مدارس البنات (لڑکیوں کے مدرسے )
از قلم: محمد فہیم الدین بجنوری
نازک مسئلہ :-
لڑکیوں کی دینی تعلیم کا مسئلہ نازک ہے، مردانہ عیاری زنانہ حمق کے استحصال میں مذہبی کارڈ سے بھی دریغ نہیں کرتی، اس میں اسلام، عیسائیت اور ہندو دھرم؛ سب کا رپورٹ کارڈ شرم ناک ہے، مذہبی افادہ اور استفادہ مرد وزن کے مابین ہر طرح پر خطر ہے، پنبہ وآتش کا اجتماع وقرب کبھی بھی محفوظ، محدود اور محتاط نہیں ہو سکتا، یہ فطرت کی تکذیب ہے، صنف نازک کے کسی بھی شغل میں مرد کا توسط موت ہے، اس کے خلاف ہر دعوی سادگی اور خود فریبی کی شکل میں دجل اور تلبیس ہے۔
خواتین کی اسلامی تعلیم کی اہمیت:-
چوں کہ دینی تعلیم کی اہمیت بنیادی ہے اور خواتین کو نظر انداز کرنا آپشن نہیں؛ اس لیے اصولِ فقہ کے مبنی بر ضرورت قاعدے کے تحت نسوانی اداروں کو برداشت کیا گیا، شرائط، حدود اور پابندیوں کے التزام کی باتیں ہوتی رہیں؛ مگر رسوا کن مثالیں بھی متواتر سامنے آئیں، کہیں شیخ الحدیث، کہیں مہتمم اور کہیں صاحب زادے قافلے پار کرتے پائے گئے، خراب نتائج کی فہرست میں حافظ منصور کا قتل ایک نیا اور اب تک کا سب سے بدنما اضافہ ہے۔
مردانہ مداخلت:-
نسوانی نظام ونصاب میں مردانہ مداخلت زہر ہے، کسی بھی سطح پر گنجائش نہیں، علما کے بیانات بھی زائد ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حوالہ نہ دیا جائے، وہ امام العصمت تھے، تدریس، تنظیم، تلقین وغیرہ سب کچھ خواتین تک محدود ہو، مرد وزن کی ہر تقریب مشکوک ہے، قرآن نے کہیں نہیں کہا کہ زنا مت کرو، اس نے زنا کی تقریب پر ضرب لگائی ہے، وہ بین الجنسی رابطے کے خلاف ہے؛ حتی کہ اختلاط کی راہ ہموار کرنے والا کوئی مذہبی جوڑ بھی محمود نہیں۔
حضرت یوسف علیہ السلام کی عصمت:-
اللہ تعالی نے حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں جو تعبیر ٹانک دی ہے وہ ہزار درس ہے، مفسرین نے توجیہ میں کسر نہیں چھوڑی؛ مگر "وَهَمَّ بِهَا" کیا کچھ نہیں کہتا؟ یہ اس وقت ہے جب کہ وہ مہر عصمت کے حامل تھے، آپ کا اہتمام تو معصوم نہیں، وہ کس بنیاد پر خطرہ مول لیتا ہے؟ بین الجنسی کشش سرکش ہے، مکمل ناقابل تسخیر، کالی گھٹائیں ہر سن وسال کے لیے توبہ شکن ہیں، غالب محرم اسرار ہے تبھی کہتا ہے:
گو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغر و مینا مرے آگے۔
مسئلہ کا حل:-
اصول شرع کے تحت اب نسوانی مدارس قابل نظر ثانی ہیں، آن لائن متبادل آنے کے بعد قاعدۂ ضرورت غیر موثر ہو گیا، آن لائن مدارس میں بھی نظم اور درس دونوں زنانہ درکار ہیں، بیٹیاں گھر پر رہ کر تعلیم حاصل کریں، ایک باپ کی حیثیت سے میرا فرض تھا کہ اپنی بیٹی کو جلالین، مشکات اور بخاری خود پڑھاتا؛ مگر مصروفیت کا ماتم حائل ہے، میں تفریق کا بھی متحمل نہیں کہ بیٹے قرآن وسنت کے زمزموں سے سرشار ہوں اور بیٹی محروم، سو بچی کو ایک آنلائن مدرسۃ البنات میں داخل کیا، وہ صبح میں اسکول جاتی ہے اور شام میں چھ سے آٹھ عالمیت کورس۔
خلاصہ:-
میں جانتا ہوں کہ نسوانی مدارس کا نصاب ومعیار واجبی سے بھی کم رہتا ہے؛ لیکن جو بھی ہے غنیمت ہے، ہم خود ذاتی طور پر اتنا بھی نہیں پڑھا سکتے، وقت نہیں ہوتا اور پابندی مشکل ہے، یہ جدید دور میں اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے کہ بچیاں گھر کی چہار دیواری میں رہ کر قال اللہ اور قال الرسول کے انوار سے مالا مال ہو سکتی ہیں، عورتوں کے لیے اتنا کافی ہے، تحقیق مردوں کی شان ہے، خواتین سے یہ درجہ مطلوب نہیں، خواتین من جانب اللہ رحمت میں ہیں، انھیں زائد تکلف کی ضرورت نہیں، ان کے نامۂ اعمال میں اضافی پوائنٹس بھی ہیں، ریاضت، جہاد، تصنیف، تحقیق سمیت جملہ مردانہ شاہ کاروں میں خاتون خانہ کا سہم برابر قرار پاتا ہے۔