.png)
خواتین اسلام کی بیداری
ماہنامہ البرہان اپریل 1940ء
آج ہر طرف ایک شور و غل بپا ہے کہ اب مسلمان خواتین کی حالت وہ نہیں رہی جو پہلے تھی اُن میں جہالت اور رسوم پرستی مفقود ہوتی جاتی ہے اور اُس کی بجائے علم وادب کی روشنی ، روشن دماغی اور آزاد خیالی کی حرارت پیدا ہو رہی ہے ۔ اس حالت کی تبدیلی پر بہ ظاہر مرد بھی خوش ہیں اور عورتیں بھی مسرور لیکن یہ کوئی نہیں دیکھتا ، اس پر کوئی غور نہیں کرتا کہ مسلمان خواتین کی بیداری واقعی اور اصلی بیداری ہے، یا یہ ہلاکت و تباہی کا پیغام ہے! کوئی پوچھے آج کل مسلمان خواتین کی بیداری کی پہچان کیا ہے؟ تو اس کا جواب بجز اس کے اور کیا ہو سکتا ہے کہ وہ پہلے سیاسی جلسوں کے پلیٹ فارموں پر نظر نہیں آتی تھیں، سیر گاہوں میں انہیں کوئی بے حجاب و بے نقاب مصروف گلشن خرامی نہیں دیکھ سکتا تھا۔ تھیٹروں اور سینماؤں میں وہ انبوه در انبوہ نظر نہ آتی تھیں، اجانب و اغیار کی محفلوں میں انہیں بیبا کا نہ لب کشائی کرتے ہوئے جھجک محسوس ہوتی تھی ۔ کالجوں اور اسکولوں میں اُن کی چہل پہل نہ تھی ، اخباروں میں اُن کے فوٹو شائع نہ ہوتے تھے ۔ ادبی رسالوں میں اُن کی قلمی شوخ نگاریاں پڑھنے والوں کے دل ودماغ پر برقپاشی نہ کرتی تھیں۔ وہ صرف گھر کی ملکہ ہو کر رہنا جانتی تھیں ۔ انہیں اپنے کمالات نسوانی کی جلوہ گاہ بنانے کے لیے گھر سے باہر کسی اور میدان کی جستجو نہ تھی۔ لیکن آج حالات نے پلٹا کھایا ہے ، زمانہ آزادی کا ہے۔ مذہب اور اخلاق کی قید و بند ہی کوئی برداشت نہیں کر سکتا ہے تو عورتیں ہی کیوں گھروں میں بند ہو کر رہیں وہ بھی آخر مردوں کی طرح انسان ہیں ۔ انہیں بھی حق ہے کہ گلزار ہست و بود کا ایک ایک پھول بہ نظر عمیق دیکھیں اُس کی مست کن بو سے قوت شامہ کی تواضع کریں، اور ہاں عالم ہمہ تن ایک میکدہ شعر و موسیقی ہے، عورتوں کو بھی فطرۂ یہ حق ا چاہیے کہ اُس کے نمائے سامعہ نواز سے کیف وسرور حاصل کریں ۔ ان خیالات کی پختگی کا نتیجہ یہ ہے کہ اب وہ دور جمود و جہل“ خواب پریشاں ہو کر ہونا نگاہوں سے غائب ہوتا جا رہا ہے۔ اور بیداری کا اثر جتنا جتنا غالب ہوتا جاتا ہے عهد حریت و آزادی کے اثرات زیادہ نمایاں ہوتے جارہے ہیں ۔ آج مسلمان عورت کو تنگ خیالی و تنگ نظری کا طعنہ کون دے سکتا ہے ! اب پلیٹ فارموں پر ان کی دھواں دھار تقریریں ہوتی ہیں ، اور پسِ پردہ نہیں بلکہ گھلے اسٹیج پر سب کے سامنے کالجوں کی رونق اُن کے دم سے ہے۔ کلبوں میں اُن کی خوش اخلاقی اور خوش تقریری کے چرچے ہیں۔ سینماؤں اور تھیٹروں کے دیکھنے کا کیا ذکر، انگلینڈ کے سابق وزیرا عظم کی لڑکی یا بہو فلم ایکٹریس ہو سکتی ہے تو شریف گھرانوں کی تعلیم یافتہ مسلمان خواتین اس فخر سے کیوں محروم رہیں ناچ گھروں میں انہیں دیکھا جاسکتا ہے۔ پارکوں میں وہ نہایت بیبا کی اور دیدہ دلیری کے ساتھ خرام کرتی ہوئی نظر آسکتی ہیں۔ فوٹو اُن کے چھتے ہیں، مشاعروں میں شوخ غزلیں وہ سناتی ہیں۔ غرض یہ ہے کہ آج مسلمان خواتین موجودہ تہذیب و تمدن کی اُن تمام نعمتوں سے بہرہ اندوز ہورہی ہیں جواب تک صرف خواتین، فرنگ کا حصہ تھیں یا کچھ تھوڑا بہت اُن کا اثر ہندو خواتین میں بھی پایا جاتا تھا۔ سُن لیا آپ نے ! یہ ہے خواتین اسلام کی بیداری!
اس میں شبہ نہیں اس دور تفرنج میں بھی ایسی نیک دل مسلمان خواتین کی کمی نہیں ہے جو واقعی " آئیڈیل مسلم خاتون کہی جاسکتی ہیں۔ اور جنہیں صحیحمعنی میں بیدار دل و بیدار مغز کہا جا سکتا ہے ۔ لیکن مشکل یہ ہے ان غریبوں کو مسلمان خواتین کی نمائندگی حاصل نہیں۔ وہ گوشتہ گمنامی میں پڑی ہوئی ہیں اور انہیں مسلم سوسائٹی میں کوئی وقیع درجہ میسر نہیں۔ جب کبھی مسلمان خواتین کی بیداری کا ذکر کیا جاتا ہے تو مثال میں وہ خواتین پیش کی جاتی ہیں جو مسلمان ہونے کے باوجود جدید تہذیب و تمدن کی خصوصیات سے پورے طور پر بہرہ اندوز ہو رہی ہیں، اور جن کے حُسنِ بے حجاب کا شہرہ ہندوستان کی حدود سے گزر کر ہے امریکہ و یورپ تک پہنچ چکا ہے۔ اس بنا پر نتیجہ یہی لکھتا ہے کہ آپ کے نزدیک مسلمان خواتین کی بیداری کا مفہوم اس سے زیادہ نہیں ہے کہ وہ اسلامی وضع قطع ، اسلامی آداب معاشرت ، اور اسلامی طریق بود و ماند چھوڑ کر مغربیت کے رنگ میں رنگی جارہی ہیں، اور ان کا میدان عمل درون خانہ کے بجائے بیرون در بنتا جا رہا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ مسلم خواتین کی یہ حالت کیا واقعی ان کی بیداری کی دلیل ہے۔ کیا دراصل ان کی اس تبدیلی پر ہمیں خوش ہونا چاہیے جیسا کہ عموماً آج کل کے مردانہ اور زنانہ جلسوں میں اس کا اظہار کیا جاتا ہے۔ یا یہ صورت حال پوری قوم کی روحانی واخلاقی موت کی نشانی ہے ۔ اور اس لیے اس پر جتنا بھی ماتم کیا جائے کم ہے۔ بعض لوگ عورتوں کی حمایت میں تقریر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کیا عورتیں مردوں سے کم ہیں جو ایک چیز مرد کے لیے تو جائز ہو اور عورت کے لیے ناجائز اس قسم کے اصحاب کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہمارے نزدیک ضابطہ اخلاق و مذہب کی پابندی کے لحاظ سے مرد و عورت میں کوئی فرق نہیں ہے۔ شریعت اسلام نے جن بُری باتوں کو مرد کے لیے ممنوع قرار دیا ہے وہ عورتوں کے لیے بھی ممنوع ہیں، اور جو افعال حسنہ مرد کے لیے مستحسن سمجھے گئے ہیں وہ عورتوں کے لیے بھی مستحسن ہیں۔ جھوٹ بولنا ،غیبت کرنا ، شراب خواری، زنا کاری، غداری و بے وفائی کی حرمت میں مرد و عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں۔ مرد کے لیے جس طرح اجنبی عورت پر بری نگاہ ڈالنا حرام ہے ۔ عورت کے لیے بھی جائز نہیں کہ وہ کسی اجنبی مرد کوئری نیت سے دیکھے ۔ یہی حال تعلیم اور معاشرت کا ہے۔ جدید تعلیم اپنے مخصوص ماحول اور نصاب کے ساتھ جس طرح مردوں کے لیے مضر ہے۔ عورتوں کے لیے بھی اتنی ہی بلکہ اُس سے زیادہ نقصان رساں ہے۔ اسی طرح مغربی معاشرت مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے تباہ کن ہے۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ کپڑا زیادہ اُجلا اور صاف ہوتا ہے تو ایک معمولی سا دھبہ بھی اُس میں بہت زیادہ نمایاں ہو کر اُس کی حیثیت کو بگاڑ دیتا ہے۔ عورت فطرہ آئینہ تمثال ہے اور غالبا اسی بنا پر زبانِ نبوت نے اُس کو قواریر ( آبگینے) کہا ہے۔ اور انگریزی میں اُسے "صنف لطیف " (Sex) کہا جاتا ہے ۔ اس لیے اگر اُس میں ذراسی بھی بداخلاقی اور بد تمیزی پیدا ہوتی ہے تو وہ مردوں سے زیادہ اس کو بد نما کر دیتی ہے اور اُس کی اصلی شرافت و نجابت کو سخ کر کے طبقہ اردل میں شامل کر دیتی ہے۔
پس اگر کوئی مصلح یہ کہتا ہے کہ جدید تعلیم اور جدید تہذیب مسلمان عورتوں کے لیے زہر ہلاہل ہے تو اُس کے معنی یہ ہرگز نہیں ہو سکتے کہ یہ چیزیں عورتوں کے لیے ممنوع اور مردوں کے لیے جائز ہیں اور نہ اس سے یہ نتیجہ نکالنا صحیح ہو سکتا ہے کہ عورتیں مردوں سے کم مرتبہ اور ان سے فروتر ہیں ۔ اس عام ممانعت میں مرد وعورت کے فرق و امتیاز مراتب کا سوال اُٹھانا سراسر بے محل و بے موقع ہے۔
جہاں تک اصل تعلیم کا تعلق ہے اس سے کوئی سلیم الفطرت انسان انکار نہیں کر سکتا کہ وہ مرد و عورت دونوں کے لیے ضروری اور لازمی ہے۔ اسلام جو دین فطرت ہے وہ اس ضرورت سے کس طرح انکار کر سکتا تھا۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ تعلیم تعلیم کے مقصد کے ماتحت ہو جس سے پاکیزہ اخلاق پیدا ہوں، اچھے مرے کی تمیز ہو، زندگی کو کامیاب طریقہ سے بسر کرنے کی راہیں معلوم ہوں ۔ اور جس سے ایک انسان حقیقی انسانیت کے مرتبہ عظمی سے شرف اندوز ہو سکے جو تعلیم اس مقصد کے حاصل کرنے کا قوی ذریعہ بن سکتی ہے وہی کچی اور اصلی تعلیم ہے اور اس کے استحسان ووجوب میں مرد وعورت کا کوئی فرق نہیں ہے۔ ہاں چونکہ تعلیم کا تعلق انسانی زندگی کے وظائف واعمال سے ہے اس لیے تعلیم شروع کرنے سے قبل یہ معلوم کر لینا ضروری ہوگا کہ طبعی قومی ، فطری استعداد ، اور اسباب ممکنہ حاصلہ کے اعتبار سے مرد کے وظائف زندگی کیا ہیں، اور عورت کے کیا! اگر آپ ان وظائف زندگی میں فرق و امتیاز نہیں کرتے تو اُس کے صاف معنی یہ ہیں کہ آپ مرد کے مرد اور عورت کے عورت ہونے سے انکار کر رہے ہیں، یہ انکار آپ کی فطرت ناشناسی کی کھلی دلیل ہے اور اب اس انکار کی بنیاد پر آپ کے جتنے مطالبات اور دعاوی ہوں گے وہ سب غلط اور بے بنیاد قرار دیے جائیں گے۔ عورت اور مرد کا صنفی اختلاف و تبائن تو بڑی چیز ہے آپ ایک صنف کے تمام افراد کے لیے یکساں حکم نہیں لگاتے۔ بہتیرے بچے جو طبعا صنعت و حرفت کی طرف میلان رکھتے ہیں۔ آپ تسلیم کرتے ہیں کہ اُن سے لٹریچر میں اعلیٰ مہارت و قابلیت کی توقع نہیں ہو سکتی ۔ اسی طرح جو بچے فطرہ لٹریچر کا ذوق رکھتے ہیں اُن کو سائنس اور کیمیا کی اعلیٰ تعلیم دلانا وقت کو بے کار اور ضائع کرنا ہے پس جب آپ خود مردوں کی صلاحیتوں اور استعدادوں کے اختلاف کو نظر انداز نہیں کر سکتے تو مرد و عورت کے صنفی اختلاف کو کس طرح نظر انداز کر سکتے ہیں۔ اسلام کا طرہ امتیاز یہ ہی ہے کہ اُس نے کسی حالت میں بھی فطرت کی صحیح صلاحیتوں اور اُن کے باہمی اختلاف کو نا قابل اعتنا قرار نہیں دیا۔ اسلامی نقطہ نظر کے ماتحت تعلیم جس طرح مرد کے لیے ضروری ہے اسی طرح عورت کے لیے بھی۔ لیکن دونوں کی تعلیم کا مقصد جداجدا ہے ۔ مرد کی تعلیم کا مقصد ہے کہ وہ اپنے فرائض و وظائف زندگی سے واقفیت بہم پہنچائے ۔ اور نہ صرف واقفیت ، بلکہ اُس میں اخلاق اور کیرکٹر کی ایسی مضبوطی پیدا ہو جائے کہ وہ بے تکلف اچھے اعمال کو اختیار اور نمرے اعمال کو ترک کر سکے۔ ٹھیک اسی طرح عورت کی تعلیم کا مقصد یہ ہے کہ وہ اپنے وظائف وفرائض زندگی سے آگاہ ہو اور ان کو صیح طور پر بجالانے کی اخلاقی قوت اُس میں پیدا ہو جائے ۔ اس مرحلہ پر ضروری ہے کہ آپ پہلے عورت کے فرائض و وظائف حیات کی تحقیق وتنقیح کر لیں اور پھر اس کی روشنی میں اُن کے لیے ایک مکمل نصاب تعلیم و طریقہ کی تعیین کر دیں ۔ یہ حقیقت فراموش نہ ہونی چاہیے کہ نصاب تعلیم کی تعیین بھی ایک نہایت ضروری امر ہے، ور نہ اندیشہ ہے کہ طریقہ تعلیم کے ناقابل اطمینان ہونے کے باعث تعلیم پر ایسے نتائج مرتب ہو جائیں جو تعلیم کے مقاصد کے سراسر خلاف ہوں۔ اور بجائے کعبہ کی طرف رہنمائی کرنے کے ترکستان کی سمت لے جائیں۔
تھوڑی دیر کے لیے سنجیدگی اور متانت سے اس مختصر گزارش پر غور کیجیے اور پھر بتائیے کہ آج جو کچھ ہورہا ہے کیا واقعی وہ مسلمان خواتین کی بیداری سے تعبیر کیے جانے کا مستحق ہے۔ مرد کی تعلیم کا کمال یہ ہے کہ وہ بجا طور پر مردانہ اوصاف و شمائل سے آراستہ ہو۔ ٹھیک اسی طرح عورت کی تعلیم کا مقصد یہ ہونا چاہیۓ کہ وہ بالکل صحیح معنی میں مکمل عورت ہو ۔ لیکن آج ہماری بچیوں کو انگریزی اسکولوں اور کالجوں میں جو تعلیم دی جاتی ہے۔ کیا وہ اُن کی تحصیل نسائیت کر سکتی ہے ؟ نتائج ہمارے سامنے ہیں ، ہر شخص دیکھ رہا ہے کہ مخصوص ماحول میں انگریزی تعلیم حاصل کرنے کے جو اثرات لڑکیوں پر مترتب ہو رہے ہیں وہ اسلامیت اور مشرقیت تو کجا خود ان کے جوہر نسائیت کو بُری طرح پامال کر رہے ہیں۔ شاید لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ عورت اور مرد کی اجتماعی زندگی کا دارو مدار صنفی جذب وانجذ اب پر ہے، اور یہ جذب وانجذاب اُسی وقت باقی رہ سکتا ہے جب که صنفی اختلاف وتبائن کے مطابق دونوں کو ایک مخلوط سوسائٹی میں منظم نہ کیا جائے۔ ورنہ اگر مقناطیس لوہے سے الگ اور دور نہیں ہے تو پھر نہ مقناطیس کی قوت جذب کا اظہار ہو سکتا ہے اور نہ لوہے کی قوت انجذاب کا ۔ آج یورپ خانگی زندگی کے اعتبار سے جو بر باد و تباہ حال ہے۔ غور کیا جائے تو اُس کا اہم سبب یہی ہے کہ اُس نے اس نفسیاتی حقیقت کو بالکل نظر انداز کر دیا۔ اب وہاں عورت اور مرد دونوں اس طرح ملے جلے رہتے ہیں کہ دونوں صنفوں کا باہمی جذب و انجذاب بالکل فنا ہو کر رہ گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ میں اب مردوں کا ایک ایسا طبقہ بھی پیدا ہوتا جاتا ہے جو شادی کو انتہائی نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اس طبقہ کا خیال ہے کہ شادی تو مرد کی عورت سے ہوتی ہے۔ اور جب عورتیں عورتیں ہی نہ رہیں تو پھر مرد شادی کس سے کریں۔ عورتوں کی اس آزادی مفرط کے باعث یورپ کے فلاسفہ عجیب و غریب قسم کی خیال آرائیاں کر رہی ہیں ایک فلسفی نے اپنا خیال ظاہر کیا ہے کہ اب وہ زمانہ جلد آجائے گا جبکہ مردوں میں زنانہ اوصاف پیدا ہو جائیں گے یہاں تک کہ داڑھیاں بھی اُن کی بجائے عورتوں کے نکلا کریں گی۔ بہر حال انگریزی میں جو آئے دن معاشرتی ناول اور کتا بیں شائع ہوتی رہتی ہیں اُن کا مطالعہ کیجیے تو معلوم ہوگا کہ ”تحریک آزادی نسواں کے ماتحت عورتوں کی آزادی مفرط کسی طرح یورپ کے لیے وبال جان بنی ہوئی ہے۔
عربی کا ایک مقولہ ہے السعيد من وعظ لغيره - خوش نصیب وه ہوتا ہے جو دوسروں کو دیکھ کر نصیحت حاصل کرے۔ تو کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ مسلمانوں کے ارباب فکر زہر اور تریاق میں امتیاز پیدا کریں۔ آخر یہ کیا غضب ہے کہ مسلمان خواتین غلط تعلیم ، غلط تربیت ، اور غلط طریقہ معاشرت کے اثر سے ہلاکت و بربادی کی طرف تیزی سے دوڑ رہی ہیں۔ اور اپنے ساتھ تمام قوم کی قومی نجابت و شرافت کو فرق کیے دے رہی ہیں۔ لیکن پھر بھی آپ کی آنکھ نہیں کھلتی ، اور آپ ان کی اس تبدیلی کو بیداری سے ہی تعبیر کر رہے ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مذہب کا سچا درد رکھنے والے حضرات پورے جوش وخروش سے انہیں زنانہ تعلیم کا پورا نظام غیر اسلامی سیادت کے پنجے سے نکال کر اپنے قبضہ میں لیں ۔ مغرب زدہ خواتین کا جواب ان پڑھ اور جاہل خواتین نہیں ہوسکتیں ، بلکہ اُن کا صحیح جواب وہ ہی خواتین اسلام ہو سکتی ہیں جو اعلیٰ تعلیم کے ساتھ اسلامی وضع قطع اور اسلامی طرز معاشرت کی پابند ہوں ۔ فهل من مدکر ۔