہے ہیں ۔ اس لئے شعائر ، حدود اور ارتفاقات کی بات ہو رہی ہے ۔ اس سے تین دائروں والا نتیجہ نہیں نکلتا ۔ شاہ صاحب کا کہنا ہے کہ شعائر حدود اور ارتفاقات تینوں میں مبعوث قوم کی عادات کا اعتبار ہوتا ہے ۔ جہاں تک دوسری اور بعد میں آنے والی اقوام کا تعلق ہے، ان کے لئے بھی ان تین میں تفریق نہیں کی جاتی اور تینوں کو فی الجملہ باقی رکھا جاتا ہے تاہم ان کے دائرے کو تنگ کر کے شدت نہیں برتی جاتی ۔

(ب) حدود

مذکورہ بالا اصول کی مزید وضاحت شاہ صاحب نے دوسری جلد میں حدود کے باب (صفحات ۸۶۲ ۸۸۴) میں فرمائی ہے ۔ پہلی جلد میں اصولی بحث تھی اس لئے یہاں حدود اصولی اور عمومی معنوں میں استعمال ہوا ہے، دوسری جلد میں میں لفظ مخصوص یعنی قانونی سزاؤں کے معنوں میں آیا ہے ۔ اس باب میں حدود کی ضرورت بیان کرتے ہوئے شاہ صاحب کہتے ہیں کہ صرف آخرت کے عذاب کی وعید کافی نہیں ہوتی، ظلم سے روکنے کے لئے شدید سزا کی بھی ضرورت ہے کیونکہ مظلوم انسان اکثر ظالموں سے خود کو بچا نہیں سکتا۔ سزا کا خوف ہی لوگوں کو جرائم سے روک سکتا ہے اس لئے اللہ تعالی نے بعض معاصی کے لیے قانونی طور پر حد (سزا) مقرر کر دی (۱۰) ۔
آگے چل کر شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ پہلی شریعتوں میں سزائیں انتہائی سخت تھیں اور ان میں تخفیف نہیں تھی ۔ مثلاً پہلی شریعتوں میں صرف قصاص تھا ۔ شریعت مصطفوی میں قصاص و دیت کا قانون دیا گیا اور اسے اللہ تعالی کی طرف سے تخفیف قرار دیا گیا ۔ پہلی شریعتوں  میں آزاد اور غلام کی سزا میں فرق نہ تھا ۔ اسلام میں ان کی سزاؤں میں فرق رکھا گیا کیونکہ غلام دوسروں کے ہاتھوں میں مجبور تھے ۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ شریعت مصطفوی نے اس میں ایک اور طریقے سے تصرف کیا کہ ہر سزا کے دو درجے مقرر کر دیئے ۔ ایک زیادہ سے زیادہ سزا کا درجہ جو صرف شدید ترین معصیت کے ارتکاب پر دی جانی چاہئے اور دوسرے کم سے کم سزا کا درجہ جو دوسری معصیات کے ارتکاب پر دی جائے ۔ (11) ۔
شاہ صاحب اس باب میں تقریباً تمام حدود (سزاؤں) کا تجزیہ پیش کرتے ہیں اور ہر ایک کے لئے زیادہ سے زیادہ اور کم سے کم سزا کے درجوں کی بھی وضاحت کرتے ہیں ۔ مثلا زنا کے جرم کے لئے تین مختلف سزائیں ہیں: ۱۰۰ کوڑے رحم اور ایک سال کی جلاوطنی۔ ان میں سے رجم زیادہ سے زیادہ اور شدید سزا ہے (۱۲) ۔ ان سزاؤں کے نفاذ کے وقت کنوارے شادی شدہ اور آزاد اور غلام میں فرق کیا جائے گا ۔ یہاں شاہ صاحب ایک حدیث کا ذکر کرتے ہیں جس میں فریقین اگر کنوارے ہوں تو سو کوڑے اور جلاوطنی اور شادی شدہ ہوں تو سو کوڑے اور رجم کی سزا بیان کی گئی ہے ۔ شاہ صاحب وضاحت کرتے ہیں کہ اس حدیث کے مقابلے میں قرآنی آیت کا حکم عام ہے، اس کی بنیاد پر رجم زیادہ سے زیادہ سزا ہے جس میں کم از کم سزا شامل ہوتی ہے ۔ اس لئے رجم کی صورت میں کوڑے لگانے کی ضرورت نہیں۔ البتہ رجم کی سزا شدید ترین صورت میں ہو گی۔ عام سزا کوڑے لگاتا ہی ہو گی ۔ جلا وطنی کی سزا میں معافی کا احتمال ہے۔ اس کی مزید وضاحت اس بات سے ہوتی ہے کہ زنا کا اقرار ایک طرح سے توبہ کی شکل ہے تو بہ کرنے والے کا حق تو یہ ہے کہ اسے معاف کر دیا جائے اور حد جاری نہ کی جائے لیکن یہ مصلحت کے خلاف ہو گا کیونکہ لوگ سزا سے بچنے کے لئے اقرار اور اعتراف کا سہارا لیں گے ۔ اس لئے حدود کو ساقط صرف اس وقت کیا جائے جب اس کے لئے موثر شرعی سبب موجود ہو۔

(ج) نتیجه بحث

شاہ صاحب کی اس بحث سے زیر غور اقتباس کا آخری جملہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ شعائر حدود اور ارتفاقات چونکہ لازمی طور پر مبعوث قوم کی عادات پر مبنی ہیں، اس لئے ان کو بحیثیت مجموعی تو باقی رکھا جائے تاہم ان کے نفاذ کا دائرہ اتنا تنگ نہ کر دیا جائے کہ ان کا بحیثیت مجموعی باقی رہنا مخدوش ہو جائے۔ اسی لئے اعتدال ، تیسیر (آسانی) اور تخفیف کے اصول پر عمل  ضروری ہے۔
ڈاکٹر محمد امین صاحب کے بیان کردہ تین دائروں سے شاہ صاحب کا موقف واضح نہیں ہوتا مثلا شاہ صاحب تو شعائر حدود اور ارتفاقات تینوں میں اقوام کی عادات کو معتبر قرار دیتے ہیں جبکہ ڈاکٹر صاحب صرف تیرے دائرے میں محدود کرتے ہیں ۔ آئیے اب دیکھتے ہیں کہ علامہ شیلی اور علامہ اقبال نے اس زیر بحث اقتباس کا مطلب کیا سمجھا ہے۔

علامہ شبلی

ڈاکٹر محمد امین صاحب کا کہنا ہے کہ علامہ شیلی کو شاہ صاحب کا موقف سمجھنے میں تسامح ہوا ہے کیونکہ انہوں نے حدود کا ترجمہ تعزیرات " کیا ہے (۱۳) ۔ اول تو یہاں تسامح یا تساحل کی بات نہیں کیونکہ شاہ صاحب نے "حدود" کا لفظ اسلامی احکام کے عمومی معنوں میں استعمال کیا اس لئے اس میں اصطلاحی "حدود" اور تعزیرات بھی شامل ہیں ۔ دوسرے علامہ شبلی نے ترجمہ سے قبل اسی عبارت کا مفہوم بیان کیا ہے، اس سے بات مزید واضح ہو جاتی ہے اور یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ علامہ شبلی اور علامہ اقبال دونوں اس عبارت کے مفہوم پر متفق ہیں ۔ علامہ شبلی ترجمہ سے پہلے شاہ صاحب کی عبارت کا مفہوم یوں بیان کرتے ہیں۔
پیغمبر جس قوم میں مبعوث ہوتا ہے اس کی شریعت میں اس قوم کے عادات اور خصوصیات کا خاص طریقہ پر لحاظ کیا جاتا ہے لیکن جو پیغمبر تمام عالم کے لئے مبعوث ہو اس کے طریقہ تعلیم میں یہ اصول چل نہیں سکتا۔ کیونکہ نہ وہ تمام دنیا کی قوموں کے لئے الگ شریعتیں بنا سکتا ہے ، نہ تمام قوموں کی عادات اور خصوصیتیں باہم متفق ہو سکتے ہیں ۔ اس لئے وہ پہلے اپنی قوم کی تعلیم و تلقین شروع کرتا ہے اور ان کو محاسن اخلاق کا نمونہ بناتا ہے ۔ یہ قوم اس کے اعضاء و جوارح کا کام دیتی ہے اور اس کے نمونہ پر وہ اپنی تلقین کا دائرہ وسیع کرتا جاتا ہے ۔ اس کی شریعت میں اگرچہ زیادہ تر وہ قواعد کلیہ اور اصول عام ہوتے ہیں جو قریباً تمام دنیا کی قوموں میں مشترک ہوتے ہیں ۔ تاہم خاص اس کی قوم کی عادات اور خصوصیات کا لحاظ زیادہ ہوتا ہے لیکن جو احکام ان عادات اور حالات کی بناء پر قائم ہوتے ہیں ان کی پابندی مقصود بالذات نہیں ہوتی اور نہ ان پر
چنداں زور دیا جاتا ہے (۱۳) ۔
اس مفہوم اور ترجمے کو ملا کر پڑھا جائے تو علامہ شبلی پر تسامح کا الزام عائد نہیں کیا جا سکتا البتہ یہ ہے کہ شاہ صاحب کی عبارت سے منطقی طور پر وہ سوال اٹھتا تھا جو علامہ شبلی نے اٹھایا کہ اگر شریعت اسلامی کی سزائیں خاص عرب قوم کی عادات پر مبنی ہوں تو ان کی پابندی کہاں تک لازمی ہو گی ۔ علامہ شبلی کے اس سوال سے شاہ صاحب کے موقف کو سمجھنے میں مزید مدد ملتی ہے۔
ڈاکٹر امین صاحب کے نزدیک شاہ صاحب کی عبارت میں اسلامی حدود سے مراد ہیں اسلامی احکام اور معاشرتی و معاشی اداروں کی تنظیم کے لئے دی گئی تعلیمات کے وہ حصے جن کا تعلق ایسے مقامی احوال و اعراف سے ہو جو یونیورسل نوعیت کے نہ ہوں ان پر بعینہ عمل بعد کے زمانے میں ضروری نہیں ہوتا بلکہ وہ احکام اصولی طور پر تو باقی رہتے ہیں لیکن ان کے ایسے اجزا کا تعیین جو خالص مقامی اعراف و احوال پر مشتمل تھے نئے سرے سے کر لیا جاتا ہے ۔ بقول ڈاکٹر صاحب ان احکام کا تعلق تیرے دائرے سے ہے جس کے نہ اصول ابدی ہیں نہ فروع۔
بالفاظ دیگر ڈاکٹر محمد امین صاحب علامہ شبلی سے اس بات پر تو اتفاق کرتے ہیں کہ اسلامی احکام کے بعض حصے ایسے ہیں جن کا تعلق مقامی احوال و اعراف سے ہے اور ان پر بعینہ عمل بعد کے زمانے میں ضروری نہیں ۔ اختلاف صرف اس بات پر ہے کہ علامہ شبلی یہ سوال سزاؤں کے بارے میں بھی اٹھا رہے ہیں اور ڈاکٹر صاحب تشریح کے تین دائرے تجویز کر کے ایسے احکام کو صرف تیرے دائرے میں محدود سمجھتے ہیں جن سے حدود (سزائیں) خارج ہیں ۔ لیکن تیسرے دائرے کی محتویات کے لئے ڈاکٹر صاحب کی تعریف بے حد مہم ہے ۔ ان کی شرط ہے کہ وہ احکام ایسے مقامی احوال و اعراف سے تعلق رکھتے ہوں جو یونیورسل نوعیت کے نہ ہوں ۔ اول تو احوال و اعراف اگر یونیورسل نوعیت کے ہوں تو وہ مقامی نہیں کہلاتے ۔ دوسرے علامہ شبلی بھی تو یہی سوال اٹھا رہے ہیں کہ یہ سزا میں عرب کے رسوم و رواج پر مبنی تو نہیں ؟ اگر یہ بات ہے تو تسامح کے کیا معنی ہیں اور تسامح کس کو ہو رہا ہے۔
معلوم یہ ہوتا ہے کہ ڈاکٹر امین صاحب کا علامہ شبلی سے اختلاف صرف قرآنی احکام میں ہے ورنہ حدیث کے احکام میں تو وہ بھی تفریق کے قائل نظر آتے ہیں ۔ اسی لئے علامہ اقبال کے بارے میں ان کے الفاظ اتنے شدید نہیں کیونکہ علامہ اقبال نے عرف و عادت کے مسئلے کو حدیث کے حوالے سے اٹھایا تھا۔

علامہ اقبال

علامہ اقبال نے شاہ ولی اللہ کے زیر بحث اقتباس کو مصادر قانون اسلامی کا ذکر کرتے ہوئے حدیث کے ضمن میں درج کیا ہے ۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ اگر فقہ اسلامی کے متفقہ مصادر اور اختلافات فقہا کا جائزہ لیا جائے تو مذاہب فقہ کی تنگ نظری اور شدت کا مفروضہ ہے بنیاد ٹھرتا ہے بلکہ قانون اسلامی کی مزید ترقی کے امکانات واضح ہونے لگتے ہیں (۱۵) ۔ اس بیان کی وضاحت کے لئے وہ قرآن حدیث اجماع اور قیاس کا جائزہ پیش کرتے ہیں ۔ حدیث کے ضمن میں وہ گولڈ زیہر اور افتادیس وغیرہ کی اس تحقیق کو مسترد کرتے ہیں کہ احادیث کلیتہ ناقابل اعتبار ہیں ۔ علامہ اقبال کا کہنا ہے کہ دو طرح کی حدیثوں میں فرق کرنا ضروری ہے ایک خالص احکامی اور دوسرے غیر احکامی - احکامی احادیث کے بارے میں بہت ہی اہم سوال یہ ہے کہ وہ کسی حد تک قبل از اسلام عرب رواج پر مبنی ہیں ۔ اقبال اس بات پر زور دیتے ہیں کہ یہ فیصلہ بہت مشکل ہے ۔ نہ تو صدر اسلام کے مصنفین نے ان قبل از اسلام رواجات کی نشاندہی کی ہے اور نہ ہی یہ فیصلہ آسان ہے کہ جن رواجات کی توثیق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی کیا ان کا اطلاق ہمیشہ کے لئے مقصود تھا۔ یہاں وہ شاہ ولی اللہ کا زیر بحث اقتباس اپنے نکتے کی
وضاحت کے لئے درج کرتے ہیں اور پھر اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ:
اس اصول کی تطبیق سے جو شرعی احکام حاصل ہوتے ہیں (مثلا جرائم کی سزاؤں
کے بارے میں احکام) وہ ایک طرح سے خاص اس قوم سے تعلق رکھتے ہیں ۔ چونکہ ان کی پابندی بذاتہ مقصود نہیں، آنے والی نسلوں پر ان کو سختی سے نافذ
نہیں کیا جا سکتا ۔ (۲۲)
اس بات کی تائید میں وہ امام ابو حنیفہ کا ذکر کرتے ہیں جو شرعی احکام خصوصا احادیث میں اس تفریق کے قائل تھے۔
یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ علامہ اقبال اور شیلی دونوں شاہ صاحب کے اقتباس کا ایک ہی مفہوم بیان کر رہے ہیں بلکہ علامہ شبلی نے تو صرف سوال پر اکتفا کیا تھا، علامہ اقبال تو احادیث میں تشریعی اور غیر تشریعی کی تقسیم کی بات کر رہے ہیں ۔ دوسرے علامہ اقبال نے شاہ صاحب کی اس عبارت کو سمجھنے کے لئے صرف علامہ شبلی کو ہی سامنے نہیں رکھا بلکہ اس سلسلے میں سید سلیمان ندوی کو ستمبر ۱۹۲۹ء میں چار خطوط بھی لکھے (۱۷) ۔ سید سلیمان ندوی کے حواشی سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس تقسیم کے قائل نہ تھے۔ البتہ اس کی وضاحت کے لئے جو تفصیلات انہوں نے دی ہوں گی وہ ہمارے سامنے نہیں ہیں ۔ معلوم یہ ہوتا ہے کہ علامہ اقبال کو ان سے تشفی نہیں ہو سکی ۔ سید صاحب نے بھی علامہ اقبال کے سوال کو محبت حدیث کے نقطہ نظر سے دیکھا ورنہ اصول فقہ کی اکثر کتب میں احکامی اور غیر احکامی کی تقسیم کا ذکر ملتا ہے مثلاً جب شرائط اجتہاد کا ذکر ہوتا ہے تو ان میں مجتہد کے لئے آیات احکام اور احادیث احکام سے واقفیت کو شرط قرار دیا جاتا ہے اور اکثر ان احکامی آیات اور احادیث کی تعداد کا بھی ذکر ہوتا ہے یعنی نہ صرف یہ کہ احکامی اور غیر احکامی کی تقسیم موجود ہے بلکہ احکامی آیات و احادیث کی تعداد بھی متعین کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں کیونکہ خود ڈاکٹر محمد امین صاحب بھی اس تقسیم کے قائل ہیں ۔ البتہ انہوں نے احکامی احادیث کو مستقل اور عارضی کے خانوں میں مزید تقسیم کیا ہے جس پر آئندہ سطور میں گفتگو ہو گی۔

احادیث کی شرعی حیثیت

ڈاکٹر امین صاحب کا کہنا ہے کہ بعض احادیث کا حکم مستقل ہے بعض کا عارضی ۔ عارضی حکم والی حدیثوں کی مثالوں میں ڈاکٹر محمد امین صاحب نے تین احکام نبوی کا ذکر کیا ہے۔
  1.  بنجر زمینوں کو آباد کرنے والے کا حق ملکیت
  2. بیوی کو شوہر کے مال میں بغیر اجازت کفات کی حد تک تصرف کا حق
  3. حکمران قریش میں سے ہوا کریں گے۔
پہلے دو احکام کے عارضی ہونے کا ذکر تو ہماری نظر سے نہیں گزرا ۔ البتہ شرط قرشیت پر
حال ہی میں بہت بحثیں ہوئی ہیں ۔ یہ حدیث اس وقت محل نظر ٹھہرا دی گئی جب غیر قریشی تخت خلافت پر متمکن ہوئے ۔ اس سے پہلے کسی کو اس حدیث کے غیر یونیورسل ہونے کا خیال نہیں آیا۔ خوارج نے علمائے امت کی توجہ اس طرف دلانے کی کوشش بھی کی لیکن سواد امت نے اسے رد کر دیا ۔ ڈاکٹر صاحب کا کہتا ہے کہ اس حدیث کا یہ مطلب کسی نے بھی نہیں لیا کہ قیامت تک مسلمانوں کے حکمران قریشی ہوں گے اور نہ ہی امت کا اس پر عمل ہے ۔ ۔ وہ اس حدیث کے حکم کو تشریع کے اس دائرے میں شامل کرتے ہیں جو زمان و مکان کے بدلنے سے بدل جاتے ہیں۔
یہاں ابہام یہ ہے کہ یہ پتہ کیسے چلے گا کہ کون سا حکم زمان و مکان کے بدلنے سے بدل جاتا ہے ۔ یہی سوال علامہ اقبال نے بھی اٹھایا ہے ۔ کیا ڈاکٹر امین صاحب کا تجویز کردہ صرف یہ معیار کافی ہے کہ امت کا اس پر عمل نہیں رہا۔
ڈاکٹر صاحب کی یہ بات بھی قابل تسلیم نہیں کہ الائمه من قریش کے حکم کو کبھی مستقل نہیں سمجھا گیا ۔ امامت و سیاست کے احکام پر لکھی گئی تمام کتابوں کا مدار میں حدیث ہے۔ یہ حدیث تقریباً تمام کتب حدیث میں مختلف صحابہ سے مختلف طرق اور مختلف الفاظ میں روایت ہے، بلکہ صحیح بخاری میں تو اس پر باقاعدہ باب باندھا گیا ہے ۔ صحیح مسلم، مسند احمد بن حنبل، مسند ابو داؤد طیالسی، سب نے اس مضمون کی احادیث کو روایت کیا ہے ۔ رہا اس کے مطلب کا سوال کہ کسی نے اسے ہمیشہ کے لئے نہیں سمجھا یہ صحیح نہیں۔ تو صرف مثال کے طور پر الماوردی کی عبارت ملاحظہ ہو جہاں وہ خلیفہ کے لئے شرط قرار دیتے ہیں کہ
و هو ان يكون من قريش لورود النص فيه و انعقاد الاجماع عليه (18)
اور وہ قریش میں سے ہو کیونکہ اس بارے میں نص آئی ہے اور اس پر اجماع منعقد ہو چکا ہے)۔
بدر الدین جماعہ نے بھی خلیفہ کا قریشی ہونا شرط قرار دیا ہے (19) ۔ خود شاہ ولی اللہ بھی اس کے قائل ہیں ۔ وہ فرماتے ہیں۔
و منها كونه من قريش قال النبي صلى الله عليه و سلم الائمة من قريش (۲۰)
اور ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہ قریش میں سے ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ آئمہ قریش میں سے ہونگے) 
اس حکم کے اسباب کو تفصیل سے واضح کرنے کے بعد شاہ صاحب فرماتے ہیں:
و لم تجتمع هذه الأمور الا في قريش لا سيما بعد ما بعث النبي صلى الله عليه وسلم و نبه به امر قریش (۳۱)
یه امور صرف قریش میں ہی یکجا ملتے ہیں ۔ خاص طور پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد اور آپ کے ذریعے ہی قریش کی حیثیت سے لوگوں کو آگاہ کیا گیا۔)
ان اہم آرا کی روشنی میں ڈاکٹر صاحب کے اس بیان سے تو اتفاق نہیں کیا جا سکتا کہ اس حدیث کا یہ مطلب کسی نے بھی لیا کہ قیامت تک مسلمانوں کے حکمران قریشی ہوں گے۔ کم از کم شاہ ولی اللہ کے عہد تک تو مسلمانوں کی اکثریت کا یہی خیال معلوم ہوتا ہے ۔ ابن خلدون نے شرط قرشیت میں اختلاف کا ذکر کرتے ہوئے خوارج اور قاضی ابو بکر یا قلانی کا نام لیا ہے ۔ قاضی صاحب نے قریش کی کمزوری اور ملوک حجم کے استبداد کے پیش نظر قرشیت کی شرط کو ختم کر دیا تھا۔ تاہم اس اختلاف کے ذکر کے بعد ابن خلدون کہتے ہیں کہ
و بقى الجمهور على القول باشتراطها وصحة الامامة القرشي ولوكان عاجزا عن القيام بامور المسلمين (۳۳)
جمهور اس شرط کے قائل رہے اور قرشی کی امامت کو صحیح قرار دیتے تھے، خواہ وہ مسلمانوں کے امور کے قیام سے عاجز ہی کیوں نہ ہو۔)
ابن خلدون شرط قرشیت پر اجماع صحابہ کو مانتے تھے ۔ البتہ بعد میں جب قریش کی عصبیت کمزور پڑگئی وہ عیش و عشرت میں پڑ گئے تو اس کی وجہ -سے
عجزوا بذلك عن حمل الخلافة و تغلبت عليهم الأعاجم وصار الحل والعقد لهم فاشتبه ذلك على كثير من المحققين حتى ذهبوا الى نفي اشتراط القرشيه (۲۳)
ان امور کی وجہ سے وہ خلافت کا بوجھ اٹھانے کے قابل نہ رہے ان پر عجمی غالب آگئے اور وہی اہل حل و عقد بن گئے تو بہت سے محققین کو اس حدیث میں شبہ پیدا ہوا حتی کہ وہ قرشیت کی شرط کی نفی کے قائل ہو گئے۔)
ماضی قریب میں مولانا ابوالکلام آزاد نے یہ تاویل پیش کی کہ اس حدیث کی حیثیت پیش گوئی کی ہے (۲۴) ۔ یہ تشریعی یا احکامی حدیث نہیں ۔ گویا مولانا آزاد کے نزدیک بھی اس کا مطلب تو یہی تھا کہ آئندہ مسلمان امرا اور خلفا ان کے نزدیک قریشی ہوں گے البتہ اس حدیث کی حیثیت پیش گوئی کی ہے حکم کی نہیں ۔ اس کے برعکس ڈاکٹر امین صاحب اس حدیث کو احکامی قرار دیتے ہیں البتہ اس کا حکم مستقل نہیں مانتے۔ اور وہ اس نتیجے پر دو طرح پہنچتے ہیں اول تو ان کے بقول کبھی کسی نے اس حدیث کے حکم کو مستقل نہیں سمجھا دوسرے امت کا اس پر عمل نہیں رہا۔ ان کی یہ دونوں دلیلیں کمزور ہیں ۔ بہتر ہوگا کہ وہ زیادہ مضبوط دلائل اور وہ داخلی شهادت بیان کریں جس کی بناء پر وہ اس حدیث کو عارضی قرار دے رہے ہیں جس پر امت مسلمہ نے سختی سے صدیوں تک عمل کیا۔
کیا امت اپنے عمل سے کسی حدیث کو منسوخ کر سکتی ہے؟ اگر وہ اس بات کے قائل ہیں تو ہم بصد ادب پوچھتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب کا ان لوگوں سے کیا اختلاف ہے، جنہیں وہ دینی علوم سے بے بہرہ قرار دیتے ہیں اور جن کا قبلہ و کعبہ مغرب بتاتے ہیں۔






Post a Comment

0 Comments