سوشل میڈیا ؛
صحیح اور غلط استعمال؟
کائنات میں ارتقاء کا عمل جاری ہے، ہر صبح جب طلوع ہوتی ہے تو اپنے جلو میں ترقی کا ایک نیا پیغام لے کر آتی ہے اور ہر شب جب کائنات کی فضاء پر چھاتی ہے تو وہ کسی نئی حقیقت سے پردہ اٹھانے کا مژدہ سناتی ہے، ترقی کا یہ سفر جیسے زندگی کے دوسرے شعبوں میں جاری ہے، اسی طرح ذرائع ابلاغ کے میدان میں بھی پوری قوت اور تیز گامی کے ساتھ جاری وساری ہے ؛ بلکہ اس میدان میں ٹیکنالوجی کی ترقی دوسرے شعبہ ہائے زندگی کے مقابلہ زیادہ تیز ہے،
ہم لوگوں نے اپنے بچپن میں دیکھا کہ اس وقت ریڈیو اور ٹیپ ریکارڈ ہی بہت بڑی چیز تھی اور فون و ٹیلی گرام کو حیرت و استعجاب کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا ، لیکن آج اگر کوئی شخص ان ایجادات کو حیرت و رشک کی نظر سے دیکھے تو بچے بھی اس پر ہنسیں گے،
چنانچہ پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا نے دور دور تک اپنی بات پہنچانے کو آسان کر دیا اور اس کی رفتار ہوا کی رفتار سے بھی بڑھ گئی ، افسوس کہ مسلمان ان تمام مرحلوں میں مسلسل پسماندگی کا شکار رہے، ہم ترقی کے قافلہ کا سالار بننے کی بجائے اس قافلہ میں شامل آخری فرد بھی نہ بن سکے اور گرد کارواں بننے ہی کو اپنے لئے بڑی نعمت سمجھا ، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر عالمی اعتبار سے یہودی حاوی ہو گئے وطن عزیز میں فرقہ پرستوں کا بول بالا ہو گیا، اور میڈیا کے ہتھیار سے ہمارے ملی مفادات ، تہذیبی اقدار، قومی وقار اور دینی افکار کا اس طرح قتل کیا گیا کہ شاید توپ اور ٹینک کے گولوں اور فائیٹر جہازوں کی طرف سے ہونے والی آگ کی برسات بھی ہمیں اس درجہ نقصان نہیں پہنچ پاتی : فیا اسفاه و یا عجباه !
ادھر بیس سے پچیس سال کے درمیان ابلاغ کے ایسے ذرائع عام ہوئے، جن کو سوشل میڈیا کہا جاتا ہے، اس کا امتیازی پہلو یہ ہے کہ اس پر اب تک حکومت یا کسی خاص گروہ کی اجارہ داری نہیں ہے ، خدا کرے یہ صورت حال باقی رہے ، اس میں خاصا تنوع بھی ہے ، جس میں واٹس اپ، فیس بک، یوٹیوب، ٹیوٹر ، اسکائپ وغیرہ شامل ہیں ،
لیکن یہ ایک بہتا ہوا سمندر ہے، جس میں ہیرے اور موتی بھی ڈالے جاسکتے ہیں اور خس و خاشاک بھی ، اس میں صاف شفاف پانی بھی اُنڈیلا جاسکتا ہے اور گندہ بد بود ار فضلہ بھی ، اس سے دینی، اخلاقی اور تعلیمی نقطہ نظر سے مفید چیزیں بھی پہنچائی جاسکتی ہیں اور انسانی و اخلاقی اقدار کو تباہ کرنے والی چیزیں بھی ، دوسری طرف اس کا اثر اتنا وسیع ہو چکا ہے اور زندگی کے مختلف شعبوں میں اس کا نفوذ اس درجہ کا ہے کہ اس کو نظر انداز بھی نہیں کیا جا سکتا اور گزرنے والے ہر دن کے ساتھ اس کی اہمیت بڑھتی جاتی ہے ؟ اس لئے اگر چہ بہت سے لوگوں نے خلوص اور بہتر جذبہ کے ساتھ اس کو روکنے کی کوشش کی لیکن بالآخر انھیں اس کی سرکش موجوں کے سامنے ہتھیار ڈالنا ہی پڑا؟
اس لئے اب ہمیں اس ذریعہ ابلاغ کے مثبت اور منفی اور مفید و نقصان دہ پہلو کا تجزیہ کرنا چاہئے اور اس سلسلہ میں تمام مسلمانوں اور خاص کر ملت کی نوجوان نسل کی رہنمائی کرنی چاہئے۔
سوشل میڈیا کے منفی پہلو
سوشل میڈیا کے جو منفی اور نقصان دہ پہلو ہیں، وہ یہ ہیں:
(1) یہ جھوٹی خبریں پھیلانے کا ایک بڑا نیٹ ورک بن گیا ہے اور اکثر بہت سی باتیں کسی تحقیق کے بغیر اس میں ڈال دی جاتی ہیں ؟ کیوں کہ اس پر حکومت یا کسی ذمہ دار ادارہ کی گرفت نہیں ہے، جب کہ اسلام نے ہمیں جھوٹ تو جھوٹ ، ہر سنی ہوئی بات نقل کر دینے اور بلا تحقیق کسی بات کو آگے بڑھانے سے بھی منع کیا ہے ۔ ( حجرات : ۶)
(۲) عام جھوٹی خبروں کے علاوہ یہ لوگوں کی غیبت کرنے ، ان کی کوتاہیوں کو طشت از بام کرنے ، یہاں تک کہ لوگوں پر بہتان تراشی اور تہمت اندازی کے لئے بھی وسیلہ بن گیا ہے اور انسان کی فطرت یہ ہے کہ جب کسی اچھے آدمی کے بارے میں کوئی بڑی بات کہی جائے ، خواہ وہ بات کتنی ہی نا قابل اعتبار ہو تو لوگ اس کا آنکھ بند کر کے یقین کر لیتے ہیں ، جس کی کھلی مثال رسول اللہ ملی ایم کے زمانہ میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ پر تہمت کا واقعہ ہے، جو خود عہد نبوی میں پیش آیا اور بعض سادہ لوح مسلمان بھی منافقین کے اس سازشی پروپیگنڈہ سے متاثر ہو گئے۔
(۳) اس ذریعہ ابلاغ کو نفرت کی آگ لگانے اور تفرقہ پیدا کرنے کے لئے بھی بکثرت استعمال کیا جاتا ہے، فرقہ پرست عناصر تو یہ حرکت کرتے ہی ہیں ، لیکن خود مسلمانوں کے درمیان مسلکی اختلافات کو بڑھاوا دینے میں اس کا بڑا اہم رول رہا ہے ، اس میڈ یا پر مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے انسانیت دشمن جذباتی مقررین کی تقریر میں بھی موجود ہیں اور مسلمانوں کے مختلف مسالک کے درمیان مناظروں کی شرمناک محفلیں بھی ، جو بہت تیزی سے باہمی نفرت کو جنم دیتی اور فساد کی آگ بھڑکاتی ہیں ۔
(۴) اس میڈیا کا دہشت گردی اور تشدد کے لئے بھی استعمال کیا جارہا ہے اور استعمال کرنے والوں میں مختلف مذاہب کے خود ساختہ نمائندے شامل ہیں ، جنھوں نے لوگوں کی نگاہوں میں دھول جھونکنے کے لئے مذہب کا مقدس لباس پہن رکھا ہے۔
(۵) اس ذریعہ ابلاغ کا سب سے منفی پہلو فحشاء کی اشاعت اور بے حیائی کی تبلیغ ہے، جو چیز انسان کو اپنے خلوت کدہ میں گوارہ نہیں ہو سکتی ، وہ یہاں ہر عام و خاص کے سامنے ہے، یہ اخلاقی اقدار کے لئے تباہ کن اور شرم و حیاء کے لئے زہر ہلاہل سے کم نہیں ، اور افسوس کہ حکومتیں ۔ ایسی سائٹوں کو روکنے میں کوئی دلچسپی نہیں لیتیں ، ورنہ سماج بے حیائی کے اس سیلاب بلا خیز سے بچ سکتا تھا۔
مثبت پہلو
ان منفی پہلوؤں کے ساتھ ساتھ اس کے بہت سے مثبت اور مفید پہلو بھی ہیں اور اس کا صحیح استعمال کر کے اسلامی اور انسانی نقطہ نظر سے بہت سے اچھے کام کئے جاسکتے ہیں، جن کا تذکرہ مناسب ہو گا:
(1) بچوں ، جوانوں، عورتوں، بوڑھوں اور عام مسلمانوں میں ان کی ضرورت کے لحاظ سے دین کی تعلیم واشاعت اور اخلاقی تربیت کے لئے اس کو آسانی کے ساتھ بہت مؤثر طریقہ پر استعمال کیا جا سکتا۔
(۲) اسلام کے بارے میں جو غلط فہمیاں پیدا کی جاتی ہیں اور زیادہ تر اسی راستہ سے کی جاتی ہیں ، اسی میڈیا سے ان کا مؤثر طور پر رد کیا جا سکتا ہے۔
(۳) تعلیم کے لئے اب یہ ایک مؤثر ذریعہ بن چکا ہے اور جیسے ایک طالب علم کلاس روم میں بیٹھ کر تعلیم حاصل کرتا ہے، یا اپنے ٹیوٹر کے سامنے بیٹھ کر کلاس روم کی کمی کو پورا کرتا ہے ؛ اسی طرح وہ اس ذریعہ ابلاغ سے بھی علم حاصل کر سکتا اور اپنی صلاحیت کو پروان چڑھا سکتا ہے، اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ کسی کو ردہ دیہات میں بیٹھے ہوئے طالب علم کے لئے بھی اس کے ذریعہ مشرق و مغرب کے ماہر ترین اساتذہ سے کسب فیض کرنا ممکن ہے ، ایسے تعلیمی مفادات کے لئے اس ذریعہ سے فائدہ اُٹھانا چاہئے۔
(۴) صحت و علاج کے شعبہ میں بھی اس سے مدد لی جاسکتی ہے ؛ بلکہ لی جارہی ہے، اس کے ذریعہ ماہر ترین معالجین سے استفادہ کیا جا سکتا ہے، یہاں تک کہ ہندوستان میں ایک ڈاکٹر آپریشن کرتے ہوئے امریکہ کے کسی ڈاکٹر کے مشورہ سے مستفید ہو سکتا ہے۔
(۵) موجودہ صورت حال یہ ہے کہ پرنٹ میڈیا نیز نیشنل اور انٹر نیشنل الیکٹرانک میڈ یا جھوٹی خبریں بنانے اور پھیلانے ، نیز سچی خبروں کو دبانے اور چھپانے میں ایک دوسرے پر بازی لے جانے میں لگا ہوا ہے اور نہایت مہارت کے ساتھ مظلوم کو ظالم اور ظالم کو مظلوم بنا کر پیش کر رہا ہے ، ان حالات میں سوشل میڈیا کے ذریعہ سچائی کو پیش کرنے اور جھوٹ کی قلعی کھولنے کی اہم خدمت انجام دی جاسکتی ہے؛ چنانچہ عالمی وملکی سطح پر کئی واقعات ایسے ہیں ، جن میں سوشل میڈیا کی حقیقت بیانی نے ظالموں اور دروغ گویوں کو شرمندہ کیا ہے ۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ سوشل میڈیا کا اچھے مقاصد کے لئے استعمال کیا جائے اور اس کی مضرتوں سے نئی نسل کو بچایا جائے ؛ کیوں کہ جن چیزوں میں نفع اور نقصان دونوں پہلو ہوں، اور اس ذریعہ کو بالکل ختم کر دینا ممکن نہ ہو تو اسلامی نقطہ نظر سے اس کے لئے یہی حکم ہے کہ اس کو مفید طریقہ پر استعمال کیا جائے اور نقصاندہ پہلوؤں سے بچا جائے ، جس چاقو سے کسی جانور کو حلال طریقہ پر ذبح کیا جا سکتا ہے اور کسی بیمار کونشتر لگا یا جا سکتا ہے، وہی چاقو کسی بے قصور کے سینہ میں پیوست بھی کیا جا سکتا ہے، تو ہمارے لئے یہی راستہ ہے کہ ہم چاقو کے صحیح استعمال کی تربیت کریں۔
اس پہلو سے سوشل میڈیا میں جن باتوں سے نئی نسل کو بچانے کی ضرورت ہے ، ان میں چند اہم نکات یہ ہیں :
(1) چھوٹے بچوں کو جہاں تک ممکن ہو، اس سے دور رکھا جائے ، تاکہ ان کی پہنچ ایسی تصویروں تک نہ ہو جائے، جو ان کے ذہن کو پراگندہ کر دے، یا قتل وظلم کے مناظر دیکھ کر ان میں مجرمانہ سوچ پیدا ہو جائے۔
(۲) طلبہ و طالبات اور نوجوانوں کو تعلیمی اور تعمیری مقاصد کے لئے ایک مختصر وقت ان ذرائع سے استفادہ کے لئے مخصوص کر لینا چاہئے ؛ کیوں کہ اس کا بہت زیادہ استعمال انسان کو وقت ضائع کرنے کا عادی بنا دیتا ہے اور پیغامات کی تسلسل کی وجہ سے وہ بعض اچھی چیزوں کو بھی اتنی دیر تک دیکھنے کا خوگر ہو جاتا ہے کہ اصل کام سے اس کی توجہ ہٹ جاتی ہے، یہ بھی ایک طرح کا لہو و لعب ہے جس سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے اور یہ صحت کے نقطہ نظر سے بھی نہایت نقصاندہ ہے۔
(۳) جو عمل عام حالات میں جائز نہیں ہے، وہ ان ذرائع کے ذریعہ بھی جائز نہیں ہے ، جیسے : جھوٹ ، بہتان تراشی لوگوں کی کوتاہیوں کو طشت از بام کرنا ، مذاق اڑانا ، سب وشتم کے الفاظ لکھنا یا کہنا، یہ سب کبیرہ گناہ ہیں اور ان سے بچنا شرعی فریضہ ہے۔
(۴) ایسی خبر میں لکھنا یا ان کو آگے بڑھانا جن سے اختلاف بڑھ سکتا ہے، جائز نہیں ہے، اگرچہ کہ وہ سچائی پر مبنی ہوں ؟ اس لئے کہ جو بیچ مسلمانوں کے دلوں کو پارہ پارہ کرتا ہو اور انسان اور انسان کے درمیان نفرت کی بیج بوتا ہو ، اس سے وہ جھوٹ بہتر ہے، جو ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑنے اور اختلاف کو اتحاد سے بدلنے کا کردار ادا کر سکے۔
(۵) ایسی چیزیں دیکھنا، دکھانا لکھنا اور پڑھنا ، سب کا سب حرام ہے، جو فحشاء اور بے حیائی کے دائرہ میں آتا ہو، خواہ وہ تصویر کی شکل میں ہو یا آواز کی تحریر کی شکل میں ہو یا کارٹون کی شعر کی شکل میں ہو یا لطیفہ کی ، ان سے اپنی حفاظت کرنا اس دور میں نوجوانوں کے لئے بہت بڑا جہاد اور ایک عظیم عبادت ہے ۔
(6) سوشل میڈیا پر اسلام اور پیغمبر اسلام مسلمانوں کی تاریخ اور مقدس مقامات و شخصیات کے بارے میں ایسی نازیبا باتیں بھی آجاتی ہیں ، جو بجا طور پر نو جوان تو کیا ہر مسلمان کے خون کو گرمادینے اور دل کو کھولا دینے کے لئے کافی ہیں ، لیکن اس کے باوجود ہمیں صبر سنجیدگی اور متانت سے کام لینا چاہئے اور ایسے جذباتی رد عمل کا اظہار نہیں کرنا چاہئے ، جو نفرت کو بڑھانے والا ہو ، اگر نا شائستہ باتوں پر اس طرح کے کومنٹ (Comment) کئے گئے تو جو لوگ اسلام، امن اور انسانیت کے دشمن ہیں، ان کا مقصد پورا ہو جائے گا، اس کی بجائے علم کی روشنی میں مدلل اور سنجیدہ طریقہ پر ان کا جواب دینا اور ان کی بات پر ریمارک کرنا چاہئے؟ کیوں کہ جذبات و اشتعال سے وہ لوگ کام لیتے ہیں ، جن کے پاس دلیل کی قوت نہیں ہوتی ، جن کے پاس دلیل کا ہتھیار موجود ہو ، ان کو بے برداشت ہونے کی ضرورت نہیں۔
(۷) نہایت قابل توجہ بات یہ ہے کہ نو جوانوں کو ایسی سائٹوں سے دُور رہنا چاہئے ، جن کا تعلق دہشت گردوں جیسے داعش وغیرہ سے ہے، ان کے قریب بھی جانے سے بچنا چاہئے؛ کیوں کہ یہ چیز غلط راستہ پر لے جاتی ہے، یا کم سے کم شکوک و شبہات کو جنم دیتی ہے ؛ اس لئے نو جوانوں کو تہمت کے ان مواقع سے دور رہنا چاہئے اور کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہئے ، جو ان کو غلط راستہ پر ڈال دے، یا ان کے بارے میں شکوک و شبہات کا راستہ کھول دے ، حقیقت یہ ہے کہ اسلام کسی بھی قسم کی اقدامی یا جوابی دہشت گردی کو پسند نہیں کرتا؛ کیوں کہ اس میں بے قصور لوگوں کی موت ہو جاتی ہے، اسلام تو امن و انسانیت ، عفو و درگذر اور محبت و بھائی چارہ کا پیغامبر ہے نہ کہ نفرت اور ظلم کا سوداگر ۔