انگریز کے نوکر از وکیل انجم



انگریز کے نوکر 

 انیسویں صدی عیسوی نو آبادیاتی نظام کے حوالے سے بڑی اہمیت کی حامل رہی ہے جس میں مغلیہ سلطنت کا زوال ، ہندوستان کی علاقائی قوتوں کی باری پالک، اور ایسٹ انڈیا کمپنی کا بر صغیر میں سیاسی و معاشی مروج، جیسے تاریخی واقعات ظہور پذیر ہوئے۔ اس عروج میں مقامی پشتوں کا جو حصہ تا جنوں نے برطانوی راج کو جائے دوام ملنے کے لئے دن رات ان کوششیں اور کاوشیں کیں اور یہی طبقہ غیر ملکی تسلط کی اساس بن کر ان کے مفادات کو تادم آخر تحفظ دیتا رہا اور اس کے عوض جہاں منہ مانگی مراعات وصول کیں وہاں انگریزیوں کے منہ تارہا اور اس کے عوض منہ مالی مراعات وہاں یوں کہے سیاسی تسلط میں بھی تھوڑا بہت حصہ وصول کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ اگریزیوں کے اون وفاداروں میں ان لوگوں نے بڑا اہم کردار ادا کیا جو قیام پاکستان سے پہلے بڑی بڑی جاگیروں کے مالک بن گئے تھے۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی ہے انگریز نے " غدر " کا نام دیا تھا۔ در اصل ہندوستان کی پہلی آزادی کی تحریک تھی جو فرقی جیر اور تسلط کے خلاف لڑی گئی تھی۔ اس جنگ میں اہل ہندوستان نے شکست کھائی اور لال قلعہ کے برجوں پر بر طانوی پرچم لہرا دیا گیا ۔

اس نشست پر اہل ہندوستان کو افسوس نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اس لئے کہ طاقت در پیشہ کمزور پر غالب آتا رہا ہے۔ مغلیہ شہنشاہیت کا آخری برنج اتنا کمزور تھا کہ لال قلعہ کو اجہ میں رکھنا اس کے بس کا روگ نہ رہا تھا۔ قدم قدم پر سازشیں اور روایتیں تھیں۔ چاروں طرف نراج کا عالم تھا۔ جب خود دہلی کی یہ حالت ہو تو ہندوستان کو کون سنبھالتا۔ انگریز آہستہ آہستہ بڑھتے آرہے تھے۔ وہ طاقت ور اور منظم تھے۔ آزادی کی تحریک چلی تو حیرت پسندوں نے ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک استعماری قوت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ شکست غیر ملکی جارحیت پسندوں کی چوکھٹ پر پہنچ ہی گئی تھی کہ اپنوں نے نداری کی۔ اس طرح انہوں نے یونین جیک کو مضبوطی سے بر صغیر پر گلا دیا۔ اگر بعض نداروں کی کوششیں انگریزوں کے شامل حال نہ ہوتیں تو شاید ہندوستان کی تاریخ مختلف ہوتی۔

اس دھوتی میں کلام نہیں کہ جن لوگوں کے پاس بڑی بڑی زمینداریاں ہیں وہ تمام بینیں انہوں نے یا ملک و قوم سے غداری کے صلہ میں حاصل کی ہیں، یا ایسے روپے سے خریدی ہیں جو بہر حال شرعی حدود کے اندر کمایا ہوا نہیں تھا۔ پنجاب کی بڑی بڑی زمینداریوں کے مالک وہ ہیں جنہوں نے ۱۸۵۷ء کی وفاداری بشرط استواری " کے صلہ میں زمینیں حاصل کیں۔ انہوں نے ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی سے لے کر انگریزی حکومت کے حواول ہونے تک سفید فام آقایان دہلی کی ہر لمحہ خدمت کی مثال انسیس مشکل وقت میں رنگروٹ دیتے، اسلامی ملکوں میں جاسوسی کی، قومی وقار کو پامال کیا ملی تحریکوں میں مخبری کر کے انگریزیوں کو مفید معلومات فراہم کیں اور انگریز بہادر کی خوشنودی کے لئے وہ تمام کام برضاور محبت سر انجام دیئے جن کا ملک و ملت کے ساتھ کوئی تعلق نہ تھا۔ ان خدمات کے صلہ میں سرکاری زمینوں کو اونے ہونے خریدا۔ ۱۸۵۷ء کی پیشتر زمینداریاں مسلمان بادشاہت کے لہو سے حاصل کئے ہوئے دینوں پر لی گئی ہیں۔ پنجاب کا ایک بہت بڑا خاندان اگر چہ بڑا زمیندار خاندان نہیں، لیکن اس کے اقتدار کی نیولو کے اس خطا پر رکھی گئی جو منزل ولو پر نکسن نے ان کے بزرگ کو وفاداری کے صلہ میں دیا تھا۔ جنرل نکلسن کلائیو کے ان ہم انشینوں میں سے تھا جس نے بہادر شاہ ظفر کے بچوں کا سر کاٹ اور تین دن کے بھو کے شہنشاہ کو ہاشتہ کے طور پر پیش کیا۔ ایک اور بڑے خواب کی وسیع و عریض جاگیر سید احمد بریلوی علیہ الرحمہ سے دعا کا صلہ ہے۔ اس طرح ایک اور نواب یا نواب زادہ کی ریاست رہزنی کی یاد گار ہے۔ ان کے پردادا علاقہ کے چور ڈاکو تھے۔ شروع شروع میں انگریز امن قائم رکھنے میں ناکام رہے تو ان سے کیا کیا جتنی جاگیر چاہو لے لو اور امن قائم کرنے میں مدد دو تو اس طرح یہ ریاست قائم ہو گئی۔ اس لحاظ سے ایوبی مارشل لاء سے مکمل لاہور کے بہت بڑے جاگیر دار اور تحریک پاکستان کے مجلہ اور بائیں بازو نظریات کے رہنم میں اختار الہ میاں الدین کی جرات قابل داد ہے میں نے پاریمنٹ میں کشادہ پیشانی سے تسلیم کیا تھا کہ اس کی زمینداریاں ان کے آبا و اجداد کی غداری کا معاوضہ ہیں۔

علی ہذا القیاس آپ کسی بھی بڑے سے بڑے زمیندار کا نامہ اعمال کھول لیجئے، اس کی زمینداری قوم اور ملک سے خوفناک بھارت کا صلہ ہے۔

انگریزوں کے وفاداروں میں پنجاب کے جاگیرداروں کا بڑا حصہ ہے جنہوں نے موقعہ پرستی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ ان میں شاہ پور کے ٹوائے سرگودھا کے نون، بہاولپور کے نواب، لاہور کے مروٹ، ملتان کے قریشی، گیلانی، مگرویزی، لاہور کے ترالیاش، کالا باغ کے نواب، راولپنڈی کے گکھٹر، جھنگ کے سیال، کمالیہ کے کھرل، مظفر گڑھ کے گورمانی، ڈیرہ غازی خان کے حراری، نظاری، تونسوی، قیصرانی، در بلکہ کھوس، بزدار الذي سدوزئی، گورچانی، اٹک کے خان سیال، سید بلوچ، مجھے ، چڈی کے راہے، مغل میرزادی، قادیان کے مرزائی شامل ہیں۔ انہوں نے راجہ رنجیت سنگھ کے خلاف اگر یوں کا ساتھ دیا۔ جنگ آزادی میں حریت پسندوں کے خلاف پایش پایش رہے۔ عالمی جنگوں میں انگریزوں کو مالی اعداد اور افرادی قوت فراہم کرتے رہے۔ معلم کے خلاف اٹھنے والی تحریکوں کو دبانے میں اہم کردار ادا کیا۔ تاج بر طالبہ ایڈورڈ ہشتم کے جشن تاج پوشی کے موقع پر ڈیرہ غازی خان کے رئیسوں اور سرداروں کی طرف سے ایک عرضداشت پیش کی گئی جس سے ان جاگیر داروں کی انگریزوں سے وفاداری کا ثبوت ملتا ہے جس میں تربیل نواب سر نام بخش حراری کے سی آئی ای (K.CLE) سردار بهرام خان مزاری میل خطف حسین خان سرانی سردار دوست محمد خان حراری، سردار الله یار خان کوسه سردار در بین خان در یک سردار جناب خان گورمانی، سردار محمد حسین خان بزدار، سردار نور مان الله سوری، سردار فضل علی خان قیصرانی سردار مسوخان انا بی، سید میرشاه غیر مین، سردار تکیا خان اقاوی، رئیسان میں سردار اللہ بخش خان سدوزئی، اللہ داد خان کهتران عمو خان حراری محمد خان اشکانی، سائیں صبح لال، بھلائی درباری فعل، لال کنیا نحل علیم بالارام، میوه خان گورچانی، خواجه بخش شاه، میاں سلطان علی علیا، امام بخش خان مفاتی ای محمد خان بیانی، خان بهادر کو بخش خان ابدالی، سید جاگن شاه، رحیم خان کھور شامل

عرضداشت گر قبول افتدار ہے عز و شرف

بعد عرض فیض عرض بار یافتگان پایه سر پر سلطانی، محل بریانی آیت دولت جاودانی، عدل و انصاف اور جہانبانی کے مصدر و قمع اعلی اور کے ما حضرت شهنشاه عالی جلوه عالم پناه والد بار گاه، قدیع گیان من ن منصف دوران اران سلیمان زمان، جمشید جہاں، جناب مع معلی القلاب فیض تاب معدات انتساب شهنشاه ایدورة الختم اللہ ان کے اقبال اور شان و اد شوکت کو تا ابد قائم و دائم رکھے۔

بے حد مجرد انکساری کے انتہار اور تعلیمات بے اندازہ و تنظیمات و بے شمار کے بعد ہم ساکنان ضلع دیره غازی صوبه وانجاب ملک ہندوستان یعنی بلوچی سرداران، ملازمان، رئیسان میونسپل کشتران اور دیگر رعایا به اوب و نیاز پائیہ تخت اعلی حضرت شهنشاه جهان پناه ضبع فیوض و برکات کو بوسہ دیتے ہوئے بادشاہ سلامت کی تاج پوشی کے جشن پر پر خلوص ہدیہ نیت پیش کرتے ہیں۔ در حقیقت اللہ ے لئے یہ جشن سعید ہے کہ شہنشاہ بر طالیہ کلاں اور قیصر ہند کی تاج پوشی کے باعث ہم جانار اور وفادار بندوں کو اس پر مسرت موقع پر بے حد خوشی اور سرور حاصل ہوا۔ یہ امر اظہر من الشمس ہے کہ ہم سلطنت عظمی کے دوسرے ممالک میں بسنے والوں کا مقابلہ علوم و فنون کی تحصیل اور تجارت و زراعت کی ترقی میں کسی طور پر نہیں کر سکتے۔ مگر ہم اس بات پر بجا طور پر نازاں ہیں کہ ہم پر طاری معلمی کے تخت کی تابعداری اور فرمانبرداری میں ان سے کسی طرح پیچھے نہیں ہیں۔ ہم بصد عقیدت و احترام حضرت ملکہ معظم منظور و مرحومہ قیصر وهمند کی ذات والا صفات کے مداح ہیں جو ہمارے لئے گنجینہ فیوض و برکات تھی۔ وہ بے شمار اوصاف حمیدہ کی حامل تھیں جنہیں حیلہ تحریر و تقریر میں نہیں لایا جاسکتا۔ مختصر یہ کہ محمودہ منظورہو نہ صرف عدل پرور اور کرم گریہ ملکہ تھیں بلکہ ہندوستان کی رعایا کے لئے شفقت و مہربانی کے لحاظ سے مادر بھی تھیں۔ اس ملک میں ولی عہدی کے زمانہ میں حضور پرنور کی تشریف آوری اب تک ہمارے لئے انتقالی مسرت و طمانیت کا باعث ہے۔ ہماری عاجزانہ درخواست ہے کہ حضور انور شہنشاہ اکبر اپنے عہد حکومت میں انسی خیالات عالیہ کا اظہار فرماتے ہوئے اس دور افتادہ علاقہ کے باسیوں کو حسب معمول اپنے شاہانہ اور کریمانہ الطاف و عنایات سے نوازتے رہیں جن کے پیش نظر حضور نے اس سرزمین کو وقار بخشا تھا۔ آخر میں ہماری دعا ہے کہ خدائے ذوالجلیل شهنشاه با استقلال اور عالم پناہ باکمال کے اقبال اور اجمال کو ہمیشہ عروج بخشے اور سالیہ ہنمایا یہ فیض محجور ملکہ اعلیٰ کی رحمتیں دنیا والوں کے ظہور میں ہمیشہ قائم و دائم رہیں۔ اقبال اور شہنشاہ کی عظمت اس کی آزادی اور دنیا کے ساتھ، وہ مکمل طور پر محفوظ رہے، ماروی ڈار سے منسلک، سال کا سال۔

یہ تو حال تھا جاگیرداروں کا، اس سے آگے چاہیے اور دیکھیں کہ پیروں اور پیر زادوں کی جاگیریں کس بات کا صلہ ہیں ؟

اسکا ایک ہی جواب ہے کہ بڑے بڑے خانہ نشین جو مکھ سینے بیٹھے ہیں، وہ تمام تر انگریز پرستی اور انگریز نوازی کی یاد گار ہے۔ آخرین پیر زادوں اور سجادہ نشینوں کی زمینداریوں کو اصل کی بنا پر جائز تسلیم کیا جاسکتا ہے جنہوں نے جنرل ڈائر کے قتل عام پر خاموشی القیار کرلی۔ سر مائیکل اور دائیز کو سپاسنامہ پیش کیا۔ جنہوں نے ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں انگریزوں کی شرح کی دعائیں مانگی۔ شاہ جارج کو قل اللہ کیا۔ مسلمان سپاہیوں کو ترکوں کے سامنے لڑائی کے لئے پیش کر دیا۔ مانجاب کے مشائخ، علماء اور سجادہ نشینوں کی طرف سے پیش کردہ دعا نامہ بطور ایڈریس پر ذرا غور کریں۔

حضور والا!

هم قادم الفقراء سجاده نشینان و علماء مع متعلقین شرقائے حاضر الوقت مغربی حصہ نجاب نہایت ادب اور جزو انکسار سے یہ ایڈریس لے کر خدمت عالی میں حاضر ہوتے ہیں اور ہمیں یقین کامل ہے کہ حضور انور جن کی ذات عالی صفات میں قدرت نے ولجوئی ذرہ نوازی اور انصاف پسندی کوٹ کوٹ کر بھر دی ہے، ہم خاکساران باوفا کے انتہار دل کو توجہ سے سماعت فرما کر ہمارے کلاہ نظر کو چار چاند لگا دیں گے۔

سب سے پہلے ہم ایک دفعہ پھر حضور والا کو مبارک باد کہتے ہیں جس عالمگیر اور خوفناک جنگ کا آغاز حضور کے عمدہ حکومت میں ہوا، اس نے حضور ہی کے زمانے میں بغیر خوبی انجام پایا اور یہ بابرکت و با حشمت سلطنت جس پر پہلے بھی سورج کبھی غروب نہیں ہوتا تخار اب آگے سے زیادہ محکم اور آگے سے زیادہ روشن اور اعلیٰ عظمت کے ساتھ جنگ سے تاریخ ہوئی جیسا کہ شہنشاہ معظم نے اپنی زبان مبارک سے ارشاد فرمایا ہے۔ واقعی برطانوی تلوار اس وقت نیام میں داخل ہوئی جب دنیا کی آزادی امن وامان اور چھوٹی چھوٹی قوموں کی جہوری مکمل طور پر حاصل ہو کر بال اگر سچائی کا بول بالا ہو گیا۔ حضور کا زمانہ ایک نہایت نازک زمانہ تھا اور پنجاب کی خوش قسمتی تھی کہ ان کی عنان حکومت اس زمانے میں حضور کیسے صاحب استقلال، بیدار مغز اور عالی دماغ حاکم کے مضبوط ہاتھوں میں رہی جس سے نہ صرف اندرونی امن بھی قائم رہا بلکہ حضور کی دانشمندانہ ر ہامانی میں پانجاب نے اپنے اینکر و وفاداری اور جانگری کا وہ ثبوت دیا جس سے "همشیر سلطنت " کا قاتل محمر و عزت لقب پایا۔ پھر ان کا معراج صلیب احمر کی اعجاز نماد بگیری، قیام امن کی تدبیر تعلیم کی ترقی سب حضور ہی کی کلوٹیں ہیں اور حضور ہی ہیں جنہوں نے ہر موقع و ہر وقت مانجاب کی خدمات و حقوق پر زور دیا۔ صرف جناب والا کو ہی دیاری بهبود و مطلوب نہ تھی بلکہ صلیب احمر Red Cross و تعلیم نسواں کے ایک کام میں حضور کی ہمدم و ہمراز جنابہ لیڈی اور وائر صاحب نے جن کو ہم مروت کی زندہ تصویر کھتے ہیں، ہمارا ہاتھ بٹایا اور ہندوستانی مستورات پر احسان کر کے ثواب دارین حاصل کیا۔ ہماری ادب سے التجا ہے کہ وہ ہمارا ولی شکر یہ قبول فرما ہیں۔ حضور انور ! جس وقت ہم اپنی آزادیوں کی طرف خیال کرتے ہیں جو ہمیں سلطنت برطانیہ کے طفیل ہوئیں، جب ہم ان وقانی جہازوں کو سطح سمندر پر اٹھکیلیاں کرتے دیکھتے ہیں جن کے قلیل ہیں اس حسیب جنگ میں امن وامان حاصل رہا ہے، جب ہم تار برقی کے کرشموں پر علی گڑھ و اسلامیہ کالج لاہور و پشاور جیسے اسلامی کالجوں اور دیگر قومی درسگاہوں پر نظر ڈالتے ہیں اور پھر جب ہم بے نظیر بر طانوی انصاف کو دیکھتے ہیں جس کی حکومت میں شیر اور بکری ایک گھاٹ پانی پی رہے ہیں، تو ہمیں ہر طرف انسان ہی احسان دکھائی دیتے ہیں۔

بهشت آنجا کہ آزاری نباشد کسے رابہ کسے کارے نباشد

باوجود فوجی قانون کے خود فتنہ پر وازوں کی شرارت کا نتیجہ تھا۔ مسلمانوں کے مذہبی احساس کا ہر طرح سے لحاظ رکھا گیا۔ شب برات کے موقع ان کو خاص دعائیں دکھائیں۔ رمضان المبارک کے واسطے حالانکہ اہل اسلام کی درخواست یہ تھی کہ فوجی تعاون ساڑھے گیارہ بجے شب سے دو بجے تک محدود کیا جاوے لیکن حکام سرکار نے یہ وقت بارہ بجے سے دو بجے کر دیا۔ مسجد شادی ہوئی الاصل قلعہ کے متعلق تھی اور جو ابتدائی محمداری سرکار ہی میں واگزار ہوئی تھی۔ اہالیان لاہور نے اس مقدس جگہ کو ناجائز سیاسی امور کے واسطے استعمال کیا جس پر متولیان مسجد نے جو خود مفسدہ پردازوں کو روک نہیں سکتے تھے۔ سرکار سے اداد چاہی۔ یہی وجہ تھی کہ سرکار نے اس کا کیا نا جائز استعمال بند کر دیا۔ ہم وہ دل سے مشکور ہیں کہ حضور والا نے پھر اس کو واگزار فرما دیا۔ سرکار نے حج کے متعلق جو مہربانی کی ہے ہم ان سے نا آشنا نہیں اور مشکور ہیں۔

ہم کی عرض کرتے ہیں کہ جو برکات ہمیں اس سلطنت کی بدولت حاصل ہوئیں۔ اگر ہمیں معمر خضر بھی نصیب ہو تو بھی ہم ان احسانات کا شکر یہ ادائیں کر سکتے۔ ہندوستان کے لئے سلطنت پر طالبہ ابر رحمت کی طرح نازل ہوئی اور ہمارے ایک بزرگ نے جس نے پہلے زمانہ کی خانہ جنگیاں، خونریزیاں اور برائیاں اپنی آنکھوں سے دیکھی تھیں۔ اس سلطنت کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا۔

ہوئیں بد نظمیاں سب دور انگریزی عمل آیا

بجا آیا، بہ استحقاق آیا، بر محل آیا

ہم کو وہ احسان کبھی نہیں بھول سکتا جب ترکوں نے ہمارے مشورہ کے خلاف کو تو اندیشی سے ہمارے دشمنوں کی رفاقت الا ت اختیار کی تو انار ہے او نے از راہ کرم ہم کو یقین نے ازراہ دلایا کہ ہمارے مقدس مقامات کی حرمت میں سر مو فرق نہیں آئے گا۔ اس الطاف خسروانہ نے ہماری وفا میں نئی روح پھونک دی۔ عمل جزاء الانسان الا الاحسان (احسان کو بدلہ احسان کے سوائیں) ہم ان احسانوں کو کبھی نہیں بھول سکتے۔ اب اس جنگ عظیم کے خاتمہ پر صلح کا نفرنس میں سلطنت ترکی کی نسبت جلد فیصلہ ہو جانے والا ہے۔ ممکن ہے یہ فیصلہ مسلمانوں کی امیدوں کے بر خلاف ہو۔ ہم بخوبی جانتے ہیں کہ اس فیصلہ میں سرکار بر طالبہ اکیلی مختند کار نہیں ہے بلکہ بہت سی دوسری طاقتوں کا بھی اس میں ہاتھ ہے۔ شنشاہ معظم کے وزراء جو کوششیں ترکی کے حق میں کرتے رہے ہیں، ہم ان کے واسطے ان کے بهر حال مشکور ہیں۔ یہ مسلمہ امر ہے کہ یہ جنگ مذہبی اغراض پر مبنی نہ تھی اور اپنے اپنے محمل کا اور اس کے نتائج کا ہر ایک خود ذمہ دار ہے۔

زمور مملکت خویش خسروان دانند

گدائے گوشہ نشینی تو حافظا مخروشی

مگر ہمیں پوری توقع ہے کہ ہماری گورنمنٹ اس بات کا خیال رکھے گی کہ مقالات مقدمہ کا اندرونی نظم و نسق مسلمانوں کے ہی ہاتھ میں رہے اور ہم حضور سے درخواست کرتے ہیں کہ جب حضور وطن کو تشریف لے جاویں تو اس پاسور تاجدار ہندوستان کو یقین دلائیں کہ چاہے کیسا ہی انقلاب کیوں نہ ہو، ہماری وفاداری میں سر مو فرق نہ آیا ہے اور نہ آسکتا ہے اور ہمیں یقین ہے کہ ہم اور ہمارے پیروان اور مریدان قومی وغیرہ جن پر سرکار برطانیہ کے بے شمار احسانات ہیں، ہمیشہ سرکار کے حلقہ بگوش اور جانگر رہیں گے۔

ہیں نہایت رنج افسوس ہے کہ نا تجربہ کار و نوجوان امیر امان اللہ خان والئی کاتل نے کسی غلط مشورہ سے محمد جموں کے اور اپنے باپ دادا کے طرز کی خلاف ورزی کر کے خداوند تعالی کے صریح حکم والو قولی احمد بن احمد كان مسئولہ (یعنی وعدے کا لینا کرو ضرور وعدے کے متعلق پوچھا جائے گا) کی چفرمانی کی۔ ہم جناب والا کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم افغانستان کے اس طرز عمل کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ہم اہالیان پنجاب احمد شاہ کے حملوں اور نادر شاہی قتل و غارت گری کو نہیں بھول سکتے ۔ ہم اس غلط اعلان کی جس میں اس نے سراسر خلاف واقعہ لکھا ہے کہ اس سلطنت کی نذہبی آزادی میں خدا نخواستہ کسی قسم کی کوئی رکاوٹ واقع ہوئی، زور سے تردید کرتے ہیں۔ امیر امان اللہ خان کا خاندان امان احمد سرکار انگلشیہ علی کی بدولت ہے اور اس کی احسان فراموشی کفران نعمت سے کم نہیں۔

ہم کو ان کو تاہ اندیش دشمنان ملک پر بھی سخت المحسوس ہے جن کی سازش سے تمام ملک میں بدامنی پھیل گئی اور جنہوں نے اپنی حرکات ناشائستہ سے مانجاب کے ایک نام پر دھبہ لگایا۔ مقابلہ آخر مقابلہ ہی ہے۔ ہم حضور کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم ان گمراہ لوگوں کی مجنونانہ و جاہلانہ حرکات کو نہایت نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ کیونکہ ہمارے قرآن کریم میں میں تلقین کی گئی ہے۔ لا یضیہ والی الارض ( یعنی دنیا میں فساد اور بدامنی مت پیدا کرد) اور ان الله لا يحب المقسدین (یعنی بے شک خدا فساد کرنے والوں سے محبت میں کرتا)

حضور والا اگر چہ آپ کی معارفت کا ہمیں کمال رنج ہے۔

 سرغم سے کچھے کیوں نہ سردار، ہمارا

لو ہم سے چھٹا جاتا ہے سردار ہمارا

لیکن ساتھ ہی ہماری خوش نصیبی ہے کہ حضور کے جانشین سر ایڈورڈ میکالیکن القاسم جن کے نام نالی با نجاب کا بچہ بچہ واقف ہے اور جن کا حسن اخلاق رعا یا نوازی میں شہرہ آفاق ہے اور جو ہمارے لئے حضور کے پورے نعم البدل ہیں، ان کا ہم ولی خیر مقدم کرتے ہیں اور ان کی خدمت والا میں یقین دلاتے ہیں کہ ہم بمثل سابق اپنی جوش عقیدت و وفاداری کا ثبوت دیتے رہیں گے۔

حضور اب وطن کو تشریف لے جانے والے ہیں۔ ہم دعا گو یان جناب باری میں دعا کرتے ہیں کہ حضور جمع ای ام جی علی من اکثر اپنے پیارے وطن نہیں۔ تادی سلامت رہیں اور وہاں جا کر ہم کو دل سے نہ اتار دیں۔

این دعا از من و از جمله جهاں آمین یار

المدعيان

یہ دعائمہ بطور ایڈریس پنجاب کے علماء، مشائخین اور بڑے بڑے اولیا کرام کے سجادہ نشینوں نے 1918ء میں اپنے دستخطوں سے پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر سر مائیکل اور دوائر کی خدمت میں پیش کیا تھا۔ بر طانوی سامراج کا نمائندہ یہ گورنر وہی ذات شریف ہیں جن کے حکم سے بیساکھی کے موقع پر جلی حوالہ بالغ امر تسر میں جنرل ڈائر نے جنتے عوام کو بلا اشتعال گولیوں کا نشانہ بنایا اور جب پنجاب کے عوام نے اس ظلم و بر بریت کے خلاف آواز بلند کی تو سر مائیکل اوڈ واٹر نے امرتسر، لاہور اور گوجرانوالہ وغیرہ میں مارشل لاء نافذ کر دیا اور اس کی آڑ میں پنجاب کے عوام پر جو مظالم توڑے گئے، ان پر نہ صرف پورا بر صغیر سراپا احتجاج بن گیا بلکہ اس ظلم و تعدی کی بازگشت برطانیہ کی پارلیمنٹ کے ایوانوں تک سنی گئی۔

جس وقت ہمارے قابل احترام مشائخین، علمائے کرام اور سجادہ نشین صاحبان نہ صرف گورنر پنجاب بلکہ اس کی بیوی تک کی ” خدمات جلیلہ " کی مدح میں رطب اللسان تھے اور قرآنی آیات کے حوالہ سے انگریز حکمرانوں کو اسلامیان ہند کے لئے باعث رحمت قرار دے رہے تھے ، وہ دور بر صغیر میں سیاست کے حوالہ سے نہایت طوفانی دور تھا۔ یہ وہی دور تھا جب اسلامیان ہند تحریک خلافت میں جان و مال کی قربانیاں پیش کر رہے تھے۔ اس دور میں بد نام زمانہ رولٹ ایکٹ پاس ہوا جسے بر صغیر کی تمام سیاسی جماعتوں نے " کالا قانون " قرار دیا اور قائد اعظم نے اس کالے قانون کے خلاف احتجاج کے طور پر مرکزی قانون ساز اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ انہی جاگیر داروں نے مسلم لیگ کے مقابلے میں یونی نسٹ پارٹی کی مکمل حمایت کی اور جب مسلم لیگ کو پنجاب میں پذیرائی حاصل ہوئی تو یہ مسلم لیگ کی اگلی صفوں میں نظر آئے۔ جو جنگ آزادی کے غدار تھے، انگریزوں کے وفادار تھے، وہ پاکستان کی سیاست میں نمایاں ہوتے رہے۔ قائد اعظم انہیں کھوٹے سکوں کے نام سے یاد کرتے تھے۔ ان موقع پرستوں، جاگیرداروں اور سیاستدانوں نے خود کو اقتدار کی کرسیوں سے کس کر باندھ رکھا تھا اور انہی کا پاکستان کی سیاست پر قبضہ رہا ہے۔ انہوں نے ہمیشہ ذاتی مفاد پر قوم کے مفاد کو قربان کیا ہے ان کی اسی روش کی وجہ سے ملک پر یکے بعد دیگرے مارشل لاء کے حملے ہوئے اور جمہوریت کی گاڑی بار بار پڑی سے اترتی رہی۔ ۱۹۴۷ء سے ۱۹۵۸ء تک پنجاب کی سیاست پر انہی جاگیرداروں کا قبضہ رہا۔ راجہ رنجیت سنگھ سے لے کر لارڈ مونٹ بیٹن تک ان کی جبینیں ہر در پر سجدہ ریز رہی ہیں اور پنجاب کے مجبور و محکوم عوام خواہش کے باوجود ان جاگیرداروں کے طلسم سامری کو توڑنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ انہی کی بدولت بر صغیر کی تاریخ میں اس شرمناک باب کا اضافہ ہوا کہ یہاں پاکستان بننے سے پیشتر یونیسٹ کے مقابل مسلم لیگ کی حکومت قائم نہ ہو سکی۔ یہی جاگیردار مسلم لیگ کے خلاف مصروف رہے۔ قیام پاکستان کی منزل قریب آگئی تو انہی جاگیرداروں نے پنجاب کے عوام کو ایک بار پھر بے بس کر دیا۔ عوام نے عدیم النظیر تحریک چلا کر اپنی تمناؤں کا جو گلشن تعمیر کیا تھا، صیاد نے اس پر مالی کے روپ میں قبضہ کر لیا۔ جاگیرداروں کے ظلم و ستم کی داستان مختلف عنوانوں سے دہرائی جاتی رہی۔ انہی کی بدولت پنجاب پاکستان بننے کے بعد سیاسیات میں کوئی مثبت کردار ادا نہ کر سکا۔ جاگیر دار خاندانوں میں جن کے ہاتھوں میں پاکستان کا سیاسی مستقبل تھا، خاص کر پنجاب کے حیات، نون ، دولتانے، محروٹ، گردیزی، لغاری، سید گیلانی، قریشی ، پراچے اور قزلباش وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ان میں سے بعض خاندانوں کی رشتہ داریاں سندھ کے بڑے بڑے جاگیرداروں کے ساتھ قائم ہیں اور یہی خاندان آئین ساز اسمبلیوں میں بھی غالب اکثریت رکھتے تھے اندا پارلیمانی جمہوریت کو ناکام بنانے اور سیاسی اداروں کی نشوو نما میں رکاوٹیں ڈالنے والے بھی میں بڑے جاگیردار خاندان تھے۔ ان جاگیرداروں نے ذاتی مفادات کی خاطر جس طرح پارٹیاں تبدیل کی ہیں، اس دور کے ایک ہفت روزہ کا تبصرہ کچھ یوں تھا ۔

غور فرمائیے یہ ہیں ہمارے نمائندے جن لوگوں کی انفرادی سیرت گراوٹ کے اس درجہ میں ہو ان سے یہ توقع رکھنا کہ وہ جمہور کی نمائندگی کے اہل ہیں یا ان کے کسی قول و فعل پر اعتبار کیا جا سکتا ہے یا وہ اعتبار کے قاتل ہیں، ایک ایسی خود فرہی ہے جس کے لئے کوئی متعیین الفاظ نہیں البتہ اس بارے میں زیادہ سے زیادہ جو محتاط بات کہی جاسکتی ہے، وہ یہ ہے کہ ایسے لوگ کسی ملک کی آزادی اور کسی بھی قوم کی عزت کے لئے خطرے کا موجب ہو سکتے ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ بحالات موجودہ ان لوگوں کے اس طرز عمل کا محاسبہ کیونکر ہو سکتا۔ ہے۔ لیکن اس ڈرامے نے سمجھ دار لوگوں کے لئے لمحہ فکر یہ ضرور مہیا کر دیا ہے۔ یہ بات - بڑی شرمناک ہے کہ ارکان جماعت میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو محض جنس ہیں۔ ایسے لوگوں کے خلاف کسی تاریخی یا احتسابی کار روائی کا نہ ہوتا بڑا ہی افسوس ناک ہے۔ جو لوگ اس طرح عہد کر کے ایک دوسرے کو دھوکہ دیں اور زاویہ بدلتے وقت فرسودہ بہانے تراشیں، خود ایسے ایم ایلوں کو اپنی حیثیت اور اپنے مرتبے پر غور کرنا چاہیے۔ وہ ایک صوبے کے نمائندے ہیں۔ ان کے سیاسی کردار سے ملک و قوم کے سیاسی مزاج کی تشکیل ہوتی ہے۔ اگر وہ سیماب صفت ادھر سے اُدھر لڑکھتے رہیں اور اپنی سودا بازی میں کسی اخلاق کسی ضابطہ کسی معاشرے اور کسی شرم حجاب کو اہمیت نہ دیں تو اس سے بدتر ملک و قوم کے لئے خطر ناک بات کون سی ہو سکتی ہے۔ آخر قومی کریکٹر بھی کوئی چیز ہے۔ ہمارے گرگٹ نما ایم ایل اے گریبانوں میں منہ ڈال کر جھانکیں اور پھر سوچیں کہ وہ کہاں تک اس قومی کریکٹر سے عہدہ بر آہ ہوئے ہیں۔ اگر جمہوریت کے ستون یہ لوگ ہیں جو صبح ایک جماعت سے منتخب ہوتے، شام کو دوسری جماعت میں چلے جاتے ہیں۔ ایک بوقت میں ایک نیک ساتھ عہد باندھتے، دوسرے وقت میں دوسرے کا دامن تھام لیتے ہیں تو ان ستونوں کو گرا رہنا ہی بہتر ہے۔ اس جمہوریت سے فسطائیت اچھی ہے۔ اگر چہ ہم فسطائیت کو ایک خطرناک لعنت سمجھتے ہیں، آخر ان جمہوری نمائندوں کی ضرورت ہی کیا ہے جنہوں نے تو اپنے ضمیرو ایمان کا گوشت اسمبلی کی محراب میں لٹکا رکھا ہے۔ "

مسلم لیگ جب اقتدار سے آؤٹ ہوئی تو اس کی جگہ سازشوں کی کوکھ سے جنم لینے والی جماعت ری پبلکن کو ملک کی سب سے بڑی جماعت بنانے والے پہلی جاگیردار تھے۔

مسلم لیگ میں شمولیت کو یہ لوگ بچپن کی نادانی کہنے لگے اور انہوں نے ڈاکٹر خان صاحب جیسے کا نگریسی کو اپنا لیڈر منتخب کر لیا جس نے پرچم پاکستان کو سلامی دینے سے انکار کر دیا تھا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ یہی جاگیر دار مسلم لیگ کے ذریعے اقتدار تک پہنچے اور مسلم لیگ کے نام پر حکومتوں کا لطف اٹھاتے رہے اور اپنے دور اقتدار کی خوبیوں کا سرا تو اپنے سر باندھتے ہیں مگر اپنے دور کی دھاندلیوں اور بے قائدگیوں کو مسلم لیگ کے سر تھو نچتے رہے اور انہوں نے مسلم لیگ کو اس وجہ سے تصور وار ٹھرایا کہ اس نے انہیں اقتدار کی گدیوں پر کیوں بٹھا دیا۔ پنجاب کے جاگیر داروں کی یہ روایت رہتی ہے کہ وہ اسمبلیوں کے انتخاب جیتنے کے لئے ہر پینترا بدلنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔ انہیں کسی اصول یا نظریے سے دلچسپی نہیں۔ انہیں کسی بھی جماعت کے برسر اقتدار آنے کا گمان گزرے تو یہ فوراً اس میں شامل ہو جاتے ہیں۔ آخر کار مفاد پرست سیاست دانوں کی وجہ ہی سے ۱۹۵۸ء میں ایوب خان کو مارشل لاء چخذ کرنا پڑا اور ان جاگیرداروں کی سیاست پر کاری ضرب لگانے کے لئے ان کی زمینیں چھینٹے کے لئے زرعی اصلاحات کا قانون جاری کیا۔ لیکن یہ اتنے طاقت ور تھے کہ انہوں نے زرعی اصلاحات اور ایڈوز کے اثرات کو زائل کر دیا۔ انہوں نے سیاسی خانوادوں کے ذریعے ایوب خان کے ہاتھ مضبوط کرنے شروع کر دیئے جن میں پنجاب کے تقریباً تمام بڑے سیاسی گھرانے شامل تھے۔ ایوب خان نے کنونشن مسلم لیگ کی بنیاد رکھی تو سیسی جاگیر داران کے ہاتھ مضبوط کرنے کے لئے سب سے آگے بڑھے ۔ جب مارشل لاء حکومت نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا تو یہ کنونشن مسلم لیگ کی صفوں میں گھس گئے۔ جاگیرداروں کی بہت بڑی اکثریت ایڈو ہو گئی تھی لیکن یہ در پردہ ایوب خان کے ساتھ چلتے رہے اور انہوں نے محترمہ فاطمہ جناح کو صدارتی انتخاب میں شکست دینے میں اہم کردار ادا کیا ایوب خان کا سنگھاسن ڈولا تو یہ ڈوبتی کشتی سے چھلانگیں لگا کر اتر گئے۔ جو لوگ ایوب خان کی گالیاں سن کر ہل من مزید کا نعرہ لگاتے تھے، جنہوں نے اقتدار کی چوکھٹ سے اپنا ناطہ جوڑنے کے لئے عوامی امنگوں اور خواہشوں کو بری طرح نظر انداز کر دیا تھا، ان لوگوں کے نزدیک ایوب خان کا سب سے بڑا قصور یہ تھا کہ ان سے اقتدار چھن گیا تھا۔ اگر انہیں ذرہ بھر بھی امید ہوتی، کہ ایوب خان کبھی پھر بر سر اقتدار آجائیں گے تو یہ لوگ ان کے در سے اٹھائے نہ اٹھتے۔ بھٹو صاحب تو یہاں تک کہا کرتے تھے کہ صدر ایوب جیسا عظیم لیڈر اور بے مثال قائد شاید ہی عالم اسلام کو میسر آسکے اور اگر آج وہ امیر المومنین ہونے کا اعلان کریں تو سب سے پہلے میں اس کے ہاتھ پر بیت کروں گا۔ ذوالفقار علی بھٹو صدر صاحب کو ” مائی لارڈ " کہہ کر پکارتے تھے۔ جب محترمہ فاطمہ جناح سے صدارتی مقابلہ ہونے والا تھا تو ایوب خان نے اپنے سیاسی مشیروں کو اکٹھا کر کے کہا یاد رکھیئے! اگر فاطمہ جناح کامیاب ہو گئیں تو ہم سب کو سولی پر لٹکا دیں گی یا کولہو میں پلوا دیں گی۔ لہذا اگر آپ لوگوں کو اپنی اپنے خاندان کی جان و مال عزیز ہے تو مس فاطمہ جناح کو ہرانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگائیے " اور ان سب لوگوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔ آخر کار ۱۹۶۹ء میں ایوب خان کو اپنے خلاف عوامی رد عمل کا مقابلہ نہ کرتے ہوئے ریڈیو پر یہ اعلان کرنا پڑا کہ " میرے لئے نا ممکن ہے کہ میں ملک کی بربادی پر بیٹھا صدارت کرتا رہوں ۔ مجھے افسوس ہے کہ میری زندگی کی ایک بڑی خواہش پوری نہ ہو سکی۔ میری خواہش یہ روایت قائم کرنا تھی کہ سیاسی اقتدار آئینی طور پر منتقل ہوتا رہے۔ جاگیردار گھرانے یہ اعلان سنتے ہی ملک کی سب بڑی سیاسی جماعت کنونشن مسلم لیگ کو چھوڑ کر مسلم لیگ قیوم گروپ اور پیپلز پارٹی میں چلے گئے۔ یہاں تک کہ ۱۹۷۰ء کے الیکشن میں کنونشن مسلم لیگ کو امیداوار نہ مل سکے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں موروثی خاندانوں کو پہلی مرتبہ ۱۹۷۰ء کے انتخابات میں پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے روٹی، کپڑے اور مکان کا انقلابی نعرہ لگایا تو ملک کے کروڑوں پے ہوئے مجبور و محکوم عوام نے انہیں ملک کا وزیر اعظم بنا دیا۔ وہ بھی ان کے لئے کچھ نہ کر سکے اور ۱۹۷۷ء کے انتخاب میں جن لوگوں کو ٹکٹ ملے تھے۔ ان میں اکثریت ایک بار پھر انہیں جاگیردار سیاسی مسافروں کی تھی۔ ۱۹۷۷ء کے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کے باعث جب ملک میں مارشل لاء ماخذ کیا گیا اور ملتوی شدہ الیکشن کا جب دوبارہ اعلان ہوا تو ان جاگیرداروں کو یہ انتخابات منعقد ہوتے نظر نہ آئے۔ لہذا ان کے تیور بدلنے لگے تو یہ لوگ ضیا الحق کی مجلس شوری کے رکن بنتے چلے گئے۔ ۱۹۸۵ء کے غیر جماعتی انتخابات میں انہیں ایک بار پھر اپنی دولت کے بل بوتے پر سر اٹھانے کے مواقعے ملے۔ ۱۹۸۸ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کا عروج نظر آیا تو یہ پیپلز پارٹی کی قیادت کو یہ کہہ کر دوبارہ اس میں شامل ہو گئے کہ صبح کا بھولا شام کو گھر واپس آجائے تو اسے بھولا نہیں کہنا چاہیے۔ جب بے نظیر کو وزارت عظمی سے رخصت کیا گیا تو ان میں سے یہ جاگیردار پھر مسلم لیگ میں شامل ہو گئے۔ اس سے پہلے یہ لوگ محمد خان جونیجو کے ہاتھ بھی مضبوط کرتے رہے ہیں۔

Comments