شاہ عبدالعزیز اور بستان المحدثین
از
ڈاکٹر محمد خالد خان عمری
اسٹنٹ پروفیسر ، شعبۂ اسلامک اسٹڈیز ، جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی
بشکریہ ماہنامہ معارف ، دہلی
mkhan45@jmi.ac.in
ہندستان میں علم حدیث کی خدمت کا سلسلہ اسی وقت سے قائم و جاری رہا ہے جب سے مسلمانوں نے یہاں قدم رکھے ۔ سندھ، دیبل ٹھٹھ کے قدیم مدارس اور اب ان کے کھنڈرات اس کی واضح مثال ہیں۔ ڈاکٹر عبدالرحمن فریوائی نے اپنی کتاب " جهود مخلصة في خدمة السنة المطهرة " 01 میں محمد بن قاسم کے ہمراہ ہندستان آنے والے ان علماء کا تذکرہ کیا ہے جنھوں نے علم حدیث کی خدمت انجام دی۔ وہ لکھتے ہیں :
ونذكر هنا أسماء بعض علماء الحديث الذين وفدوا إلى بلاد الهند في هذه القرون على سبيل المثال لا على سبيل الحصر،
- موسى بن يعقوب الثقفي
- يزيد بن أبي كبشة الدمشقي
- أبو موسى إسرائيل بن موسى البصري نزيل الهند
- أبو حفص الربيع بن صبيح السعدي
ہم اس زمانے میں ہندستان آنے والے بعض علمائے حدیث کے نام بطور مثال پیش کرتے ہیں نہ کہ بطور حضر : 1- موسیٰ بن یعقوب ثقفی ۲- یزید بن ابی کبشہ دمشقی ۳- ابوموسی اسرائیل بن موسی مقیم ہند، ابو حفص ربیع بن صبیح سعدی ) ۔
روایتوں میں آتا ہے کہ عباسی خلیفہ مہدی باللہ نے عبدالملک بن شہاب المسمعی کی سربراہی میں ایک فوج کو ہندستان روانہ کیا تھا۔ اس کا مقصد جہاد تھا۔ اس قافلے میں ابوبکر ربیع بن صبیح المسوری البصر کی بھی تھے جن کو تابعی ہونے کا شرف حاصل ہے۔
ربیع پہلے شخص ہیں جنھوں نے علم حدیث شریف میں ایک مستقل کتاب تصنیف کی ۔ حاجی خلیفہ کا تب چلپی (م : ۱۰۶۷ء) نے کشف الظنون میں لکھا ہے:
"هو أول من صنف في الاسلام ، یعنی ربیع وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے مسلمانوں میں کوئی کتاب تصنیف کی۔
ربیع جس فوج کے ہمراہ ہندستان آئے تھے، وہ گجرات کے علاقے بھروچ پہنچی، جہاں بد قسمتی سے ایک مہلک وبا نے ان کو گھیر لیا، اور ہزاروں لوگ اس کا شکار ہو گئے ۔ ربیع بن صبیح کا بھی اسی بیماری میں انتقال ہو گیا۔ ان کا مزار آج بھی بھروچ میں موجود ہے۔ 02
اس وقت تک ہندستان میں اسلام اپنی ابتدائی اور خالص شکل میں لوگوں کے سامنے آیا تھا، جس کی اساس کتاب وسنت پر تھی۔ اس کے بعد جب سندھ میں عربوں کی حکومت ختم ہو گئی اور ان کے بجائے غزنوی اور غوری سلاطین سندھ پر قابض ہوئے تو خراسان اور ماوراء النہر علاقوں سے علماء سندھ میں آنے لگے ، تب سے علم حدیث اس علاقے میں بہت کم ہو گیا اور علوم دینیہ میں فقہ واصول فقہ کا رواج زیادہ ہو گیا۔ 03
تا ہم سندھ و گجرات میں علم حدیث کی خدمت کا سلسلہ کسی نہ کسی صورت میں جاری رہا۔ اس کا اعتراف مسعودی، بشار اور ابن حوقل جیسے بڑے مورخین نے کیا ہے۔ قاضی اسلم سیف نے علامہ بلاذری کی فتوح البلدان کے حوالے سے لکھا ہے کہ :
امام علی بن موسیٰ کی درس گاہ دیبل کی سب سے بڑی درس گاہ تھی ، جس میں حدیث کو با قاعدہ پڑھایا کی درس گاہ ،جاتا تھا اور اس کی نشر و اشاعت کا انتظام بھی تھا۔ 04
سندھ میں علم حدیث کے فروغ کی روایت میں ابوالفصائل حسن صغانی لاہوری بدایونی کا نام نہایت اہم ہے۔ انھوں نے مشارق الانوار ، مصباح الدجی شرح صحیح بخاری وغیرہ جیسی متعدد کتا بیں، علم حدیث میں تصنیف کیں۔ ان کے علاوہ شیخ ابو الحسن سندھی ، شیخ ابوالحسن سندھی صغیر اور علامہ محمد حیات سندھی کے نام سندھ کے علمائے حدیث کے طور پر بہت اہم ہیں۔
گجرات کے علاقے میں شیخ علی متقی برہان پوری صاحب کنز العمال محمد طاہر پینی صاحب ، مجمع بحار الانوار خدمت حدیث کے حوالے سے بڑے نام ہیں۔ دہلی میں بھی، جو زیادہ تر شمال ہند میں سلاطین کا دار الحکومت رہا علم حدیث کی خدمت کی روایت پھلتی پھولتی رہی ، اگر چہ یہ روایت اس قدر مضبوط اور طاقتور نہیں تھی جتنی سندھ اور گجرات اور جنوبی ہند کے علاقوں میں رہی۔ شاید اس کی وجہ اس وقت کے سلاطین دہلی کا معقولات اور فقہ وتقلید کی طرف رجحان کا زیادہ ہونا اور علم حدیث سے کسی حد تک ہے انتہائی کا رویہ رہا ہو۔ تاہم شیخ عبد الحق محدث دہلوی اور ان کے خانوادے کی خدمات حدیث کو علمائے وہلی کے حوالے سے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ آگے چل کر دہلی میں خدمت حدیث کی اس روایت کو ایک مہم میں بدلنے اور تقلید کے عمومی رجحان کو بدلنے اور کم کرنے کا کام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور ان کے بعد ان کے خانوادے نے جس طرح انجام دیا، وہ نہایت گراں قدر اور قابل ستایش ہے۔ اس خانوادے نے ٹھہرے ہوئے پانی میں کنکر مار کر تحریک پیدا کرنے کا کام انجام دیا۔ انھوں نے تقلید کے بند حسن کو توڑا ، فقہ وحدیث میں تطبیق کی راہ ہموار کی اور ہر اس قول کو جو مطابق حدیث ہو قبول کرنے اور جو حدیث سے متصادم ہو اسے ترک کرنے کی روایت کو فروغ دیا۔ خانوادہ شاہ ولی اللہ میں خدمت حدیث کے حوالے سے ایک بڑا نام شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کا ہے۔ شاہ عبد العزیز شاہ ولی اللہ کے لائق و فائق بیٹے تھے۔ انھوں نے علم حدیث کے فروغ کے لیے علمی سطح پر بہت سی خدمات انجام دیں، متعدد کتب تصنیف کیں ۔
شاہ عبدالعزیز دہلوی سنہ ۱۷۴۶ء مطابق ۱۱۵۹ھ میں دہلی میں پیدا ہوئے ۔ شاہ عبدالعزیز نے تیرو برس کی عمر میں اس وقت کے مروجہ علوم کی تحصیل سے فراغت حاصل کر لی تحصیل فراغت کے بعد سماعت حدیث کے لیے انھوں نے مدرسہ رحیمیہ میں شمولیت اختیار کی۔ مدرسہ رحیمیہ انہی کے والد بزرگوار شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کا دہلی میں قائم کردہ ادارہ تھا جس کے تحت شاہ ولی اللہ نے مسلمانوں کی روحانی اور اخلاقی اصلاح کا کار خیر انجام دینے کا عزم کیا تھا۔ انھوں نے وہاں رہ کر تقلیدی بندشوں ذریعے سے آزاد ہو کر مجتہدانہ انداز سے نہ صرف بہت سی کتب تصنیف فرمائیں، بلکہ درس و تدریس کے ذر خدمت حدیث کا اہم کام انجام دیا۔ شاہ ولی اللہ نے اپنے لائق فرزند کی ذہانت اور فہم و فراست کو دیکھ کر فرط مسرت سے شاہ عبدالعزیز کو علوم حدیث کا درس دینے کی اجازت عطا کی۔ شاہ عبدالعزیز نے اس طرح خدمت حدیث کی اپنے والد کی روایت کو آگے بڑھایا۔ اپنے والد کے انتقال کے بعد شاہ عبد العزیز تقریبا ۱۲ سال تک علوم حدیث و تفسیر کی درس و تدریس میں مصروف رہے اور پرفتن دور میں تفسیر قرآن و علم حدیث کی تشہیر کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں۔
ہندستان میں اس وقت تمام محدثین کا سلسلہ شاہ عبدالعزیز کے واسطے سے ہی امام شاہ ولی اللہ پر منتہی ہوتا ہے۔ اگر چہ آپ نے تفسیر وفقہ پر بھی پوری توجہ دی ، لیکن نسبتنا حدیث نبوی کی آبیاری غیر معمولی انہماک اور توجہ سے کی۔ کہا جا سکتا ہے کہ اس وقت تک کے علوم متداولہ میں آپ نے ہر علم کی طرف توجہ دی۔ شاید اسی لیے آپ کی درس گاہ سے بہت سے ایسے علماء نے کسب فیض کیا، جو بعد میں چل کر علوم و فنون کی دنیا میں شہرت کے مقام کو پہنچے۔
شاہ عبدالعزیز کے درس و تدریس کا دائرہ سمرقند، بخارا ،مصر اور شام تک پھیلا ہوا تھا۔ ہندستان میں شاید ہی کوئی علاقہ یا شہر ہو جہاں کے کسی نہ کسی نے آپ کے خاندان سے باطنی استفادہ نہ کیا ہو یا جسے شاگردی کا فخر حاصل نہ رہا ہو۔ کچی بات تو یہ ہے کہ بڑے بڑے علماء آپ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کرنا باعث افتخار سمجھتے تھے۔ آپ کی تصانیف اور کتب اہل علم و فضل کے درمیان قابل استفاده و اعتبار متصور کی جاتی تھیں ۔
مولانا اشرف علی تھانوی نے شاہ محمد دہلوی کے شاگر د شیخ محمد تھانوی سے نقل کیا ہے کہ
انھوں نے شاہ عبد العزیز کی نسبت فرمایا کہ شاہ صاحب کو چھ ہزار احادیث کے متن یاد تھے۔ 05
وہ بیک وقت مفسر بھی تھے اور محدث بھی۔ صاحب شریعت اور صاحب طریقت بھی تھے اور خطیب و متکلم بھی ۔ ان کا عہد سیاسی ، سماجی اور مذہبی اعتبار سے نہایت کشمکش اور بے چینی کا دور تھا۔ ایسے نا مساعد حالات میں شاہ عبد العزیز نے دین کی جو خدمت انجام دی اور بالخصوص علوم حدیث کے فروغ کی جو کوشش کی وہ نہایت اہم ہے۔
شاہ عبد العزیز نے علم حدیث میں دو مشہور کتا بیں بستان الہند اور عجالہ نافعہ تصنیف کیں ۔ آپ کی یہ دونوں کتب علوم حدیث کا ذخیرہ ہونے کے باعث مقبولیت اور پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں۔ عجالہ نافعہ اصول حدیث سے متعلق کتاب ہے جب کہ بستان المحد ثین حدیث اور ان کے مؤلفین کے حالات و تعارف پر مشتمل ہے۔
شاہ صاحب نے بستان المحد ثین فارسی زبان میں تصنیف کی لیکن افادیت کے پیش نظر کئی ناشروں نے اس کا ترجمہ اردو زبان میں بھی شائع کیا ہے، جن میں مطبع محمدی لاہور مطبع مجمع مطابع کراچی اور مکتبہ مدینہ دیو بند شامل ہیں۔ اس سے اس کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ میرے سامنے اس کا جو ترجمہ موجود ہے وہ مولانا عبدالسمیع کا کیا ہوا ہے اور اس پر نظر ثانی شبیر احمد محمدی نے کی ہے۔ یہ ترجمہ مکتبہ مدینہ دیو بند نے ۲۰۰۱ ء میں شائع کیا ہے۔
بستان المحد ثین شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کی ایک لا جواب تصنیف ہے، جو محدثین کے حالات کا جامع مجموعہ ہے۔ اس کتاب میں شاہ صاحب نے تقریباً ایک سو کتب حدیث کا تعارف کراتے ہوئے ان کے مصنفین کی سوانح عمریاں نہایت تفصیل سے بیان کی ہیں۔
"حیات ولی" کے مصنف مولوی محمد رحیم بخش کہتے ہیں :
بارہویں صدی کے بعد جو کتا میں سلف کی یادگار میں لکھی گئی ہیں ، وہ سب اس سے اخذ کی گئی ہیں۔ یہ کتاب مصنف کی دینی وعلمی تحقیقات اور تاریخ پر ان کے عبور و مہارت پر دلالت کرتی ہے ۔ نیز دل کش اور خوب صورت انداز بیان کی وجہ سے یہ بے نظیر اور لا جواب تصنیف ہے۔ شاہ عبد العزیز نے کتاب کے آغاز میں اس کا مقصد تالیف یوں بیان فرمایا ہے کہ اکثر رسائل وتصانیف میں ایسی احادیث نقل کی جاتی ہیں کہ ان احادیث کا مطالعہ کرنے والے متعلقہ کتب کے پروڈ تاریکی میں ہونے کے باعث حیرت ؛ استعجاب کی کیفیت میں جتلا ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ ان کتابوں کے تذکرے کے ساتھ ہی ان مصنفین کی شہرت کی وجہ سے ان کے حالات زندگی کا ذکر بھی ضروری معلوم ہوتا ہے۔ علم حدیث کے مطالعے سے قبل اس کتاب کا بہ نظر غائر مطالعہ کرنا چاہیے، تا کہ محدثین اور ان کی تصانیف کے بارے میں معلومات حاصل ہو سکیں۔ 06
شاہ عبد العزیز نے اس کتاب میں دوسری، تیسری اور چوتھی صدی ہجری میں حدیث سے متعلق تصنیف کردہ بیشتر معروف و مشہور کتب اور ساتھ ہی مصنفین کا تعارف جامع انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ غرض تصنیف بیان کرتے ہوئے خود شاد صاحب نے فرمایا ہے:
اکثر رسالوں اور تصانیف میں ایسی کتابوں سے حدیثیں نقل کی جاتی ہیں جن پر اطلاع نہ ہونے کی وجہ سے سننے والوں کو حیرانی پیش آتی ہے۔ اس وجہ سے اصل مقصود تو ان کتابوں کا ذکر ہے مگر ساتھ ہی ان کے مصنفین کا بھی ذکر کیا جائے گا۔ اس لیے کہ مصنف سے اس تصنیف کی قدر معلوم ہوتی ہے۔ 7
اس کتاب کے انداز اور اسلوب پر روشنی ڈالتے ہوئے شاہ صاحب مزید لکھتے ہیں:
ہمارا مقصد و فقط متون کا ذکر ہے۔ مگر بعض شرحوں کا بھی اس وجہ سے ذکر کیا جائے گا کہ کثرت شہرت، کثرت نقل اور غایت درجہ اعتماد کی وجہ سے اگر ان کو متون کا حکم دیا جائے تو کچھ بے جانہ ہوگا ۔ 8
شاہ صاحب نے واضح کر دیا ہے کہ کتب حدیث کے متون کے علاوہ شرحوں کا متن بھی ذکر کیا گیا ہے اور ساتھ ہی مصنفین کے احوال بھی بیان کیے گئے ہیں تا کہ ان کتابوں اور شرحوں کی اہمیت اور ان کی قدر و منزلت کا اندازہ ہو سکے۔
اس مقالے میں ان تمام کتب اور ان کے مصنفین کا تفصیلی ذکر ممکن نہیں لیکن بہ طور نمونہ دو ایک کا تذکرہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ اس سے شاہ صاحب کی علم حدیث ، فنون حدیث اور مصنفین کتب حدیث کے بارے میں گہری معلومات اور دقیق مسائل میں نکتہ سنج طبیعت اور تحقیقی اور اس کا اندازہ لگا یا جا سکتا ہے۔
موطا امام مالک : شاہ صاحب نے سب سے پہلے موطا امام مالک کا تذکرہ کیا ہے۔ امام مالک کی سوانح حیات کے ساتھ موطا کے ان سولہ مختلف نسخوں کا تذکرہ تفصیل سے کیا ہے جو امام مالک کے مختلف شاگردوں نے پیش کیے۔ اسی طرح اس عہد کی تصنیف شدہ مسانید میں مسند امام اعظم ، مسند امام شافعی ، مسند امام احمد بن حنبل اور مسند ابوداؤ د طیالسی کا تذکرہ بھی کافی تفصیل سے کیا ہے۔ کتاب کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ دوسری اور تیسری صدی میں تیار ہونے والی مصنفات، مسندات کتب ستہ، مستدرکات ومستخرجات اور ان کے مصنفین کے احوال و کوائف کا احاطہ بھر پور انداز میں کیا گیا ہے۔
اس کتاب (بستان المحد ثین) میں ایک اہم خوبی یہ بھی ہے کہ شاہ صاحب نے جب کسی محدث کی زندگی کے حالات پر روشنی ڈالی ہے تو اس کے اپنے خصائل و عادات، حلیہ، دینی و علمی خدمات اور تصانیف کی اہمیت کی وضاحت کی ہے اور ساتھ ہی مختصر ا اس محدث کے تلامذہ اور شاگردوں کی سوانح کا بھی ذکر کیا ہے۔ اس کے علاوہ اس محدث کے اپنے اشعار اور پھر اس محدث کی شان میں دوسروں کے اشعار کا بھی تذکرہ کرتے ہیں ۔ اگر کسی محدث کے شاگردوں نے اپنے طور پر ان کی کتاب کے الگ الگ نسخے تیار کیے تو ان کا بھی استقرائی انداز سے تذکرہ کیا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی بتایا ہے کہ وہ نسخہ کس شاگرد کا تیار کر دو ہے اور کہاں کہاں پایا جاتا ہے۔ اس کی واضح مثال امام مالک اور ان کی موطا کا تذکرہ ہے۔
بستان المحد ثین کی ایک بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ شاہ صاحب ہر کتاب کا تعارف اس کتاب کی پہلی حدیث ذکر کر کے شروع کرتے ہیں۔ ڈاکٹر ثریا ڈار نے اس خوبی پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے: بستان الحمدثین کی بڑی خصوصیت یہ ہے کہ شاہ صاحب نے ہر کتاب کا تعارف اس کی پہلی حدیث سے کرایا ہے اور اسے بعینہ اپنی تصنیف میں نقل کیا ہے۔ 09
بستان المحد ثین کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ شاہ عبد العزیز نے جن علاقوں میں ان نامور محدثین کرام کی کتب احادیث کی شہرت و مقبولیت نقطہ عروج کو پہنچی ، ان کے نام بھی تحریر کئے ہیں۔ اس سلسلے میں مثال کے طور پر " صحیح ابی عوانہ" کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔
صحیح ابی عوانہ کے بارے میں شاہ صاحب فرماتے ہیں:
" در مذہب شافعی بود و مذہب شافعی را اول کے کہ در اسفرائن آورد " ( وہ مسلکا شافعی تھے اور پہلے شخص ہیں جو مذہب شافعی کو اسفرائن لائے ) ۔10
بستان المحد ثین کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ شاہ صاحب نے اس میں کسی کتاب کے مجموعہ حدیث کی تعداد کا بھی ذکر کیا ہے۔ اگر کتب احادیث میں ثلاثی روایات موجود ہیں تو ان کی تعداد بھی بیان کی ہے۔ سنن ابومسلم الکشی 11، سنن سعید بن منصور اور مصنف عبدالرزاق کو شاہ صاحب بہت اعلی و ارفع مقام دیتے ہیں اور اس کی وجہ وہ ان کتب میں ثلاثیات کی کثرت قرار دی ہے۔
بستان المحد ثین کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ شاہ صاحب نے اپنی اس کتاب میں محدث کے فقہی مسلک اور ذاتی رجحان و میلان کو من وعن ظاہر کیا ہے۔ اور اس کا مقصد یہ بتایا ہے کہ لوگوں کو اس محدث کے مسلک اور رجحان کے بارے میں پتہ چل جائے ۔ مثلاً امام نسائی کے بارے میں فرماتے ہیں:
” او شافعی المذهب بود، چنان چه مناسک او بران دلالت می کند ( وہ شافعی مسلک کے حامل تھے، چنانچہ ان کا طریق عبادت اس پر دلالت کرتا ہے ) ۔ 12
به ظاهر یہ مختصر کتاب در اصل فن معرفت علل حدیث ، اسماء الرجال علم نحو، فن تجوید اور علم ادب و شعر میں معروف محد ثین کے احوال زندگی پر تفصیل سے روشنی ڈالتی ہے۔ اليانع الجنی " کے مصنف محمد محسن بن یحییٰ البکری، بستان المحد ثین کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
" منها كتابة بستان المحدثين، جمع فيه علوم الحديث مهذبة واختصرها ( شاہ صاحب کی تصانیف میں ایک تصنیف بستان المحد ثین ہے۔ اس میں انھوں نے علوم حدیث کو عمدہ اور مختصر انداز میں جمع کر دیا ہے ۔ ) 13
اسی اہمیت وافادیت کے پیش نظر اس کتاب کا اردو ترجمہ مولانا عبدالسمیع نے کیا جسے ہندو پاک کے مختلف اداروں نے شائع کیا۔ ابھی حال ہی میں مولانا راشد کاندھلوی نے اس کتاب کو اپڈیٹ کر کے ضروری معلومات، حواشی وغیرہ کے ساتھ اس کو ایک ضخیم بھر پور جلد میں پیش کیا ہے۔ 14
PPPPPPPPPPPPPP
حواشی
1۔ فریوائی ، عبد الرحمن، جهود مخلصة في خدمة السنة المطهرة ، إدارة البحوث الاسلامیہ ، سلفیہ بنارس، ۱۹۸۹، ص۲۳
۲- حسنی ، عبد الحکیم سید عبد الحی ، یاد ایام علی گڑھ ، ۱۹۱۹ء ص ۹۸
۳۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو : حکیم سید عبدالحی لکھنوی کی کتاب الثقافة الاسلامية في الهند، مجمع اللغة العربية ، دمشق، ۱۹۸۳، ص ۱۳۵
۴- فیروز پوری، قاضی محمد اسلم سیف تحریک اہل حدیث تاریخ کے آئینے میں، مکتبہ قدسیہ ، لاہور ، ۲۰۰۵، ص ۱۳۷
۵- تھانوی، اشرف علی الافاضات اليومية من الافادات القومية ، اشرف المطابع ، تھانہ بھون ، ۱۹۳۹ء ، ص ۲۶۳
6- ڈار ثریا ، شاه عبد العزیز اور ان کی علمی خدمات، ادارہ ثقافت اسلامیہ، لاہور ، ۲۰۰۵، ص ۲۶۴
7۔ شاہ عبد العزیز بستان المحد ثین (ترجمہ: مولا نا عبدالسمیع) تمهید مصنف مکتبه مدینه، دیو بند ۲۰۰۱ ص ۱۱
8- ماخذ سابق
9- ماخذ سابق ، شاه عبد العزیز اور ان کی علمی خدمات، ص۲۶۵
۱۰۔ شاہ عبد العزیز ، بستان المحد ثین ( فارسی ) ، ص ۳۷ ، ترجمہ اردو عبد السمیع ، اصبح المطابع و کارخانه تجارت کتب ، کراچی، ۱۳۳۴ھ، ص ۲۴
11۔ ان کو الکجی بھی کہا جاتا ہے۔
۱۲- ماخذ سابق عبد العزیز بستان المحد ثین ( فارسی ) ، ص۱۱ اردد ۶۵
۱۳۔ الترہتی، محمد بن یحی البکری التیمی، الیانع الجنی ، اروقة للدراسات والنشر، المان، اردان، ۲۰۱۶، ص ۱۳۳
۱۴۔ دہلوی ، شاد عبد العزیز محدث، بستان المحد ثین (صحیح ، ترجمہ، حواشی اور اضافات : نور الحسن راشد کاندھلوی ) مفتی الہی بخش اکیڈمی منظر نگر، یوپی، ۱۴۳۷ھ
Comments