گاندھی فلسفہ حیات اور مسلمان
ہندوستان ٹائمنز مورخه ۱۱ اگست ۱۹۳۹ء میں اچاریہ بے بی کر پلانی جنرل سکرٹری آل انڈیا کانگریس کمیٹی کا ایک مضمون " گاندھی جی کا راستہ ( The Gandhian way) کے عنوان سے شائع ہوا ہے جس کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ وہ اُن کی کسی کتاب کا ایک باب ہے۔ مضمون میں جن خیالات و آرا کا اظہار کیا گیا ہے ہر چند کہ وہ شخصی اور انفرادی حیثیت رکھتے ہیں اور اس لیے ایک جماعتی اصول و آئین پر اُن کو اثر انداز نہ ہونا چاہیے۔ لیکن کسی جماعت مقتدرہ کے جنرل سکرٹری کی حیثیت عام ممبروں سے ممتاز ہوتی ہے اور اُس کے مخصوص فرائض کے اعتبار سے اُس کے لیے ضروری ہے کہ وہ تمام شرکاء جماعت کی نگاہ میں معتبر اور قابل اعتماد ہو ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اچاریہ جی کے اس مضمون نے جہاں ایک طرف خود ان کی ذات کے متعلق مسلمانوں میں بے اعتمادی پیدا کر دی ہے تو دوسری طرف چونکہ اُنہوں نے اس مضمون میں کانگریس کے نقطۂ نظر کی ترجمانی کی ہے جس کے وہ جنرل سکرٹری ہیں۔ اس لیے جب تک کانگریس کی ورکنگ کمیٹی ان خیالات کی تردید نہیں کرتی لوگ یہ سمجھنے پر مجبور ہیں کہ اچار یہ کر پلانی کے ان خیالات کی حیثیت محض ذاتی نہیں بلکہ جماعتی ہے۔ اس تنقیح کے بعد ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ ان خیالات پر غور کرے اور یہ معلوم کرنے کی کوشش کرے کہ وہ کسی حد تک ان خیالات کے ساتھ اتفاق کر سکتا ہے۔
مضمون کی اصل اسپرٹ یہ ہے کہ کانگریس پہلے صرف ایک سیاسی جماعت تھی اور اس لیے اس میں سیاسی اعتبار سے متحد الخیال لیکن معاشرت میں شدید اختلاف رکھنے والے لوگ مساویانہ حیثیت سے شریک ہو سکتے تھے لیکن جب سے کانگریس گاندھی جی کے زیر اثر آئی ہے وہ صرف ایک سیاسی جماعت نہیں رہی بلکہ اس کے تمام کل پرزے گاندھی جی کے مخصوص فلسفہ حیات کے الکرک اسٹیم سے متحرک ہونے لگے ہیں اور اُس کا دائرہ عمل سیاست کی حد بندیوں کو توڑ کر معاشرت ، اخلاق ، اور روحانیت ان سب کو محیط ہو گیا ہے گاندھی جی ہندوستان میں جو ایک ہمہ گیر انقلاب ایسا ہمہ گیر کہ زندگی کا کوئی شعبہ اُس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہے پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ اُس کے لیے اُنہوں نے کانگریس کو آلہ کار بنایا ہے اور وہ بڑی حکمت عملی کے ساتھ تدریجی طور پر یہ انقلاب پیدا کر رہے ہیں یعنی انہیں اپنے ہمہ گیر انقلابی پروگرام کو عمل میں لانے کے لیے جیسے جیسے مواقع میسر ہوتے جاتے ہیں، اور اُس کے لیے سہولتیں بہم پہنچتی رہتی ہیں انہیں کے مطابق وہ اپنے پروگرام کو چلانے میں کامیاب ہوتے جاتے ہیں۔ چنانچہ کانگریس نے جونہی وزارت قبول کرنے کا فیصلہ کیا گاندھی جی نے فورا انسداد شراب نوشی اور تعلیمی اصلاح کا پروگرام پیش کر دیا اور کانگریس وزارتوں کے ہاتھ سے اُس کو نافذ کرایا۔ اسی طرح اُن کی مختلف معاشرتی تحریکات مثلاً دیبات شدھار ، اچھوت اُدھار وغیرہ سب اسی قسم کی تحریکیں ہیں جو خالص معاشرتی اور معاشی تحریکات میں لیکن اُن کو نافذ کرنے کے لیے جس سیاسی اقتدار کی ضرورت ہے وہ کانگریس کی وساطت سے حاصل کیا جاتا ہے۔ ان اُمور کے ذکر کے دوران میں اچاریہ کر پلانی نے بار بار شدومد کے ساتھ بیان کیا ہے کہ کانگریس کے عقیدہ (Creed) میں جس کا تمام تار و پود گاندھی جی کے فلسفہ حیات سے تیار ہوا ہے اور جس کی وسعت پذیری سیاست، معاشرت، اخلاق اور روحانیت سب کو شامل ہے، اُس میں اور کانگریس کے پروگرام میں ایک عضو یاتی انسلاک و ارتباط پایا جاتا ہے اور ان دونوں کو ایک دوسرے سے جدا کرنا ایسا ہی مشکل ہے جیسا کہ ناخن کا گوشت سے یا ایک عضو کو دوسرے عضو سے خدا کرتا۔ اس بنا پر جو شخص کا نگریس کے پروگرام کو تو مانتا ہے لیکن اُس کے عقیدہ کو یعنی گاندھی جی کے فلسفہ حیات کو تسلیم نہیں کرتا وہ صحیح معنی میں کانگریسی نہیں ہے ۔ اور ایسے لوگوں کا کانگریس میں رہنا بجائے فائدہ رساں ہونے کے کانگریس کے کاز کے لیے سخت مضرت رساں ہے۔
ہم محسوس کرتے ہیں کہ اچاریہ کر پلانی کے اس مضمون کا خطاب برام راست سوشلسٹ پارٹی سے ہے اور اس بنا پر انہوں نے بڑی صفائی کے ساتھ لکھا ہے کہ گاندھی ازم اور کمونزم یا سوشلزم ان دونوں میں بڑا اقتضاد ہے اور چونکہ کا نگریس کی تمام عملی تحریکات گاندھی ازم کے ماتحت چل رہی ہیں اس لیے سوشلسٹ پارٹی کو کانگریس سے دست بردار ہو جانا چاہیے ۔ یعنی اگر وہ کا مرلیں میں آتے ہیں تو گاندھی ازم کے عقیدہ کو قبول کر کے آئیں ، ورنہ کا نگریس میں اُن کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ لیکن ہم یقین رکھتے ہیں کہ جس طرح گاندھی ازم اور سوشلزم یا بالشوزم میں تضاد ہے، اسی طرح گاندھی ازم اور محمد نزم میں بھی تضاد ہے۔ دونوں کا فلسفہ حیات ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہے اور یہ ڈھکی چھپی حقیقت نہیں ہے کہ جب تک مسجد و مندر اور تسبیح شیخ وزنا رگبر ایک نہیں ہو سکتے ۔ محمد نزم اور گاندھی ازم میں کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔ دونوں کا معیار اخلاق وروحانیت خدا خدا۔ دونوں کا نظریہ معاشرت و معیشت الگ الگ ہے، اس بنا پر اچاریہ کر پلانی نے جو خطاب سوشلزم سے کیا ہے بالواسطہ یا بلا واسطہ اُس کے مخاطب ہندوستان کے وہ نو کروڑ فرزندان توحید بھی بن جاتے ہیں جن کی نظر بلند میں گاندھی ازم کو محمد نزم کے بالمقابل وہ ادنی وقعت بھی حاصل نہیں ہے جو مٹی کے ایک تو دہ کو ہمالیہ کی نانگا پر بہت چوٹی کے مقابلہ میں ۔ یا ایک چابی سے چلنے والی گڑیا کو کسی تندرست اور نو جوان انسان کے مقابلہ میں حاصل ہو سکتی ہے۔
مسلمان اپنی مذہبی تعلیمات کی روشنی میں ایک بڑے انسان کی حیثیت سے گاندھی جی کا احترام کر سکتے ہیں اور انہیں کرنا چاہیے ۔ لیکن کیا ایک لحہ کے لیے بھی کوئی مسلمان جب تک کہ وہ مسلمان ہے اور محمد عربی کی غلامی کا حلقہ گوش جان و دل میں ڈالے ہوئے ہے، یہ تصور کر سکتا ہے کہ وہ معاشرت، اخلاق اور روحانیت میں گاندھی جی کا فلسفہ حیات قبول کرے گا ؟ اور اپنی تحقی فرو کرنے کے لیے آب زمزم کو چھوڑ کر گنگ و جمن کا پانی چلو بھر بھر کر ہے گا۔
حاشا وكلا ولواتت الساعة وزلزلت الارض زلزالها -
اچاریہ کر پلانی کا یہ بیان یقینا ان مخلص اور دیندار مسلمانوں کے لیے
بے حد یاس انگیز ہے جو نیک نیتی کے ساتھ کانگریس میں محض اس لیے شریک ہیں کہ کانگریس تمام اقوام ہند کی ایک مشترک سیاسی جماعت ہے اور اس کا مقصد ہندوستان کو اجنبی تسلط واقتدار سے اجتماعی کوششوں کے ذریعہ آزاد کراتا ہے اور خود کانگریس کی طرف سے اب تک بار بار جو اعلانات ہوتے رہے ہیں اور کلچرل اٹانومی وغیرہ کے سلسلہ میں اُس نے اب تک جو تجاویز پاس کی ہیں اُن سے بھی اس کی ہی تائید ہوتی تھی کہ کانگریس صرف ایک سیاسی جماعت ہے، اس سے متجاوز ہو کر وہ ہرگز یہ نہیں چاہتی کہ مختلف اقوام ہند کو کسی مخصوص فلسفہ حیات کی روشنی میں روحانیت واخلاق اور معاشرتی اصلاح کی کسی خاص اسکیم کا پابند بنائے۔ کانگریس وزارتوں نے انسداد شراب نوشی کی جو تحریک کی تھی مسلمانوں نے اس کی پر زور تائید محض اس لیے کی تھی کہ وہ عین تعلیمات اسلام کے مطابق تھی، اس تائید کی بنیاد یہ ہرگز نہ تھی کہ یہ تحریک گاندھی فلسفہ حیات کی پیروی کی راہ سے معرض وجود میں آئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دیندار مسلمانوں نے جس طرحانسداد شراب نوشی کی تحریک میں کانگریس کی مدد کی اسی طرح اُنہوں نے بڑی صفائی کے ساتھ اور دھا تعلیمی اسکیم کی مخالفت میں سرگرمی دکھائی اور خود کا نگر یسی مسلمانوں نے اُس کے خلاف زبردست احتجاج کیا۔ کیونکہ یہ اسکیم اگر چہ گاندھی فلسفہ حیات کے عین مطابق تھی لیکن اس کے بعض اجزاء محمدی فلسفہ حیات کے خلاف تھے۔ اس لیے مسلمانوں کے لیے ناممکن تھا کہ وہ ان اجزاء کو قبول کر لیتے۔
اچار یہ کر پلانی کو معلوم ہو جانا چاہیے کہ صرف ایک وردھا تعلیمی اسکیم نہیں، بلکہ اسی طرح کی جتنی معاشرتی روحانی اور اخلاقی اسکیمیں اُن کے سامنے پیش کی جائیں گی جو گاندھی فلسفہ حیات کے مطابق ہونے کے باوجود اسلامی نقطہ نظر سے ناقابل قبول ہوں گی مسلمان اُن کی مخالفت اسی شدومد کے ساتھ کریں گے اور اُن کے نفاذ کی راہ میں اجتماعی احتجاج سے طرح طرح کی رکاوٹیں اور دشواریاں پیدا کریں گے۔ مسلمانوں کی راہ بالکل کھلی ہوئی ہے، اُن کے متعلق کر پلانی جی یا کسی اور زعیم کا نگریس کو مغالطہ میں نہ رہنا چاہیے۔ مسلمان کسی دوسری جماعت سے سیاسی مقصد میں متفق ہو کر سیاسی پروگرام میں عملی اشتراک کر سکتے ہیں لیکن یاد رکھیے وہ اپنی معاشرت اور فلسفہ حیات وروحانیت کو کسی دوسرے کے فلسفہ سے کسی قیمت میں بھی بدلنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ مسلمانوں کی یہ پوزیشن جس طرح آج واضح ہے کل بھی واضح تھی،
اُنہوں نے اپنے اس نقطہ نظر کا کبھی افغا نہیں کیا۔ اب کر پلانی صاحب بتائیں کہ مسلمانوں کے متعلق اس علم کے باوجود پھر جو آپ نے مسلمانوں کو کانگریس میں شرکت کی دعوت دی تو کیا آپ کا یہ بلاوا سراسر مکر و فریب اور خدع دریا پرچینی نہیں تھا۔ کیا آپ نے اُن کے ساتھ واقعی تمسخر اور استہزا نہیں کیا۔ کیا آپ نے ان کی ذہنیتوں کو اپنی سیاست کا ایک بازیچہ گاہ نہیں بنایا ہمسٹر کر پلانی دوالتراموں میں سے ایک الزام سے نہیں بچ سکتے ۔ اُنہوں نے کانگریس کے نقطہ خیال کی جو ترجمانی کی ہے وہ دو حال سے خالی نہیں ہو سکتی ۔ اُس کو صحیح تسلیم کیجیے یا غلط قرار دیجیے، اگر وہ صحیح ہے اور غالباً اسی وجہ سے کانگریس ورکنگ کمیٹی کے ممبروں میں سے کسی ممبر نے خود گاندھی جی نے اور صدر کانگریس نے کسی نے اس بیان کی اب تک تردید نہیں کی ہے تو آپ کو یہ ماننا پڑے گا کہ آپ کا کراچی کا رز و لیوشن ، آپ کے اعلانات سب مسلمانوں کے لیے ایک ہمرنگ زمین دام بچھانے کی کوششوں کے سلسلہ میں تھے اور یہ سب کچھ صرف اس لیے تھا کہ مسلمانوں کو الگ کسی ایک قومی پلیٹ فارم پر جمع نہ ہونے دیا جائے ، اور ان کی صلاحیتوں کو پراگندہ کر کے اور اُن کی عملی ہم آہنگیوں میں انتشار پیدا کر کے انہیں کانگریس میں شریک کرنے کے بعد اقلیت کی بھاری چٹان کے نیچے لا کر کچل دیا جائے، اور پھر وزارتوں کے آہنی پنجوں سے اُن کے پروبال نوچ کر انہیں ایسا دست و پا بریدہ بنا دیا جائے کہ وہ ستم ایجادی قاتل کا شکوہ کرنے کے قابل بھی نہ رہیں، اور اگر یہ بیان صحیح نہیں بلکہ غلط ہے جیسا کہ کانگریس کی اصولی تجاویز سے اس کی تائید ہوتی ہے ، تو اس میں کوئی شک نہیں کہ کر پلانی صاحب نے یہ بیان دے کر سراسر جھوٹ بولا ہے، اور اُنہوں نے اُس جماعت کی بالکل غلط اور گمراہ کن ترجمانی کی ہے جس کے وہ سکرٹری ہیں۔ اس دوسری صورت میں کانگریس کی مجلس عاملہ کا فرض ہے کہ وہ اس بیان کی تردید میں ایک متفقہ بیان شائع کرکے کانگریس کی صحیح پوزیشن واضح کر دیں اور ساتھ ہی کر پلانی صاحب کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کریں۔ ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ اگر سوبھاش بابو کے خلاف اُن کے چند بیانات کی وجہ سے کوئی سخت تادیبی کارروائی کی جاسکتی ہے تو آج مسٹر کر پلانی کے خلاف اُن کے اس غیر ذمہ دارانہ بیان کی بنا پر کوئی تنبیہی کارروائی کیوں نہیں ہو سکتی۔
اس مرحلہ پر ہم بالکل صفائی کے ساتھ یہ کہہ دینا چاہتے ہیں کہ مسٹر کر پلانی کے اس مضمون کو شائع ہوئے ایک ماہ سے زیادہ ہو چکا ہے، اس مدت میں متعدد اسلامی جرائد نے اس مضمون کے خلاف پر زور احتجاجی مضامین لکھے اور متعدد مسلمان ارباب سیاست نے اپنی تحریروں کے ذریعہ اس کے خلاف اپنے غم و غصہ کا اظہار کیا۔ ادھر یہ سب کچھ ہو رہا ہے لیکن اُدھر سے اب تک سکوت مسلسل اور خاموشی پیہم ہے۔ آج گاندھی جی بھی چپ ہیں، جن کو اپنی پوزیشن صاف کرنے کے لیے بار بار بیانات دینے کا بڑا شوق ہے اور آج ان لوگوں کے لیوں پر بھی مہر سکوت لگی ہوئی ہے جو کانگریس کی طرف سے دفاع کرنے میں سب سے پیش پیش رہتے ہیں۔ کیا اس خاموشی کے معنی یہ نہیں ہیں کہ گویا یہ تسلیم کر لیا گیا ہے کہ مسٹ کر پلانی نے جو کچھ لکھا ہے وہ صحیح ہے اور واقعی کا نگریس گاندھی ازم کو دنیا میں پھیلانے والی ایک جماعت ہے۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے بعد ہم ایک طرف جہاں گاندھی جی کی قوت تسخیر اور عظمت و بزرگی کے ماننے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ وہ کانگریس کے ممبر ہونے کے باوجود اپنی شخصیت کے اثر سے ہندوستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کو اپنی انگلیوں کے اشارے پر نچانے میں کامیاب ہو گئے ہیں تو دوسری طرف ہمیں صاف طور پر کانگریس سے بیزاری کا اعلان کر دینا چاہیے۔ مسٹر کر پلانی کے بیان سے اُن تمام اعتراضات کی تائید و تصدیق ہو جاتی ہے جواب تک کانگریس کے خلاف غیر کا نگریسی مسلمانوں کی طرف سے کیے جاتے رہے ہیں، ان لوگوں کا سب سے بڑا اعتراض متحدہ تو میت کا ہے اور ظاہر ہے اس مضمون کا ماحصل یہی ہے کہ کانگریس مختلف قومی امتیازات مٹا کر سب کو ایک ہی قومیت میں منسلک کرنا چاہتی ہے۔ ان دو تین سال کی مدت میں کانگریس میں جو جو تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں اُن کے پیش نظر کہا جاتا تھا کہ کانگریس سے جمہوریت کی روح فنا ہو گئی ہے اور اُس کی جگہ آمریت نمایاں ہوتی جاتی ہے سی پی کے سابق وزیر اعظم کے ساتھ جو معاملہ کیا گیا، سوبھاش با بو کو جس جس طرح صدارت سے استعفا دینے پر مجبور کیا گیا۔ پھر تری پورہ کے اجلاس کانگریس میں پنڈت پنت کارزولیوشن ۔ یہ سب اُس رُخ کی طرف اشارہ کرتے تھے جدھر کا نگریس آہستہ آہستہ بڑھ رہی تھی لوگوں کے دلوں میں ان چیزوں سے طرح طرح کے شکوک و شبہات پیدا ہوتے تھے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ آج مسٹر کر پلانی کے اس مضمون نے ان تمام شبہات پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔
اس حقیقت کے واضح ہو جانے کے بعد مسلمانوں کے لیے صرف دو ہی طریقہ ہائے کار ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ کانگریس کی اصولی اور بنیادی حیثیت سے فائدہ اُٹھا کر کانگریس میں اس کثرت سے شریک ہوں کہ کر پلانی ایسی نارواز ہنیت رکھنے والے کا نگریسیوں کو مایوس ہو جانا پڑے۔ اس میں شک نہیں تعداد کے لحاظ سے مسلمان پھر بھی اقلیت میں رہیں گے لیکن اگر مجموعی حیثیت سے وہ ایک زبردست عزم و حوصلہ کے ساتھ کانگریس میں شریک ہو کر اُس کے پورے نظام پر قابض ہو جائیں تو اُس کو ایک صحیح شاہراہ پر چلا سکتے ہیں اور اگر وہ ایسا نہیں کر سکتے تو پھر انہیں چاہیے کہ سب اپنے اپنے اختلافات مٹا کر ایک واحد قومی پلیٹ فارم پر مجتمع ہو جائیں اور ایک زبردست ولولہ کار کے ساتھ جدا گانہ قومیت کی لائن پر اپنی تنظیم کریں۔ مسلمانوں کے لیے کانگریس میں داخلہ صرف اُسی وقت مفید ہو سکتا ہے جبکہ وہ بھاری اکثریت کے ساتھ اُس میں شامل ہوں اور وہاں اپنی موثر نمائندگی سے کانگریس کے کاروبار کی نگرانی کر سکیں۔ صرف چند نامور مسلمانوں کا وہاں ہوتا جبکہ انہیں قوم کی اکثریت کی نمائندگی حاصل نہ ہو کسی حالت میں منفعت بخش نہیں ہو سکتا۔
کانگریس میں اکثریت رکھنے والی قوم اگر اقتدار کے نشہ میں مست ہے تو اُسے واضح طور پر معلوم ہو جانا چاہیے کہ آج کے افتراق و پرا گندگی سے فائدہ اُٹھا کر وہ جو چاہیں کہہ دیں، اور کریں لیکن نبی عربی ﷺ کے یہ حلقہ بگوش اگر ایک مرکز پر جمع ہو گئے تو بتا سکتے ہیں کہ گاندھی کا فلسفہ حیات زیادہ قابل قبول ہے یا اُس قوم کا فلسفۂ روحانیت اور نظام اخلاق و معاشرت اصول فطرت کے عین مطابق ہے جس نے سات سو برس تک دنیا کی جاہل اور وحشی قوموں کو درس اخلاق و تہذیب دیا اور جس نے حضیض مذلت میں پڑی ہوئی قوموں کو تربیت دے کر ہمدوش ثریا بنا دیا۔ اُس وقت وَسَعْيَلَمَ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَنَّ مُنْقَلَبٍ يَنقَلِبُونَ -