جمعیۃ علماء ہند کا قیام
تصور ، تحریک و تاسیس، پس منظر ، مشکلات اور حقائق
(قدیم تحریرات و شواہد کے آئینے میں سچی تاریخ)
حصہ اول
تصور، تحریک اور پس منظر
پر آشوب دور
وہ دور ملک وملت کے لئے انتہائی پر آشوب اور نازک تھا، حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیو بندی (ولادت : ۱۲۶۸ھ / ۱۸۵۱ ء - وفات : ۱۲۳۹ھ / ۱۹۲۰ء) اور شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی (ولادت : ۱۲۹۶ھ / ۱۸۷۹ ۰ وفات: ۱۳۷۷ / ۱۹۵۷ء) وغیرہ مالٹا میں قید تھے ، اور "علی برادران ( مولانا محمد علی جو ہر (ولادت : ۱۸۷۸ / ۱۲۹۶ھ - وفات : ۱۹۳۱ ۰/ ۱۳۵۰ھ) اور مولانا شوکت علی (ولادت : ۱۸۷۳ء / ۲۹۰ اء - وفات : ۱۹۳۸ء / ۱۳۵۷ھ) و غیره)، مولانا ابو الکلام آزاد (ولادت : ۱۳۰۶ ه / ۱۸۸۸ء - وفات : ۱۳۷۷ھ / ۱۹۵۸ء) اور بہت سے ہندو مسلم زعماء و قائدین بھی ڈیفنس آف انڈیا ایکٹ کے تحت گرفتار اور نظر بند تھے، کیونکہ اتحادیوں (انگریز، اٹلی، یونان ، امریکا اور فرانس) کی صف سے روس کے نکل جانے کی وجہ سے حکومت برطانیہ کو خطرہ ہو گیا تھا کہ ان کے دشمن ترکوں کو قوت حاصل ہو جائے گئی۔
اس طرح مسلمانوں کی زیادہ تر بڑی شخصیتیں جیلوں کے اندر تھیں ، اور جو لوگ جیل سے باہر تھے وہ بھی خوف کے سائے میں تھے ، یہی دور ہے جب بہار شریف کے معروف و ممتاز عالم و مفکر اور ملی رہنما حضرت مولانا ابوالمحاسن سید محمد سجاد صاحب ( ولادت : صفر ۲۹۹ هم دسمبر ۱۸۸۱ ء - وفات: ۱۷/ شوال المکرم ۳۵۹ اه م ۱۸ / نومبر ۱۹۳۰ء بروز سوموار ) کا جوہر کھل کر سامنے آیا۔
نصب امیر کے لئے جماعت علماء کی ضرورت
مولانا سجاد ایک مدت سے غیر اسلامی ہندوستان میں نصب امیر کو مسلمانوں کا ملی فریضہ تصور فرماتے تھے ( اس لئے کہ خلافت اسلامی کے زوال اور حکومت اسلامی کے خاتمہ کے بعد مسلمانوں کی حیات اجتماعی و ملی کے لئے اس کے سوا چارہ کار نہیں تھا مگر اس کے لئے علماء کا اتحاد ضروری تھا، امیر کو علماء کی حمایت حاصل نہ ہو تو اس کو مطلوبہ طاقت اور عوامی حمایت حاصل نہیں ہو سکتی تھی، چنانچہ ۱۹۱۷ (۱۳۳۶ھ) سے قبل ہی مولانا نے جمعیتہ علماء ہند کی تاسیس کا پروگرام بنایا ، علماء کو خطوط لکھے، اور ملک کے مختلف حصوں کے دورے کئے ، اور اس تعلق سے پیدا ہونے والے سوالات کے جوابات دیئے۔۔۔۔۔ ان مراسلات واسفار کے اخراجات آپ کے خصوصی مستر شد اور شہر گیا کی متمول شخصیت مولانا قاضی احمد حسین صاحب نے برداشت کئے تھے ، مگر علماء کے مسلکی اور فکری اختلافات کی بنا پر کافی دشواریوں کا سامنا ہوا، مختلف الخیال اور مختلف المشرب علماء کو ایک جگہ جمع کرنا آسان نہیں تھا، علاوہ اکثر علماء سیاست کے نام سے بھی گھبراتے تھے ، بعض حلقوں میں تو اس کو شجر ممنوعہ قرار دیا گیا تھا، اور علماء کی شان کے منافی تصور کیا جاتا تھا ۔۔۔۔ مولانا شاہ محمد عثمانی لکھتے ہیں کہ :
مولا نا سجاد کی کوششوں اور افہام و تفہیم سے ضرورت تو بہت علماء محسوس کرنے لگے تھے ، لیکن قابل عمل نہیں سمجھتے تھے ، کئی چھوٹے چھوٹے اجتماعات مختلف مقامات پر ہوتے رہے، لیکن ان میں بجز مفتی کفایت اللہ صاحب کے خود علماء دیوبند بھی شریک نہ ہوئے
انجمن علماء بہار کی تاسیس
آخر ایک روز حضرت مولانا محمد سجاد صاحب نے قاضی احمد حسین صاحب سے کہا کہ :
" علماء ہند کو جمعیۃ علماء کے قیام پر انشراح نہیں ہے اس لئے میں چاہتا ہوں کہ گیا میں علماء بہار کا جلسہ بلاؤں "
قاضی صاحب نے اتفاق کیا اور اجلاس کے انعقاد میں اپنا پورا تعاون پیش کیا، چنانچہ ۳۰ / صفر المظفر ۱۳۳۶ھ مطابق ۱۵ / دسمبر ۱۹۱۷ء کو مدرسہ انوار العلوم گیا کے سالانہ اجلاس کے موقعہ پر "جمعیۃ علماء بہار " کی بنیاد پڑی، اور اس کا صدر مقام مدرسہ انوار العلوم قرار پایا، اس کا ابتدائی نام " انجمن علماء بہار " رکھا گیا۔
اس کی ضرورت اور مقاصد کی طرف حضرت مولانا سجاد نے روئیداد میں ان الفاظ میں اشارہ کیا ہے:
۳۰ / صفر ۱۳۳۶ھ بوقت شب مدرسہ انوار العلوم میں ان علماء بہار کا جو تقریب جلسہ سالانہ مدرسہ انوار العلوم (گیا) مجتمع تھے ، ایک خاص اجتماع اس غرض سے ہوا کہ مسلمانوں کے مذہبی و ملکی مصائب اور مشکلات حاضرہ کے اسباب اور ان کے رفع کرنے کے ذرائع و وسائل پر غور کرے ؟
مولانا عبد الصمد رحمانی صاحب تحریر فرماتے ہیں:
"جمعیۃ کے اغراض و مقاصد میں صرف دو چیز جامع رکھی گئی تھی ایک دعوت اسلامیہ ، اور دوسرے حفاظت حقوق ملیہ "
اس پس منظر سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت مولانا محمد سجاد کی " انجمن علماء بہار " محض مقامی مسائل کے لئے اچانک قائم نہیں کر دی گئی تھی، بلکہ پورے ملک کے دورے کے بعد ملک گیر مقاصد کے پیش نظر بطور نمونہ قائم کی گئی تھی، جس کا دائرہ کار سر دست صوبہ بہار تھا ، اور قیام کے مقاصد میں ملت کی دینی و سیاسی قیادت ، نظام قضا کا قیام اور جمعیۃ علماء ہند اور امارت شرعیہ ہند کے لئے ذہن سازی بھی شامل تھی ۔ چنانچہ حضرت مولانا سجاد نے سب سے اول دارالقضاء کا نظام اسی انجمن علماء بہار کے ماتحت قائم فرمایا تھا، جس کی شاخیں پورے بہار میں پھیلی ہوئی تھیں۔۔۔۔۔۔ یوں لغوی مفہوم کے اعتبار سے انجمن ، جمعیہ اور تنظیم سب مترادف الفاظ ہیں۔
ندوۃ العلماء کانپور
بلاشبہ اس سے قبل حضرت مولانا محمد علی مونگیری کی تحریک پر کانپور میں ندوۃ العلماء " کے نام سے علماء ہند کی ایک انجمن قائم ہو چکی تھی، جو غالباً اس ملک میں انگریزی تسلط کے بعد علماء کی پہلی انجمن تھی ، ملک میں اس کے کئی پر جوش پروگرام ہو چکے تھے اور اس کے زیر انتظام ایک دارالعلوم بھی لکھنو میں جاری ہو چکا تھا، جو اپنی امتیازی خصوصیات کے ساتھ آج تک جاری ہے، لیکن اس انجمن کا مقصد خالص علمی تھا، مسلمانوں کے ملی اور سیاسی مسائل سے اس کو سرو کار نہ تھا۔
جمعیۃ الانصار دیوبند
دیوبند میں جمعیۃ الانصار کا قیام بھی انہی کوششوں میں سے ایک تھا، لیکن اس کا نصب العین بھی سیاسی نہیں تھا، بلکہ بہت محدود مقاصد کے لئے قائم کیا گیا تھا، دیو بند میں "ثمرۃ التربیۃ " نامی انجمن ختم ہونے کے بعد یہ جمعیہ قائم ہوئی تھی ، مولانا حفیظ الرحمن واصف خلف الرشید مفتی اعظم ہند حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب شاہجہاں پوری کی اطلاع کے مطابق یہ دراصل فضلائے مدرسہ دیوبند کی ایک انجمن تھی، جس کا مقصد مدرسہ کی تعلیمی خدمات کی تشہیر اور مسلمانوں کو مدرسہ کی امداد کی طرف توجہ دلانا تھا، اس کے ناظم اعلیٰ حضرت مولانا عبید اللہ سندھی تھے ، اس کے اغراض و مقاصد خود مولانا سندھی کی زبانی ملاحظہ فرمائیں :
"جمعية الانصار مدرسہ عربی دیو بند کے فارغ التحصیل طلبہ کی اس مدد گار جماعت کا نام ہے جو مخصوص شرائط کی پابند ہو کر مدرسے کی ہمدردی میں ہر طرح پر حصہ لے یا بالفاظ دیگر سر پرستان مدرسہ دیوبند کے دست و بازو بن کر کام کرے، اس جمعیت کی غرض مدرسے کے مقاصد کی تائید و حمایت اور اس کے پاک اثر کی ترویج واشاعت ہے، ملکی معاملات سے اس کا کوئی تعلق نہیں ، اس جماعت کے ارکان مدرسہ عالیہ دیو بند کے سابق تعلیم یافتہ حضرات ہیں جن میں سے ہر ایک کا فرض ہے کہ مدرسہ کی تعلیمی، انتظامی اور مالی ترقی میں انتہائی کوشش کرے "
پھر اس کے پہلے اجلاس مراد آباد منعقدہ ۱۵ تا ۱۷ اپریل ۱۹۱۱ (۱۵/ ربیع الثانی ۱۳۲۹ھ) کی پانچویں نشست میں جو سات (۷) خالص دینی و تعلیمی تجاویز پاس ہوئیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ :
"ایسے چھوٹے چھوٹے رسائل بکثرت شائع کرنا جن میں عقائد اسلام کی تعلیم فرقہ آریہ کے جوابات اور وفاداری گورنمنٹ کی ہدایات ہوں "
مؤتمر الانصار کا دوسرا اجلاس میرٹھ میں ۶ ۷ ۸ / اپریل ۱۹۱۲ و جمعیت الانصار اہل علم و صلاح کی وہ جماعت ہے جس نے دارالعلوم دیوبند کی تکمیل کے ضمن میں مسلمانوں کی مذہبی ضروریات پورا کرنے کا تہیہ کر لیا ہے ، الانصار نے اپنے مقصد کی تکمیل کے ذرائع و وسائل میں مشورہ لینے اور مسلمانوں کے مذہبی مقتداؤں کے اتفاق سے مذہبی تعلیم کا راستہ معین کرنے کے لئے ایک سالانہ جلسہ قرار دیا ہے ۔
بعد میں غالباً اس میں توسیع کر دی گئی تھی ، اور فضلاء دیوبند یا علماء کی کوئی تخصیص باقی نہیں رہی تھی، اور ملت اسلامیہ کی خدمت و نصرت کے لئے ہر شخص کے لئے اس کا دروازہ کھول دیا گیا تھا۔۔۔ لیکن اس کے باوجود اس کی کوششیں زیادہ بار آور نہ ہو سکیں۔ بقول مولانا ابوالکلام آزاد:
"افسوس ہے کہ اس وقت تک کوئی سعی و تدبیر بھی سود مند اور کامیاب نہیں ہوئی "
انجمن علماء بنگال - تعارف اور پس منظر
اسی طرح بنگال میں مولانا منیر الزماں اسلام آبادی وا نے بھی ایک " انجمن علماء بنگال " قائم کی تھی ، جس کے ایک اجلاس منعقدہ ۱۱، ۱۲ ربیع الاول ۱۳۳۶ ھ مطابق ۲۶،۲۵ / دسمبر ۱۹۱۷ء) کی صدارت علامہ سید سلیمان ندوی نے کی تھی، اس کا ذکر خود علامہ ندوی نے اپنے خطبہ صدارت کلکتہ میں کیا ہے ، لیکن وہ بھی یہ ایک غیر سیاسی ، اور محض تبلیغی و اصلاحی نوعیت کی تنظیم تھی، کیوں کہ بنگال میں تشدد پسندوں کی وجہ سے صوبائی حکومت بہت حساس تھی، اور مولانا منیر الزماں اسلام آبادی تھے تو انقلابی قسم کے آدمی ، لیکن ان کو اندیشہ تھا کہ سیاست کی شمولیت سے بہت سے علماء اس میں شریک ہونے سے گھبرائیں گے ، اسی لئے انہوں نے انجمن کے مقاصد تبلیغ و اصلاح تک محدود رکھے تھے ۔
علاوہ یہ انجمن عیسائی مشنریوں کے حملوں کے دفاع میں قائم ہوئی تھی ، اس لئے بھی اس کے مقاصد مذہبی اور دعوتی حدود سے متجاوز نہیں ہو سکے ۔
حضرت مولانا سجاد نے اپنے خطبہ صدارت ( مراد آباد) میں اس انجمن کا ذکر کیا ہے اور اس کے قیام کے پس منظر کی طرف بھی اشارہ کیا ہے ، مولانا کے مطابق انجمن علماء بنگال کے قیام کا پس منظر اس مذہبی ارتداد کا خاتمہ تھا جو عیسائی مشنریوں نے بنگال میں پھیلا رکھا تھا، جب کہ انجمن علماء بہار ایک جامع المقاصد تنظیم کے طور پر قائم ہوئی تھی، اس کے قیام کے مقاصد میں ملت کی دینی و سیاسی قیادت، نظام قضا کا قیام ، جمعیتہ علماء ہند اور امارت شرعیہ ہند کے لئے زمین کی تیاری بھی شامل تھی، اور اس کے پس منظر میں علمی زوال اور مذہبی فتنوں کے علاوہ وہ خونریز جنگیں بھی تھیں جو ملک و بیرون ملک اسلام اور ملت اسلامیہ کے خلاف لڑی جارہی تھیں ، حضرت ابو المحاسن کے الفاظ میں:
بنگال میں عیسائی مشنریوں کے حملہ نے علماء بنگال کو متنبہ کیا، کہ وہ جمعیۃ علماء بنگالہ قائم کریں ، اور پھر اس کے بعد اندرون ہند و بیرون ہند کے محاربہ عظیمہ کو دیکھتے ہوئے علماء بہار کو تنبہ ہوا، لہذا انہوں نے ۱۳۳۵ ھ میں انتظامی زندگی کے تمام مقاصد کو پیش نظر رکھ کر جمعیۃ علماء بہار قائم کی "۔
اس لئے انجمن علماء بنگال کا دائرہ کار بہت محد و درہا اور رفتہ رفتہ وہ بے اثر ہو کر ختم ہو گئی، بعد میں مولانا منیر الزمان اسلام آبادی حضرت مولانا سجاد صاحب کے ساتھ جمعیۃ علماء ہند کی کل ہند تحریک میں شامل ہو گئے اور اس کے بانی قائدین میں شمار کئے گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔