خطبہ جمعہ از شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (اردو ترجمہ کے ساتھ)



خطبہ جمعہ 
از سیدنا مولانا شاہ ولی الله الدِّہلوی 

عربی خطبہ

الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي خَلَقَ الْإِنْسَانَ وَقَدْ أَتَى عَلَيْهِ حِيْنَ منَ الدَّهْرِ وَ لَمْ يَكُنْ شَيْئًا مَذْكُورًا، فَسَوّٰہ وَعَدَّلَهُ وَعَلَى كَثِيرِ مِمَّنْ خَلَقَ فَضْلَكَ وَجَعَلَهُ سَمِيعًا بَصِيرًا، ثُمَّ هَا السَّبِيلَ وَنَصَبَ لَهُ الدَّلِيلَ إِفَا شَاكِرَا وَأَنَا كَفُورًا أَمَّا الكَفِرُونَ فَأَعْتَدَّ لَهُمْ سَلَا سِلَ وَأَغْلَا لَا وَسَعِيرًا يُعَذِّبُونَ بِأَصْنَافِ الْعَذَابِ يُنَادُونَ وَيْلًا وَيَدْعُونَ ثُبُورًا، وَأَنَّا الشَّاكِرُونَ ننعم هُمْ وَكَرَمَهُمْ وَلَقَاهُمْ نَضْرَةٌ وَسُرُوْرًا وَإِنَّ هَذَا كَانَ لَكُمُ جَزَاء وَكَانَ سَعْيُكُمُ مَشْكُورًا، فَسُبْحَانَ مَنْ بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَى لَمْ يَزَلْ وَلَا يَزَالُ عَلِيمًا قَدِيرًا ۚ وَنَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ وَنَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ بَعَثَكَ بَيْنَ يَدَيِ السَّاعَةِ لِيَكُونَ لِلْعَلَمِينَ نَذِيرًا وَاتَاهُ جَوَامِعَ الْكَلِمِ وَمَنَابِعَ الْحِكَمَ وَوَعَدَهُ مَقَامًا تَحْمُودًا وَجَعَلَ سِرَاجًا مُنِيرًا أَمَّا بَعْلُ فَإِنِّي أُوصِيكُمْ وَنَفْسِي أَوْلا بِتَقْوى اللهِ وَأَحَدٍ رُكُمْ يَوْمًا عَبُوسًا قَمْطَرِيرًا، يَوْمَ تُبْلَى كُلُّ نَفْسٍ وَلَا تُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةً وَلَا يُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلُ وَلَا تَجِدُ نَصِيرًا يَوْمَئِذٍ يَنْدَمُ الْإِنْسَانُ وَلَا يَنْفَعُهُ النَّدَمُ وَيَطْلُبُ الْعَوْدَ إِلَى الدُّنْيَا وَهَيْهَاتَ أَنْ يَعُودَ وَ يُخْرَجُ لَهُ كِتَابُ يَلْقَاهُ مَنْشُورًا يَا ابْنَ آدَمَ مَنْ أَصْبَحَ عَلَى الدُّنْيَا حَرِيضًا لَّمْ يَزْدَدُ مِنَ اللهِ الْأَبْعْدَ اوَفِي الدُّنْيَا الأَكَدَّ أَوْ فِي الْآخِرَةِ الأَجْهُنَّ أَوَلَمْ يَزَلْ مَمْقُوْتًا مَّهْجُورًا يَا ابْنَ آدَمَ تُرْزَقُ بِالرِّزْقِ فَإِنَّ الرِّزْقَ مَقْسُومُ وَ الحَرِيصَ تَحَرُوهُ وَالْاسْتِقْصَاءَ شُوم وَالْأَجَلَ تَحْتُومُ وَقَدْ فَازَ مَنْ لَّمْ يَحْمِلُ مِنَ الظَّلْمِ نَقِيرًا، يَا ابْنَ ادَمَ خَيْرُ الْحُكْمَةِ خَشْيَةُ اللَّهِ وَخَيْرُ الْغِنى غِنَى الْقَلْبِ : وَخَيْرُ الزَّادِ التَّقْوى وَخَيْرُ مَا أُعْطِيتُمُ الْعَافِيَةُ وَكَانَ رَبُّكَ قَدِيرًا وَخَيْرُ الْكَلَامِ كَلَامُ اللَّهِ وَأَحْسَنُ الْهَدْرِي هَدَى مُحَمَّد صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ عَلَى الهِ وَسَلَّمَ وَشَتْ الْأَمُورِ مُحْدَثَاتُهَا : لَا إِيْمَانَ لِمَنْ لا أَمَانَةً لَهُ وَلَا دِينَ لِمَنْ لَا عَهْدَ لَهُ وَكَفَى بِرَبِّكَ بِذُنُوبِ عِبَادِ خَبِيرًا بَصِيرًا : أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطِنِ الرَّحِيمِ مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْعَاجِلَةَ عَجَلْنَا لَهُ فِيهَا مَا نَشَاءُ لِمَنْ نُرِيدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهُ جَهَنَّمَ يَصْلَه هَا مَنْ مُومًا مَّدْحُورًا، وَمَنْ أَرَادَ الْآخِرَةَ وَسَعَ الَهَا سَعْيَهَا وَهُوَ مُؤْ مِنْ فَأُولَئِكَ كَانَ سَعْيُهُمْ مَشْكُورًا اللَّهُمَّ اغْفِرُ ذُنُوبَنَا وَامْحُ عُيُو بَنَا وَادٍ دُيُو نَنَا وَكُنْ لَنَا مُعِينًا وَظَهِيرًا وَاقْضِ حَاجَاتِنَا وَاشْفِ عَاهَا تِنَا وَاسْتُرْ عَوْرَاتِنَا وَكَفَى بِكَ مُحِيبًا قَرِيبًا عَلِيمًا خَبِيرًا


 ترجمه خطبہ سید نا شاہ ولی الله قدس اللہ سرہ العزیز


جملہ کمالات کا مالک اور تمام تعریفوں کا مستحق وہ اللہ ہے جس نے انسان کو پیدا کیا ۔ یہ انسان جس پر ایسا زمانہ بھی گذرا ہے کہ یہ تذکرہ کے قابل بھی نہیں تھا۔ پھر اس کو ٹھیک ٹھاک کیا۔ اس میں اعتدال کو اور موزونیت رکھی، بہت سی مخلوقات پر اس کو فضیلت بخشی ۔ اور اس کو سنے اور دیکھنے کی قوت عطام فرمائی پھر اس کو راستہ کے نشانات بتا دیئے ۔ اور اس کے لئے حجت اور دلیل قائم کر دی کہ وہ غور و فکر سے کام لے تو صحیح راستہ پاسکتا ہے ۔ اب وہ یا ان باتوں کی قدر کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ان انعامات کو محسوس کر کے اُس کا شکر ادا کرتا ہے۔ یا وہ ان سب چیزوں سے منہ موڑ کر نا شکر گزار اورام ناسپاس بن جاتا ہے ، نہ اپنی ہستی پر غور کرتا ہے۔ نہ اپنے خالق پر نظر رکھتا ہے ۔ نہ اُن کے انعامات سے سبق لیتا ہے ۔


یہ ناسپاس اور ناشکرے اللہ تعالی کے انعامات اس کی ہدایت اور رہنمائی سے آنکھ بند کر لینے والے خود اپنی عقل کے پجاری ان کے واسطے اللہ تعالیٰ نے زنجیریں ، بیریاں طوق اور دوزخ کی بھی ہوئی آگ تیار کی ہے۔ ان کو طرح طرح کے عذاب دیئے جائیں گے وہاں وہ ہائے تو بہ مچائیں کے مصیبتوں اور تکلیفوں سے تنگ آکر موت موت پکاریں گے حالانکہ موت کا قصہ ہی ختم ہو چکا ہو گا ۔


دو سر وہ بندے جنھوں نے اپنی عقل و فہم اللہ تعالیٰ کے احسانات کو پہچاننے اور اس کا شکر ادا کردنے میں صرف کی اور وہ شکر گزار رہے ان کو اللہ تعالی نعمتیں عطا فرمائے گا اُن کی عظمت بڑھائے اُن کو تازگی بخشے گا۔ ان کو خوشی اور مسرت عطا فرمائے گا۔

بس پاک ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں ہر چیز کا اقتدار ہے جو ہر شے کا مالک ہے جو ہمیشہ سے صار علم اور صاحب قدرت ہے ۔ اور ہمیشہ علیم و قد پر رہے گا ۔


اور ہم شہادت دیتے ہیں (جس طرح کہ دیکھی ہوئی یا سنی ہوئی چیز کا اقرار کیا کرتے ہیں۔ اس طرح ا پختہ اقرار کرتے ہیں) کہ اس اکیلے اور تنہا خدا کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے ۔ اور اس یکتا اور تنہا معبود کا کوئی شریک یا سا بھی نہیں ہے اور ہم شہادت دیتے ہیں اور اس بات کے گواہ ہیں کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں جن کو آخری دور میں تمام نبوتوں کے ختم ہونیکے بعد قیامت سے کچھ پہلے اس لئے مبعوث فرمایا کہ تمام جہان والوں کو تمام جن و بشر کو آگاہی دیدیں یعنی اچھے اور برے کاموں کے نتائج سے خبر دار کر دیں اور آپ کو جَوَامِعُ الكَلِیمُ عطا فرمائے یعنی آپ کو وہ فصاحت و بلاغت اور الفاظ اور معنے کی وہ جانچ پرکھ عطا فرمائی کہ بڑی بڑی حقیقتیں ہلکے ہلکے الفاظ چھوٹے چھوٹے فقروں میں معجزانہ انداز سے واضح فرما دیتے ہیں۔ آپ کو حکمت و دانش کے سرچشمے اور بیش بہا خزانے عطا فرمائے اور آپ سے وعدہ فرمایا کہ وہ خاص مرتبہ آپ کو طا فرمایا جائے گا جس کا عنوان "مقام محمود ہے۔ اور ان خصوصیتوں اور اعلی کمالات کے ساتھ آپ کو شمع تاباں اور سراج منیر بنایا کہ آپ پوری کائنات کو روشنی بخشتے ہیں اُس سوز و گداز کے ساتھ جو نمع کی فطرت ہے کہ خود کھلتی ہے محفل کو روشن کرتی رہتی ہے ۔ 


حمد و صلوۃ کے بعد سب پہلے بات یہ ہے کہ میں خود اپنے آپ کو بھی اور آپ سب کو وصیت کرتا ہوں کہ اللہ کا خوف دل میں پیدا کریں۔ اس کے احکام کی تعمیل کو نصب العین بنالیں۔ ہر معاملہ میں شریعت کی پابندی کریں۔ اور اس دن کا خوف دلاتا ہوں جو نہایت ترش اور حد سے زیادہ تکلیف دہ اور ریشان کن ہوگا ۔ وہ دن جس میں ہر ایک متنفس آنہ مالیش میں مبتلا ہو گا۔ نہ اس دن شفاعت قبول ہوگی نہ کوئی بدل اور فدیہ منظور کیا جائے گا اور نہ کوئی مددگار دستیاب ہوگا۔ اس روزنہ انسان نادم ہوگا مگر یہ ندامت اور شرمندگی بے سود ہو گی ۔ اس روز ہر گناہ گار کی تمنا ہو گی کہ دنیا میں واپس اپنے گناہوں کی تلافی کرے مگر یہ قطعاً غلط اور امکان سے بہت بعید بات ہوگی رجب دنیا ہی ختم ہوچکی ہوگی تو دنیا کی طرف لوٹنے کے کیا معنے ! ) اس روز اس کو اس کے اعمال کی کھلی ہوئی کتاب دی جائے گی ۔

اے ابن آدم سمجھ لے حرص دنیا، اور قرب خداوندی ساتھ ساتھ اکھٹے نہیں ہو سکتے ۔ دنیا کی حرص ۔ اللہ تعالیٰ سے دور کر دیتی ہے۔ حرص جتنی زیادہ ہوگی اتنا ہی خدا سے بعد زیادہ ہو گا ۔

یہ بھی یاد رکھو ۔ دنیا کی حرص ایسی مصیبت ہے کہ مریض حرص کو نہ دنیا میں چین اور اطمینان میسر آتے ہے نہ اخت میں اس کو راحت اور نجات نصیب ہوگی۔ دنیا میں رات دن کی محنت پریشانی دوڑ دھوپ اور آخرت میں سراسر نا کامی خدا کا غضب اور اُس کے دیدار سے محرومی ۔

اے ابن آدم جو کچھ نصیب میں ہے ملے گا۔ رزق تقسیم ہو چکا ہے۔ تم اگر حرص کرتے ہو تو یاد رکھ حریص محروم ہوتا ہے۔ اور سب کچھ سمیٹ لینے کی ہوس بخوست ہے ۔ ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہے ۔ اسی طرح موت کا بھی وقت مقرر ہے ۔ بیشک کامیاب وہ ہے جس کے کاندھوں پر ظلم کا بوجھہ نہ ہو۔ جس کا دامن بے انصافی کے دھبہ سے پاک ہو ۔

آدم کے بیٹے سمجھ لے۔ سے بہتر دانش مندی خشیتہ اللہ ہے ۔ خدائی ہیبت اور اُس کا خوف دل میں ) پیدا کرو۔ سب سے بڑی دانائی یہی ہے ۔ اور سب سے بہتر تو نگری اور دولتمندی یہ ہے کہ دل ہے نیاز ہو۔ اور سب سے اچھا توشہ تقویٰ ہے۔ سب سے بڑا سفر آخرت کا سفر ہے۔ خوف خدا کے ساتھ احکام خداوندی کی تعمیل اور شریعت کی پابندی. یہ اس سفر کا توشہ ہے۔ اور دیکھو عافیت ۔ سب سے بہتر عیہ ہے جو تمہیں میسر آجائے ۔ اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے ۔ اس سے عافیت ہی کی درخواست کرو۔

اور یاد رکھو ۔ سب سے بہتر کلام ، کلام اللہ ہے۔ اور آقائے دو جہان محبوب رب العالمین محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی روش آپ کی عادت و خصلت . آپ کی چال ڈھال سب سے بہتر خصلت و عاد ہے اور سب سے بڑی اور سب سے زیادہ نشر کی باتیں وہ ہیں جو دین کے نام پر ایجاد کر لی جائیں۔ جن کو بدعت کہا جاتا ہے ۔

آن حضرت صلی اللہ علیہ وسلم ک ارشادہے کہ جو امانت داری سے محروم ہے، وہ ایمان سے بھی محروم ہے ۔جو اپنے عہد کا پابند نہیں وہ دین کا بھی پابند نہیں ۔

اور دیکھو۔ یاد رکھو۔ تمہارا رب تمہارا پر ور دگا ر اپنے بندوں کے گناہوں کی پوری خبر رکھتا ہے۔ بندوں کے تمام کام اس کی نظر میں رہتے ہیں ۔ اللہ تعالے کا یہ ارشاد ہر وقت پیش نظر رکھو کہ جس کی نظر اسی دنیا پر رہتی ہے کہ جو کچھ ملنا ہے جلد ملجائے۔ بیشک ہم اس کو اسی دنیا میں جو کچھ چاہتے ہیں نقد دیدیتے ہیں لیکن پھر اس کے لئے جہنم ہی مقرر کر دیتے ہیں ۔ وہ ملامت اور پھٹکار کے ساتھ دوزخ میں جھونکا جائے گا۔ البتہ جس کے پیش نظر آخرت رہتی ہے ۔ اور جو چاہتا ہے کہ اس کا حصہ آخرت میں لے پھر جیسی کوشش کرنی چاہئیے وہ اس کے لئے جد و جہد اور کوشش بھی کرتا رہتا ہے۔ اور شرط ہے کہ ایکان کی دولت بھی اس کے پاس ہو۔ تو بے شک یہ وہ ہیں جن کی کوششوں کا شکر یہ ادا کیا جائے گا ۔

اے اللہ ۔ ہمارے گناہ بخش دے۔ ہمارے عیب مٹادے ۔ ہمارے قرض ادا کرا دے اور خداوندا تو ہما را معین اور مددگار رہ اور خدا وندا ہماری حاجتیں پوری کر دے ۔ بیماریوں سے شفار عطا فرما۔ ہمارے عیبوں کی پردہ پوشی فرما۔ خدا وندا تو دعائیں قبول فرماتا ہے۔ تو ہر ایک سے قریب ہے ۔ سب کی باتیں جانتا ہے ۔ ہر شخص کے تما

م حالات کی پوری خبر رکھتا ہے ۔


Comments