دور نبوی سے قبل اہم تہذیبیں
![]() |
دور نبوی سے پہلے کی اہم تہذیبیں |
1. قبل از اسلام کی جاہلی تہذیب
2. یونانی تہذیب
3 مصری تہذیب
4 رومی تہذیب
5 ہندوستانی تہذیب
1- عرب
مذہبی حالات
عرب میں اسلام سے قبل مختلف مذاہب تھے۔
کچھ لوگ اللہ تعالیٰ کو مانتے تھے لیکن اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرتے تھے۔
اور جو تم ان سے پوچھو کہ آسمان اور زمین کو کس نے پیدا کیا ہے تو بول اٹھیں گے کہ خدا نے، تم کہو کہ خدا کا شکر ہے۔ “
کچھ لوگ اللہ تعالیٰ کے قائل تھے لیکن قیامت، جزا اور سزا کے منکر تھے۔ قرآن کریم نے قیامت کے ثبوت کے بارے میں
فرمایا ہے:
کہہ دو کہ وہی دوبارہ زندہ کرے گا جس نے پہلی دفعہ پیدا کیا تھا۔ “
کچھ لوگ جزا اور سزا کو مانتے تھے لیکن نبوت کے منکر تھے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے:
کہتے ہیں یہ کیسا رسول ہے جو کھاتا ہے پیتا ہے اور بازار میں چلتا پھرتا ہے۔
عرب میں زیادہ تر تعداد بت پرستوں کی تھی۔ اس کے علاوہ دیگر مذاہب کے ماننے والے لوگ بھی عرب میں آباد تھے۔
ا۔ بت پرست ۲۔ عیسائیت ۳۔ یہودیت
۴ - صابئین ۵- آتش پرست ۶ - حنفیت۔
ان کے بتوں پر کتے پیشاب کر دیتے تھے۔ ان پر مکھیاں بھنبھناتی تھیں۔ شرک کا غلبہ اتنا زیادہ تھا کہ مشرکین یہ نہیں سوچتے تھے کہ جس کی عبادت کرتے ہیں اس میں اتنی طاقت نہیں کہ اپنے اوپر سے مکھی اڑا دے۔ خانہ کعبہ اور اس کے اطراف میں تین سو ساٹھ (360) بت تھے۔
02 قبل از اسلام عرب کے بہت سے علاقوں میں عیسائی مذہب رائج تھا۔ بنو قضاء کا تعلق عیسائیت سے تھا۔ اس کے علاوہ قبیلہ غسان اور ربیعہ بھی عیسائیت کے ماننے والے تھے۔ قبیلہ طے کارئیس حاتم طائی بھی عیسائی تھا۔ نجران کے لوگ بھی عیسائی تھے۔
03۔ پانچویں صدی قبل مسیح میں بخت نصر نے جب یہودیوں کو نیست نابود کرنا چاہا تو یہودی عرب چلے آئے۔ بنو حرث بن کعب۔ بنو کنانہ ۔ حمیر - کندہ یہودی قبیلے تھے۔ خیبر کے لوگ بھی یہودیت میں داخل ہو گئے تھے۔ یثرب میں بنو نضیر ۔ بنو قینقاع اور بنو قریظہ ۔ یہودی قبائل تھے۔
04۔ سید سلیمان ندوی نے ارض القرآن جلد دوم میں بیان کیا ہے کہ صائبین کا اصل مولد بابل تھا۔ ستاروں اور بتوں کی پوجا کرتے تھے۔ ان کا قبلہ قطب شمالی تھا۔ صائبین میں روزوں کے دن مقرر تھے۔ ان کا یہ عقیدہ بھی تھا کہ جو مصری فرعون کے ساتھ ڈوبنے سے بچ گئے وہ قطب شمالی کی جنت میں آرام کر رہے ہیں۔ صائبین حضرت یحی کو سچا نبی مانتے تھے۔
05۔ آتش پرست ایران سے ہجرت کر کے عرب کی مشرقی سرحدوں اور یمن میں آباد ہو گئے تھے۔ آگ کی پوجا کرتے تھے۔ آگ کو خدا کانور اور نیکی کی علامت سمجھتے تھے۔
06۔ قبل از اسلام کچھ لوگ سلیم الفطرت بھی تھے جو یہ جانتے تھے کہ عرب میں جہالت اور بدی نے دین کی حقیقت کو چھپارکھا ہے۔ یہ لوگ دین حنیف پر قائم تھے۔ حنیف کا لفظ حضرت ابراہیم کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ یہ لوگ فطر تابدی اور برائی سے ہمیشہ دور رہنے کی کوشش کرتے تھے۔ یہ لوگ حضرت ابراہیم کے دین کی تلاش میں رہتے تھے اور توحید کے ماننے والے تھے۔ ان کی تعداد بہت کم تھی۔ تو ہم پرستی اور بت پرستی سے اکتا کر حق کی تلاش میں رہتے اور اپنے آپ کو عبادت میں مصروف رکھتے تھے۔
سیاسی حالات
قبل از اسلام عرب کی سیاسی حالت بہت خراب تھی۔ عرب میں کوئی باضابطہ حکومت نہیں تھی۔ یہاں کے لوگ مختلف قبائل میں تقسیم تھے۔ کوئی بھی ان پر حکومت کرنے کو تیار نہیں تھا۔ کیونکہ یہاں پر زیادہ تر حصہ ریگستان اور صحرا پر مشتمل تھا۔ کوئی روز گار نہیں تھا۔ کوئی پیداوار نہیں تھی۔ باقاعدہ آبادیاں نہیں تھیں۔ کوئی باقاعدہ حکومت قائم نہیں تھی۔ اس لئے کسی فاتحنے اس کو فتح کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اگر کسی نے حملہ کیا بھی تو ان کو شکست دیتے ہوئے آگے نکل گیا یہاں پر اپنی حکومت قائم نہیں کی۔ اسی لئے عرب کے لوگ فطرتا آزاد تھے اور کسی کے زیر اثر رہنا پسند نہیں کرتے تھے۔
اخلاقی حالات
عرب میں قبل از اسلام ہر وقت جنگ و جدل کا بازار گرم رہتا تھا۔ ذرا ذرا سی بات پر لڑنا اور ایک دوسرے کو قتل کر دینا سر کاٹ لینا، ان کے نزدیک کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ ہر قبیلہ دوسرے قبیلہ سے اور ہر خاندان دوسرے خاندان سے بر سر پیکار تھا۔ ہر بچہ اپنے باپ اور عزیزوں کے قاتل سے انتقام لینے کے جذبہ میں پرورش پاتا تھا۔
جوان ہو کر اس مقدس فرض کو انجام دیتا تھا اور اس طرح ایک لڑائی کا سلسلہ برسوں تک قائم رہتا تھا۔ ان ہی لڑائیوں کو مورخین اور اہل ادب ایام العرب کہتے ہیں جن کی تعداد سینکڑوں سے متجاوز ہے۔ ان لڑائیوں میں بے رحمی اور سفاکی کی حالت یہ تھی کہ جب ایک گروہ دوسرے گروہ پر قبضہ کر لیتا تو اسکے بوڑھوں، عورتوں اور بچوں کو گرفتار کر لیتا اور سب کو قتل کر دیتا۔ عربوں میں جوئے کا بھی عام رواج ہو گیا تھا، اس کی کئی صورتیں تھیں۔ عرب کے مال و دولت کا تمام تر سرمایہ اونٹوں اور بکریوں کی تجارت تک محدود تھا۔ بعض اوقات کسی شرط پر بازی ہار جانے پر لوگ مال و دولت کے بعد گھر کی خواتین اور بچوں پر بازی لگا دیتے تھے۔ یہ تمار بازی اکثر مار پیٹ اور لڑائی پر ختم ہوتی تھی۔ سود خوری کا عام رواج تھا۔ تمام دولتمند سود کا لین دین کرتے تھے۔ عربوں میں لوٹ مار کا عام رواج تھا۔ بعض قبائل نے راہزنی کو اپنا ذریعہ معاش اور عام مشغلہ بنالیا تھا۔ تاجروں اور سوداگروں کے قافلے بغیر کسی بھاری انعام کے کسی میدان سے بسلامت گزر نہیں سکتے تھے۔ ایک قبیلہ دوسرے قبیلے کی عورتوں اور بچوں کو پکڑ کر کسی دوسرے کے ہاتھ فروخت کر دیتا تھا اور مویشیوں کو ہانک کر لے جاتا تھا۔ مراعات یافتہ طبقے میں کوئی صاحب اگر اس الزام میں پکڑے جاتے تو وہ چھوڑ دیے جاتے تھے۔
عورتوں کو وراثت میں حصہ نہیں ملتا تھا، ایک مرد جتنی عورتوں سے شادی کرنا چاہتا تو اس پر کوئی پابندی نہیں تھی۔ جس عورت کو جس وقت چاہتا بغیر وجہ کے چھوڑ دیتا تھا۔ دو حقیقی بہنوں سے ایک ساتھ نکاح کر لیتے تھے ، عورت جب بیوہ ہو جاتی تو گھر سے باہر ایک نہایت تنگ کو ٹھڑی رہنے کو اور خراب سے خراب کپڑے پہننے کو دیئے جاتے تھے۔ خوشبو استعمال نہیں کر سکتی تھی۔ جس کے گھر میں لڑکی پیدا ہوتی اس کو سخت رنج ہوتا اور شرم کے مارے لوگوں سے چھپتا پھرتا تھا۔
اور جب ان میں سے کسی کو لڑکی کی خوشخبری سنائی جاتی ہے تو اس کا منہ کالا پڑ جاتا ہے اور غصہ کے گھونٹ پی کر رہ جاتا ہے۔ اس خوشخبری کے رنج سے لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے (اور سوچتا ہے) کہ ذلت کے ساتھ اس کو قبول کرے یا زندہ زمین میں دفن کردے۔
رفتہ رفتہ دختر کشی کی رسم جاری ہو گئی، لڑکی پیدا ہوتی تو اس کو میدان میں لے جا کر گڑھا کھودتے اور زندہ دفن کر دیتے تھے۔
معاشی حالات
عرب کے شہر میں رہنے والے لوگوں کو حضرمی کہا جاتا تھا اور دیہات میں رہنے والے لوگوں کو بدوی کہا جاتا تھا۔ شہری لوگوں کے معاش کا ذریعہ تجارت تھا اور دیہات میں رہنے والے لوگوں کا معاش زراعت اور حیوانات کی پرورش کرنا تھا۔
عرب کے تین طرف بحری سواحل واقع ہیں۔ اس قدرتی جغرافیائی تقسیم کی بدولت عرب کے ہر حصے کو دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک کیساتھ تجارتی سہولتیں حاصل ہیں۔ اس وجہ سے اہل عرب نے تجارت کی دنیا میں بڑی شہرت حاصل کی۔ عرب تاجر عام طور پر خوشبو دار اشیاء، گرم مصالحہ جات، لوہا، سونا اور دیگر قیمتی جواہرات، چمڑا، کھالیں، زین پوش، گھوڑے، بھیڑ ، بکریاں وغیرہ برآمد کیا کرتے تھے۔ ان کی درآمدات میں کپڑا، غلہ ، سامان آرائش، ہتھیار وغیرہ شامل تھے۔
عرب میں وہ مقامات جو سر سبز و شاداب تھے۔ مثلاً یثرب، مسجد ، بیمامه خيبر، جذان، طائف، نجران، رکھا۔ یہاں کاشت ہوتی تھی۔ دوسرے پھلوں کے علاوہ کھجور یہاں کا مشہور پھل تھا۔
2- یونان
مذہبی حالات
یونان کی حالت یہ تھی کہ :
1. بے شمار جان داروں اور بے جان چیزوں کو معبود کا درجہ حاصل تھا۔ جن میں پتھر ، درخت، چوپائے اور پرندے شامل تھے۔ شجر پرستی کو خاص اہمیت حاصل تھی۔
2. یہ لوگ وہم پرست تھے۔ ارواح خبیثہ سے محفوظ رہنے کے خیال سے ٹہنیاں سر پر لپیٹ لی جاتی تھیں۔ عبادت کی ادائیگی کے وقت ان درختوں کی پتیوں سے بنا ہو ابار خاص طور پر گلے میں ڈال لیا جاتا تھا۔ جس سے پہننے والا نہ صرف محفوظ ہو جاتا بلکہ مقدس بھی بن جاتا تھا۔ قدیم یونانی جانوروں کی پرستش میں بھی کسی سے پیچھے نہ تھے۔ ہر دیوتا کے ساتھ ایک جانور مخصوص کیا جاتا تھا۔
3 مرنے کے بعد بادشاہ کی روح کی پرستش کی جاتی تھی۔ اس کے متعلق عقیدہ تھا کہ وہ اس علاقے یا قبیلے کا اب بھی ویسے ہی حکمران ہے جس طرح وہ اپنی زندگی میں تھا۔
4 عبادت گاہوں میں عورتوں، غلاموں اور اجنبیوں کا داخلہ ممنوع تھا۔ اس کے اندر صرف پر دہت ( پجاری) داخل ہو سکتے تھے۔
5 یونان کے ایک شہر میں بت خانہ تھا جس کو (ORACLE OF DELFI) کہتے تھے۔ یہاں ایک بت کے خول میں پجاری بیٹھ کر لوگوں کے سوالوں کے جوابات اور مستقبل کی پیشین گوئیاں کرتا تھا اور لوگ اس کو غیب کی آواز سمجھتے تھے۔
سیاسی حالات
ہومر کے دور کے بعد امرا کے طبقہ نے تدریجا بادشاہوں کے اختیارات حاصل کر لئے بادشاہ یا تو نا پید ہو گئے یا برائے نام رہ گئے۔ اس لئے پر انی بادشاہی کی جگہ حکومت عدیدہ (Oligarchy) عالی گارچی نے لے لی۔
ساتویں صدی قبل مسیح تک امرا کے خلاف قرضوں سے دبے ہوئے کسانوں اور نئے تجارتی طبقوں نے حملے شروع کر دیئے
حکومت عدیدہ کے ذمہ دار ارکان عموما عسکری اہلیت سے بے بہرہ تھے۔ وہ جنگوں میں شہروں کی حفاظت سے قاصر رہے اسطرح ہر شہری ریاست میں عدیدی تختہ الٹ دیا گیا۔
اخلاقی حالات
تین طبقوں میں تقسیم معاشرہ۔
ا۔ بادشاه سیاسی اختیارات کے ساتھ ساتھ اسے سب سے بڑا ند ہبی پیشوا مانا جاتا تھا اور وہ اپنے امرا کی مدد اور مشوروں سے حکومت کا کاروبار چلاتا تھا۔ بادشاہ اور اس کی ملکہ عام لوگوں کی طرح خود بھی کام کرتے تھے اور ڈیسوس نامی بادشاہ کو اس بات پر فخر تھا کہ وہ اپنے کھیتوں میں کام کرتا ہے اور اس نے اپنا پلنگ خود بنایا ہے اور اس کی ملکہ چینی لوپی سوت کاتتی اور کپڑا بنتی ہے۔
دوسرا طبقہ امر ا کا تھا۔ ان کا یہ دعویٰ تھا کہ وہ دیویوں اور دیوتاؤں سے پیدا ہوئے ہیں اور ان کا نسب زیوس دیوتا سے ملتا ہے جو کوہ اولمپس کے دیوتاؤں کے خاندان کا حاکم اعلیٰ ہے اسی دعوی کی بنا پر انہوں نے معاشرہ میں دیگر طبقات اور قبائل پر فوقیت حاصل کر لی تھی۔
تیر اطبقہ عوام کا تھا جنہیں جنگوں سے کوئی واسطہ نہیں تھا۔ ان کا معاشی نظام غارت گری اور بحری قز قزاقی کے علاوہ تجارت اور کاشت کاری تھا۔ وہ مویشی پالتے اور غلہ اگاتے تھے۔ خاص کاشت زیتون اور انگور تھے۔ اسلحہ ساز جنگی رتھ اور جنگ کیلئے اسلحہ تیار کرنے میں ماہر تھے۔
معاشی حالات
یونان میں زرعی زمینوں کی مقدار بہت کم تھی اس لئے خوشحال کسانوں کیلئے یہ ممکن تھا کہ وہ اپنے محدود قطعات اراضی میں کاشت کریں۔ لیکن غریب کسانوں کیلئے کھیتی باڑی کرنا ممکن نہیں تھا۔ وہ دولتمند ہمسایوں سے قرض لینے پر مجبور ہو جاتے تھے قرض خواہ گراں شرح سود پر انہیں قرضہ دیتے تھے۔ مقروضوں کیلئے قرضوں کی ادائیگی ایک کٹھن مرحلہ تھا۔ محدود آمدنی میں سے اخراجات پورے کرنا نہایت دشوار عمل تھا۔ جب مقررہ وقت پر قرض ادا نہ کر سکتے تو جائیداد ان سے چھ پر قرض ادا نہ کر سکتے تو جائیداد ان سے چھین لی جاتی تھی۔ شخصی آزادی سے بھی انہیں محروم ہونا پڑتا تھا۔ ایسے شخص کو مجبور کیا جاتا کہ قرض خواہ کے باغوں میں مزدوری کرتا رہے۔
3- مصر
مذہبی حالات:
مصر میں دیوتاؤں اور دیویوں کی فوج موجود تھی اور ان دیوتاؤں اور دیویوں کے پجاری بھی مختلف تھے۔ اس میں جانوروں کے سر رکھنے والے دیوتاؤں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ مطالعہ مصریات سے معلوم ہوتا ہے کہ قدیم مصر کا جاہل طبقہ ان دیوتاؤں کا معتقد تھا لیکن تعلیم یافتہ طبقہ ان دیوتاؤں کی پرستش نہیں کرتا تھا۔ مصری ابتدا سے حیات بعد الموت کے قائل تھے ان کا یہ عقیدہ تھا کہ انسان کو مرنے کے بعد زندہ کیا جاتا ہے اور اس کو اس کے اعمال کے مطابق جزا اور سزادی جاتی ہے۔ اس عقیدے کے پیش نظر ان کے یہاں مردوں کی تدفین و تکفین کے بارے میں بڑی عجیب و غریب رسمیں تھیں ۔ وہ ان کی قبروں میں اور چیزوں کے علاوہ کھانے پینے کی چیزیں بھی رکھ دیا کرتے تھے اور جب ان کا کوئی بادشاہ مرتا تو اس کیلئے پہاڑ کاٹ کر وسیع و عریض مدفن تیار کیا جاتا جو کئی کمروں پر مشتمل ہوتا تھا۔ اس میں داخلے کیلئے پہاڑی کاٹ کر وسیع و عریض راستہ بنایا جاتا جو چھ سات فٹ چوڑا اور چھ سات فٹ اونچا دور تک پہاڑی میں چلا جاتا تھا۔ اس سے آگے کمرہ کے برابر ایک گڑھا کھود دیا جاتا پھر اس سے آگے ایک دوسرا کمرہ ہوتا۔ جس میں شاہی تابوت رکھا جاتا۔ جس میں بادشاہ کی حنوط شدہ ممی (لاش) رکھی ہوتی، اس کے دائیں بائیں دو کمرے ہوتے جن میں بادشاہ کی ضرورت کا سامان شاہانہ انداز سے رکھ دیا جاتا۔ سونے کے زیورات ، سونے کا تخت، سنہری کرسی اور دیگر قیمتی اشیا کے علاوہ کئی برتنوں میں کھانے پینے کی چیزیں رکھ دی جاتیں، پانی سے بھرے ہوئے کئی مٹکے بھی رکھ دئے جاتے تھے۔ ماہرین آثار قدیمہ نے جو مقبرے دریافت کیے ہیں اور انکی کھدائی کی ہے وہاں سے یہ ساری چیزیں دستیاب ہوئی ہیں۔ جن میں سے کئی چیزیں مصر کے عجائب گھر میں موجود ہیں۔
ان کا عقیدہ یہ تھا کہ دفن کرنے کے بعد بادشاہ دوبارہ زندہ ہو جائے گا اور اس کو اس دنیا کی زندگی کی طرح خدام اور خادماؤں کی بھی ضرورت پڑے گی ، اس لیے خادموں اور خادماؤں کی ایک جماعت اس کمرے میں کھڑی کر دی جاتی اور دروازہ بند کر دیا جاتا اس کے سامنے مٹی اور ریت کا اس طرح ڈھیر لگادیا جاتا کہ کسی کو پتہ نہ چلے کہ یہاں کوئی بادشاہ اپنے زیورات، اجناس اور خدام کے ساتھ مدفون ہے۔ بادشاہ کی میت پر تو جو گزرتی ہو گی وہ گزرتی ہو گی، لیکن ان زندہ خدام اور خادماؤں پر جو گزرتی ہو گی اس کا تصور کر کے ہی لرزہ طاری ہو جاتا ہے۔
سیاسی حالات
مصری معاشرہ میں سب سے اعلیٰ طبقہ مذہبی پیشواؤں اور امرا کا تھا جو تعداد میں بہت کم تھا۔ لیکن اختیارات اور اثر و نفوذ میں ان کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔ ان کے خدام لاکھوں تھے۔ زمین فرعون کی ملکیت تھی۔ عمرانی نظام کا یہ اصول مسلم تھا کہ ہر شخص اوپر سے آئے ہوئے ہر حکم کی پابندی کرے۔ صرف سیاسی اعتبار سے ہی نہیں بلکہ وہ اسے ایک مذہبی فریضہ بھی سمجھے۔ جو کام کسی کے سپر د کیا جائے اور جہاں کسی کو متعین کر دیا جائے اسے چاہیے کہ وفاداری سے اپنے فرض کو بجالائے۔
اخلاقی حالات
قدیم مصر میں بادشاہ کو دیوتا تصور کیا جاتا تھا اور اس طرح اس کیلئے آداب پرستش بجالائے جاتے تھے۔ بادشاہ ہی بڑے خداؤں کے سامنے اپنی رعایا کی نمائندگی کرتا ان کی طرف سے قربانیاں پیش کرتا تھا اور مذہبی تقریبات میں صدارت کے فرائض انجام دیتا تھا۔ بادشاہ کے تعلقات مذہبی پیشواؤں کے ساتھ عام طور پور دوستانہ ہوتے تھے لیکن جب کبھی کوئی کمزور بادشاہ تخت نشین ہوتا تو مذ ہبی پیشوا اس کی کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسکے شاہی اختیارات سنبھال لیتے تھے۔
ایرانیوں کی طرح قدیم مصر میں بھی بادشاہ کے متعلق یہی عقیدہ تھا کہ یہ خدائی خاندان کا ایک فرد ہے اور خود خدا نے ہی اس کو یہ حکومت اور سلطنت بخشی ہے۔
بادشاہ کو حسب ضرورت مشورہ دینے کے لئے علما و فضلا اور سن رسیدہ تجربہ کار لوگوں کی ایک مجلس مشاورت موجود ہوتی تھی لیکن بادشاہ ان کے مشورے اور فیصلہ کا پابند نہیں تھا۔
معاشی حالات
مصر معاشی لحاظ سے بہت خوشحال تھا۔ مصر میں دریائے نیل کا پانی زراعت کیلئے از حد مفید ہے۔ ریگستان کا جو حصہ اس دریا کے پانی سے سیراب ہوتا ہے وہ قلیل مدت میں سر سبز و شاداب کھیتوں لالہ زاروں اور مرغزاروں میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ رومیوں نے اسے تیس سال قبل مسیح میں فتح کیا اور ۶۴۰ ء تک اس پر حکمران رہے۔ مصر کی آزادی کا اختتام اس کیلئے موت کا پیغام تھا۔ رومیوں نے مصریوں کو غلام بنالیا تھا۔ غلامی کے بعد اس کی معاشی حالت میں انحطاط اور زوال رونما ہونے لگا۔ آہستہ آہستہ ملک کی تمام دولت پر رومی قابض ہو گئے ۔ روم کو سامان خوردونوش پہنچانے کیلئے یہاں کے غلے پر ٹیکس لگایا گیا اور خزانے میں سونے چاندی پر اضافی ٹیکس لگایا گیا۔ تین چار صدیوں میں مصر کی مالی حالت اتنی دگرگوں ہو گئی کہ ٹکسال میں سکے بنا بند ہو گئے اور لوگ جنس کے بدلے جنس فروخت کرنے پر مجبور ہو گئے تھے۔
4۔ روم
مذہبی حالات
قدیم رومیوں کا عقیدہ دیوتا پرستی تھا۔ ان گنت معبود تھے۔ رومی زراعت پیشہ تھے۔ انہوں نے کھیتوں کیلئے دیویاں مقرر کر رکھی تھیں۔ گھریلو معبودوں میں ویسٹا تھی جو آگ کی دیوی کی محافظ سمجھی جاتی تھی۔ اس کی پروہت عورتیں ( مذہبی امور کی نگران) ہوا کرتی تھیں۔ جن کو ”ویسٹا کی کنواریاں “ کہا جاتا تھا۔ ان کا کام یہ تھا کہ ہر وقت آگ روشن رکھیں۔ روم میں ایک بڑا آتش کدہ تھا جہاں کبھی آگ نہیں بجھتی تھی۔ روم میں بھی یونان کی طرح بادشاہ پرستی، ارواح پرستی عام تھی۔ مذہبی رہنماؤں نے ہر خاص و عام کو یہ اجازت دے دی تھی کہ وہ جو چاہیں گناہ کریں اس کے بعد پادری صاحب سے معافی نامہ لے کر اس گناہ سے بری الذمہ ہو جائیں۔ ایک مذہبی فرقے کے نزدیک دین داری کا سب سے اہم جزرہبانیت تھی۔ ہر قسم کے آرام و آسائش سے جسم کو محروم کر کے ہر قسم کی تکلیف و عذاب میں خود کو تمام عمر مبتلا رکھنا بہترین عبادت تھی۔ کسی نے تمام عمر غسل نہ کرنے کی قسم کھالی تھی، کوئی خود کو بوجھل زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھا، کسی نے سایہ میں بیٹھنے کو اپنے اوپر حرام کر لیا تھا کسی نے خود کو اندھیری کو ٹھڑی میں بند کر لیا تھا۔ ماں باپ، عزیز و اقارب اور اہل و عیال، دینداری کی راہ کے کانٹے تھے، ان سے نفرت کمال تقویٰ سمجھا جاتا تھا۔
اخلاقی حالات
سلطنت روم کی آبادی معاشرتی طور پر دو طبقات میں تقسیم تھی۔ ایک طبقہ امرا کا اور دوسرا طبقہ عوام کا تھا۔ امر اخو شحال تھے اور ان کے پاس بڑی بڑی جائیدادیں تھیں۔
آبادی کی بہت بڑی اکثریت کا تعلق عوام سے تھا وہ لوگ صرف جزوی حیثیت سے شہری تھے۔ حکومت نے جمہوریت اور شہنشاہیت کے زمانہ میں درسگاہوں کی کبھی سر پرستی نہیں کی چنانچہ اس وقت کی درس گاہوں میں تعلیمی اخراجات بہت زیادہ تھے۔ وہی بچے درس گاہوں میں تحصیل علم کیلئے داخل ہو سکتے تھے جن میں تعلیم کے اخراجات برداشت کرنے کی صلاحیت تھی۔
خوشحال رومی عیش و راحت کی زندگی بسر کیا کرتے تھے وہ دیہات میں اپنے لیے بنگلے تعمیر کرتے۔ ان کے کھانے پینے کا شوق جنون کی حد تک پہنچا ہوا تھا۔ چنانچہ وہ ایک مرتبہ کھانا کھا کر عمد آتے کر کہ پیٹ خالی کر دیتے تا کہ دوسری مرتبہ لذیذ کھانوں سے لطف اندوز ہو سکیں۔ کسانوں کیلئے آرام کے سامان نہ ہونے کے برابر تھے۔ بیروز گاری عام تھی اور حکومت نے کبھی اس سنگین مسئلہ کی طرف توجہ نہیں دی تھی۔ چنانچہ نصف سے زیادہ آبادی خیرات پر گزر اوقات کرتی تھی۔
معاشی حالات
روم کا اقتصادی نظام مخلوط قسم کا تھا۔ اس میں نجی کاروبار کی اجازت بھی تھی اور اس میں بعض صنعتوں کو حکومت نے اپنی ملکیت میں لے لیا تھا۔ جاگیریں وسیع سے وسیع تر ہوتی جارہی تھیں اور کاشتکار مجبوراً بڑے زمینداروں کی غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے قحط سالی یا طغیانی کی وجہ سے ان کی زرعی پیداوار بری طرح متاثر ہوتی تھی لیکن ٹیکسوں کا بوجھ جوں کا توں ان پر باقی رہتا تھا۔ پے در پے جنگوں کی وجہ سے عام کاشتکار روز افزوں ٹیکسوں کے بوجھ کو برداشت کرنے سے قاصر تھے۔ صنعتی کارخانوں میں مزدوری کرنے والے لوگ آزاد تھے۔ حکومت اپنے کارخانوں میں زیادہ تر ایسی چیزیں بناتی جن کی فوج کو، افسر شاہی کو اور اہل دربار کو ضرورت ہوتی۔
ملک روم کی معدنی دولت حکومت کی ملکیت تھی۔ لیکن پرائیویٹ ادارے کانوں کو حکومت سے کرایہ پر لیتے تھے۔ ریشمی پارچہ جات اور ارغوانی رنگوں کی ساخت صرف حکومت کے تصرف میں تھی۔ ان کے کارخانے شاہی محلات کے اندر ہوتے۔ سب سے زیادہ قیمتی ریشمی کپڑا شاہی خاندان کے افراد کیلئے مختص تھا۔
5۔ ہندوستان
مذہبی حالات
مورخین کا کہنا ہے کہ قدیم ہندوستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ تاریک دور تقریباً 500 ء سے شروع ہوتا ہے، اس دور کی نمایاں خصوصیات حسب ذیل تھیں:
1. شرک جو ابتدا ہی سے ہندوستان کے خمیر میں داخل تھا، اب وہ حد اعتدال سے باہر ہو گیا چنانچہ وید میں جو 33 دیوتاؤں کی تعداد تھی وہ بڑھتے بڑھتے کروڑوں دیوتاؤں تک پہنچ گئی۔
2 ویدک عہد میں مندروں کے اندر بت پرستی عام رائج تھی۔
3 مندروں کے محافظین بد اخلاقی کے سرچشمے تھے جو لاکھوں کروڑوں نا واقف پرستش کرنے والوں کو مذہب کے نام پر لوٹ لیتے تھے۔
4. خدا کی تلاش جنگلوں اور پہاڑوں میں کی جاتی تھی، جسم کو سخت سے سخت ایذا اور تکلیف دینا انکی بہترین عبادت تھی۔
5. فاسد خیالات، بھوت پریت اور سینکڑوں قسم کے اوہام ان کا مذہب تھا۔
سیاسی حالات
جب آریوں نے ہندوستان پر قبضہ کیا تو جو قبیلہ جہاں آباد ہوتا گیا قبائلی نظام کے مطابق وہاں چھوٹی چھوٹی ریاستیں قائم ہو گئیں، اس لیے آریوں کے ابتدائی عہد میں ہمیں ہندوستان کا ملک ان گنت چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ ہر قبیلہ کا سردار ان کا راجا ہوتا تھا۔ اس کو مشورہ دینے کیلئے قبیلے کے بزرگوں کی ایک کو نسل تشکیل دی جاتی تھی اور راجا فرائض جہاں بانی انجام دینے میں ان سے مدد لیا کرتا تھا۔ اس کے باوجو د را جا مختار مطلق تھا۔ اس کا حق یہ تھا کہ وہ جس طرح چاہے رعایا سے ٹیکس وصول کرے۔ لیکن اس کی یہ ذمہ داری نہیں تھی کہ وہ اپنی قوم یا قبیلہ کے سامنے کوئی تفصیلی رپورٹ پیش کرے کہ اس نے ان کے ادا کر دہ ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی رقم کہاں کہاں خرچ کی ہے، کسی کو اس پر اعتراض کرنے کا بھی حق نہیں تھا۔
ان چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں باہمی چھیڑ چھاڑ ہوتی رہتی تھی جو بسا اوقات قومی جنگ میں تبدیل ہو جاتی تھی۔ خون کے دریا بہتے۔ گاؤں اور قصبوں کو نذر آتش کر دیا جاتا تھا۔ ذات پات کے نظام نے ہندؤوں میں ایک قومیت کے تصور کو بھی پہننے نہیں دیا تھا۔
جن خداؤں کی وہ پوجا کرتے تھے ان میں بھی یگانگت نہیں تھی۔ ہر گاؤں کا علیحدہ دیوتا ہو تا اور گاؤں والوں کی ہر ضرورت پوری کرنے کیلئے علیحدہ علیحدہ بت تھے۔ ان بے شمار اختلافات نے ہندوستان کو ایک ملک یا ایک مملکت اور اس کے باشندوں کو ایک قوم بننے نہیں دیا۔
اخلاقی حالات
اہلیان ہند کو چار طبقات میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔
ا برهمن ۲- کشتری ۳ ویش ۴ شو در
تمام طبقات کی درجہ بندی کر دی گئی اور تفصیل سے ہر طبقہ کے فرائض بیان کر دیئے گئے تھے اور اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے لئے سزائیں بھی مقرر کر دی گئیں۔ آئین کے مطابق شودروں کو مذہبی تعلیم حاصل کرنے کا حق حاصل نہیں تھا۔ ایسا اجتماع جس میں چھوٹے طبقے کا کوئی فرد موجود ہو وہاں برہمن کو جانے کی اجازت نہیں تھی کہ وہ مقدس کتابوں کی تلاوت کرے۔ نہ شودروں کو اس بات کی اجازت تھی کہ وہ ان کنووں سے پانی بھر سکیں جن سے اونچی ذات کے ہند و پانی بھرتے تھے۔ وہ عام شہروں میں نہیں رہ سکتے تھے بلکہ شہروں سے الگ ان کی مخصوص آبادیاں ہوتی تھیں۔ شودروں کے نام سے ایک پوری قوم ایسی غلامی میں مبتلا تھی کہ دین و ایمان تعلیم و تربیت اور تہذیب و اخلاق ہر چیز سے محروم رہنا ان کا مقدر بنا دیا گیا تھا۔ وید کی آواز بھی ان کے کانوں میں پڑ جائے تو ان میں سیسہ پگھلا کر ڈال دینے کا حکم تھا۔ راجاؤں کی بیویوں کی کوئی تعداد قانونا مقرر نہ تھ تھی۔ قانون کی بنیاد مساوات انسانی پر نہیں بلکہ ذاتوں پر تھی۔ عورتیں فروخت کی جاتی تھیں۔
معاشی حالات
آریاؤں نے ہندوستان میں آباد ہونے کے بعد زراعت کو اپنا پیشہ بنالیا تھا۔ پنجاب کے زرخیز میدان گنگا اور جمنا کے درمیان کا زر خیز علاقہ ان کے تسلط میں تھا جہاں وہ کھیتی باڑی کرتے تھے۔ ضرورت کے مطابق اجناس خوردنی کی کاشت کرتے تھے اور اناج سے اپنی ضروریات پوری کرتے تھے۔ اس وقت عالی شان محلات اور بڑے بڑے شہروں کو آباد کرنے کا رواج عام نہیں تھا۔ لوگ کچے مکان یا سر کنڈے کی جھونپڑیاں بنا کر گاؤں میں زندگی بسر کرتے تھے۔