جنگ اور تمدن
دو مہینے سے یورپ کی فضا میں جنگ کے جس طوفان رعد و برق نے نہ صرف یورپ بلکہ مشرق و مغرب کے تمام ملکوں میں سکون واطمینان کی نیند حرام کردی ہے وہ اپنے نتائج کے اعتبار سے خواہ کتنا ہی ہولناک اور تباہ کن طوفان ہو لیکن ہم کو اس پر نہ کوئی حیرت ہونی چاہیے اور نہ تعجب ۔ جب تک انسان انسان ہے اور اس میں خیر وشر کی صلاحیتیں ، اور جلب ملائم و دفع نالملائم کی قوتیں موجود ہیں اُس کے لیے جنگ ناگزیر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جس طرح لوگ دور وحشت و بربریت میں لڑتے تھے، درندوں کی طرح ایک دوسرے کو پھاڑ کھانے کی کوشش کرتے تھے۔ اور کرگس دوال کی مانند انسانی اعضاء پر جشن ضیافت کا سامان کرتے تھے ، ٹھیک اسی طرح آج بھی جبکہ تہذیب و تمدن کے آفتاب کی ضیاء نے دنیا کو ایک شہرستان جمال و نور میں تبدیل کر دیا ہے ایک قوم دوسری قوم سے دست وگر یہاں ہے اور ایک ملک دوسرے ملک کی وسعتوں کو اپنے سینہ میں سمیٹ کر خود پھیل جانا چاہتا ہے لیکن فرق یہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام سے پانچ ہزار قبل کے عہد میں جس کو زمانہ قبل تاریخ کہا جاتا ہے۔ لوگ لڑتے ہوں گے تو اُن کے ہتھیار ان کے ناخن، دانت اور گھونسے ہوتے ہوں گے ، جس سے نقصان زیادہ نہیں ہوتا ہوگا ۔ اور جو کچھ ہوتا بھی ہوگا، فریقین تک ہی محدود رہتا ہوگا۔ لیکن آج سائنس کے دست گستاخ نے فطرت کے چھپے ہوئے رازوں سے نقاب الٹ دی ہے اور زمین نے اپنے پوشیدہ خزانے انسانی تمدن کی خدمت کے لیے اگل دیے ہیں یہ سائنس کی انہی ارزاں کرم پاشیوں کا صدقہ ہے کہ جرمنی کا دیوجان شکار چار کروڑ کے قریب وسیع آبادی رکھنے والے پولینڈ کو نو اور نوا ٹھارہ دن میں ہڑپ کر گیا، اور اُس کا نام نقشہ عالم سے اس طرحمٹادیا کہ گویا وہ کوئی حرف نلط تھا جو کا تب تقدیر کی عجلت نگاری کے باعث لوحہستی پر نمودار ہو گیا تھا یا وہ طاقت وقوت کے متلاطم سمندر کا کوئی بلبلہ تھا جس نے سطح آب پر پہنچ کر ذرا آنکھ کھولی ہی تھی کہ پھر غرور و گھمنڈ کے چھیڑوں نے اُس کی انفرادیت کو فنا کر کے اپنے میں شامل کر لیا۔
شیکسپیر کے لفظوں میں دنیا ایک اسٹیج ہے جس پر قو میں باری باری سے عزت دشان کے ساتھ نمودار ہوتی ہیں، اور دنیا کی تاریخ میں جو پارٹ ادا کرنا ان کی تقدیر میں لکھا ہوتا ہے اُسے ادا کرتی ہیں ، اُس کے بعد پھر ان پر ایک ایسا دور خمول و گمنامی طاری ہو جاتا ہے کہ اُن کی جگہ دوسری قو میں لے لیتی ہیں۔ جو سر بلند و سرفراز ہوتا ہے اُس کے حصہ میں پستی وخواری آتی ہے، اور جو ذلت و حقارت سے دیکھا جاتا تھا اُس کے سر پر شہنشاہی و فرمانروائی کا تاج چمکنے لگتا ہے۔ اللہ کی سنت یونہی جاری ہے اور قیامت تک اسی طرح جاری رہے گی ولن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلاً
مسٹر ہوس نے (Hobbus) جو فلسفہ نفسیات اقوام کا مشہور عالم ہے جنگ سے متعلق اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے: "انسانی فطرت کا عمیق مطالعہ کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی فطرت میں اصولی طور پر تین چیزیں ایسی ہیں جو جنگ کا سبب بنتی ہیں ۔
(۱) مقابلہ کی خواہش
(۲) مدافعت کا جذبہ
(۳) عزت و وجاہت حاصل کرنے کی آرزو
پھر بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ جنگ کا دوسرا سبب پہلے سبب پر منتج ہو جاتا ہے یعنی ایک قوم شروع شروع میں اپنی قومی حفاظت وصیانت کی خاطر جنگ کرتی ہے لیکن جب اُس کو اپنے مقصد میں کامیاب ہو جانے کے بعد غیر معمولی قوت و طاقت حاصل ہو جاتی ہے تو اب اپنی قوت کی نمائش، اپنی طاقت وسطوت کا اظہار ، خود اُس کا ایک مستقل مقصد بن جاتا ہے ۔ چنانچہ انگلستان کا مشہور انشا پرداز فلسفی ڈبلیو ، پی پرسن (W.P.Patterson) لکھتا ہے۔
یہ صحیح ہے کہ اپنے علاقوں کو محفوظ رکھنے اور اپنے ملکی پروگرام کو نافذ کرنے کے لیے طاقت کا حاصل کرنا ضروری ہے ، اور اس لیے اگر کوئی قوم اپنے لیے طاقت وقوت کا مطالبہ کرتی ہے تو ہم اسے ناحق نہیں کہہ سکتے لیکن عام افراد کی طرح عموماً دیکھا گیا ہے کہ جماعتیں بھی طاقت حاصل ہو جانے کے بعد پھر طاقت کی نمائش کو ہی اپنا ایک مستقل مقصد بنا لیتی ہیں ۔“
موجودہ جنگ کے اسباب وعلل پر اگر ایک سرسری اور محض سطحی نگاہ ڈالی جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ آج یورپ میں جو کچھ ہو رہا ہے اس نظریہ کی صاف اور کھلی شہادت ہے۔ لیکن اگر یورپ کے عہد جدید پر جس کا آغاز سولہویں صدی کے شروع سے ہوتا ہے۔ ایک تاریخی اور سیاسی نگاہ ڈالی جائے تو یہ بآسانی معلوم ہو سکتا ہے کہ آج جو کچھ ہو رہا ہے گذشتہ حالات و واقعات کالازمی نتیجہ ہے اور اس لیے اب اگر جنگ ملتوی بھی ہو جائے تو جب تک اصل اسباب کی اصلاحنہیں ہوگی ، اور اُس ذہنیت کو تبدیل نہیں کیا جائے گا جوان تمام ہولنا کیوں کی واحد ذمہ دار ہے، یورپ کو چین اور امن نصیب ہو سکتا ۔
اصل یہ ہے کہ یورپ کی مختلف حکومتوں میں سے ہر ایک حکومت اپنے مخصوص سیاسی رجحانات اور ملکی و قومی روایات کے باعث سولہویں صدی کے آغاز سے اب تک اس فکر میں رہی ہے کہ وہ دوسری حکومتوں کو مغلوب کر کے اور انہیں اپنا محکوم بنا کر خود تمام یورپ پر قابض ہو جائے ۔ اس چہار صد سالہ یورپ کی سیاسی تاریخ میں آپ کو نمایاں طور پر معلوم ہوگا کہ آسٹریا ، اسپین ، فرانس اور جرمنی ان میں سے ہر ایک نے جب کبھی فوجی طاقت حاصل کی اُس نے تمام براعظم یورپ پر حکمراں ہو جانے کے لیے اپنی کوششوں کو وقف کر دیا۔ دوسری طرف برطانیہ کی یہ کوشش رہی ہے کہ یورپین سیادت پر قابو رکھنے کے لیے وہ خود بحری طاقتوں پر قابض رہے۔ اس کشمکش اور تنازع نے جب کبھی نازک صورت اختیار کی وہ جنگ کی شکل میں ظاہر ہوئی چنانچہ جنگ سیزده ساله ( Thirty The war of Spanish ( اسپین کی تخت نشینی کی جنگ Years war The war of Austrian ( آسٹریا کی تخت نشینی کی جنگ )succession succession) پھر نپولین کی لڑائیاں اور سب سے آخر میں جنگ عظیم جو ۱۹۱۴ء سے ۱۹۱۸ء تک جاری رہی اور جس نے یورپ ہی یورپ کے ایک کروڑ آدمیوں کا خاتمہ کر کے رکھ دیا ۔ یورپ کے بڑے بڑے علاقے قحط اور وبا کی کثرت کے باعث ویران و تباہ ہو گئے اور جس نے سوسائٹی کے نظام اقتصادی و معاشرتی کو درہم و برہم کر کے رکھ دیا۔ یہ سب کچھ در حقیقت اس قومی و ملکی عصبیت ورقابت کا نتیجہ تھا جو قوت حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ نامحسوس طریقہ پر خود بھی قوی ہوتی رہتی ہے۔
اس رکیک مستعمرانہ ذہنیت کو آج کل در چیزوں نے اور زیادہ قوت بہم پہنچائی ہے جس کی وجہ سے اب یہ ذہنیت چنگاری نہیں بلکہ ایک ہولناک دوزخ بن گئی ہے۔ ان میں سے پہلی چیز سائنس کی غیر معمولی ترقی ہے جس کے باعث آنا فانا میں بڑی سے بڑی آبادی کو چند لمحوں میں خاکستر بنایا جاسکتا ہے اور طویل و عریض سمندروں اور جنگلوں اور اونچے اونچے پہاڑوں کو عبور کر کے بآسانی ایک بر اعظم سے دوسرے براعظم میں پہنچا جا سکتا ہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سائنس کی عجوبہ کاریوں نے انسانی عقل و فہم کی بلند پروازی کی ایک ایسی نادر مثال پیش کی ہے کہ اگر اب سے ڈیڑھ سو برس پہلے کے لوگ آج دنیا میں پھر واپس بھیج دیے جائیں اور وہ عہد حاضر کی حیرت انگیز ایجادات و اختراعات کو دیکھیں تو یقیناً اُن کو گمان ہو گا کہ وہ پہلی دنیا میں نہیں بلکہ طلسم و شربا کے کسی خیالی طلسم کدہ میں بھیج دیے گئے ہیں۔ میگنٹ اور سگفریڈ لائن کی جو تفصیلات اخباروں میں آئی ہیں اُن کو پڑھ کر یہ خیال ہوتا ہے کہ یہ انسانی نہیں جناتی قلعے ہیں لیکن غور کرنے کی بات یہ ہے کہ آج سائنس کی تمام طاقت انسانوں کی بربادی ، شہروں کی تباہی اور آبادیوں کی ویرانی کے لیے زیادہ سے زیادہ اور موثر سامان واسلحہ پیدا کرنے کے لیے وقف نہیں ہے اور کیا ہر وہ حکومت جو اپنے پاس سے زیادہ اسلحہ و سامان جنگ رکھتی ہے، غرور کے نشے سے مست ہو کر دوسری کمزور حکومتوں پر دندان حرص و آز نہیں پیس رہی ہے۔ بس یوں کیسے ذہنیت پہلے سی جنگجویانہ تھی۔ سائنس نے اپنی مدد سے اس کو اور مشتعل کر دیا۔
دوسری چیز جو یورپ کے گلے میں اس وقت کا نٹا بن کر اٹک گئی ہے، قومیت و جمہوریت کے دو نظریوں کی پرورش و ترقی ہے، یہاں قومیت سے مراد وہ قومیت ہے جس کی اساس وطعنت پر قائم ہے جرمنی ایک جدا قوم ہے اٹلی الگ ایک قوم ہے اور یہ دونوں جرمنت واطالویت پر اس درجہ نازاں ہیں کہ اپنی قوم کو یورپ کے تمام اقوام سے افضل واعلیٰ جانتے ہیں۔ قومیت کا ظہور مختلف شکلوں میں ہو رہا ہے۔ نازیزم، فاشیزم وغیرہ اس کے مختلف عنوانات ہیں ورنہ دراصل معنون ایک ہی ہے۔ قومیت کے مقابلے میں نظر یہ جمہوریت ہے لیکن یہ نظریہ آج کل جس خط و خال اور آب و رنگ کے ساتھ یورپ میں موجود ہے۔ نفسیاتی طور پر اس کا لازمی نتیجہ تصادم و تزاحم ہی ہو سکتا ہے اور بس غرض یہ ہے کہ سائنس کی ترقی اور نظریہ قومیت و جمہوریت کا اختلاف اور اس کی اصل بنیاد ان دونوں چیزوں نے اس قدیم چهار صد سالہ ذہنیت پر آتش در خرمن کا کام کیا ہے اور یہی باعث ہے کہ آج یورپ کا امن وامان اور اس کی تہذیب و تمدن عظیم خطرے میں ہے۔
اب اس خطرہ سے نہ تمدن کی جگمگاہٹ بچا سکتی ہے اور نہ سائنس کی ترقیات ہی اس کے لیے رکاوٹ بن سکتی ہیں۔ کیونکہ سائنس کی ترقیات انسانی زندگی کے لیے وبال جان بنی ہوئی ہیں اور تمدن کی رفعت پذیریاں خود اپنی شکست کی آواز ہیں۔ گویا اس کا ہر تار نفس ہلاکت و بر بادی کے رشتے سے اس طرح مربوط ہے ۔ کہ وہ غالب کی زبان میں پکار پکار کر کہہ رہا ہے۔
مری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی
ہیولی برق خرمن کا ہے خون گرم رہتاں کا
یہ واقعات اس امر کا زندہ ثبوت ہیں کہ جس تمدن کی اساس اصول اخلاق اور روحانیت پر قائم نہیں ہوتی بلکہ مادیت اور نفس پرستی و خود غرضی پر اس کی تمام عمارت کا قیام ہوتا ہے۔ وہ انسانیت کے لیے کبھی خوش آئند تمدن ثابت نہیں ہو سکتا ۔ کیا آج اس سے انکار کیا جاسکتا ہے کہ جو انسان مریخ و تمر میں آبادی تلاش کرنے کے بعد وہاں کی زبان معلوم کرنے کے درپے ہے، آسمان پر اڑتا ہے سمندر کی تہوں میں زندہ رہتا ہے۔ تین سو میل کی رفتار سے بھاگتا ہے۔
ہزاروں میل کی مسافت سے ایک دوسرے سے بات چیت کرتا ہے۔ ان تمام غیر معمولی مادی ترقیات کے باوجود خود اپنی روحانی زندگی کے اعتبار سے اس درجہ تہی مایہ ہے کہ دوسروں کے ساتھ ایک لمحہ بھی پر امن زندگی بسر نہیں کر سکتا۔ اس نے اپنے شہروں اور گھروں کو قسم قسم کی روشنیوں کی جگمگا رکھا ہے کہ جسے دیکھیے خطہ نور معلوم ہوتا ہے لیکن اس کے دل کی دنیا اس درجہ تاریک ہے کہ وہاں ایمان داری، دیانت اور مصالحت کا نام ونشان بھی نہیں مل سکتا۔ مشرق کے شاعر فلیسوف اقبال نے کیا خوب کہا ہے:
جس نے سورج کی شاعوں کو گرفتار کیا
زندگی کی شب تاریک سحر کر نہ سکا
ڈھونڈ نے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کرنہ سکا
ایک دوسرا نتیجہ جو اس جنگ سے برآمد ہوتا ہے یہ ہے کہ امن وامان قائم رکھنے کے لیے خواہ کیسی ہی موثر تدبیریں عمل میں لائی جائیں اور اس مقصد کے لیے کتنی ہی انجمنیں بنائی جائیں لیکن وہ اس وقت تک کارگر نہیں ہوسکتیں جب تک لڑنے والوں کی ذہنیت میں اخلاق ورحانیت کی تعلیمات کے ماتحت ایک ایسی تبدیلی پیدا نہ کر دی جائے کہ وہ خود بخود انسانیت کے احترام پر مجبور ہو جائیں اور اپنی اغراض سے بے پروا ہو کر دوسرے بھائیوں کے مفاد کو اہمیت دینے لگیں اسلام نے جو سب سے بڑا کارنامہ کیا وہ یہی تھا کہ دنیا کی مختلف قوموں کو جو جرمنی اور برطانیہ سے زیادہ دوسرے کی دشمن تھیں ان میں احساس اخوت و محبت پیدا کر کے شیر و شکر بنا دیا اور اس کا واحد ذریعہ یہی تھا جو خواہشات نفسانی کے لات و عزئی سے انسانی توجہ کو ہٹا کر صرف ایک خدائے واحد کی طرف ان سب کو متوجہ کر دیا اور اس نے صاف طور پر کہا : ولا تفسدو في الارض بعد اصلاحها وادعوه خوفاً وطمعاً ان رحمته الله قريب من المحسین ۔ اور تم اصلاح کے بعد فساد پیدا مت کرو اور خوف وطمع کی وجہ سے خدا کو پکارو اس کی رحمت نیکی کاروں سے قریب ہے۔"
تو کیا جارج برناڈ شا کی پیش گوئی کے مطابق وہ وقت قریب آگیا ہے جب کہ بد نصیب و مظلوم انسانیت موجود ددور تمدن کی تباہ کاریوں سے گھبرا کر ایک مرتبہ پھر یاداش بخیر) اسی اسلامی تمدن کے دامن میں پناہ لینے کے لیے ایسے بے تحاشہ دوڑے گی جس نے باہمی بغض وعداوت کے انگاروں کو بجھا کر انسیت ومحبت کے لالہ زاروں میں اور نفرت و دشمنی کے جہنم کو سرد کر کے مساوات و رواداری کی بہشت میں تبدیل کر دیا تھا۔
اَوَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَيَنْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَكَانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةَ وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعْجِزَهُ مِنْ شَيْ فِي السَّمَوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ إِنَّهُ كَانَ عَلِيمًا قَدِيرًا.