مئی ۱۹۴۰ء
خاکسار تحریک پر ایک نظر
ماہنامہ البرہان
![]() |
خاکسار تحریک پر ایک نظر
کلکتہ لوئر چیت پور روڈ سے محمد یعقوب صاحب بٹ لکھتے ہیں: آج کل علامہ مشرقی کی تحریک خاکسار بہت حد تک مسلمانوں میں اثر انداز ہو رہی ہے اور اس کے خلاف ملک کے اکثر علماء فتوے صادر فرما چکے ہیں۔ لیکن زمانہ کے بیدار مغز لوگ عام مولویوں کے فتوئی بازیوں سے پہلے سے ہی تنگ آچکے ہیں اور حقیقت بھی یہ ہے کہ گفتی کے چند علماء کو چھوڑ کر عام مولوی تنگ نظری سے ہر جگہ کام لیتے بھی ہیں ممکن ہے ان فتووں میں بھی یہی جذبہ کار فرما ہو۔ جہاں تک میں نے دیکھا ہے ندوۃ المصنفین کے ارکان و علماء ان تنگ نظریوں سے بالاتر ہیں۔ اس بناء پر جرات کی ہے کہ آپ کو ترغیب دوں کہ آپ اپنے مؤقر رسالہ برہان میں اس تحریک پر مکمل اور مفصل بحث کریں جس سے عام لوگ پوری طرح مستفید ہو سکیں ۔ اُمید ہے آپ میری اس گزارش کو معمولی سمجھ کر نظر انداز نہیں کریں گے ۔ انتھی ملخصا "
اس میں شبہ نہیں آج کل خاکسار تحریک ہندوستان کے مسلمانوں کی ایک ایسی تحریک ہے جس سے اغماض نہیں کیا جاسکتا ۔ اس تحریک سے متعلق گذشتہ دو تین ماہ میں اس کثرت سے رسالے اور مضامین شائع ہو چکے ہیں کہ اُن کے ہوتے ہوئے ہم نے خود کچھ لکھنا غیر ضروری خیال کیا۔ لیکن ہمارے سکوت کے ساتھ ساتھ پوچھنے والوں کا اصرار برابر بڑھتا رہا۔ چنانچہ مندرجہ بالا خط اُن متعدد خطوط میں سے ہے جو اس سلسلے میں دفتر برہان میں موصول ہو چکے ہیں ۔ ان خطوط سے اندازہ ہوتا ہے کہ قارئین برہان میں ایک کثیر جماعت ان حضرات کی ہے جو برہان کے کارکنوں کو تنگ نظر نہ سمجھنے کی بنا پر خاکسار تحریک ایسے مسائل میں اُن کی رائے معلوم کرنے کا اشتیاق ہی نہیں رکھتے بلکہ اس تحریک کے جواز و عدم جواز کا فیصلہ اُسی کی روشنی میں کرنا چاہتے ہیں ایسے ہی اصحاب کے لیے سطور ذیل قلم بند کی جارہی ہیں جن میں مختصر ا چند اصولی باتوں کی طرف اشارہ کر دیا گیا ہے۔
سب سے پہلی اور اصولی بات یہ ہے کہ دنیا کی ہر تحریک کسی خاص نصب العین اور کسی خاص مقصد پر قائم ہوتی ہے۔ اور اس مقصد کی اچھائی اور برائی پر ہی اس تحریک کی اچھائی اور کمائی کا دار ومدار ہوتا ہے ۔ اس لیے سب سے پہلے ہم کو یہ دیکھنا چاہیے کہ خاکسار تحریک کا مقصد کیا ہے؟ آیا وہ کوئی خالص اسلامی مقصد ہے۔ یا وہ کوئی ایسا بین الاقوامی مقصد ہے جس کی افادیت مسلمانوں اور دوسری قوموں سب کے لیے یکساں ہے۔ خاکسار تحریک پر جب ہم اس زاویہ نگاہ سے غور کرتے ہیں تو اس عجیب حقیقت کا انکشاف ہوتا ہے کہ اس تحریک کا اب تک کوئی خاص نصب العین متعین ہی نہیں ہو سکا ہے یعنی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ان لوگوں کی منزل مقصود کیا ہے؟ انہوں نے کس مقام کو اپنے سفر کا منتہا بنایا ہے ؟ اور یہ کہاں پہنچنا چاہتے ہیں؟ ایک طرف اس تحریک کے بانی کا اعلان یہ ہے:
ہم اس تحریک کے اندر کم از کم دس لاکھ سپاہیوں کی ایک پُر امن، پابند قانون ، قواعد داں مطیع خدا اور منکر ماسوا، بے غرض حکم ماننے والی خادم خلق ، ہندو مسلمان ، سکھ ، عیسائی ، پارسی، اچھوت سب پر مشتمل ایک جماعت تیار کرنا چاہتے ہیں ۔ قول فیصل نمبر (۲)
پھر ۱۷ نومبر ۳۹ ء کے الاصلاح میں پچیس لاکھ نئے خاکساروں کی بھرتی کے متعلق ایک سرکلر شائع کرتے ہوئے یہ اعلان کیا جاتا ہے۔
ان خاکساروں کی بھرتی بلالحاظ مذہب وملت ہو۔ ہندو سکھ، عیسائی ، پارسی، اچھوت ، انگریز سب کے لیے کھلا دروازہ ہو ۔“
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ خاکسار تحریک خالص اسلامی تحریک نہیں بلکہ اس کی حیثیت کسی بین الاقوامی تحریک کی ہے ۔ لیکن دوسری طرف جس چیز کا بار بار اعادہ کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ خاکسار تحریک کا مقصد اعلاء کلمۃ اللہ اور اسلام کی صولت و سطوت کو تمام دنیا میں از سرنو قائم کر دیتا ہے۔ ایک سنجیدہ و متین شخص جب ان دو متضاد باتوں پر غور کرتا ہے تو حیرت و استعجاب میں غرق ہو جاتا ہے، اور وہ نہیں سمجھ سکتا کہ آخر اس تحریک کا خصوصی صح نظر کیا ہے؟ آپ کو دور جانے کی ضرورت نہیں قول فیصل کا مذکورہ بالا اعلان ذرا غور سے پڑھیے، آپ کو معلوم ہوگا کہ یہ چار سطر میں ہی اپنے اندر کس قدر تضاد رکھتی ہیں۔ اس اعلان میں ایک طرف تو مشرقی صاحب خاکسار سپاہی کے لیے مطیع خدا اور منکر ماسوا ہونا شرط قرار دیتے ہیں۔ لیکن دوسری جانب وہ اس میں ہندوؤں اور عیسائیوں کو بھی شریک کرنا چاہتے ہیں۔ گویا مشرقی صاحب کے نزدیک ایک ہندو یا عیسائی بھی مطیع خدا اور منکر ماسوا ہو سکتا ہے۔ حالانکہ ایک ادنیٰ درجہ کا مسلمان بھی اس حقیقت سے بے خبر نہیں ہے کہ اسلام میں کسی شخص کو صحیح معنی میں اُس وقت تک مطبع خدا نہیں کہا جا سکتا جب تک کہ اُس کے اعمال کی بنیاد صیح ایمان پر قائم نہ ہو۔ رہا " منکر ماسوا تو سمجھ میں نہیں آتا کہ اس کو مشرقی صاحب کی مذاہب سے بے خبری کہا جائے یا اُن کا حد سے زیادہ بھولا پن، کہ وہ ہندوؤں اور پارسیوں اور عیسائیوں کو بھی " منکر ماسوا قرار دے رہے ہیں۔
مشرقی صاحب کے بیانات کا تضاد یہیں تک محدود نہیں ہے اگر ان کی کتاب " تذکرہ اشارات اور ان کے رسائل و اخبارات کا مطالعہ کیا جائے تو یہ امر بخوبی واضح ہو جائے گا کہ اس تحریک کے بانی کا دماغ یا تو کسی قطعی نصب العین کی تعیین و تشخیص سے یکسر معزا ہے۔ یا اگر کوئی نصب العین دماغ میں موجود ہے بھی تو اُس نے اب تک اُس کا اظہار نہیں کیا۔
پس ایسی حالت میں مشرقی صاحب کی آواز پر مسلمانوں کا اُن کے گرود پیش جمع ہو جانا بالکل ایسا ہی ہے کہ ایک شخص جنگل میں کھڑا ہو کر شور دغل مچاتا ہے ۔ لوگ نہیں سمجھتے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ مگر پھر بھی بے تحاشا اُس کی طرف دوڑے چلے جاتے ہیں۔ پھر جب وہاں پہنچتے ہیں تو انہیں معلوم ہوتا ہے کہ ایک دیوانہ اپنی دیوانگی کے جوش میں زور زور سے بڑبڑا رہا تھا، اور بے معنی الفاظ بک رہا تھا ۔ اب ان کو اپنی فضول جد و جہد پر سخت ندامت ہوتی ہے، اور وہ اپنا سامنہ لے کر اپنے اپنے گھروں کو واپس آجاتے ہیں۔
اور اگر تھوڑی دیر کے لیے یہ فرض بھی کر لیا جائے کہ خاکسار تحریک کا مقصد واقعی اعلاء کلمۃ اللہ اور خلافت الہی کا قیام ہے۔ تو اب ہم کو ان طرق عمل کا جائزہ لینا چاہیے جو عموماً خاکساروں کو اختیار کرنے پڑتے ہیں۔ ہر شخص کو معلوم ہے، تحریک میں داخل ہونے والے کے لیے یہ عہد کرنا ضروری ہے کہ وہ اپنے امیر کو حاکم علی الاطلاق مانے گا اور اُس کے ہر حکم کی تعمیل وہ بے چون و چرا کرے گا۔ اس نوع کا عہد و پیمان اسلامی اسپرٹ کے بالکل خلاف ہے۔ قرآن مجید میں جگہ جگہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی دعوت دی گئی ہے۔ اور حدیث میں صاف لفظوں میں ہے لاطاعة لمخلوق في معصية الخالق انما الطاعة في المعروف ۔ کون مسلمان نہیں جانتا کہ آمر مطلق اور حاکم علی الاطلاق سوائے رب العلمین کے کوئی دوسری ذات نہیں ہوسکتی ۔ پس سمجھ میں نہیں آتا خاکسار تحریک کے علمبردار یہ کیسے نبوی اسلام کی شوکت و عظمت کا پرچم اڑانے چلے ہیں کہ پہلے ہی قدم پر اُن کا رُخ کعبہ کی بجائے شوالہ کی طرف مڑ گیا ہے۔ کیا کوئی مسلمان ایک لمحہ کے لیے بھی تصور کر سکتا ہے کہ جس عمارت میں نمرود و فرعون ، اور ہامان و شداد کے مجسے جگہ جگہ نصب ہوں ، اُس سے مسجد کا کام لیا جاسکتا ہے۔ اس طرح کی اطاعت مطلقہ کی دعوت اس چیز کی غمازی کرتی ہے کہ یہ تحریک اسلامی روح سے یکسر خالی ہے، اور اس کا مقصد مسلمانوں کا تمكن في الارض “ نہیں بلکہ خود اپنا تمکن و ترفع ہے، پھر روز مرہ کی زندگی میں خاکساروں کے جو اعمال وافعال دیکھے گئے ہیں اُن سے بھی صاف پتہ چلتا ہے کہ ان لوگوں کی ذہنی اور جسمانی تربیت و تنظیم خالص اسلامی طریقہ پر نہیں ہو رہی ہے جس کی وجہ سے ان میں شعائر دین کے احترام کا جذبہ کامل پایا جائے۔
گذشتہ ماہ رمضان میں جبکہ خاکسار لکھنو میں یوپی گورنمنٹ کے خلاف مظاہرے کرنے کے لیے ہندوستان کے ہر گوشہ سے دہلی میں جمع ہور ہے تھے ، اور اُنہوں نے اپنا کیمپ دفتر برہان کے قریب ہی قائم کر رکھا تھا۔ اس زمانہ میں صرف ہم نے نہیں بلکہ دہلی کے سینکڑوں انسانوں نے دیکھا ہے کہ خاکسار روزہ کے دنوں میں صبح شام جوق در جوق ہوٹلوں میں پہنچتے تھے اور نہایت بے باکی کے ساتھ کھانا کھاتے اور چاء پیتے تھے۔ یہ تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ مسافر ہونے کی وجہ سے ان پر روزہ فرض نہیں تھا لیکن اگر ان کے دلوں میں اسلامی شعائر کا کچھ بھی احترام ہوتا تو یہ ہرگز شارع عام پر اس طرح بے باکی کے ساتھ کھانا کھانے اور بازاروں میں سگرٹ کے پف اُڑاتے ہوئے پھرنے کی جسارت نہ کرتے ۔ غرض کہ یہ کھلی ہوئی حقیقت ہے کہ خاکسار تحریک خالص اسلامی تحریک نہیں ہے۔ اور زبان سے تمكن في الارض “ اور ” خلافت الہیہ کے قیام کے جو دعوے کیے جاتے ہیں وہ سراسر لغو اور بے بنیاد ہیں۔ اور اس بنا پر کوئی مسلمان ایک دقیقہ کے لیے بھی اس تحریک میں اس غرض سے شامل نہیں ہو سکتا کہ وہ اس تحریک کے ذریعہ دنیا میں سطوت حق کو قائم کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔
ہاں بے شک کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک بڑا شخص کوئی تحریک لے کر اُٹھتا ہے۔ وہ لوگوں کو اُس میں شمولیت کی دعوت دیتا ہے ۔ کسی مصلحت سے وہ اپنا خاص نصب العین ظاہر نہیں کرتا ۔ لیکن جب اُس کے پاس لوگوں کا ایک نع کثیر مجمع اکٹھا ہو جاتا ہے اور وہ سب کسی ایک رشتہ وحدت میں منظم ہو جاتے ہیں تو وہ یکا یک ایک مفید انقلاب عظیم برپا کر دیتا ہے۔ اُس وقت تردد و تذبذب کی تمام تاریکیاں چھٹ جاتی ہیں اور اُس کے مخالفین کو بھی اس شخص کی عظمت کے سامنے سر تسلیم خم کر دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا ۔
لیکن یہ واضح رہنا چاہیے کہ یہ اُسی وقت ہو سکتا ہے جبکہ اس تحریک کا قائدہ اپنے اخلاق و عادات اور کیرکٹر کے لحاظ سے دنیا کا کوئی غیر معمولی انسان ہو۔ اس کے برعکس خاکسار تحریک کے بانی کے اعمال وافعال کا جائزہ لیجیے تو یہاں بھی نہایت مایوس کن حالات نظر آتے ہیں۔ جو شخص اتنی بڑی تحریک کا قائد ہونے کے باوجود ایک معمولی گورنمنٹ (یوپی) سے معافی مانگ لے، اپنی بات سے ہٹ جائے اور اُس پر دباؤ ڈالنے کی غرض سے گورنمنٹ آف انڈیا کو جنگ کے لیے پچاس ہزار خاکساروں کو پیش کش دینے میں ذرا شرم محسوس نہ کرے۔ پھر وتی میں گرفتار ہو تو پولیس کو دیکھتے ہی اُس کے چہرہ کا رنگ فق ہو جائے اور آنکھوں میں آنسوڈ بڈبا آئیں۔ کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ ایسا متلون مزاج تملق پسند، کمزور دل اور ڈرپوک انسان اس قابل ہے کہ اُس سے نصب العین کی تعیین کرائے بغیر ہی ہزار در ہزار انسان اس کو اپنا قائد تسلیم کر لیں ، اور اطاعت مطلقہ کے عہد و پیمان کے لیے اُس کے ہاتھ پر بیعت کریں، اور اپنی موت وحیات کے لیے اُس کے فیصلہ کو ناطق قرار دیں۔
اس گزارش سے یہ بات واضح ہوگئی ہوگی کہ خاکسار تحریک نہ تو اپنا کوئی ایسا متعین نصب العین رکھتی ہے جس کو اسلامی نصب العین کہا جائے۔ بلکہ زیادہ صحیح یہ ہے کہ اسلامی یا غیر اسلامی اُس کا کوئی اجتماعی نصب العین ہے ہی نہیں اور نہ اس تحریک کا بانی اپنے کیرکٹر کے لحاظ سے اس قابل ہے کہ مسلمان اُس پر اعتماد کر کے اُس کے ہاتھ پر بیعت کرلیں اور بے سوچے سمجھے اُس کی پیروی کرنے لگیں ۔
اب ہم اُن چند چیزوں کی طرف اشارے کرتے ہیں جو عموماً مسلمانوں کے لیے اس تحریک میں شمولیت کی داعی بنی ہوئی ہیں، وہ چیزیں یہ ہیں:
(۱) فوجی تنظیم
(۲) جسمانی ورزش
(۳) ایک خاص ڈسپلن
(۴) خاکساروں کی غیر معمولی بہادری اور پامردی۔
اول الذکر تین چیزوں پر گفتگو کرنے سے قبل ایک مرتبہ پھر آپ کو یہ یاد کر لینا چاہیے کہ اُس وقت آپ کو خاکسار تحریک سے متعلق اپنے ذہن میں صرف یہ تصور قائم رکھنا چاہیے کہ وہ محض ایک تنظیمی یا معاشرتی تحریک ہے۔ اب اس حقیقت کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس پر غور کیجیے کہ تنظیم بجائے خود کوئی مقصد نہیں ہے۔ اور اس لیے جو کام محض تنظیم کے لیے کیا جائے گا وہ کبھی بھی نتیجتاً کامیاب نہیں ہو سکتا ۔ مسلمانوں کی تنظیم کا مقصد اس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے کہ اُن میں اسلامی ربط ، اسلامی نظم ، اور اسلامی وحدت خیال و عمل پائی جائے ۔ پس ہر وہ تنظیم جس کی مسلمانوں کو دعوت دے جائے انہیں سوچنا چاہیے کہ اس پر عمل پیرا ہو کر وہ کسی حد تک اپنے اسلامی مقاصد میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں؟ اس نقطۂ نظر سے ہم خاکساروں کا تنظیمی پروگرام دیکھتے ہیں تو ظاہر ہوتا ہے کہ اس میں شامل ہو جانے سے مسلمانوں کو فائدہ بہت کم اور مضرت شدید پہنچ جائے گی۔ فائدہ زیادہ سے زیادہ یہی ہوگا کہ اُن کو فوجی قواعد کی مشق ہو جائے گی اُن کے جسم ورزش کے اثر سے چست اور موزوں ہو جائیں گے۔ لیکن روحانی، اخلاقی اور اور دینی اعتبار سے ان کو جس ضرر عظیم کے پہنچ جانے کا اندیشہ ہے شاید مسلمانوں کے لیے اس وقت اُس کا تصور بھی دشوار ہے۔ ذرا سنجیدگی سے سوچیے ۔ آپ کو جو شخص اپنی رہنمائی میں لے کر چل رہا ہے وہ اپنے دینی عقائد اور ذاتی کیرکٹر کے لحاظ سے کس درجہ نا قابل اعتبار شخص ہے۔ پھر وہ آپ سے صرف یہ نہیں کہتا کہ میں اپنی تحریک سے تنظیم قائم کرنا چاہتا ہوں ۔ بلکہ علی الاعلان اور بڑے اصرار کے ساتھ وہ آپ کے اسلام کا مذاق اُڑاتا ہے، اُس پر پھبتیاں کرتا ہے، آیات میں کھلی تحریف کرتا ہے ۔ احادیث کا منکر ہے۔ اور دعوئی یہ کرتا ہے کہ میں مصنوعی اور رسمی اسلام کو مٹا کر نبوی اسلام کو قائم کرنا چاہتا ہوں ۔ ایسے شخص کی قیادت میں اگر آپ کسی تنظیمی تحریک کے ممبر ہوگئے ہیں تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کا معاملہ صرف جسمانی اور فوجی تنظیم تک محدود رہے گا اور اس سے گزر کر وہ آپ کے ایمان ، اخلاق اور اسلامی خصائل تک نہیں پہنچے گا ؟ پہنچے گا اور ضرور پہنچے گا۔ پس اگر آپ خاکسار تحریک میں شامل ہوتے ہیں تو زبان سے یہ کہہ کر اپنے نفس کو اور دوسروں کو فریب نہ دیجیے کہ آپ محض تنظیم کی خاطر اس میں شریک ہور ہے ہیں۔ بلکہ یقین کر لیجیے کہ آپ کے قائد کی بے راہ روی ایمان و عمل دونوں کے اعتبار سے ایک دن آپ کو تو ہلاکت میں گرا کر رہے گی۔
رہی چوتھی چیز یعنی خاکساروں کی دلیری و مردانگی اور اُن کی جفا کشانہ زندگی ، تو اس کے جواب میں آپ کو اصولی اعتبار سے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ خواہ کوئی عمل نی حد ذاتہ کتنا ہی اچھا اور لائق تحسین ہو لیکن اگر اُس کی بنیاد حسن نیست، پاک ارادہ اور مقصد خیر پر نہیں ہے تو ضابطہ اخلاق میں کبھی اُس کی تعریف نہیں کی جائے گی اور اُس کو فضائل میں شمار کرنے کے بجائے رزائل کی فہرست میں ہی شامل کیا جائے گا۔ آپ کو معلوم ہے جس طرح ایک جہاد کرنے والی فوج میں جذبہ ایثار و فدا کاری خاص ڈسپلن ، اطاعت امیر کا جذبہ، اور وحدت خیال و عمل پائی جاتی ہے، ٹھیک اسی طرح ڈاکوؤں اور لٹیروں کی منظم اور باقاعدہ جماعت میں بھی یہی اوصاف پائے جاتے ہیں، پھر دلیری و پامردی جماعت تھہ کی ہی خصوصیت نہیں، بعض اوقات باطل پرست بھی حق کے مقابلہ میں حیرت انگیز شجاعت وبسالت کا اظہار کرتے ہیں۔ اس میں شک نہیں ان افعال کو علم الاخلاق کی روشنی میں شجاعت سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا ۔ لیکن یہ واقعہ ہے کہ یہ افعال شجاعانہ ضرور ہوتے ہیں ، اور اس بنا پر وہ دیکھنے والوں اور سکنے والوں کے دلوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
جن لوگوں نے خوارج کی تاریخ پڑھی ہے وہ جانتے ہیں کہ یہ فرقہ سرتا سر گمراہ ہونے کے باوجود اپنے خیالات و عقائکہ میں نہایت راسخ تھا۔ ان کے مرد تو مرد، عورتیں تک اس درجہ پختہ خیال اور دلیر تھیں کہ اُن کو شدید سے شدید جسمانی اذیتیں پہنچائی گئیں۔ ان کے اعضاء کاٹ کاٹ کر دو پہر کے وقت نیتے ہوئی ریت پر انہیں تڑپنے اور سکنے کے لیے کھلے میدانوں میں ڈال دیا گیا۔ لیکن ایک لحظہ کے لیے اُن کے خیالات میں تذبذب پیدا نہیں ہوا، اور یونہی تڑپ تڑپ کر جان دے دی۔ حجاج ثقفی ایسا ظالم و جابر اموی گورنران پر طرح طرح کی سختیاں کرتا تھا، لیکن یہ پھر بھی اپنے اعمال وافکار سے باز نہیں آتے تھے ۔ دور کیوں جائیے ، ایران کے فرقہ باہی کو دیکھیے ان کو کیسی کیسی سختیوں سے دوچار ہونا پڑا۔ لیکن یہ لوگ اپنے عقائد و خیالات سے تائب نہیں ہوئے ۔
ان حالات میں آپ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ لوگ بڑے مستقل مزاج تھے اپنے خیالات میں نہایت مضبوط اور پختہ تھے۔ لیکن یہ تو نہیں کر سکتے کہ اُن کے استقلال کو دیکھ کر اُن کے خیالات و عقائد کو بھی قبول کر لیں۔ بس اس پر خاکساروں کی بہادری اور جانبازی کو قیاس کر لیجیے۔ اس جماعت نے جس انداز سے بلند شہر اور لاہور کے واقعات میں اپنے سینہ پر گولیاں کھائیں اور جان دی ہر شخص کو پورا حق ہے، اس حادثہ پر اظہار افسوس کرے نہ صرف اظہار افسوس کرے بلکہ اپنے دل میں اُس کی چھین محسوس کرے۔ تاہم اس سے متجاوز ہو کر یہ نتیجہ نکالنا کہ انہوں نے جس تحریک کی خاطر یہ اقدام کیا ہے، وہ بھی درست اور صحیح ہے۔ سراسر ایک خطرناک مغالطہ اور ہلاکت انگیز ذہنی عدم توازن ہے۔
جن لوگوں نے نفسیات اجتماع کا مطالعہ کیا ہے انہیں معلوم ہوگا، موسیو لیبان کے نظریہ کے مطابق کسی تحریک کے قائد کا سب سے بڑا کمال یہ ہے کہ وہ اپنے زور تقریر یاز در تحریر سے اپنے پیروں کے دل ودماغ کو اس درجہ مفلوج کر دے کہ وہ بے سوچے سمجھے اُس کی آواز پر لبیک کہنے کے لیے ہر وقت تیار رہیں۔ یہاں تک کہ انہیں اس راہ میں اپنی جانیں تلف کر دینے میں بھی دریغ نہ ہو۔ پس آج کل یہی حال خاکسار تحریک کا ہے۔ ایک آواز ہے جس کے پیچھے لوگ دوڑے چلے جارہے ہیں۔ ایک حکم ہے جس کی تعمیل میں اپنے اپنے وطنوں اور گھروں کو خیر باد کہہ کر چند ہزار انسان سر سے کفن باندھ کر نکل پڑے ہیں۔ ایک نغمہ ہے جس کے زیرو بم پر سنے والے رقص کر رہے ہیں۔ لیکن یہ کوئی نہیں دیکھتا کہ انہیں کس چیز کی طرف بلایا جا رہا ہے۔ انہیں شہد و انگیں کا جو جام دیا گیا ہے ، اُس میں کہیں زہر تو ملا ہوا نہیں ہے۔ اور انہیں جس راہ پر لے جایا جا رہا ہے کہیں اُس کی انتہا ہلاکت و بربادی کے ہولناک غاروں پر تو نہیں ہوتی ۔ جس طرح ایک مجاہد فی سبیل اللہ میدان جنگ میں اپنی جان دیتا ہے۔ اسی طرح دنیا کی مصیبتوں سے ایک تنگ آیا ہوا انسان بھی دشنہ خنجر سے اپنی زندگی ختم کر دیتا ہے ۔ مگر پھر یہ کیا ہے کہ ایک کے لیے فردوس دنعیم کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اور خدا وندی انعام واکرام کا ہاتھ اُس کو حیات جاوید کا خلعت زریں پہنا دیتا ہے۔ اور اس کے برخلاف دوسرے کے لیے خود کشی کے جرم میں دائمی نکبت وخسران کی سزا تجویز کی جاتی ہے اور ایسا کرنے میں قدرت کو اس بات کا خیال بھی نہیں آتا کہ اس شخص نے دنیوی مصائب سے تنگ آکر اپنی زندگی کا خاتمہ کیا تھا، اس کی وجہ بجز اس کے اور کیا ہے کہ جو شخص جذبات کی رو میں بہہ کر عقل سے کام نہیں لیتا اور اپنے ہوش وحواس معطل کر کے بیٹھ جاتا ہے وہ یقیناً قانون قدرت کا مجرم ہے اور اس لیے اُس کو سزا ملنی چاہیے۔
پس ضرورت اس بات کی ہے کہ آپ سنجیدگی اور متانت کے ساتھ خاکسار تحریک کے بنیادی اصول پر غور کریں اور اس کے بانی کی صحیح ذہنیت سے واقفیت بہم پہنچا ئیں ۔ اُس کے اقوال و اعمال کو عقل و شریعت کی روشنی میں پر کھنے اور جانچنے کی سعی کریں، اور اس تحریک کے تمام پہلوؤں کا تجزیہ کر کے یہ معلوم کریں کہ اس میں شامل ہونے سے آپ کو فائدہ کتنا ہوگا اور نقصان کس قدر؟ اور پھر اگر آپ کی تحقیق سے یہ ثابت ہو کہ فائدہ سرسری اور عارضی ہے اور نقصان شدید اور مستقل تو آپ کو یہ فیصلہ کر لینا چاہیے کہ نہ آپ خود اس میں شریک ہوں گے ۔ اور نہ اپنے کسی بھائی کو اس میں شامل ہونے کی اجازت دیں گے۔