The purposes, needs and importance of educational institutions
تعلیمی اداروں کے مقاصد، ضروریات اور اہمیت
تمہید:
![]() |
The purposes, needs and importance of educational institutions |
بعض قوانین انگریز کے زمانے یعنی ڈیڑھ دو سو سالہ پرانے ۔ ہیں اور یہ معاشرے سے ریلیونس Relevance یعنی مناسبت و تعلق نہیں رکھتے، نہ ہی ان کا معاشرے کو کوئی فائدہ ہے۔ لہذا یے کوشش کی جائے اور لاء کالجز کے تعلیمی نصاب کو تبدیل کیا جائے ۔ اور آج کل کے دور کے مطابق اس نصاب کو امریکی و یورپی -میڈیکل یونیورسٹیوں کے طرز پر ڈھالا جائے ، اور وکلاء کو وکالت کے ساتھ عصری طبی علوم کی تعلیم دی جائے ۔ ایسا کر کے یہ وکلاء برادری کے لوگ معاشرے کے کارآمد شہری بن سکتے ہیں اور -معاشرے میں ہم طبی ماہرین کی معتد بہ تعداد پیدا کرسکیں گے، جو خطیر سرمایہ خرچ کیا جائے تا کہ کینسر کے مرض کی بروقت تشخیص ممکن ہو۔ نیز میڈیکل یونیورسٹیوں میں اعلیٰ معیار کی تعلیم ہو، ان کا نصاب عالمی معیار کی طبی یو نیورسٹیوں سے ہم آہنگ ہو، میڈیکل ریگولیٹری ادارے اپنے فرائض تندہی سے انجام دیں، اور سب سے بڑھ کر ایسے میڈیکل ڈاکٹر اور طبی ماہرین پیدا کیے جائیں جو کہ اپنے شعبے میں مہارت رکھتے ہوں، عالمی معیار کی تحقیق کرتے ہوں، ان میں ملک وملت اور انسانیت کی خدمت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہو اور پھر وہ اپنی تمام تر صلاحیتیں کینسر سے ہونے والی اموات میں کمی لانے میں صرف کریں۔
خلاصہ بحث
خلاصہ یہ کہ اگر کسی کو کینسر سے ہونے والی اموات کے بارے میں فکر ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اموات کی یہ تعداد کم ہو یا اس کا آسان اور مناسب علاج آسانی کے ساتھ میسر ہو سکے، تو وہ موجودہ طبی نظام ہی کو مضبوط اور بہتر کرنے کی کوشش کرے، اور اس کی اعلی تعلیم کے لئے بنیادی ضروریات کی فراہمی کو آسان بنائے۔ چہ جائیکہ لاء کالجز کے نصاب میں میڈیکل کا نصاب داخل کرے۔
قارئین ہماری مندرجہ بالا مثال کو ذہن میں رکھتے ہوئے غور فرمائیں کہ مدارس دینیہ سے متعلق بھی بعض لوگوں کو خلط مبحث ہو چکا ہے۔ دیکھئے جس طریقے سے لاء کالجز اور لاء یونیورسٹیوں کا مقصد قانون کی تعلیم دینا ہے، اسی طریقے سے مدارس دینیہ کا بھی اپنا ایک علیحدہ مقصد ہے۔ مدارس دینیہ سے متعلق یہ سوچنا کہ یہاں سے انجینئر ، میڈیکل ڈاکٹر ، سرجن، سائنسدان، محقق ، معاشی ماہرین، اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس یعنی مصنوعی ذہانت کے ماہر نکلیں گے، یہ سراسر غلط سوچ ہے۔ جس طریقے سے لاء کالجز کے نصاب میں جدید طب کے نصاب کو شامل نہیں کیا جا سکتا، اسی طریقے سے مدارس دینیہ کے نصاب میں کسی دوسرے سائنسی شعبے مثلاً انجینئر سنگ، میڈیکل سائنس، معاشیات، کمپیوٹر سائنس، مصنوعی ذہانت و دیگر سائنسی شعبوں کے نصاب کو شامل نہیں کیا جا سکتا۔
جس طریقے سے لاء کالجز سے قانونی ماہرین ہی نکلیں گے، ہو میڈیکل یونیورسٹیوں سے میڈیکل ڈاکٹر اور سرجن ہی نکلیں گے، انجینئر نگ یونیورسٹیوں سے انجینئر ہی نکلیں گے، اسی طریقے سے مدارس دینہ سے بھی دینی علوم کے ماہرین یعنی علمائے کرام اور مفتیان کرام ہی نکلیں گے۔
اشکال
ایک اشکال یہ کیا جاتا ہے کہ لاء کالجز میں تعلیم حاصل کرنے والوں کو کسی حد تک انگریزی اور کمپیوٹر کے بنیادی اسکلو یعنی ہنر آتے ہیں، اسی طریقے سے مدارس دینیہ سے فارغ ہونے والے علمائے کرام اور مفتیان کرام کو انگریزی اور کمپیوٹر کے بنیادی اسکلو آنے چاہئیں ۔ دیکھئے انگریزی تعلیم اور کمپیوٹر کے بنیادی اسکلو کی اہمیت اور ضرورت کے درجے میں ان کے استعمال سے کوئی انکار نہیں کر رہا ہے۔ لیکن اگر لاء کالج سے قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد تھوڑی انگریزی اور کمپیوٹر سیکھ لینے کے بعد کوئی یہ سوچے کہ وہ کمپیوٹر سائنسدان، مصنوعی ذہانت کا ماہر، میڈیکل سرجن ، معاشی ماہر یا انجینئر بن چکا ہے، اور تھوڑی بنیادی انگریزی و کمپیوٹر کے اسکل یعنی ہنر سیکھ کر قانون کی تعلیم حاصل کرنے والا دیگر سائنسی شعبوں میں زندگی کھپانے والوں کا مقابلہ کر سکتا ہے، تو جس طریقے سے یہ سوچنا غلط ہے، اسی طریقے سے مدارس دینیہ کے طلباء کو انگریزی اور چند کمپیوٹر اسکلز سکھانے کے بعد یہ دعوی کرنا کہ یہاں سے عالمی سطح کے سائنسداں محققین ، انجینئر ، سرجن ، معاشی ماہرین وغیرہ نکلیں گے، اور یہ ان تمام میدانوں کے خلا کو پر کرسکیں گے، یہ بھی بالکل غلط سوچ ہے۔
این خیال است و محال است جنوں
اس کا شاخسانہ ہے کہ آج عملی طور پر جولوگ دینی و عصری علوم کا حسین امتزاج کی دو کشتیوں میں سوار ہیں ، اُن میں سائنسی علوم میں گہرائی اور عالمی معیار کی سائنسی تحقیق کا فقدان ہے۔ کہنے کو تو یہ لوگ ڈاکٹر یا انجینئر یا فنانشل ایکسپرٹ بھی ہیں اور مدراس دینیہ کے فاضل بھی ، مگر سائنسی میدان میں عالمی سطح پر ان کی کوئی حیثیت نہیں۔ دراصل موجودہ دور میں کچھ لوگوں کی کوشش سے ، سائنس کے عنوان سے چند مدارس دینیہ میں ایسے لوگوں کی کھیپ تیار ہونا شروع ہو چکی ہے جو کہ سائنس کی مخالفت کر رہے ہیں ، اور سائنس کے لبادے میں ایسی سائنسی تحقیق و مقالات شائع کر رہے ہیں جن کو پڑھ کر عالمی سطح پر ملک کا نام اور بالخصوص مدارس دینیہ کا نام بدنام ہو رہا ہے۔ غرض ایسے لوگوں کو نہ دینی علوم میں گہرائی حاصل ہو پاتی ہے اور نہ ہی سائنسی علوم میں گہرائی ، الا ماشاء اللہ ۔ نہ ادھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے
یہاں مدارس دینیہ کے موضوع و مقصد کو سمجھنے کے لیے ہم ایک اقتباس پیش کرتے ہیں :
حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی کے بعد کی بات ہے اور اس وقت اُن کے فرزند ارجمند حضرت مولانا حافظ احمد صاحب دارالعلوم دیو بند کے مہتمم تھے، یہ مولانا قاری محمد طیب صاحب کے والد ہیں۔ اب اس زمانے میں انگریزی سرکار مستحکم ہو چکی تھی اور ریاستیں بن چکی تھیں اور سارا سسٹم ڈیولپ ہو چکا تھا۔ اس زمانے میں ریاستیں تھی اور ان میں سب سے مالدار ریاست حیدر آباد دکن کی ریاست تھی، حضرت حافظ صاحب بحیثیت مہتمم دارالعلوم دیو بند ، دکن کے سفر پر گئے تو وہاں کے نواب صاحب سے ملاقات ہوئی، نواب صاحب نے استقبال اور دعوت بھی کی ہوگی ، اس کے ساتھ ایک پیشکش بھی کی کہ حضرت ! ہم نے تجربہ کیا ہے کہ آپ کے یہاں پڑھے ہوئے بچے جہاں جاتے ہیں ہم ان کو سروسز میں لگاتے ہیں تو وہ کارکردگی ، دیانت اور صلاحیت میں بھی دوسروں سے بہتر ثابت ہوتے ہیں۔ یہ ہمارا تجربہ ہے، لہذا مجھے یہ خواہش پیدا ہوئی ہے کہ آپ ہمارے ساتھ معاہدہ کر لیں کہ جتنے فارغ طلباء ہیں انھیں ہمارے پاس بھیج دیں، ہم انھیں ملازمتیں دیں گے، اور آپ کا سارا خرچہ ہم دیں گے۔“
وہ زمانہ اچھا تھا ، حافظ صاحب نے فورا معاہدہ نہیں کیا؛ بلکہ فرمایا کہ پہلے ہم اپنے بزرگوں سے پوچھ لیں ۔ حافظ صاحب واپس آئے ، اس وقت دیو بند میں شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن رحمۃ اللہ علیہ صدر مدرس تھے اور حافظ احمد صاحب مہتمم تھے۔ تو انھوں نے حضرت شیخ الہند سے ذکر کیا کہ نواب صاحب نے یہ پیشکش کی ہے؛ لہذا ہمارے تو دونوں مسئلے حل ہو گئے ہیں ۔ آج کا سب سے بڑا مسئلہ بھی یہ ہے کہ کچھپنا کدھر ہے، کیا دورہ حدیث کرنے کے بعد ملازمت ملے گی؟ اور چندے سے جان بھی چھوٹ جائے گی۔ مہتمم کو اور کیا چاہیے ! دونوں مسئلے حل ہو گئے ۔ حضرت شیخ الہند نے پوچھا کہ مولوی احمد ! وعدہ تو نہیں کر آئے؟“ انھوں نے فرمایا نہیں ! حضرت مجھے آپ سے پوچھنا تھا۔“ حضرت شیخ الہند نے فرمایا: ایسا کرو کہ گنگوہ جاؤ، ہمارے بڑے وہ (حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی) ہیں، ان کو جا کر سنا دو۔ اس زمانے میں یہ ماحول تھا۔ گنگوہ وہاں سے کئی میل کے فاصلے پر ہے، لہذا حافظ صاحب وہاں گئے اور حضرت گنگوہی کی خدمت میں ساری بات پیش کی اور ویسے بھی وہ حضرت گنگوہی کے شاگر د تھے حضرت گنگوہی نے پوچھا:
”مولوی احمد ! اس بارے میں تمھارا کیا خیال ہے؟ مولانا احمد صاحب نے کہا ”حضرت ہمارے دونوں مسئلے حل ہو سکتے ہیں۔ فارغ ہونے والوں کی ملازمتوں اور مدرسہ کے خرچے کا مسئلہ بھی حل ہو جاتا ہے، میرا خیال ہے کہ پیشکش قبول کر لینی چاہیے ۔“
حضرت گنگوہی کا جملہ حضرت مفتی صاحب نے نقل کیا ہے میں عرض کر دیتا ہوں، فرمایا: احمد ! میں تجھے بیوقوف تو سمجھتا تھا ، مگر اتنا نہیں، اللہ کے بندے ہم نے یہ مدر سے نواب حیدر آباد کی ریاست چلانے کے لیے بنائے ہیں؟ بلکہ ہم نے اس لیے بنائے ہیں کہ مسلمانوں کو مسجد میں امام، خطیب، مفتی ، مدرس، حافظ اور قاری ملتار ہے۔ بھاڑ میں جائے حیدر آباد کی ریاست ، ہم نے مدر سے اس لیے بنائے ہیں کہ مسجدیں آبادر ہیں ، قرآن پاک کی تعلیم چلتی رہے، لوگوں کو مسئلے بتانے والے ملتے رہیں، ہمیں (اس پیشکش کی ضرورت نہیں ہے۔
(حوالہ: قطب الارشاد حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی: تعارف و خدمات خطاب از حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب مدظلہ، ماہنامہ دارالعلوم ، شماره : 2 ، جلد : 107 ، رجب المرجب 1444ھ مطابق فروری 2023)۔
قارئین ! مدارس دینیہ کے مقاصد و موضوع بالکل واضح ہیں۔ حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی رحمتہ اللہ علیہ نے بارہا اس کی وضاحت فرمائی ہے کہ :
ہماری دینی درسگاہوں کا اصل موضوع علوم کتاب وسنت ہیں، انہیں کی افہام و تفہیم تعلم افہام وتفہیم تعلم وتعلیم، توضیح وتشریح تحميل واتباع اور تبلیغ و دعوت اور ایسے رجال کار پیدا کرنا ہے جو اس تسلسل کو قائم رکھ سکیں ، بس یہی ان مدارس کا مقصود اصلی ہے
( حرف آغاز ، ماہنامہ دارالعلوم، ربیع الثانی ۱۴۲۸ھ، مطابق مئی ۲۰۰۷) ۔
بعض حضرات دینی مدارس کے نظام و نصاب میں ترجیحات و اصطلاحات کے قائل ہیں مگر یہ حضرات ان مدارس دینیہ کے مقاصد و موضوع کی تشریح کرتے ہوئے اتنے آگے نکل چکے ہیں کہ ان حضرات کے مطابق مدارس دینیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ قوم کو لیڈر، سیاستدان، جرنل، حج ، وکیل، میڈیکل ڈاکٹر محقق ، سائنس داں ، معاشی ماہر آرٹیفیشل انٹیلی جنس یعنی مصنوعی ذہانت کا ماہر، گرافک ڈیزائنر ، ویڈیو ایڈیٹر، ویب ڈیویلو پر، کونٹنٹ رائٹر یعنی مواد تحریر کرنے والے، سرچ انجن آپٹیمائیزیشن کے ماہر، ٹریڈرز، کمپیوٹر پروگرامزر، کمپیوٹر گیمنگ ایکسپرٹ وغیرہ دیں۔
غرض ان تمام شعبوں کا ماہر بنانا دینی مدارس کا مقصد و موضوع ٹھہرا۔ اور دینی مدارس کا مقصد و موضوع نہ ٹھہرا تو دینی علوم میں پختگی علوم کتاب وسنت کی افہام و تفہیم تعلم و تعلیم ، توضیح و تشریح تعمیل و اتباع اور تبلیغ و دعوت !