اسلامی بینکاری ایک دھوکہ ہے
حضرت مولانا مفتی شاہ عبد الخالق آزاد رائے پوری
ضبط تحریر : حافظ محمد عمران طحاوی

ISLAMIC BANKING IS TOTALLY FRAUD

کنونشنل بینکاری اور اسلامی بینکاری میں فرق
کنونشنل بینکاری اور اسلامی بینکاری میں بنیادی اور جوہری طور پر کوئی فرق نہیں بلکہ الٹا اسلامی بیچ دینے کے نتیجے میں اس کے اخراجات بڑھ جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ قرضوں پر تو پرافٹ جائز نہیں لیکن جو قرضے بینک نے اوپر سے سود پر لیے ہوتے ہیں ان کی اساس پر بینک آپ کے لیے چیز خرید کر اسے اجارہ یعنی کرائے پر دے سکتا ہے یا ایک اور تصور (Concept) بیچ مرابحہ کا ہے کہ ہم زیادہ قیمت پر چیز بیچتے ہیں اور نفع کماتے ہیں سو یہ تجارت ہے۔ اس کے لیے کاغذی کاروائی کی جاتی ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا صرف فارم فل کیے جاتے ہیں، اعداد و شمار جمع کیے جاتے ہیں اور پھر اس کی بنیاد پر خود ہی ایک چیز کو بیع مرابحہ میں یا اجارہ میں بدل دیتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ شرح سود جو یہاں کا روایتی بینک کماتا ہے، اس سے دگنا اسلامی بینک کماتا ہے۔ نہیں تو ڈیڑھ گنا تو ضرور ہی کماتا ہے، ٹیکس کے ساتھ شامل کر کے۔
اسلامی اصطلاحات کا ٹچ
اسلامی بینکاری میں بظاہر اسلامی اصطلاحات استعمال کی جاتی ہیں مضاربت کی ، بیچ مرابحہ کی اور بیچ معجل کی مگر حقیقت میں اوپر سے جو کچھ پانی آ رہا ہے وہ اگر سود والا ہے تو آگے ڈسٹریبیوٹری یا نہر کو آپ کون سا فلٹر لگا لیں گے جس کے ذریعے سے یہ پاک ہو سکے۔
اسلامی بینکاری ایک بہت بڑا دھوکہ ہے ۔ یہ اسی کنونشنل بینکنگ کی اسلامی شکل ہے۔ جیسے ہم نے اپنے ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھا ہوا ہے جبکہ یہاں نہ اسلام کا سیاسی نظام ہے، نہ اسلام کا معاشی نظام، نہ انسانی حقوق کی ادائیگی کا کوئی عمل، البتہ اسلامی لیبل ہم نے چسپاں کر رکھا ہے۔ ایسے ہی اسلامی بینک کا لیبل لگا دیا گیا ہے اور بس۔
اس موضوع پر تفصیلی مباحث ، لٹریچر اور کتا میں آن لائن موجود ہیں کہ آئینی اور قانونی طور پر ٹیکنیکلی ، بینکنگ کو اسلام کے مطابق ڈھالنا ممکن ہی نہیں ۔
محرکات اور دین فروشی
یہ سودا جنرل ضیاء الحق کے دماغ میں سمایا تھا۔ انہوں نے اس کے لیے دو کمیٹیاں 1985ء میں بنائی تھیں۔ ایک علماء کی کمیٹی جس کے سر براہ مفتی تقی عثمانی تھے اور ایک ٹیکنو کریٹس کی کمیٹی جس کے سربراہ اس وقت کے گورنر سٹیٹ بینک غلام اسحاق خان مرحوم تھے۔ دونوں سے یہ رائے لی گئی کہ
موجودہ حالت میں جب ہمار ا سٹیٹ بینک قرضوں کے عالمی نظام سے جڑا ہوا ہے کیا ہم اپنے ملک میں اسلامی بینکاری نافذ کر سکتے ہیں؟
غلام اسحاق خان کی کمیٹی میں بینکار، اکنامکس کے ماہرین، اساتذہ اور پروفیسر موجود تھے۔ انہوں نے خوب غور و خوض سے رپورٹ شائع کی آپ اس رپورٹ کو پڑھ سکتے ہیں۔ آن لائن سب کچھ موجود ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ
اگر واقعی پاکستان میں آپ اسلامک اکنامک سسٹم لانا چاہتے ہیں تو ہمیں پورا سٹرکچر بدلنا پڑے گا۔ پروڈکشن آف ویلتھ سے لے کر ڈسٹری بیوشن آف ویلتھ تک جتنے پر وسیجرز ہیں وہ دین کے مطابق بدلنا ہوں گے۔ اس کے لیے ہمارے سٹیٹ بینک کو ورلڈ بینک سے علیحدہ ہونا پڑے گا، آئی ایم ایف کو چھوڑ نا ہوگا اور اپنا معاشی اور اقتصادی سٹم بنانا ہوگا۔ اگر یہ کرنے کی سکت ہے تب تو یہ بھاری پتھر اٹھا لیں
ورنہ
پورے اکنامک سسٹم میں جہاں پروڈکشن اف ویلتھ اور اس کی تقسیم بھی کیپٹل ازم کی بنیاد پر ہے تو صرف تبادلۂ دولت اور تبادلہ دولت میں بھی
صرف زر اور زرکو کنٹرول کرنے والی اتھارٹی ( بینک) کو اسلامی بنانا خلاف عقل ہے اور اکنامک سسٹم سے متصادم بھی لہذا ایسافی الحال ممکن ہی نہیں ۔
دوسری طرف علماء کی کمیٹی نے کہا کہ یہ کام 100 فیصد تو نہیں ہو سکتا لیکن کچھ جوڑ جگاڑ کیا جا سکتا ہے۔ اگر ہم اس راہ پر چلیں تو کچھ نہ کچھ راہ نکل ہی آئے گی۔ علماء کی کمیٹی نے کچھ تجویزیں دی تھیں، حیلے بتائے تھے، اجارہ، مضاربه، بیع مرابحہ، بیع معجل جیسی اسلامی اصطلاحات کے نام پر حیلے بنائے گئے کہ کچھ نہ کچھ اسلامی بنا لیا جائے ۔
یہ رپورٹ سٹیٹ بینک اور وزارت خزانہ کے بعد جب جنرل ضیاء الحق کے پاس گئی تو انہوں نے اسحاق خان کی رپورٹ کو ایک طرف رکھ دیا کیونکہ اس وقت ہم نے اسلام اسلام کھیلنا تھا، افغانستان کی لڑائی ہو رہی تھی وہاں ہماری ضرورت تھی روس کے مقابلے میں امریکہ کے مقاصد کو حاصل کرنا ضروری تھا اور اسلام اسلام کہہ کر دنیا بھر کے مسلمانوں کی ہمدردیاں اکٹھی کرنا اور اسلام کا نعرہ لگانا تھا لہذا طے کر لیا گیا کہ وہ سٹم جس میں حیلے تجویز کیے گئے ہیں اس کے مطابق سٹم بناؤ۔
یہ سٹم جب بن کر آیا بھی تو یہ بے میل جوڑ تھا۔ اس پر مفتی تقی عثمانی صاحب نے کڑی تنقید بھی کی مگر اس کڑی تنقید کے باوجود آج بھی اس کے بڑے نمائندے وہ خود ہیں کس بنیاد پر ؟
آج اسلامی بینکنگ ہو یا کنونشنل بینکنگ دونوں عالمی قرضوں کی معیشت کے نظام سے وابستہ ہیں تو خدارا اسلام کے ساتھ تو یہ مذاق نہ کیا جائے ۔
اگر ہم اتنی جرات نہیں رکھتے کہ اپنا نظام اسلام کی اساس پر بناسکیں تو سادہ لوح مسلمانوں کو بے وقوف تو نہ بنائیں۔ یہ کیا بات ہوئی کہ کام وہی کریں جو روایتی بینک کرتے ہیں بس نام بدل دیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ
آخری زمانے میں ایسے لوگ ہوں گے جو سود کو جائز بنانے کے لیے حیلے بنائیں گے اور ان حیلوں کے ذریعے سے لوگوں کو بے وقوف بنائیں گے۔
ماشاءاللہ
ReplyDelete