کیا نظریہ پاکستان مسلمانوں کے مفاد کے خلاف تھا؟
![]() |
کیا نظریہ پاکستان مسلمانوں کے مفاد کے خلاف تھا؟ از مولانا ابو الکلام آزاد |
یہ بات بھی جانتے ہیں کہ جناح صاحب کی پاکستان کی اسکیم کی بنیاد دو قومی نظریے پر ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہندستان میں بہت سی قومیتیں جن کے مذہب الگ ہیں ، رہتی ہیں مگر ان میں دو بڑی قو میں ہندو اور مسلمان ہیں، تو ان کی ریاستیں بھی جدا گانہ ہونی چاہیں ۔ جب مسٹر تھامس ایڈورڈ نے جناح صاحب کی توجہ اس امر کی جانب مبذول کرائی کہ ہندستان کے ہزاروں شہروں، گاؤں اور چھوٹے چھوٹے دیہاتوں میں ہندو مسلمان ایک ساتھ بھی تو رہتے ہیں، تو جناح صاحب نے جواب دیا کہ یہ امر کسی طرح ان کی علاحدہ قومیت پر اثر انداز نہیں ہو سکتا۔ چوں کہ جناح صاحب کا خیال ہے کہ ہر شہر، ہر گاؤں اور دیہات میں جہاں یہ دونوں تو میں ہیں، ان میں برابر ٹکراؤ ہوتا رہتا ہے، اس لیے یہ مناسب ہے کہ ان دونوں کی ریاستیں الگ الگ ہو جائیں ۔
میں تھوڑی دیر کے لیے اس پر تیار ہوں کہ اس مسئلے کے اور سب پہلوؤں کو نظر انداز کر کے اسے صرف مسلم مفاد کے پیش نظر رکھ کر اس پر سوچوں ۔ اس پر بھی تیار ہوں کہ اس اسکیم سے واقعی مسلمانوں کو فائدہ پہنچے تو نہ صرف میں اس کو قبول کرلوں گا بلکہ لوگوں کو بھی اس کو ماننے پر تیار کروں گا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس اسکیم کو خالص مسلم فرقہ پروری کے نقطہ نظر سے بھی دیکھا جائے تب بھی اس نتیجے پر پہنچنا پڑتا ہے کہ یہ ان کے لیے سود مند نہیں ہے۔ نہ اس سے ان کے اندیشے جو بالکل جائز ہیں ، دور ہو سکتے ہیں ۔
اگر ہم ٹھنڈے دل سے غور کریں کہ اگر یہ اسکیم مان لی جائے تو اس کے کیا نتائج ہوں گے۔ ہندوستان دو ریاستوں میں تقسیم ہو جائے گا۔ ایک میں اکثریت مسلمانوں کی ہوگی ، دوسری میں ہندوؤں کی اور ہندوستان کی ریاست میں ساڑھے تین کروڑ مسلمان چھوٹی چھوٹی اقلیتیں بن جائیں گے۔ سترہ فیصد یوپی میں، بارہ فیصد بہار میں، نو فیصد مدراس میں اور اس طرح ان کی حیثیت اس سے زیادہ کمزور ہو جائے گی، جتنی اب ان صوبوں میں ہے، جن میں ے ہندوؤں کی اکثریت ہے۔ تقریباً ایک ہزار سال سے یہ مقامات ان کا وطن ہیں جہاں انھوں نے اپنی تہذیب و کلچر کے مشہور ترین مراکز قائم کیے ہیں۔
وہ ایک صبح اُٹھیں گے تو ان کو معلوم ہوگا کہ وہ جلا وطن اور غیر ملکی ہیں ، وہ جو پہلے ہی سے معاشی اور تعلیمی لحاظ سے پسماندہ ہیں ، اب ایک خالص ہندو راج میں اس کے رحم و کرم پر ہیں۔ دوسری طرف پاکستان میں بھی ان کی حالت کمزور اور غیر محفوظ ہوگی۔ کیوں کہ پاکستان میں کہیں بھی ان کی اتنی اکثریت نہیں ہوگی کہ جتنی ہندوستان کی ریاست میں ہندوؤں کی ہوگی ۔ ان کی اکثریت اتنی کم ہوگی کہ وہاں کی تعلیمی ، معاشی اور سیاسی قیادت بھی وہاں کے غیر مسلموں کے ہاتھ میں ہوگی اور اگر یہ نہ بھی ہو اور پاکستان میں مسلمانوں کی بہت کثرت بھی ہو تب بھی ہندوستانی مسلمانوں کے مسائل کیسے حل ہو جائیں گے۔ دونوں ریاستوں میں ٹکراؤ ہوگا اور ایک دوسرے کی اقلیتوں کا ان کے پاس کوئی حل نہیں ہوگا۔ سوائے اس کے کہ ایک دوسرے کی اقلیتوں کی تبدیلی اور ان کے مال و جائیداد کو ضبط کرنے کا سسٹم شروع کریں۔ اس لیے ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ پاکستان کی اسکیم سے مسلمانوں کا کوئی مسئلہ حل نہیں ہوگا اور نہ
پاکستانی شہری ہونے کی حیثیت سے ہندوستان اور بیرون ہندوستان میں ان کی وہ حیثیت ہوگی جو ایک بڑی ریاست ، جیسے انڈین یونین کے شہری ہونے کی حیثیت سے ہوتی ۔ یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ جب پاکستان مسلمانوں کے مفاد کے اس قدر خلاف ہے تو مسلمانوں کے ایک بڑے طبقے کے لیے اس میں کیا کشش ہے جو وہ اس کی طرف کھنچے چلے جا رہے ہیں ۔ اس کا جواب چند ہند و فرقہ پرستوں کے رویے میں تلاش کیا جا سکتا ہے۔ جب مسلم لیگ نے پاکستان کی بات شروع کی تو انھیں اس منصوبے کو اتحاد اسلامی کی نامبارک سازش سمجھ لیا اور اس کی مخالفت شروع کر دی اور انھیں اس میں ہندوستانی مسلمانوں اور ہندوستان کے اس پار جو مسلم ریاست کی تشکیل ہوگی اس کے مسلمانوں کے گٹھ جوڑ سے جو حالات پیدا ہوں گے اس کے اثرات کا انھوں نے اندازہ کر لیا تھا۔ ان کی مخالفت سے مسلم لیگ کے پاکستان کے حامیوں کو اور تحریک ملی اور سادہ لوح مسلمانوں نے بے بنیاد منطقی دلائل سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اگر اس کی مخالفت ہندو کر رہے ہیں تو یہ ضرور مسلمانوں کے لیے مفید ہوگا۔ جنونی اور جذباتی ماحول میں صحیح طور پر سوچنے کی صلاحیت سلب ہو جاتی ہے۔ چنانچہ مسلمان خاص طور سے جو شیلے مسلمان نو جوانوں نے اس کی زور و شور سے حمایت شروع کر دی۔ مجھے اس بات میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ جو لوگ اس وقت پاکستان کی حمایت کر رہے ہیں ، ان کی یہ جنونی اور جذباتی کیفیت ختم ہو جائے گی اور وہ اس پر ٹھنڈے دل سے غور کریں گے تو وہ بھی یہ بات سمجھ لیں گے۔ یہ پاکستان کی اسکیم مسلمانوں کے مفاد میں نہیں ہے۔
میں ایک فارمولا بنانے اور کانگریس سے اسے منظور کرانے میں کامیاب ہو گیا ہوں ۔ جس میں پاکستان اسکیم میں جو خوبیاں ہیں، ان سے فائدہ اُٹھایا جا سکتا ہے اور کمیوں اور خامیوں کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان اسکیم کی بنیاد اس اندیشے پر ہے کہ مرکز میں ہندو اکثریت ہوگی اور وہ مسلمانوں کے اکثریت والے علاقے میں دخل اندازی کرے گا۔ کانگریس اس اندیشے کو اس طرح دور کر سکتی ہے کہ صوبائی یونٹوں کو اس طرح خود مختار کر دے کہ بقیہ اختیارات (Residuary Power) بھی صوبوں کو دے دیے جائیں ۔ مرکز کے متعلق امور کی دو فہرستیں دی جائیں ۔ ایک لازمی ہو، دوسری امتیازی۔ تا کہ اگر کوئی صوبائی یونٹ پیا ہے تو خود سارے امور کے انتظامات اپنے ہاتھ میں رکھے سوائے چند کہ جو مرکز کے اختیار میں ہوں گے۔ اس طرح مسلم اکثریت والے علاقوں میں مسلمانوں کو اس کی آزادی ہوگی کہ پوری طرح وہ اپنے طور پر اپنے صوبوں کا انتظام کر سکتے ہیں اور اس کے ساتھ مسائل میں مجموعی طور پر پورے ہندوستان کے معاملات پر اثر انداز ہو سکتے ہیں ۔
اس وقت ہندوستان کی جو صورتحال ہے، اس میں ایک مرکزی متحد حکومت کے قیام کی ہر کوشش بریکار ثابت ہو گئی ہے۔ اسی طرح ہندوستان کو دو ریاستوں میں تقسیم کرنے کی تباہ کن نا کوشش بھی نا کام ہوگی۔ اس لیے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ صرف کانگریس کا فارمولا ایسا ہے، جس میں اس کی پوری گنجائش ہے کہ جس میں صوبوں کو اور مجموعی طور پر پورے ہندوستان کو ترقی کے مواقع فراہم ہو سکتے ہیں۔ کانگریس کا فارمولا اس مسلم اکثریت کے اس اندیشے کو بھی دور کرتا ہے جس نے پاکستان اسکیم بنائی ہے کہ جہاں مسلمان اقلیت میں ہوں گے، وہاں ان کو خالص ہندو راج میں رہنا ہوگا۔
میں بھی ان لوگوں میں ہوں جو یہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ فرقہ وارانہ اختلافات اور تلخی ہندوستان کی زندگی کا عارضی دور ہے اور مجھے پورا یقین ہے کہ یہ دور اس وقت ختم ہوگا جب ہندوستان کے ہاتھ میں خود اس کی قسمت کا فیصلہ ہوگا۔ مجھے اس موقع پر مسٹر گلیڈ اسٹون کا قول یاد آتا ہے کہ پانی سے ڈرنے والے کا بہترین علاج یہ ہے کہ اسے پانی میں دھکیل دیا جائے کہ وہ تیرنا سیکھ لے اور اس کو یہ بھی معلوم ہو جائے کہ یہ بات اتنی خطرناک نہیں ہے جتنی کہ وہ اپنے تصور میں سوچ رہا تھا۔ جب ہندوستان اپنی ذمے داری خود سنبھالے گا اور اسے اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کا اختیار مل جائے گا تو یہ فرقہ وارانہ تناؤ شک و شبہات سب ختم ہو جائیں گے اور وہ جدید مسائل کو جدید نقطہ نظر سے دیکھے گا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اختلافات ہوں گے ، مگر ان کی نوعیت معاشی ہوگی ، سیاسی نہیں ۔ سیاسی پارٹیوں کے درمیان بھی اختلافات ہوں گے مگر ان اختلافات کی بنیاد مذہب نہیں سیاست ہوگی۔ ملک کی نئی پالیسیوں اور پروگرام کے خاکے قومیت کے بجائے کلاس کی بنیاد پر بنیں گے۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ صرف خوش نہیں ہے ۔ حالات ممکن ہے ایسے نہ ہوں تو میں یہ کہوں گا کہ نو کروڑ مسلمان ایک عصر بن جائیں تو انھیں کوئی نظر انداز نہیں کر سکتا اور جو بھی حالات ہوں ان کے پاس اتنے اختیارات اور قوت ہوگی کہ وہ خود اپنی حفاظت کر سکیں گے۔