بستان المحدثین اردو از شاہ عبدالعزیز دہلوی مترجم مولانا عبدالسمیع

بستان المحدثین اردو 

از

 شاہ عبدالعزیز دہلوی 

مترجم:  مولانا عبدالسمیع



 شاہ صاحب نے بستان المحد ثین فارسی زبان میں تصنیف کی لیکن افادیت کے پیش نظر کئی ناشروں نے اس کا ترجمہ اردو زبان میں بھی شائع کیا ہے، جن میں مطبع محمدی لاہور مطبع مجمع مطابع کراچی اور مکتبہ مدینہ دیو بند شامل ہیں۔ اس سے اس کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ میرے سامنے اس کا جو ترجمہ موجود ہے وہ مولانا عبدالسمیع کا کیا ہوا ہے اور اس پر نظر ثانی شبیر احمد محمدی نے کی ہے۔ یہ ترجمہ مکتبہ مدینہ دیو بند نے ۲۰۰۱ ء میں شائع کیا ہے۔

بستان المحد ثین شاہ عبد العزیز محدث دہلوی کی ایک لا جواب تصنیف ہے، جو محدثین کے حالات کا جامع مجموعہ ہے۔ اس کتاب میں شاہ صاحب نے تقریباً ایک سو کتب حدیث کا تعارف کراتے ہوئے ان کے مصنفین کی سوانح عمریاں نہایت تفصیل سے بیان کی ہیں۔

"حیات ولی" کے مصنف مولوی محمد رحیم بخش کہتے ہیں :

بارہویں صدی کے بعد جو کتا میں سلف کی یادگار میں لکھی گئی ہیں ، وہ سب اس سے اخذ کی گئی ہیں۔ یہ کتاب مصنف کی دینی وعلمی تحقیقات اور تاریخ پر ان کے عبور و مہارت پر دلالت کرتی ہے ۔ نیز دل کش اور خوب صورت انداز بیان کی وجہ سے یہ بے نظیر اور لا جواب تصنیف ہے۔ شاہ عبد العزیز نے کتاب کے آغاز میں اس کا مقصد تالیف یوں بیان فرمایا ہے کہ اکثر رسائل وتصانیف میں ایسی احادیث نقل کی جاتی ہیں کہ ان احادیث کا مطالعہ کرنے والے متعلقہ کتب کے پروڈ تاریکی میں ہونے کے باعث حیرت ؛ استعجاب کی کیفیت میں جتلا ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ ان کتابوں کے تذکرے کے ساتھ ہی ان مصنفین کی شہرت کی وجہ سے ان کے حالات زندگی کا ذکر بھی ضروری معلوم ہوتا ہے۔ علم حدیث کے مطالعے سے قبل اس کتاب کا بہ نظر غائر مطالعہ کرنا چاہیے، تا کہ محدثین اور ان کی تصانیف کے بارے میں معلومات حاصل ہو سکیں۔ 

شاہ عبد العزیز نے اس کتاب میں دوسری، تیسری اور چوتھی صدی ہجری میں حدیث سے متعلق تصنیف کردہ بیشتر معروف و مشہور کتب اور ساتھ ہی مصنفین کا تعارف جامع انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ غرض تصنیف بیان کرتے ہوئے خود شاد صاحب نے فرمایا ہے:

اکثر رسالوں اور تصانیف میں ایسی کتابوں سے حدیثیں نقل کی جاتی ہیں جن پر اطلاع نہ ہونے کی وجہ سے سننے والوں کو حیرانی پیش آتی ہے۔ اس وجہ سے اصل مقصود تو ان کتابوں کا ذکر ہے مگر ساتھ ہی ان کے مصنفین کا بھی ذکر کیا جائے گا۔ اس لیے کہ مصنف سے اس تصنیف کی قدر معلوم ہوتی ہے۔ 

اس کتاب کے انداز اور اسلوب پر روشنی ڈالتے ہوئے شاہ صاحب مزید لکھتے ہیں:

ہمارا مقصد و فقط متون کا ذکر ہے۔ مگر بعض شرحوں کا بھی اس وجہ سے ذکر کیا جائے گا کہ کثرت شہرت، کثرت نقل اور غایت درجہ اعتماد کی وجہ سے اگر ان کو متون کا حکم دیا جائے تو کچھ بے جانہ ہوگا ۔ 

شاہ صاحب نے واضح کر دیا ہے کہ کتب حدیث کے متون کے علاوہ شرحوں کا متن بھی ذکر کیا گیا ہے اور ساتھ ہی مصنفین کے احوال بھی بیان کیے گئے ہیں تا کہ ان کتابوں اور شرحوں کی اہمیت اور ان کی قدر و منزلت کا اندازہ ہو سکے۔

اس مقالے میں ان تمام کتب اور ان کے مصنفین کا تفصیلی ذکر ممکن نہیں لیکن بہ طور نمونہ دو ایک کا تذکرہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ اس سے شاہ صاحب کی علم حدیث ، فنون حدیث اور مصنفین کتب حدیث کے بارے میں گہری معلومات اور دقیق مسائل میں نکتہ سنج طبیعت اور تحقیقی اور اس کا اندازہ لگا یا جا سکتا ہے۔ 

DOWNLOAD



Comments