عدم تشددیا صبر
ماہنامہ البرہان دسمبر 1939ء
ہندوستان کے موجودہ عالم بے بسی و مجبوری میں تشدد پر کچھ لکھنا لکھانا ایسا ہی ہے جیسا کہ کسی طائر قفس کا اپنے صیاد کی طرف تھی ہوئی چونچ اور ٹوٹے ہوئے پنجوں سے اشارہ کرنا، یا کسی شیر عرین کا کٹھری میں بند ہونے کی حالت میں آزاد شیر کی طرح گونجنا اور عمرانا لیکن گاندھی جی جو اس زمانہ میں عدم تشدد کے سب سے بڑے داعی ہیں اُنہوں نے گذشتہ ڈیڑھ دو ماہ میں اپنے اس عقیدہ کی اس زور شور سے تبلیغ واشاعت کی ہے کہ ہمارے بعض نوجوان بھی اُس سے متاثر ہو گئے ہیں۔ اگر گاندھی جی اس نظریہ کو اپنے تک ہی محدود رکھتے تو ہمیں اُس سے تعرض کرنے کی چنداں ضرورت نہ تھی، لیکن اُنہوں نے اپنے بعض جدید مضامین میں قرآن مجید کا اور بعض قومی کارکن مسلمانوں کے عمل کا بھی حوالہ دیا ہے۔ اور اس سے یہ ثابت کرنا چاہا ہے کہ اُن کے عدم تشدد کے نظریہ کی تائید خود اسلام کی تعلیمات سے ہوتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ گاندھی جی اس مسئلہ میں صحیح راستہ پر نہیں ہیں ۔ اور انہوں نے اسلام کی تعلیمات کو درمیان میں رکھ کر ایک ایسی جرات کی ہے جو اُن کو نہیں کرنی چاہیے تھی۔ اس لیے تشدد کے بارے میں اسلام کا جو نظریہ ہے ہم ذیل میں اُس کو نہایت مختصر طریقہ سے بیان کر دینا ضروری سمجھتے ہیں تا کہ گاندھی جی اور اُن کے ہم عقیدہ لوگوں کو جو غلط فہمی پیدا ہو گئی ہے وہ دور ہو سکے ۔
سب سے پہلے یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ اسلام دنیا کا سب سے زیادہ مکمل اور فطری مذہب ہے اُس نے جو عالمگیری حاصل کی اُس کا راز صرف اس حقیقت میں مضمر ہے کہ اُس کی تعلیمات کی بنیاد ایسے مستحکم اصول پر قائم ہے جو انسان کے نفسیاتی احساسات اور اُس کے فطری طبعی رجحانات میں کوئی تصادم پیدا نہیں کرتے ۔ بلکہ اُن کو ایک ہموار سطح پر لا کر معتدل بنا دیتے ہیں۔ فلسفہ اخلاق کے پیش نظر دنیا کی تمام اچھائیوں کی بنیاد عدالت پر قائم ہے، اور عدالت کے معنی ہیں کسی چیز کی نسبت کوئی حکم لگاتے وقت اُس کی جانب افراط و تفریط میں ایک ایسا توازن و تناسب قائم رکھنا جس کی وجہ سے اُس چیز کے تمام پہلوؤں میں ہم آہنگی اور یکسانیت پیدا ہو جائے ۔
آپ اسلام کی تمام تعلیمات کو فردا فردا دیکھ جائیے ، آپ کو معلوم ہوگا کہ وہ سب کی سب خواہ انفرادی زندگی سے متعلق ہوں یا اجتماعی زندگی سے اسی عدالت پر قائم ہیں۔ اُن سے ذرا ہلے تو آپ کا قدم افراط میں جا پڑے گا یا تفریط کے غار میں آپ اوندھے منہ گر پڑیں گے۔ اسی رعایت عدالت کی بنیاد پر اُس نے لوگوں کو دعوت دی کہ اگر تم حقیقی امن و امان چاہتے ہو تو وہ تمہیں صرف اسلام کے سایہ میں مل سکتا ہے۔
قرآن مجید میں بار بار فتنہ و فساد پھیلانے کی سخت مذمت کی گئی ہے اور لوگوں کو تلقین کی گئی ہے کہ وہ صلح وصفائی اور امن و آشتی کے ساتھ رہیں۔ ،
ارشاد ہے:
وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ
تم زمین میں فساد پھیلاتے مت پھرو۔
وَلَا تَتَّبِعُ سَبِيلَ الْمُفْسِدِينَ
آپ فساد پروازوں کے راستہ پر نہ چلیے ۔
إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ
تحقیق اللہ تعالی فتنہ پردازوں کو پسند نہیں کرتا ۔
ایک مقام پر فتنہ پروروں کی چند علامتیں بیان کرنے کے بعد اُن کی خدمت کی گئی ہے۔
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُعْجِبُكَ قَوْلُهُ فِي الْحَيَوَةِ الدُّنْيَا وَيُشْهِدُ اللَّهَ عَلَى مَا فِي قَلْبِهِ وَهُوَ الدُّ الْخِصَامِ وَإِذَا تَوَلَّى سَعَى فِي الْأَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيهَا وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ وَ اللَّهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادِ
اور بعض لوگ ایسے ہیں جن کی باتیں دنیا کی زندگی میں آپ کو بھلی معلوم ہوں گی اور وہ اپنے دل کے خیال پر خدا کو گواہ ٹھہراتے بھی ہیں لیکن (در اصل ) وہ دشمنوں میں سب سے زیادہ جھگڑالو ہیں۔ اور جب وہ آپ کے پاس سے لوٹ کر جاتے ہیں تو زمین میں ادھر سے اُدھر پھرتے ہیں کہ وہ فساد پیدا کریں اور کھیتوں اور انسان کی نسل کو ہلاک کر دیں۔ اور اللہ فساد کو پسند نہیں
فتنہ وفساد کی اس شدید مذمت کے ساتھ ساتھ اسلام نے یہ بتایا کہ انسان کی جان اس دنیا میں سب سے زیادہ قیمتی شے ہے، اُس کا احترام کرنا چاہیے ، اور بے جا قتل کر دینے کو سب سے بڑی معصیت قرار دیا۔
لیکن اسلام انسان کی فطرت سے اغماض نہیں کر سکتا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ انسان انسان ہے فرشتہ نہیں ۔ اس میں کسب خیر و شر دونوں کی صلاحیتیں موجود ہیں ۔ وہ جس طرح اپنے ملکوتی صفات کی وجہ سے انسان کہلانے کے با وجود مخدوم ملائک بن سکتا ہے ٹھیک اسی طرح کبھی وہ قوت شہری و فغضبی سے اس درجہ مغلوب ہو جاتا ہے کہ وعظ و ہند کے تمام حربے اُس کے لیے بے سود ثابت ہوتے ہیں اور خدا اور اُس کے احکام سے منحرف ہو کر کبھی اُس کی عقل و فہم پر گمراہی کے ایسے تاریک اور تو برتو پردے پڑ جاتے ہیں کہ ارشاد و ہدایت کی تمام کوششیں اُن کے اُٹھانے میں ناکام رہتی ہیں ۔ وہ اپنی شہوات و خواہشات کا غلام بن کر، اور انسانیت و شرافت کے تمام لوازم و آداب سے باغی ہو کر اللہ کی زمین میں فتنہ وفساد کا ہنگامہ گرم کر دیتا ہے، اور امن و صلح کی آبادی کو انسانوں کے خون سے رنگین کرنے میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کرتا ۔ اس مرحلہ پر پہنچ کر اسلام حکم دیتا ہے کہ جبر کا مقابلہ جبر سے کرو ۔ جو تمہارے منہ پر بے قصور و بے خطا طمانچہ رسید کرتا ہے تم بھی اُس کے منہ پر طمانچہ رسید کر دو۔ اسلام کی تعلیم کے اکمل اور عین مطابق فطرت ہونے کی دلیل یہ ہے کہ ایسے مواقع پر وہ ایک طرف تو یہ حکم دیتا ہے کہ طمانچہ کا جواب طمانچہ سے دو۔ تا کہ اُس کو پھر دوبارہ ایسی حرکت کرنے کی جرات نہ ہو۔ اور دوسری طرف وہ کہتا ہے کہ زیادتی ہرگز نہ کرو، ارشاد ہے:
إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ
اللہ تعالی زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔“
اسلام اُس ماہر ڈاکٹر کی طرح ہے جو مریض کے کسی عضو میں مادہ فاسد دیکھ کر کوشش کرتا ہے کہ اس عضو کو باقی رکھتے ہوئے ہر ممکن سے ممکن طریقہ پر اُس مادہ کا اخراج کردے۔ لیکن اگر اس کی یہ تمام کوششیں بیکار رہتی ہیں تو اُسے لا محالہ اُس عضو کو کاٹنا پڑتا ہے۔ اس عمل سے مریض کو یقینا تکلیف ہوتی ہے اور اُس کے جسمانی تناسب میں فرق بھی پیدا ہو جاتا ہے لیکن یہ تمام صعوبتیں صرف اس لیے برداشت کر لی جاتی ہیں کہ مریض کی بھلائی ، اور اُس کی عام صحت برقرار رکھنے کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ کا ر باقی نہیں رہتا۔ پس اسی طرحسوسائٹی کے بعض شریر افراد ، یا انسانی جماعت کا ایک شریر گروہ اس مادہ فاسد کی طرح پھیلنے اور بڑھنے لگے تو اُس کے انسداد کے لیے ایک آخری کوشش اس کے سوا کیا ہو سکتی ہے کہ اُس پر عمل جراحی کیا جائے ۔ تاکہ اُس کا اثر متعدی ہو کر دوسروں تک نہ پہنچے۔ جیسا کہ ابھی عرض کیا گیا تقل شریعت اسلام میں سب سے بڑا گناہ ہے۔ لیکن اگر فتنہ کے انسداد کے لیے تمام ارشاد و وعظ کی کوششیں ناکام ہو چکی ہوں تو پھر اسلام حکم دیتا ہے کہ مسلمانوں کو تلوار کے زور سے اس کا سر قلم کر دینا چاہیے۔ چنانچہ قرآن مجید میں ہے:
وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ
اور فتنہ قتل سے زیادہ سخت ہے ۔“
وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيْرَة يَأْولِي الْأَلْبَاب
اے عقل والو قصاص میں تمہاری زندگی ہے ۔“
قرآن کے اس حکم کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ اگر تم میں سے کوئی شخص کسی امر منکر کو دیکھے تو اُسے چاہیے کہ اپنے ہاتھ سے روک دے۔ اور اگر وہ اس کی طاقت نہیں رکھتا تو اپنی زبان سے اس کو روکنے کی کوشش کرے اور اگر یہ بھی اس کے بس میں نہیں ہے، تو پھر کم از کم دل سے ہی اُس کو نہ سمجھنا چاہیے، اور یہ سب سے کمزور درجہ کا ایمان ہے۔
اسلام کی ان تعلیمات کا حاصل یہ ہے کہ مسلمان اگر دنیا میں شروفساد اور ظلم و تعدی پاتے ہیں، تو اُن کو امن وامان قائم کرنے اور عام انسانی فلاح و بہود کی خاطر اس فتنہ کا سد باب کرنا چاہیے اور اُس کے لیے ہر ممکن ذرائع سے کام لینا چاہیے۔ یہاں تک کہ اگر کوئی اور چارہ کار باقی نہ رہے تو انہیں جبر اور تشدد سے اس کا استیصال کر دینا چاہیے ۔ اس طریق عمل سے چند شریر جانیں ضرور تلف ہوں گی لیکن عام انسانی سوسائٹی امن و عافیت کے ساتھ زندگی بسر کرنے کے قابل ہو جائے گی۔ اسلام یہ نہیں کہتا کہ تم آخر وقت تک ظالموں سے رفق و ملاطفت کا برتاؤ کرتے رہو، اور کسی حالت میں بھی اُن پر جبر نہ کرو۔
یہ ہے اسلام کی صحیح تعلیم ۔ اب اس کے مقابلہ میں گاندھی جی کا نظریہ عدم تشدد دیکھیے تو اُس کا حاصل یہ ہے کہ کسی حکومت کے ہاتھ میں خواہ کتنی ہی طاقت وقوت ہو، اُس کو کسی وقت بھی شروفساد کے استیصال کے لیے جبر و تشدد کا استعمال جائز نہیں ہے ، اُس کو کوشش یہ کرنی چاہیے کہ لطف اور مدارات سے فتنہ پروروں پر اخلاقی دباؤ ڈالے اور اُن کے ظلم وجبر کے مقابلہ میں اُس کی طرف سے کوئی جابرانہ کارروائی ہرگز نہ ہونی چاہیے۔۔۔
ببیں تفاوت رو از کجاست تا بکجا!
گاندھی جی کا جو نظریہ ہے وہ اُس کی تائید میں خواہ کیسے ہی فلسفیانہ دلائل پیش کریں لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ کبھی کسی قوم میں دائمی طور پر قابل عمل نہیں ہو سکتا۔ اس نظریہ کا مقصد یہ ہے کہ عدم تشدد کی راہ سے ظالم و جابر پر اخلاقی دباؤ ڈالا جائے ، اور اس طرح اُس سے حق بات کا اعتراف کرایا جائے لیکن یہ صرف وہیں ہو سکتا ہے جہاں روح میں زندگی اور اخلاق میں کوئی بیداری موجود ہو۔ دو لوگ جو پھر سے زیادہ سخت ہو گئے ہوں اور جن پر اخلاقی و روحانی موت طاری ہو چکی ہو ان سے کسی اخلاقی دباؤ سے متاثر ہونے کی توقع ایسی ہے جیسی کسی دیوار سے رونے یا کسی پتھر سے ہنے کی اگر ایک چٹان آپ کی الحاح و زاری سے اثر پذیر ہو کر آپ کے راستہ سے نہیں کہتی تو آپ کے پاس آگے بڑھنے کے لیے اس کے سوا کیا چارہ ہے کہ آپ زبردستی اُس کو وہاں سے دور کر دیں۔
کسی چیز کی حقیقت یا اُس کے حُسن پر فلسفیانہ نقطہ نگاہ سے بحث کرنا اس بحث سے بالکل مختلف ہوتا ہے، جو اُس کے عملی امکانات کو سامنے رکھ کر کی جائے ۔ بسا اوقات انسان فلسفہ کی عینک سے کسی چیز کو دیکھتا ہے تو وہ اُسے بڑی خوبصورت نظر آتی ہے۔ لیکن جب انسانی فطرت کا اقتضاء شدید ہوتا ہے تو خود اب اس سے اُس کے نظریہ کے خلاف افعال سرزد ہونے لگتے ہیں، یاد ہوگا ، سے بارہ تیرہ سال پہلے کی بات ہے گاندھی جی نے اپنے آشرم کے ایک سخت بیمار بچھڑے کو ایک زہریلی دوا کے انجکشن سے ہلاک کروادیا تھا۔ لوگوں نے اُس پر اعتراض کیا، تو انہوں نے کہا کہ بچھڑا انتہا درجہ بیمار تھا اور اُس کی زندگی کی کوئی توقع باقی نہیں رہی تھی۔ اس لیے میں نے یہ مناسب جانا کہ اُسے ہلاک کروا کر اُس کو بیماری کی مصیبت سے نجات دلا دوں ۔ کیا ہم پوچھ سکتے ہیں کہ اگر اس بچھڑے کی طرح بعض انسانوں پر اخلاقی موت طاری ہو جائے اور اُس سے اُن کے بچنے کی کوئی امید باقی نہ رہی ہو، تو ان کو گولی کا نشانہ بنادینا خلاف عدل و انصاف ہوگا ؟
یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اسلام نے جس تشدد کو نہ صرف جائز بلکہ واجب قرار دیا ہے اُس کا استعمال اُسی وقت جائز ہے جبکہ مسلمانوں کے ہاتھ میں طاقت وقوت ہو، اور وہ عظیم الشان جماعتی نقصان کے بغیر اس کو کام میں لاسکتے ہوں ۔ ورنہ اگر مسلمان کسی ملک میں انتہا درجہ مغلوب و محکوم ہوں تو اسلام اُن کے لیے یہ جائز نہیں رکھتا کہ وہ انفرادی طور پر تشدد کا استعمال کر کے اپنی جماعت کو عظیم نقصان میں مبتلا کر دیں ۔ ایسی حالت میں مسلمانوں کا یہ فرض ہوگا کہ وہ اس طرح کے تشدد سے الگ رہتے ہوئے زیادہ سے زیادہ خود مختارانہ طاقت حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ اور جب طاقت حاصل ہو جائے تو وہ ظالموں کی سرکوبی کر کے اُس سے غریبوں ، مظلوموں اور بے بسوں کی حفاظت اور ایک عالمگیر امن وامان قائم کرنے کا کام لیں۔
وَانْزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيْهِ بَأْسٌ شَدِيد".
اور ہم نے لوہا اتارا اُس میں سخت رعب ہے۔"
اس قسم کے موقع کے لیے فرمایا گیا ہے۔ اور جب تک انہیں طاقت حاصل ہو صبر اور استقلال سے کام لینا چاہیے ۔ گاندھی جی جس چیز کو عدم تشدد کہتے ہیں وہ وقتی اعتبار سے اسلامی اصطلاح کے ماتحت "صبر" پر تو منطبق ہو سکتا ہے لیکن وہ جس وسیع معنی میں عدم تشدد کا اطلاق کرتے ہیں اسلام کو اُس سے دور کا بھی تعلق نہیں ۔
گاندھی جی نے خان عبدالغفار خاں کا حوالہ دے کر تحریر کیا ہے کہ وہ نماز روزہ کے بڑے پابند ہیں اور سچے مسلمان ہیں، لیکن اس کے باوجود نظریہ عدم تشدد کے قائل ہیں۔ ہم کہتے ہیں اگر خان صاحب اس نظریہ کو اُسی تفصیل کے ساتھ قبول کرتے ہیں جو آپ بیان کرتے رہتے ہیں تو قبول کر لیں۔ بہر حال یہ واضح امر ہے کہ کسی مسلمان کے پابند نماز وروزہ ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اُس کا ہر فعل یا عقیدہ اسلام کی تعلیم کے عین مطابق ہے، ورنہ اگر یہ صحیح نہیں ہے تو کیا خان صاحب کے فرزند ارجمند نے سول میرج ایکٹ کے ماتحت جو ایک پارسی لڑکی سے شادی کی ہے، اُس کو بھی اسلامی اور شرعی طور پر جائز کہا جائے گا ؟
اخیر میں یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ ہم میں اور گاندھی جی میں اختلاف صرف اُس وقت سے متعلق ہے جبکہ ہمارے پاس حکومت اور طاقت ہو، ور نہ بحالت موجودہ تشدد کے بارے میں ہمارا اور اُن کا طرز عمل ایک ہی ہے۔ فرق اگر ہے تو یہی کہ ہم اپنی اصطلاح کے مطابق اپنی موجودہ غیر متشددانہ حالت کو صبر سے تعبیر کرتے ہیں اور وہ ایک خاص نظریہ کے پابند ہونے کے باعث اُسے " عدم تشدد کہتے ہیں۔ ہم جب کبھی آزاد ہوں گے دیکھا جائے گا۔ اس وقت تو ہم سب کا مشترک عمل یہ ہے۔
بے کاری جنوں کو ہے سر پیٹنے کا شغل
جب ہاتھ ٹوٹ جائیں تو پھر کیا کرے کوئی
(غالب)
یہ واضح رہنا چاہیے کہ ہماری یہ گفتگو تشدد کے عام معنی یعنی سخت گیری کے لحاظ سے ہے۔ آئندہ کسی فرصت میں ہم ایک مستقل مقالہ میں اس پر بحث کریں گے کہ اسلام میں جہاد اور حدود و قصاص وغیرہ کے جو احکام پائے جاتے ہیں اُن کو فلسفہ کی مخصوص اصطلاح " تشدد کے ماتحت تشدد کہا بھی جاسکتا ہے یا نہیں ، یا ان کو عدل کہنا زیادہ صحیح ہوگا۔ اور عدل اور تشدد اور اعتداء میں باہمی فرق کیا ہے اور اسلام ان میں سے کس کو جائز قرار دیتا ہے اور کس کو نا جائز !