مولانا عبید اللہ سندھی کا انقلابی سیاسی منشور
پروفیسر محمد اسلم
سن ۱۹۱۹ء میں مانٹیگو ۔ چیمسفورڈ اصلاحات نافذ کرتے وقت برطانوی حکومت نے ہندوستانیوں سے وعدہ کیا تھا کہ دس سال گزرنے کے بعد اس بات کا جائزہ لینے کے لیے کہ یہ اصلاحات کہاں تک کامیاب رہی ہیں اور کسی حد تک عوام کی امنگوں پر پورا اتری ہیں ، ایک کمیشن مقرر کیا جائے گا اور پھر اس کی سفارشات کی روشنی میں ان اصلاحات میں رد و بدل کیا جائے گا ۔ اس وعدے کے مطابق دس سال ۱۹۲۹ء میں پورے ہونے تھے لیکن برطانوی حکومت نے دو سال قبل ہی ۱۹۲۷ء میں یہ وعدہ ایفا کرنے پر توجہ دی ۔ نقادوں نے اس کی ایک وجہ یہ بتائی کہ برطانیہ کے دارالعوام ہاؤس آف کامنز) کے انتخابات منقریب ہونے والے تھے اور بر سر اقتدار کنزرویٹو پارٹی کو یہ خوف تھا کہ ان انتخابات میں حزب مخالف لیبر پارٹی ہندوستان کے مسئلے کو ضرور اٹھائے گی اور اگر ایسا ہوا تو کنزرویٹو پارٹی کی کامیابی کا امکان مخدوش ہو جائے گا۔ ان حالات میں کنزرویٹو پارٹی کے رہنماؤں نے دو سال قبل ہی ۱۹۲۷ء میں سرجان سائمن کی سربراہی میں ایک وفد ہندوستان بھیجنے کا فیصلہ کیا جو یہاں کے حالات کا مطالعہ کرنے کے بعد برطانوی حکومت سے نئی اصلاحات یا پرانی اصلاحات میں ترمیم و اضافے کا مطالبہ کرے گا۔ برطانوی حکومت سے اس موقع پر یہ غلطی ہو گئی کہ اس نے سائمن کمیشن میں تمام انگریز ارکان شامل کر دیے۔ بنا بریں کانگریس اور مسلم لیگ نے اس وفد کے ساتھ عدم تعاون کا فیصلہ کیا ۔ ان دونوں جماعتوں کا یہ کہنا تھا کہ برطانوی حکومت نے ہندوستانیوں کو اس قابل نہیں سمجھا کہ انھیں بھی اس وفد میں شامل کیا جاتا ۔ علاوہ ازیں ہندوستان کے سیاسی مسائل کو سمجھنے کے لیے مقامی نمائندوں کو اس وفد میں شامل کرنا اشد ضروری تھا۔ کانگریس اور مسلم لیگ کے فیصلے کے مطابق سر جان سائمن اپنے رفقا کے ساتھ جہاں کہیں بھی گیا عوام نے اس کا کالی جھنڈیوں کے ساتھ استقبال کیا اور " سائمن کو بیک " کے نعرے لگائے ۔ ان حالات میں سرجان سائمن اپنے مشن میں بری طرح ناکام ہوا ۔ اس کی ناکامی پر وزیر امور ہند لارڈ بر کن ہیڈ نے یہ اعلان کیا کہ اگر ہندوستانیوں میں اتناہی سیاسی اور آئینی شعور پیدا ہو گیا ہے تو پھر وہ متفقہ طور پر ایک آئینی خاکہ تیار کریں ، جس کی روشنی میں برطانوی حکومت ہندوستان میں نیا دستور نافذ کرے ۔ ہندوستان کی سیاسی جماعتوں نے لارڈ بر کن ہیڈ کے اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے ایک کمیٹی تشکیل دی جس کا سر براہ مڈت موتی لعل نہرو کو نامزد کیا گیا۔ پنڈت جی نے ۱۹۲۸ء میں جو دستوری سفارشات پیش کیں ، انھوں نے مسلمانوں کو بے حد مایوس کیا، کیوں کہ پنڈت جی نے ان کے حقوق کو بری طرح پامال کیا تھا۔ اس کے جواب میں قائد اعظم نے ( مارچ ۱۹۲۹ء میں ) اپنے مشہور چودہ نکات پیش کیے ، جن میں انھوں نے برطانوی حکومت سے مسلمانوں کے مذہب ، تہذیب و ثقافت اور ان کے قائم کردہ اداروں کو تحفظ فراہم کرنے کی ضمانت مانگی۔
اس کے علاوہ انھوں نے صوبہ سرحد اور بلوچستان میں بھی دوسرے صوبوں کی طرح اصلاحات کے نفاذ کا مطالبہ کیا اور سندھ کو بمبئی پریزیڈنسی سے الگ کر کے نیا صوبہ بنانے کی بھی سفارش کی۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ مرکز میں وفاقی طرز حکومت رائج کیا جائے اور وفاقی اسمبلی میں مسلم ارکان کی تعداد کل ارکان کی تعداد کا ۳/ ہو ۔
اس پس منظر میں ہم امام انقلاب حضرت مولانا عبید اللہ سندھی نور اللہ مرقدہ کے اس منشور کا جائزہ لیتے ہیں جو انھوں نے سائمن کمیشن کی آمد پر ۱۹۲۷ء میں شائع کیا تھا
اس منشور کے سرورق کا عکس ان کے ایک مرید اخلاص سرشت ظفر حسن ایبک نے آپ بیتی - میں شائع کیا ہے ۔ اس منشور کو پڑھ کر اس بات کا صیح اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس زمانے میں ہندوستان کے طول و عرض میں طبقہ ، علما میں ان کے پالے کا کوئی اور سیاستدان نہ تھا ۔ مولانا سعید احمد اکبر آبادی ( المستوفی ۱۹۸۵ء) کو امام انقلاب کی شاگردی پر فخر تھا ۔ راقم آٹم نے بارہا ان کی زبان فیضیں ترجمان سے یہ الفاظ سنے کہ حضرت امام الہند شاہ ولی اللہ محدث دہلوی قدس سرہ کے بعد ہندوستان میں مولانا سندھی سے زیادہ روشن دماغ عالم پیدا نہیں ہوا ۔ اس ملک میں مدارس اور معلمین کی کمی نہ تھی۔ ان میں سے متعدد علماے کرام نے مدتوں تک جیلوں کو اپنے انفاس طیبہ سے معطر اور وجود مقدسہ سے منور رکھا تھا ۔ لیکن جس انداز سے مولانا سندھی سیاست کے پیچ و خم اور دستوری مسائل کو سمجھتے تھے ، اس کا عشر عشیر بھی دوسروں کے حصے میں نہیں آیا تھا۔
راقم آئم نے پنڈت موتی لعل نہرو کی دستوری سفارشات کا بغور مطالعہ کیا۔ یہ سفارشات ان کی تنگ نظری کی آئینہ و یہ دار ہیں ۔ سرحد اور بلوچستان مسلم اکثریت کے صوبے تھے ، اگر وہاں اصلاحات نافذ ہو جاتیں تو اس کا فائدہ مسلمانوں کو پہنچتا اور سندھ کی بمبئی پریزیڈنسی سے علاحدگی کی صورت میں بھی مسلمان فائدے میں رہتے، اس لیے پنڈت جی نے اپنی روشن خیالی اور بے تعصبی کے بلند بانگ دعووں کے باوجود بڑی تنگ نظری اور تعصب کا مظاہرہ کیا۔
قائد اعظم محمد علی جناح کے چودہ نکات بڑی سمجھ بوجھ کے بعد پیش کیے گئے تھے جن کی تفصیل اوپر گزر چکی ہے ، لیکن ۱۹۲۴ء میں ، پنڈت موتی لعل نہرو کی سفارشات کی اشاعت سے چار سال قبل اور قائد اعظم کے چودہ نکات کے منصہ شہود پر آنے سے ساڑھے چار سال پیشتر مولانا عبید اللہ سندھی نے جن کی تمام تر تعلیم دینی مدارس میں ہوئی تھی اور جنھوں نے آکسفورڈو کیمبرج کا صرف نام ہی سنا ہو گا ، جنھوں نے کسی لاء کالج کی شکل بھی نہ دیکھی تھی اور بیرسٹر ہونے کا سرخاب کا پر بھی اپنی دستار فضیلت پر نہیں سجاتے تھے ، ایسا جامع منشور پیش کیا، جو پنڈت جی اور قائد اعظم جیسے ماہر قانون دانوں کی پیش کردہ سفارشات پر سبقت لے گیا۔
پنڈت موتی لعل نہرو نے ۱۹۲۸ء میں برطانیہ سے کامل آزادی کی بجاے ڈومینین اسٹیٹس ( نو آبادیاتی درجہ ) مانگا تھا۔
اگر پنڈت موتی لعل نہرو کی سفارش مانتے ہوئے انگریز ہندوستان کو ڈومینین اسٹیٹس دے دیتے تو کنیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور اس زمانے کے جنوبی افریقہ کی طرح ہندوستان پر بھی ملک معظم جارج پنجم کی حکومت قائم رہتی۔ یہاں کے باشندے برطانوی رعایا کہلاتے اور جارج پنجم اور اس کے بعد اس کے جانشین ایک انگریز گورنر جنرل یہاں بھیج دیا کرتے جو بادشاہ کی نیابت کے فرائض انجام دیتا ۔ ملک کا حقیقی حکمران جارج ہم ہوتا اور نوٹوں اور سکوں کے علاوہ ڈاک کے ٹکٹوں پر اس کی شبیہ موجود رہتی ۔ کبھی کبھار اس کا ولی عہد دورے پر آتا تو والیان ریاست ، امراو جاگیردار ، علمائے سو اور گدی نشین حضرات اس کی خدمت میں حاضر ہو کر اسے اپنی وفاداری کا یقین دلاتے ۔ گورنر جنرل کچھ اختیارات کا بینہ کو منتقل کر دیتا اور بس ۔ پنڈت جی کی اس " دانشمندانہ تجویز" کے مقابلے میں بطل حریت مولانا عبید اللہ سندھی نے ۱۹۲۴ء میں آزادی - کامل کا مطالبہ کیا۔ اس کا یہ مطلب تھا کہ انگریز ہندوستان سے اپنی بساط لپیٹ کر انگلستان چلے جائیں اور یہاں " سروراج قائم کیا جائے ۔ انھوں نے اپنے منشور میں خودہی سروراج کا ترجمہ " سب کا راج " کیا ہے۔
پنڈت موتی لعل نہرو نے انگریزوں سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ وہ نیا دستور بناتے وقت ہندوستان میں وحدانی طرز حکومت قائم کریں ۔ ایسے طرزِ حکومت میں تمام تر اختیارات مرکز کے پاس ہوتے ہیں اور صوبوں کے پاس براے نام اختیارات رہ جاتے ہیں ۔ پنڈت جی کے مقابلے میں قائد اعظم نے اپنے چودہ نکات میں یہ سفارش کی تھی کہ نئے ستور کی اساس وحدانی طرز حکومت کی بجاے وفاقی طرز حکومت پر رکھی جائے ۔ قائد اعظم سے دو سال پہلے مولانا سندھی ہندوستان کے لیے وفاقی طرز حکومت کو موزوں قرار دے چکے تھے۔
۱۹۴۶ء میں کا بینہ وفد نے اپنی دستوری سفارشات میں ہندوستان کے لیے وفاقی طرز حکومت کی سفارش کی اور یہ کہا کہ وفاق کے پاس صرف دفاع ، امور خارجہ اور مواصلات کے شعبے ہوں باقی تمام محکمے صوبوں کو دے دیے جائیں ۔ اس سے بائیں سال پہلے ۱۹۲۴ء میں مولانا سندھی نے اپنے منشور میں یہ فرمایا تھا کہ وفاقی حکومت کے پاس صرف امور خارجہ ، دفاع اور ایکسپورٹ امپورٹ کے محکمے ہوں ، باقی تمام امور وفاق میں شامل صوبوں کو سونپ دیے جائیں ۔ کا بینہ وفد نے مولانا سندھی کا منشور اپناتے ہوئے صرف اتنی سی ترمیم کی کہ ایکسپورٹ امپورٹ کی بجاے مواصلات کا شعبہ وفاق کو دینے کی سفارش کی اور ایکسپورٹ امپورٹ کو صوبوں پر چھوڑ دیا۔
حضرت مولانا عبید اللہ سندھی نے ۱۹۲۴ میں اپنے منشور میں یہ تحریر فرمایا تھا کہ ان کی سرو راجیہ پارٹی ہندوستان کو ایک ملک تصور نہیں کرے گی اور نہ ہی ہندوستان میں متحدہ قومیت کا تصور پیش کرنے کی کوشش کرے گی ۔ وہ متحدہ قومیت کو حصول آزادی کی اساس نہیں مجھے گی ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مولانا ہندوستان میں ایک سے زائد مملکتوں کے قائل تھے اور وہ متحدہ قومیت کی بجاے ہندوؤں اور مسلمانوں میں واضح تمیز روا رکھتے تھے اور انھیں دو قو میں سمجھتے تھے ۔ انھوں نے ۱۹۴ء میں کابل میں قیام کے دوران میں مذہبی بنیاد پر ہندوستان کی تقسیم کا نظریہ پیش کیا تھا۔ یہی تصور علامہ محمد اقبال نے ۱۹۳۰ میں خطبہ الہ آباد میں پیش کیا تھا۔
او پر حضرت مولانا سندھی اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ ان کی جماعت ہندوستان کو ایک ملک تصور نہیں کرتی۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے مولانا سندھی فرماتے ہیں کہ جغرافیائی لحاظ سے ہندوستان کے تین قدرتی حصے ہیں:
ا۔ شمال مغربی حصہ : جس میں صوبہ سرحد ، پنجاب، سندھ اور بلوچستان ہیں بلکہ مولانا نے اس میں کشمیر کو بھی شامل کیا ہے۔
2۔ مشرقی حصہ : جو بنگال اور آسام پر مشتمل ہے۔
۳۔ جنوبی ہند : جس میں ہندو اکثریت کے صوبے مدراس ، بمبئی ، اڑیسہ اور سی پی شامل ہیں ۔ مولانا سندھی نے یوپی اور بہار کے ہندو اکثریت کے صوبے بھی اسی جنوبی بلاک میں شامل کر دیے ہیں۔
۱۹۴۶ء میں جب کا بینہ وفد ہندوستان کا سیاسی بحران حل کرنے کی غرض سے یہاں آیا ، تو کا بینہ وفد نے کہا کہ صوبوں کے تین گروپ بنالیں اور ان کی تفصیل یوں ہوگی:
گروپ الف: ہندو اکثریت کے صوبے ۔ یوپی، بہار، اڑیسہ ، بمبئی ، مدراس اور سی پی۔ گروپ ب: شمال مغربی ہندوستان کے مسلم اکثریت کے صوبے ۔ سرحد ، پنجاب اور سندھ ۔ ( کا بنیہ وفد نے بلوچستان اور کشمیر کا نام حذف کر دیا تھا)
گروپ ج : مشرقی ہندوستان کے مسلم اکثریت کے صوبے ۔ بنگال اور آسام ۔ یہ تینوں گروپ اپنی اپنی جگہ آزاد ہوں اور یہ مل کر ایک وفاق میں شامل ہو جائیں ۔ وفاقی حکومت بالکل سیکولر اور غیر جانب دار رہے ، اسے مذہبی معاملات میں مداخلت کا حق صرف اسی صورت میں دیا جائے جب مذہب پارٹی کے اقتصادی نظام یا اجتماعی اصولوں کے خلاف ہو۔
مذہب کے معاملے میں مولانا سندھی بڑے بے تعصب تھے۔ ان کے قلب میں بادشاہی مسجد لاہور کے صحن سے کہیں زیادہ وسعت تھی ۔ وہ فرمایا کرتے تھے کہ اگر ایک مسلم ملک میں بسنے والے مسلمان کسی غیر مسلم ملک سے برسر پیکار ہوں اور مسلم ملک میں رہنے والا ایک غیر مسلم، مسلمانوں کی حمایت میں لڑتے ہوئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دے، تو اس کے احکام کفر تبدیل ہو جائیں گے ۔ اسی طرح ایک غیر مسلم ، ایک مسلم خاتون کی عزت و عصمت بچاتے ہوئے اوباش مسلمانوں کے ہاتھوں مارا جائے تو اس صورت میں بھی اس کے احکام کفر بدل جائیں گے ۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے آج سے نصف صدی پہلے کیا تھا۔ کیا آج ہمارے درمیان کوئی ایسا وسیع القلب مفتی موجود ہے، جو ان کے فتوے کی توثیق کر دے ؟
آمدم بر سر مطلب! بات یہ ہو رہی تھی کہ مولانا عبید اللہ سندھی کی سوچ کا بدنیہ وفد کے ارکان کی مجموعی سوچ سے کہیں بڑھ کر تھی ۔ کا بینہ وفد نے آبادی کے تناسب سے ہر دس لاکھ باشندوں کا ایک نمائندہ مرکزی اسمبلی میں بھیجنے کی تجویز پیش کی تھی۔ مولانا سندھی ، علامہ اقبال کے الفاظ میں بندوں کو گننے کے بجاے تولنے کے قائل تھے وہ یہ فرماتے تھے کہ یہ تینوں گروپ مرکزی اسمبلی میں اپنی آبادی کے تناسب کے علاوہ اپنے اقتصادی وسائل، تمدنی برتری اور فوجی اہمیت کی اساس پر اپنے نمائندے بھیجیں ان کی یہ تجویز کا بینہ وفد کی تجویز پر اس لحاظ سے فوقیت رکھتی ہے کہ کا بینہ وفد نے صرف بندوں کو گنا تھا ، تولا نہیں تھا ۔ ایک دور افتادہ پس ماندہ علاقہ جس کی آبادی خانہ بدوشوں پر مشتمل ہو ، جو تہذیب و تمدن اور تعلیمی اعتبار سے اپنے ہم وطنوں سے صدیوں پیچھے ہوں، جن کے معاشی وسائل صرف ان کے اہل خانہ کی کفالت ہی مشکل سے کرتے ہوں ، وہ فوج میں بھرتی نہ دیتے ہوں اور سیاست کی ابجد سے بھی واقف نہ ہوں ، ان کو ان لوگوں کے مقابلے میں جو شہری زندگی کے خوگر ہونے کے ساتھ تہذیب و تمدن اور تعلیم میں بہت آگے ہوں، وہ سیاسی شعور رکھتے ہوں ، ان کے معاشی و سائل فاضل ہوں اور وہ حکومت کو ٹیکس دے کر ملک کا نظم و نسق چلانے کے قابل بناتے ہوں ، وہ فوج میں بھرتی ہو کر ملکی دفاع کا فریضہ انجام دیتے ہوں ۔ مولانا سندھی ان دونوں گروہوں کو اسمبلی میں مساوی نمائندگی دینے کے حق میں نہیں تھے ۔ کم از کم اسمبلی میں بیٹھنے اور دستور تیار کرنے کے لیے کچھ تو تعلیمی، تہذیبی، تمدنی اور معاشی پس منظر اور معیار مد نظر رکھنا چاہیے۔
ایشیاٹک فیڈریشن
مولانا سندھی نے ۱۹۲۴ء میں ایشیائک فیڈریشن کا تصور پیش کیا ۔ ان کا یہ خیال تھا کہ ایشیا کے تمام ملک ایک سیاسی پلیٹ فارم پر جمع ہو جائیں اور باہمی تعاون سے سامراجی قوتوں (برطانیہ، فرانس اور ہالینڈ) کو ایشیا سے نکال دیں ۔ اس زمانے میں انڈونیشیا، فلپائن ، ہند چینی (موجودہ ویتنام) ، ہانگ کانگ ، لاؤس ، کمپوچیا، برما، ملایا، ساتھ ، سرادق ، برونائی ، ہندوستان ، نیپال، بھوٹان ، سکم ، سری لنکا، عرب امارات ، عراق ، شام ، لبنان ، اردن، فلسطین، بحرین، قطر اور مسقط انگریزوں ، فرانسیسیوں اور ٹچوں کے قبضے میں تھے۔ افغانستان اور ایران بھی انگریزوں اور روسیوں کے زیر اثر تھے مولانا سندھی کی یہ خواہش تھی کہ یہ تمام ملک ایک سیاسی پلیٹ فارم پر جمع ہو کر سامراجی قوتوں سے آزادی حاصل کریں ۔ اس ضمن میں اگر روس کو بھی اس فیڈریشن میں شامل کرنا پڑے تو کوئی مضائقہ نہیں ، وہ انگریزوں کو ہندوستان سے نکالنے میں ہندوستانیوں کی مدد کر سکتا ہے ۔ مزید پیش بندی کے طور پر مولانا نے فرمایا کہ آزادی کے بعد روس کو ہندوستان کے داخلی یا خارجی امور میں مداخلت کا حق نہیں ہو گا۔
آج علاقائی تعاون اور متنازعہ مسائل کے حل کے لیے آر سی ۔ ڈی ، سارک ، او پیک ، غیر جانب دار ملکوں کی تنظیم ، مسلم امہ اور عرب لیگ کام کر رہی ہیں ، بلکہ یورپین ممالک نے اقتصادی تعاون کے لیے مشترکہ منڈی قائم کر لی ہے ۔ اس سے قبل نیٹو ، سیٹو اور وارسا پیکٹ میں شریک کمیونسٹ ممالک کی تنظیمیں بڑا کام کر چکی ہیں ، لیکن سب تنظیمیں موجودہ صدی کے نصف آخر میں قائم ہوئیں اور مولانا سندھی ۱۹۲۴ء میں ایشیائی ملکوں کی فیڈریشن قائم کرنے کا خواب دیکھ رہے تھے۔
مولانا سندھی فرماتے ہیں کہ ان کی پارٹی کے رکن کا معیار زندگی ایک عام کسان کے معیار زندگی سے بلند نہیں ہو گا۔ مولانا عوام و خواص میں تفاوت ختم کرنا چاہتے تھے ۔ انھوں نے ایک بار ڈاکٹر ذاکر حسین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی عمارات اور اساتذہ کے رہائشی مکانات غریبوں کے دیہاتوں کے در میان ایک جزیرے کی طرح واقع ہیں۔ اس طرح معیار زندگی میں بڑا تفاوت نظر آتا ہے ۔ اگر کبھی ملکی حالات خراب ہوئے تو سب سے پہلے یہی فاقہ کش دیہاتی جامعہ ملیہ پر ہلہ بولیں گے۔
غریب اور امیر کے اس تفاوت کو ختم کرنے کے لیے مولانا سندھی نے فرمایا کہ ان کی پارٹی کے رکن اپنی ضرورت سے زیادہ آمدنی اور فاضل جائداد پارٹی کو دے دیں ان کی پارٹی کے رکن اپنی ضرورت سے زیادہ آمدنی اور فاضل جائداد پارٹی کو دے دیں گے ۔ راقم آثم مولانا عبید اللہ سندھی کو کمیونسٹ سمجھنے والے حضرات سے یہ سوال کرتا ہے کہ ان کا یہ منشور کیا قرآن حکیم کی اس آیت کے عین مطابق نہیں ہے :
یَسْــٴَـلُوْنَكَ مَا ذَا یُنْفِقُوْنَؕ (البقرۃ: 219)
اگر مولانا سندھی کے منشور کی یہ شق اسلامی تعلیمات کے خلاف اور کمیونزم کے حق میں جاتی ہے تو مولانا ضرور کمیونسٹ ہوں گے جو اپنی پارٹی کے ارکان سے یہ کہتے ہیں کہ وہ اپنی فاضل جائداد اور فالتو آمدنی پارٹی کو دے دیں۔
مولانا سندھی کے منشور میں ایک شق یہ بھی رکھی گئی تھی کہ ان کی پارٹی ملک سے زمیندارہ نظام اور سرمایہ داری کا مکمل طور پر خاتمہ کرے گی ۔ اس کی وجہ بتاتے ہوئے موصوف فرماتے ہیں کہ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ کمیونسٹ سادہ لوح عوام کو کمیونزم کے سبز باغ دکھا کر دھوکا نہ دے سکیں ۔ مولانا سندھی نے روس میں قیام کے دوران میں کمیونزم کا بہت ہی قریب سے مطالعہ کیا تھا ۔ جس زمانے میں (۱۹۲۲-۲۳ء) مولانا سندھی روس میں تھے اس زمانے میں کمیونسٹوں کے دو گروپوں میں خانہ جنگی ہو رہی تو رہی تھی ۔ مولانا نے یہ بھی ۔ ا ملاحظه فرمایا کہ کمیونسٹوں نے زار روس کو پروپیگنڈے کے ذریعے ختم کر کے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور پھر لینن اور اس کے ساتھیوں نے روس میں زار سے بھی بڑھ کر استبدادی نظام قائم کیا اور عوام جو پہلے زار کے غلام تھے اب کمیونسٹ رجیم (Regime) کے اس سے بھی بدتر غلام ہو گئے ۔ مولانا کمیونزم کو قریب سے دیکھ کر اسے دھوکے کی مٹی سمجھنے لگے تھے اور ان کا اسلام کے معاشی اور سماجی نظام پر ایمان مزید پختہ ہو گیا اور وہ اسی میں انسانیت کی نجات سمجھنے گئے تھے۔ جو لوگ حضرت سندھی کو بڑی جسارت اور بے باکی کے ساتھ کمیونسٹ لکھتے ہیں وہ بڑی غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔
زمیندارہ نظام کا خاتمہ
مولانا سندھی زمیندارہ نظام کو ختم کرنے کے حق میں تھے۔ اس کی یہ رائے تھی کہ زمینیں قومی ملکیت قرار دی جائیں ، اس طرح سے موجودہ استبدادی زمیندارہ نظام ختم ہو جائے گا۔ اس کے حق میں وہ خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے فیصلے اور امام اعظم حضرت ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمتہ اللہ تعالٰی کے فتوے سے استدلال کرتے تھے ۔ مولانا سندھی کے منشور میں یہ شق شامل تھی کہ زمینداروں کو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے فیصلے کے مطابق زمینوں کی ملکیت چھوڑنے پر مجبور کیا جائے گا اور حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے فتوے کے مطابق مزارعت ختم کر دی جائے گی۔ ایک کاشتکار کے پاس صرف اتنی زمین رہنے دی جائے گی جس پر وہ خود کاشت کر سکے ۔
مولانا سندھی کی اس تجویز کے مطابق ایوب خان نے اپنے دور اقتدار میں زرعی اصلاحات نافذ کرنے کی کوشش کی لیکن زمینداروں نے اس کے منصوبے کو خاک میں لما دیا ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے عوامی اصلاحات " کے نام پر زمین کی حد ملکیت مقرر کرنے کی کوشش کی تو زمینداروں نے اپنی زمینیں اپنے اہل و عیال کے علاوہ اپنے موروثی ملازمین کے نام منتقل کر دیں اور جو تھوڑی بہت سیم زدہ ، ناکارہ اور بنجر زمین کسی دوسرے کے نام پر منتقل نہ ہو سکی ، وہ حکومت کے حوالے کر دی کہ اسے مستحقین میں تقسیم کر دے ۔ لاہور کے گرد و نواح میں موضع نیاز بیگ اور علی رضا آباد میں ذوالجناح کے نام بہت سی اراضی وقف ہے جس سے اس کے مصارف اور خدام کی تنخواہیں ادا کی جاتی ہیں ۔ اسی طرح چالاک زمینداروں نے ، جو خود ہی اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے تھے ، ایوب خان اور بھٹو کی زرعی اصلاحات ناکام بنا دیں ۔ آج بھی غریب کاشتکار بڑے زمینداروں کی رعایا " کہلاتے ہیں اور مالکان بھٹہ اپنے مزدوروں کو خرکاروں کی طرح باقاعدہ قید کر کے رکھتے ہیں اور ان سے بیگار لیتے ہیں ۔ لیکن بڑے زمینداروں اور بھٹہ مالکان کے خلاف کوئی لب کشائی نہیں کر سکتا کیوں کہ یہی اسمبلیوں میں بیٹھ کر قانون سازی کر رہے ہیں۔
صنعتی کارخانے
مولانا سندھی فرماتے تھے کہ ان کی پارٹی برسراقتدار آکر تمام کارخانے قومی ملکیت میں لے لے گی۔ آج صنعت کاروں نے سیاست میں جو گندگی پھیلائی ہوتی ہے مولانا سندھی کے نزدیک صنعتوں کو قومیانہ ہی اس کا بہترین حل تھا) ۔ مولانا فرماتے تھے کہ قومیائے گئے کارخانے مزدوروں کی انجمنیں چلائیں گی اور انھیں بہترین کار کردگری کا مظاہرہ کرنے کے صلے میں منافع میں سے " بونس – ادا کیا جائے گا ۔ اگر مولانا کے منصوبے کے مطابق انھیں منافع میں سے حصہ دیا جائے تو لوگ دل لگا کر کام کریں اور پیداوار بڑھائیں ۔ مولانا کی سرو راجیہ پارٹی مزدوروں کو رہنے کے لیے صاف ستھرے مکان اور مفت طبی امداد فراہم کرنے کی پابند تھی اور ان کے بچوں کو مڈل تک مفت تعلیم دلانے کی ضمانت دیتی تھی (۱۹۲۴ء میں مڈل کا معیار بہت اونچا تھا۔
کاروبار
اسی طرح مولانا تجارت کو بھی باہمی تعاون سے کو آپریٹو سوسائٹیوں کے ذریعے چلانے کے حق میں تھے ۔ البتہ وہ سوداگروں کو یہ حق دیتے تھے کہ چاہیں تو وہ ان کو آپریٹو سوسائٹیوں کے رکن بن جائیں اور سال کے اختتام پر انھیں ان کے شیئرز پر دوسرے حصے داروں کے مساوی منافع مل جائے ۔ اس طرح سے تجارت چند ہاتھوں میں مرکوز ہو کر نہیں رہ جائے گی اور کو آپریٹو سوسائٹی ایک طرح سے " وقف کی صورت اختیار کرلے گی، جس کا مالک کوئی نہیں ہو گا لیکن منافع میں حصہ دار شریک ہوں گے۔ جہاں تک ایکسپورٹ امپورٹ کا تعلق ہے یہ کام حکومت خود کرے گی۔
منافع بخش کاروبار
مولانا سندھی ، سودی نظام کو ظلم و استبداد ہی کی ایک صورت سمجھتے تھے ۔ غریب اور محنت کش عوام شادی بیاہ کے موقعوں پر فضول رسم و رواج پورے کرنے اور برادری میں اپنی ناک رکھنے کی خاطر ساہوکاروں سے بڑی بڑی رقمیں قرض لے لیتے اپنی رکھنےکی تھے اور پھر اس رقم پر سود ادا کرتے کرتے ، ان کی کئی کئی پشتیں گزر جاتی تھیں اور اصل رقم پھر بھی ان کے ذمے ہوتی تھی۔ مولانا سندھی نے اپنے منشور میں یہ تحریر فرمایا کہ ان کی پارٹی برسر اقتدار اگر سودی کاروبار بالکل ختم کر دے گی اور محنت کشوں کے پرانے قرضے بے باق کر دے گی۔ یہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبہ حجتہ الوداع کی صدای بازگشت تھی جس میں آپ نے فرمایا تھا کہ آج سے تمام سود باطل ہیں اور سب سے پہلے میں اپنے چچا عباس بن عبد المطلب کا سود باطل کرتا ہوں ۔
آج ۱۹۹۴ء میں اسلامی نظریاتی کونسل ، ادارہ تحقیقات اسلامی اور وفاقی شریعت کورٹ کی موجودگی میں بھی ہم جمہوریہ - اسلامیہ پاکستان سے سودی نظام اور بنکنگ کا پرانا سسٹم ختم نہیں کر سکے ۔ ہم نے سود کا نام نفع و نقصان میں شراکت . رکھ کر اپنے نفس کو مطمئن کر لیا ہے اور شرح سود کو ڈھائی فیصد کم کر کے زکوۃ سے تعبیر کر دیا ہے۔
مناسب نمائندگی
مولانا سندھی کے منشور میں ایک شق یہ بھی رکھی گئی تھی کہ ان کی جماعت ہندوستان میں محنت کش طبقہ (کسان، مزدور اور دماغی کام کرنے والوں) کی اکثریت رکھنے والی حکومت قائم کرے گی ۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک کے ۸۷ فیصد عوام کا شتکار تھے لیکن ان کا ایک بھی نمائندہ اسمبلی میں نہیں ہوتا تھا۔ ان کے ووٹ وزیره یا زمیندار حاصل کر کے اسمبلی میں پہنچ جاتا تھا اور اب بھی ایسا ہی ہوتا ہے ۔ اسمبلی میں جاکر وہ اپنے ووٹروں کے مفاد کی بجائے اپنے ذاتی مفاد کی حفاظت کرتا تھا ۔ ہمارے ہاں آئے دن اخبارات میں ایسے بیانات چھپتے رہتے ہیں کہ ملک کے بائیس لاکھ ہمارے ہاں آئے دن اخبارات میں ایسے بیانات چھپتے رہتے ہیں کہ ملک کے بائیس لاکھ کٹرک قلم چھوڑ ہڑتال کریں گے یا اپنے مطالبات من منوانے کے لیے بے احتجاجی نی مظاہرے میں حصہ لیں گے ۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان بائیس لاکھ کا یکر کوں کا کوئی نمائندہ قومی یا صوبائی اسمبلیوں میں موجود نہیں ہے ۔ یہی حال مزدوروں ، دکانداروں اور اہل حرفہ کا ہے ۔ مولانا سندھی فرماتے تھے کہ یہ طبقے اپنے ہی طبقے سے اپنے نمائندے منتخب کریں جو اسمبلی میں جاکر ان کے مفادات کی حفاظت کریں ۔ جب تک ان کے اپنے نمائندے اسمبلیوں میں نہیں جائیں گے، ان کے حقوق یو نہی پامال ہوتے رہیں گے۔ مولانا فرماتے تھے کہ تعداد کے اعتبار سے سرمایہ دار، زمیندار اور وڈیرے ملک کی آبادی میں آٹے میں نمک کے برابر ہیں ۔ لیکن اسمبلیوں میں یہی عوام کے نمائندے بن کر جاتے ہیں ۔ یہ اپنے طبقے کے نمائندے تو ہو سکتے ہیں، کسانوں، مزدوروں اور دماغی کام کرنے والوں کی نمائندگی کے حقدار نہیں ہیں ۔ اس لیے ملک میں ان کی آبادی کے تناسب سے جو تین چار نشستیں ان کے حصے میں آتی ہیں وہ انھیں دے دی جائیں ۔ جب تک پس ماندہ اور غریب طبقوں کے نمائندے اسمبلیوں میں نہیں جائیں گے ، ان طبقوں کے نہ تو مسائل حل ہوں گے اور نہ ہی ان کی حالت بہتر ہو گی۔ اگر بر وقت اس مسئلے کا حل تلاش نہ کیا گیا تو یہ ملک میں بہت بڑے خونی انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہو گا۔
یہاں مولانا سندھی کی فراست کی داد نہ دینا، بڑی نا انصافی ہو گی ۔ آج ہمارے ہاں اسمبلیوں کے انتخابات میں ایک امیدوار کا خرچ کروڑوں روپے تک ہو گیا ہے اور اس کا یہ نتیجہ نکلے گا اور نکلا ہے کہ صرف ارب پتی اور کروڑ پتی صنعت کار اور زمین دارہی اسمبلیوں میں نمائندے بن کر بیٹھیں گے اور ملک کی آبادی کا سب سے بڑا طبقہ کسان ، مزدور، کلرک اور چھوٹے دوکاندار صحیح نمائندگی سے محروم رہیں گے ۔ مولانا سندھی نے ایسے امیروں پر پچاس فیصد ٹیکس لگانے کی تجویز پیش کی تھی، جیسا کہ حضرت عمر فاروق نے حضرت عمرو بن العاص سے نصف جائداد بیت المال کے لیے لے لی تھی۔
شاہ ولی اللہ اور مولانا سندھی
مولانا عبید اللہ سندھی نے حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی تصانیف کا بالاستیعاب مطالعہ مکہ مکرمہ میں قیام کے زمانے میں کیا تھا اور انھوں نے یہ منشور مکہ مکرمہ جانے سے قبل یعنی حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے خیالات عالیہ سے مستفید ہونے سے پہلے ہی تیار کر لیا تھا، اس کے باوجود ان کے خیالات میں کسی قدر ہم آہنگی پائی جاتی ہے ۔ کارل مارکس کی ولادت سے ایک صدی پہلے شاہ صاحب نے جس طرح سے کاشتکاروں ، محنت کشوں ، اہل حرفہ ، سپاہیوں اور عوام کے مسائل پر قلم اٹھایا ہے ، کارل مارکس شاہ صاحب کی گردپا کو بھی نہیں پہنچ سکا۔ اس کے نظریات نے زار کے استبدادی نظام کی جگہ کمیونزم کے نام سے دوسرا استبدادی نظام قائم کر دیا جو بالآخر دم توڑ گئی ۔
آخری لفظ
آج اس ملک میں اتنی بڑی تعداد میں سیاسی اور دینی جماعتیں موجود ہیں کہ ان کی تعداد انگلیوں کے پوروں پر نہیں گئی جاسکتی ۔ پھر ایک ایک جماعت کے کئی کئی گروپ ہیں ، لیکن کسی جماعت کے پاس کوئی پرکشش منشور نہیں ہے ۔ آج کے " نام نہاد ترقی یافتہ دور میں اگر مولانا سندھی کے ۱۹۲۴ء میں پیش کردہ منشور کا مطالعہ کیا کا جائے تو اسے ملاحظہ کر کے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے سیاسی رہنما آج اکھیویں صدی میں داخل ہونے کی جو باتیں کر رہے ہیں ، حضرت سندھی ۱۹۲۴ء ہی میں اکیسویں صدی میں داخل ہونے کے لیے منشور تیار کر چکے تھے۔
حضرت مولانا کی برسی یا برسیاں منانے کے بجائے اگر ان کے منشور پر عمل کیا جائے تو ان کی روح کو اس سے بڑی تسکین ملے گی اور وہ یہ کہہ سکیں گے کہ ان کی محنت رائیگاں نہیں گئی۔
Comments