پسندیدہ اور ناپسندیدہ غیرت ، اقوال رسول ﷺ کی روشنی میں

’’غیرت‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے مفہوم میں اہل زبان دو باتوں کابطور خاص ذکر کرتے ہیں۔ ایک یہ کہ کوئی ناگوار بات دیکھ کر دل کی کیفیت کا متغیر ہو جانا

 

پسندیدہ اور ناپسندیدہ غیرت

FAVAROUD AND DISLIKE HONOUR
FAVAROUD AND DISLIKE HONOUR


’’غیرت‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے مفہوم میں اہل زبان دو باتوں کا بطور خاص ذکر کرتے ہیں۔ ایک یہ کہ کوئی ناگوار بات دیکھ کر دل کی کیفیت کا متغیر ہو جانا، اور دوسرا یہ کہ اپنے کسی خاص حق میں غیر کی شرکت کو برداشت نہ کرنا۔ ان دو باتوں کے اجتماع سے پیدا ہونے والے جذبہ کا نام غیرت ہے۔

اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:

((إِنَّ مِنَ الْغَيْرَةِ مَا يُحِبُّ اللَّهُ، وَمِنْهَا مَا يُبْغِضُ اللَّهُ))

’’ کچھ غیرت ایسی ہے جسے اللہ تعالی پسند کرتا ہے اور کچھ ایسی ہے جسے اللہ تعالی ناپسند کرتا ہے۔


((فَأَمَّا الْغَيْرَةُ الَّتِي يُحِبُّ الله فالغيرة في الربية))

’’جو غیرت اللہ تعالی پسند کرتا ہے وہ، وہ غیرت ہے جہاں معاملہ مشکوک ہو۔‘‘


((وَ أَمَّا الْغَيْرَةُ الَّتِي يُبْغِضُ اللهُ فَالْغَيْرَةُ فِي غَيْرِ الريبة))

’’ البتہ وہ غیرت جسے اللہ تعالی ناپسند کرتا ہے، ایسی غیرت کہ جہاں شک کی کوئی بات ہی نہ ہو۔ بس صرف آدمی شکی مزاج ہو۔‘‘

[احمد:23752 ، نسائی:2558]

اہل عرب نے اس وقت اپنے طور پر غیرت کے تقاضے بنا رکھے تھے اور ان کے نزدیک غیرت کے معیار کچھ اور ہی تھے۔ فلاں کے اونٹ نے میرے اونٹ سے پہلے پانی کیوں پیا، فلاں کا اونٹ میرے اونٹ سے آگے کیوں نکل گیا۔ فلاں نے میرے خاندان یا میرے باپ دادا کے بارے میں یہ کیوں کہا، سالہا سال انہی باتوں پر خون بہائے جاتے تھے۔ یا پھر بیٹی کی پیدائش کو غیرت کے خلاف سمجھتے۔
[أخلاق العرب بين الجاهلية والإسلام: ص121]

سورہ النحل میں ارشاد باری ہے:
’’ان میں سے جب کسی کو بیٹی پیدا ہونے کی خبر دی جاتی تو اس کا چہرہ بے رونق ہو جاتا اور دل ہی دل میں گھٹتا رہتا اور بری خبر کی شرم سے لوگوں سے منہ چھپاتا پھرتا کہ اس ذلت کو برداشت کرے یا اسے مٹی میں گاڑ دے۔‘‘
(سورۃ النحل :58-59)

غیرتِ مذمومہ:

ایک آدمی نبی کریم ﷺ کے پاس ایک صاحب آئے، اور کہا: یا رسول اللہ! ہم لوگ جاہلیت والے اور بتوں کی عبادت کرنے والے لوگ تھے، ہم اپنی اولاد کو قتل کردیتے تھے، اور میری ایک بیٹی تھی، جب وہ  کچھ بڑی ہوئی، اور اس کا حال یہ تھا کہ جب میں اسے بلاتا تو وہ میرے بلانے سے خوش ہوتی تھی، تو ایک دن میں نے اسے بلایا، وہ میرے پیچھے ہو لی، میں چلا یہاں تک کہ اپنے قبیلے کے ایک کنویں پر آیا جو زیادہ دور نہیں تھا، پھر میں نے اس کا ہاتھ پکڑا، اور اسے کنویں میں ڈال دیا، اور آخری الفاظ جو اس نے مجھے کہے وہ یہ تھے: "اے میرے ابا، اے میرے ابا" .  نبی کریم ﷺ  کو یہ  واقعہ سن کر   رونا آگیا، یہان تک کہ آپﷺ کے آنسو چھلک پڑے، تو ان صاحب سے مجلس میں بیٹھے ایک دوسرے صاحب نے فرمایا کہ آپ نے نبی کریمﷺ کو غمگین کردیا۔ اس کہنے والے سے حضورﷺ نے فرمایا:" اسے کچھ نہ کہو، یہ اس چیز کے بارے میں پوچھ رہا ہے جس نے اسے پریشان کیا ہوا ہے"۔ پھر دوبارہ ان قصہ سنانے والے صاحب سے کہا کہ اپنا واقعہ مجھے دوبارہ سناؤ۔ انہوں نے واقعہ دوبارہ سنایا، آپﷺ پھر روئے یہاں تک کہ آپ کے آنسو آپ کی داڑھی پر بہہ پڑے۔ پھر ان صاحب سے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے اہل جاہلیت کے تمام برے افعال (اسلام لانے کی وجہ سے) معاف فرما دئے  ہیں، لہٰذا اب نئے سرے سے اعمال کرو۔
[سنن دارمي۔حدیث:2]

غیرتِ محمودہ:

صعصعۃ مجاشعی ؓ سے روایت کیا کہ جو فرزدق(شاعر) کے دادا تھے کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں نے زمانہ جاہلیت میں کچھ نیک عمل کیے تھے کیا اس میں میرے لیے اجر ہوگا پوچھا تو نے کیا عمل کیا تھا؟ عرض کیا کہ میں نے تین سو ساٹھ زندہ درگور کی ہوئی لڑکیوں کو زندہ کیا اور میں نے ان میں سے ہر ایک کو دو دس ماہ کی گابھن اونٹنیوں، اور ایک اونٹ کے بدلے میں خریدا کیا اس میں میرے لیے اجر ہوگا نبی ﷺ نے فرمایا تیرے لیے اس میں اجر یہ ہے تب تو اللہ تعالیٰ نے تجھے اسلام کی توفیق عطا فرمائی۔
رسول اکرم ﷺ کی تشریف آوری کے وقت اس معاشرے میں غیرت مندی کے ایسے معیار تھے لیکن رسول اکرم ﷺ نے غیرت کے ان تمام معیاروں کو بدل کر رکھ دیا۔ 


’’غیرت‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے مفہوم میں اہل زبان دو باتوں کا بطور خاص ذکر کرتے ہیں۔ ایک یہ کہ کوئی ناگوار بات دیکھ کر دل کی کیفیت کا متغیر ہو جانا، اور دوسرا یہ کہ اپنے کسی خاص حق میں غیر کی شرکت کو برداشت نہ کرنا۔ ان دو باتوں کے اجتماع سے پیدا ہونے والے جذبہ کا نام غیرت ہے۔
آپ ﷺنے فرمایا:
((إِنَّ اللهَ يَغَارُ وَإِنَّ الْمُؤْمِنَ يَغَارُ))
’’ اللہ تعالی غیرت کرتا ہے اور بندہ مؤمن بھی غیرت کرتا ہے۔‘‘
((وَغَيْرَةُ اللهِ أَنْ يَأْتِيَ الْمُؤْمِنُ مَا حَرَّمَ اللَّهُ))
’’اور اللہ تعالیٰ کا غیرت کرنا اس بات پر اور اس وقت ہوتا ہے جب کوئی بندہ وہ کام (شرک/گناہ) کرتا ہے جو اللہ تعالی نے حرام کر رکھا ہو ۔‘‘
[مسلم:2761]
علماء کرام نے اللہ تعالیٰ کے اس اعلان کا باعث بھی غیرت ہی کو قرار دیا ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ جس گناہ کو چاہیں گے بخش دیں گے لیکن شرک کو کبھی معاف نہیں کریں گے۔ علماء کا کہنا ہے کہ بندگی اور عبادت اللہ تعالیٰ کا خاص حق ہے، اس لیے اس خاص حق میں کسی دوسرے کی شرکت کو گوارا کرنا غیرت کے خلاف ہے، اور یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں سب سے زیادہ مذمت شرک کی بیان کی گئی ہے۔
غیرت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جس شخصیت کے ساتھ محبت ہو اس کی کسی درجہ میں بھی توہین برداشت نہیں ہوتی۔ حافظ ابن القیم کے بقول جس شخص کو جس شخصیت کے ساتھ جس قدر محبت ہو اسی قدر اسے اس پر غیرت آتی ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ کی ذات گرامی، قرآن کریم، اور جناب نبی اکرمؐ کی بے حرمتی پر ایک مسلمان سب سے زیادہ طیش میں آتا ہے کہ بحیثیت مسلمان اس کی محبت سب سے زیادہ انہی کے ساتھ ہوتی ہے۔ چنانچہ غیرت محبت کی علامت بھی ہے کہ جس کے ساتھ جتنی محبت ہوگی انسان اس پر اتنی ہی غیرت کھائے گا۔
اللہ تعالیٰ، قرآن کریم ، اور رسول اکرم ﷺ کے بعد غیرت کا مظاہرہ جس چیز پر سب سے زیادہ ہوتا ہے وہ میاں بیوی کا تعلق ہے اور عصمت و عفت کے باہمی تعلقات کا تحفظ ہے۔ اس کے بارے میں غیرت کے اظہار کے بیسیوں واقعات احادیث کے ذخیرے میں موجود ہیں۔ حتیٰ کہ اس حوالہ سے خود جناب نبی اکرمؐ اور ازواج مطہرات کے متعدد واقعات ہیں جو اسلامی تعلیمات میں اس جذبۂ صادقہ کی اہمیت کو واضح کرتے ہیں۔ ان میں سے چند واقعات کا تذکرہ اختصار کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔
ابو داؤد کی روایت ہے کہ آنحضرتؐ ایک بار ام المومنین حضرت عائشہؓ کے پاس ان کے حجرہ میں تشریف لائے تو ایک نوجوان کو ان کے حجرے میں بیٹھے ہوئے دیکھا۔ یہ دیکھتے ہی آپؐ کے چہرے کا رنگ متغیر ہوگیا جسے حضرت عائشہؓ نے بھانپ لیا اور فورًا وضاحت کی کہ یا رسول اللہ! یہ میرا رضاعی بھائی ہے۔
اور یہ بھی غیرت ہی کا اظہار تھا کہ قرآن کریم میں پردے کا حکم ابھی نازل نہیں ہوا تھا مگر حضرت عمرؓ نے حضورؐ سے درخواست کی کہ یا رسول اللہ! آپ کی مجلس میں مسلمان، منافق، کافر ہر قسم کے لوگ آتے ہیں اور مجھے یہ بات اچھی نہیں لگتی کہ آپ کی بیویوں اور بیٹیوں پر ان لوگوں کی نگاہ پڑے، اس لیے آپ انہیں پردہ کا حکم دیجیے۔ مفسرین کرام کا کہنا ہے کہ اسی کے بعد سورۃ الاحزاب کی یہ آیت نازل ہوئی:
’’اے پیغمبر! اپنی بیویوں، بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں کو حکم دیجیے کہ وہ اپنے اوپر چادریں لٹکا کر رکھا کریں۔‘‘
غیرت کا تعلق مرد و عورت دونوں سے ہے۔ اسلام نے دونوں کا یہ حق مساوی تسلیم کیا ہے کہ اگر دوسرا فریق ان کے خاص حق میں کسی دوسرے کو شریک کرتا ہے تو وہ اس پر غصہ کا اظہار کرے اور اس پر احتجاج کرے۔ حتیٰ کہ کسی مرد کی ایک سے زائد بیویاں ہوں تو ان بیویوں کا یہ حق بھی اسلام میں تسلیم کیا گیا ہے کہ وہ باہمی معاملات کے توازن میں کوئی فرق محسوس کریں تو اس کا اظہار کریں۔ چنانچہ نسائی کی روایت میں ہے کہ ام المومنین حضرت عائشہؓ نے ایک بار اپنی باری والے دن تھوڑی دیر کے لیے رسول اللہؐ کو اپنے پاس نہ پایا۔ انہیں خدشہ ہوا کہ آپؐ کسی اور بیوی کے ہاں تو نہیں چلے گئے تھے۔ حضورؐ جب واپس آئے تو حضرت عائشہؓ نے آپؐ کے سر کے بالوں میں انگلیاں داخل کر کے یہ دیکھا کیا کہ کہیں آپ غسل کر کے تو نہیں آئے۔
جناب نبی اکرمؐ نے غیرت کو نہ صرف اچھا جذبہ قرار دیا ہے بلکہ اس کا احترام بھی کیا ہے۔ چنانچہ صحیح روایت میں ہے کہ آپؐ نے خواب میں جنت کی سیر کرتے ہوئے حضرت عمرؓ کا محل دیکھا اور اس میں داخل ہونا چاہا مگر کونے میں ایک خوبصورت خاتون کو وضو کرتے دیکھ کر رک گئے اور محل کے اندر نہیں گئے۔ اس کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ مجھے عمرؓ کی غیرت کا خیال آگیا تھا۔
اپنے گھر کے ماحول میں عصمت و عفت کے ماحول کو قائم رکھنا اور پردہ داری کے تقاضوں کا لحاظ کرنا گھر کے سربراہ کی ذمہ داریوں میں شمار کیا گیا ہے۔ چنانچہ نسائی کی روایت ہے کہ آنحضرتؐ نے فرمایا کہ ’’دیوث‘‘ شخص پر جنت حرام کر دی گئی ہے۔ اور پھر لفظ دیوث کی وضاحت بھی آپؐ نے خود فرمائی کہ وہ شخص جو اپنے گھر والوں میں بے حیائی کی باتیں برداشت کر لے۔
تاریخی روایات میں آتا ہے کہ حضرت عثمانؓ سے خلافت سے دستبرداری کا مطالبہ کرنے والے باغی جب انہیں شہید کرنے کے لیے گھر میں داخل ہوگئے تو امیر المومنینؓ کی اہلیہ محترمہ حضرت نائلہؓ نے عربوں کے رواج کے مطابق سر کے بال بکھیر کر حملہ آوروں کو رحم کی دہائی دینا چاہی۔ اس پر حضرت عثمانؓ نے دور سے چلا کر آواز دی کہ:
’’اپنی چادر اوڑھ لو۔ کیونکہ تمہارا ننگے سر ہونا میرے لیے ان لوگوں کے حملے سے زیادہ تکلیف دہ ہے۔‘‘
احادیث کے ذخیرہ میں اس کے علاوہ بھی بیسیوں واقعات ہیں جن میں غیرت کے اسی دینی جذبہ کا اظہار ہوتا ہے۔ مگر جس طرح انسان کے دوسرے اوصاف اور خصلتوں کی حدود بیان کی گئی ہیں اسی طرح جناب نبی اکرمؐ نے غیرت کے جائز اور ناجائز پہلوؤں کی بھی نشاندہی کی ہے اور اس کی حدود بیان فرمائی ہیں۔ مثلاً ابوداؤد میں حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ آنحضرتؐ نے فرمایا کہ ایک غیرت وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہے۔ پھر فرمایا کہ جو غیرت کسی سبب کی وجہ سے ہو وہ پسندیدہ ہے جبکہ غیرت کا جو اظہار کسی سبب کے بغیر خواہ مخواہ ہو اسے اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتے بلکہ اس سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب واضح ہے کہ کسی سبب اور وجہ کے ظاہر ہونے پر اگر غصہ اور غیرت کا اظہار کیا جائے تو بجا ہے مگر بلاوجہ اور بلاسبب خواہ مخواہ غیرت کا اظہار شرعاً درست نہیں ہے۔

اسی طرح غیرت اور غصہ کا جائز حد تک اظہار تو بجا ہے مگر قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی گئی۔ جیسا کہ بخاری کی روایت میں ہے کہ جب زنا کے ثبوت اور اس کی سزا کے لیے چار گواہوں کی شرط قرآن کریم میں نازل ہوئی تو حضرت سعد بن عبادہؓ نے تعجب سے پوچھا کہ یا رسول اللہ! کیا میں اپنی بیوی کے ساتھ غیر مرد کو دیکھ کر چار گواہ تلاش کرتا پھروں گا؟ نہیں بلکہ بخدا میں تو تلوار کے ساتھ اس کا کام تمام کر دوں گا۔ جناب نبی اکرمؐ نے اس پر فرمایا کہ دیکھو سعدؓ کتنا غیرت والا ہے، میں بھی غیرت والا ہوں اور اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ غیرت والا ہے۔ یعنی آپؐ نے حضرت سعدؓ کی غیرت کا تذکرہ تو فرمایا مگر قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی۔
اسی طرح بخاری میں حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ امیر المومنین حضرت عمرؓ کی اہلیہ ان کے دور خلافت میں فجر اور عشاء کی نماز کے لیے باقاعدگی کے ساتھ مسجد میں جایا کرتی تھیں۔ حضرت عمرؓ کو یہ بات اپنی طبعی غیرت کی وجہ سے پسند نہیں تھی مگر منع بھی نہیں کرتے تھے۔ اس کی وجہ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ یہ بیان کرتے ہیں کہ جناب نبی اکرمؐ نے ارشاد فرمایا ہے کہ:
’’اللہ کی بندیوں کو مسجد میں جانے سے نہ روکا کرو۔‘‘
اس لیے حضرت عمرؓ پسند نہ ہونے کے باوجود اپنی اہلیہ کو مسجد میں جانے سے نہیں روکتے تھے۔ اس کا مطلب ہے کہ غیرت کا اظہار بہت اچھی چیز ہے لیکن جو حقوق عورت کو شریعت نے دے رکھے ہیں انہیں غیرت کے نام پر ان سے روکنا درست نہیں ہے۔ الغرض غیرت ایک اچھا جذبہ ہے جو نہ صرف ہمارے ایمان و عقیدہ کی حفاظت کرتا ہے بلکہ عورت اور مرد کے عفت و عصمت کے نظام اور خاندانی ماحول کے تقدس کا محافظ بھی ہے۔ البتہ اس کے اظہار اور استعمال کی حدود بھی متعین ہیں کہ غیرت کے نام پر نہ قانون کو ہاتھ میں لینے کی اجازت ہے اور نہ ہی عورتوں کو ان کے شرعی حقوق سے محروم کر دینے کا کوئی جواز ہے۔



Post a Comment

Type Your Feedback