ہندوستان (بھارت) کا فلسفہ تاریخ از جارج ولہیم فریڈرک ہیگل



ہندوستان (بھارت) کا فلسفہ تاریخ
 از 
جارج ولہیم فریڈرک ہیگل

چین کی مانند بھارت بھی قدیم مظاہر قدرت کے ساتھ ساتھ جدید بھی ہے جو طویل مدت سے ساکت و جامد صورت میں رہتے ہوئے بھی از خود ارتقا کی اعلیٰ منازل سے گزرا ہے۔ یہ خطہ ہمیشہ سے تصوراتی تمناؤں کی سرزمین رہا ہے اور ابھی تک ہماری نظروں میں یہ خوابوں کی سرزمین اور ایک خوشحال خطہ ہے چینی ریاست کے بالکل جو ایک انتہائی اونی درجہ کی عقل و شعور کی حامل ہے۔ بھارت ایک تخیلات اور تدبر سے بھر پور سرزمین ہے۔ اصولی انداز میں اس کے ارتقا کا نکتہ جو ہمیں نظر آتا ہے عمومی شکل میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ چین میں قبائلی طرز کی حکومت محض عالم طفلی کی شکل میں ایک قوم پر حکمرانی کرتی ہے جس کے اخلاقی ضوابط جزوی طور پر رائج الوقت قوانین کے تحت ہیں اور بقیہ شہنشاہ کی اخلاقی چشم پوشی پر انحصار کرتے ہیں ان حالات میں یہ رعایا پر منحصر ہے کہ خارجی کیفیات داخلی میں بدل جائیں یہ کہ روحانی اور فطری دنیا عقل و دانش کے زیر اثر اپنے موضوعی رخ سے آشکار ہو جس کے عمل سے موضوعیت اور عمومی انداز میں وجود کا اتحاد یعنی زندگی کی مثالیت قائم ہو جاتا ہے۔ چنانچہ یہ مثالیت ہندوستان میں موجود ہے لیکن یہ مثالیت واضح اور صریح تصور کے بغیر محض سوچ بچار کی حد تک ہے۔ ایک ایسی مثالیت جو آغاز اور مادہ سے آزاد ہے مگر ہر شے کو محض خواب و خیال میں بدل دیتی ہے۔ کیونکہ وفخرالذکر گر چینی تصورات اور تد برسے گہرا ربط ضبط رکھے رکھے ہوئے ہے پھر بھی اپنے آپ کو اتفاقی ہمسفر کے طور پر ظاہر کرتی ہے اور ایسا صرف اتفاقی ملاپ میں ہوتا ہے تا ہم چونکہ یہ صرف مجرد اور حتمی تصور ہی ہے جو خوابوں کا مواد بنتا ہے تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ حتمی وجود یہاں ایسے ظاہر ہوتا ہے جیسے خواب ناک کیفیت میں دل لبھانے والا نظر ہوتا ہے کیونکہ ہم یہاں کسی حقیقی فرد کا خواب نہیں دیکھ رہے جو واضح تشخص کا حامل ہے اور مؤخر الذکر کی حدود کو توڑ رہا ہے بلکہ ہم تو ایک لامحدود اور ایک حقیقی وجود کا خواب دیکھ رہے ہیں۔

عورت میں ایک خاص قسم کی جاذبیت ہوتی ہے جس میں اس کا روپ اس کی جلد کے نکھار کو پیش کرتا ہے ایک روشن اور گلابی رنگ جو شض صحت مندی اور توانائی کا باعث نہیں ہو سکتا۔ ایک بہت ہی نفیس قسم کی چک، جیسے کسی نے اندر سے روح پھونک دی ہو اور جس کے دوسرے خدو خال میں آنکھوں کی روشنی ، منہ کی بناوٹ، بہت ہی نرم و نازک اور دلر بالگتی ہے۔ عورت میں یہ ملکوتی حسن ان دنوں میں ابھر کر سامنے منے آتا ہے جو بچے کی پیدائش کے فورا بعد آتے ہیں۔ جب حمل کے بوجھ سے اور زچگی کے درد سے نجات کے ساتھ ساتھ اس عورت کی شادمانی ایک پیارے منے سے تحفہ کا استقبال کرتی ہے حسن و جمال کی کچھ اس قسم کی کیفیت عورت میں اس وقت بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ جب وہ جادو بھری خواب آور نیند میں ڈوبی ہوئی ہو جو انھیں ارضی حسن کی دنیا سے ملاتی ہو۔


ایک عظیم مصور (شعور ) نے ایسی ہی کیفیت کو میری کی موت کے وقت کی حالت سے مناسبت دی ہے جس کی روح اپنے پیارے آباؤ اجداد کی روحوں سے ملاپ کے لیے بلند ہو رہی ہے لیکن ایک بار پھر ، جیسے کہ ہمیشہ ہوتا ہے، اس کا مرجھا تا ہوا چہرہ چمک اُٹھتا ہے۔ ایک الوداعی بوے کے لیے ، اسی قسم کا حسن ہم ہندوستانی سرزمین میں انتہائی شکل وصورت میں دیکھتے ہیں۔ ضعف کا حسن جس میں سب کچھ بھونڈے کرخت اور نا گوار انداز میں ملا ہوا ہے اور ہم صرف اس میں انسان کو جذباتی کیفیت میں دیکھتے ہیں۔ ایک ایسا انسان جس میں آزادی اور خود اعتمادی سے بھر پور روح قابل فہم ہے کیونکہ اگر ہم اس پھولوں جیسی زندگی کی دلکشی تک رسائی حاصل کر لیں ۔ ایسی ودکشی جو تخیل اور دانش سے آسودہ ہے۔ جس میں تمام ماحول اور اس سے رشتہ رکھنے والے تمام اشیا انسان کی عطر گلاب جیسی پھونک میں نفوذ کر گئی ہوں اور دنیا محبت کے ایک گلستان میں بدل گئی ہو ۔ اگر ہمیں اسے پھر سے قریب سے مشاہدہ کرنے کا موقع ملے اور اسے انسانی عظمت اور آزادی کی روشنی میں جائزہ لینے کا موقع ملے ۔ اس کا پہلا منظر جو بہت ہی دلکش نظر آتا تھا انجام کا ہم اسے ہر پہلو سے بہت ناگوار شکل وصورت میں پائیں گے۔ ہندو کی فطرت کے جنسی اصول کے حوالے سے ایک انسان کی خواب کی حالت کی کیفیت کی زیادہ وضاحت کی ضرورت ہے۔ خواب کی حالت میں ایک انسان اپنی کیفیت کے مقابلے میں معروضی زندگیوں کے برعکس اپنے شعور سے رابطہ ختم کر بیٹھتا ہے۔ بیدار ہونے پر خود کو ایک جیتا جاگتا انسان پاتا ہے اور باقی مخلوق ایک خارجی شے ہے جو جامد معروضیت ہے کیونکہ میں خود اس کے لیے ہوں۔ خارجی حیثیت سے بقیہ تمام مخلوق ایک شائستہ مربوط کلیست تک خود میں وسعت پیدا کر لیتی ہے۔ تعلقات کا ایک نظام جس میں میرا اپنا ذاتی وجود ایک رکن کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایک انفرادی وجود اس کلیت میں ضم ہو کر یہ سب تفہیم کا دائرہ ہے۔ اس کے برعکس خواب کی کیفیت میں یہ علیحد گی ختم ہو جاتی ہے انسان خارجی زندگی کے برعکس اپنے طور پر زندہ نہیں رہتا۔ چنانچہ خارجی اور انفرادی جدائی اپنی آفاقیت کے سامنے خلط ملط ہو جاتی ہے یعنی اپنے جوہر کے سامنے چنانچہ ایک خواب کی حالت میں ہندوستانی وہ ہے جسے ہم فانی اور خود کہتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ لافانی انداز میں آفاقی اور لامحدود بھی ایک ایسی شے جو جبلی طور پر ملکوتی ہے۔ اشیا کے متعلق ہندوستانی نظر یہ ایک عالمی بت پرستی ہے یہ بت پرستی البتہ تخیل کی ہے نہ کہ فہم و ادراک کی ایک جو ہر ہے جو تمام اشیا میں نفوذ کر جاتا ہے اور تمام کی تمام انفرادیتیں براہ راست مخصوص قوتوں میں جلا پاتی ہیں ۔ ہر معاملے میں حساس امر اور جو ہر کو محض درشت انداز میں لیا جاتا ہے اور انھیں ایک آفاقی اور لامتناہی دائرے تک پہنچایا جاتا ہے۔ اس جذبے کی آزاد قوت سے رہائی پاکر حسین پیکر نصیب نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ انسان میں مثالی بن سکتا ہے کہ وہ حساس وجود اس روحانی پیکر کا تابع مہمل ہو کر رہے بلکہ وہ تو انتہائی نزه انداز میں لامتناہی حدود تک وسعت پا جاتا ہے اور وہاں تقدس ایک فرسودہ اور مضحکہ خیز چیز بن کر رہ جاتا ہے۔ یہ خواب محض خیالی نہیں نہ ہی یہ تخیل کا کھیل ہیں جن میں روح کی بے پناہ عیش و نشاط میسر ہو، یہ ان میں کھو جاتی ہے۔ ان خیالات میں ادھر ادھر بھٹکتی پھرتی ہے۔ ایسے جیسے کسی حقیقی شے سے اسے واسطہ ہو۔ یہ ان محدود اشیا تک پہنچادی جاتی ہے جو اس کے لیے آتا اور دیوتا کی حیثیت رکھتے ہیں چنانچہ اس کے لیے ہر شے مثلاً سورج، چاند، ستارے، گنگا، سندھ، وحشی جانور، اور پھول غرض ہر شے اس کا دیوتا ہے اور اس کی پوجا پاٹھ کے دوران میں وہ غیر مطمئن وجود اپنا تو اتر اور اپنی حقیقت کھو بیٹھتا ہے اور اس کا دانشورانہ تصور محال ہے۔ اس کے بالکل برعکس وہ آسمانی ہستی جسے لازمی انداز میں قابل تغیر اور غیرمستحکم تصور کیا گیا ہے۔ اس کی بنیادی حیثیت کو جو اسے حاصل ہے غلیظ اور نا پاک کر دیا جاتا ہے اور اس کا ایک فرسودہ سا تصور رہ جاتا ہے۔ تمام فانی اشیا کی اس عالمی پرستش میں نتیجتا بالاتر ہستی کی تحقیر، انسان کی عظمت کا تصور، اور خدا کے اوتار کی حیثیت اختیار کرنا ان کے نزدیک کوئی مخصوص لازمی سوال نہیں ہے۔ ایک طوطا ، گائے لنگور وغیرہ اسی انداز میں خدا کے اوتار ہیں پھر بھی یا اپنی فطرت سے بڑھ کر بالیدگی نہیں پا سکتے۔ خدا کی ہستی کسی ایک موضوع پر موقوف نہیں نہ ہی ٹھوس وجود سے بلکہ اس کی تحقیر انتہائی بے حیائی اور بلا سوچے سمجھے انداز میں کی گئی ہے۔ یہ باتیں ہمیں کائنات کے متعلق ہندوستانی تصورات کا پتہ دیتی ہیں۔ تمام اشیا کو ان کے اصل حقائق سے ان کے اسباب و عواقب کے مضبوط بندھن سے چیر کر یوں الگ کر دیا گیا ہے جیسے انسان کو اس کی انفرادیت کے استحکام ؛ اس کے تشخیص اور آزادی سے الگ کر دیا گیا ہو۔ خارجی انداز میں ہندوستان عالمی تاریخ کے ساتھ کثیر الجہت رشتوں سے منسلک ہے۔ حال ہی میں ایک انکشاف کی رُو سے سنسکرت ، یورپ میں بولی جانے والی اکثر زبانوں کے ارتقا کے لیے بنیاد فراہم کرتی ہے۔ مثلاً یونانی، لاطینی، جرمن وغیرہ۔ اس کے علاوہ ہندوستان مغربی دنیا کے تارکین وطن کا مرکز رہا ہے لیکن اس خارجی تاریخی تعلق کو اس پہلو سے محض قوموں کے ایک طبعی پھیلاؤ پر محمول کرنا چاہیے۔ اگر چہ ہندوستان میں ارتقا کے مزید عناصر بھی دریافت ہو سکتے ہیں اور اگر چہ ہم ان اثرات کا سراغ بھی لگا سکتے ہیں جو مغرب نے ہندوستان سے لیے۔ لیکن تاثر اس قدر مضبوط اور ٹھوس ہے کہ بعد میں اُبھرنے والی قوموں میں ہمار ا ربط ضبط اس انداز سے بڑھا کر یوں لگتا ہے کہ یہ ہندوستان سے مستعار نہیں لیا گیا بلکہ اس کی ہیئت سے یہ لگتا ہے کہ اس کی تشکیل از خود ہوتی ہے اور انھوں نے اس ضمن میں اپنی مقدور بھر کوشش کی ہے کہ ہندوستانی تہذیب کے آثار کو بھول جائیں۔ ہندوستانی تہذیب کا پھیلاؤ ماقبل تاریخ سے تعلق رکھتا ہے کیونکہ تاریخ کی رسائی اُن حدود تک ہے جو انسانیت کے ارتقا میں ایک ناگزیر عہد کی تخلیق کرتی ہیں۔ مجموعی طور پر ہندوستانی تہذیب کا پھیلاؤ ایک بے نام گونگی کی توسیع ہے یعنی یہ کسی سیاسی عمل کا اظہار نہیں کرتی ۔ ہندوستان کی قوموں نے باہر نکل کر کوئی فتوحات حاصل نہیں کیں ۔ بلکہ ہر موقع پران پر فتح حاصل کی جاتی رہی ہے۔ لہذا اس خاموش طبعی کے باعث شمالی ہندوستان طبعی پھیلاؤ کے لیے فراخدلی کے انداز میں غیر ملکیوں کے تارکین وطن کی آماجگاہ بنا رہا ہے۔ ہندوستان آرزوؤں کی سرزمین ہونے کے باعث عمومی تاریخ میں ایک اہم عنصر کی حیثیت رکھتا ہے۔ انتہائی قدیم زمانے سے لے کر آج تک تمام قوموں نے اپنی تشنہ آرزوؤں کی تکمیل کے لیے عجائبات کی اس سرزمین کا رخ کیا ہے اور ان میں سب سے زیادہ قیمتی چیز یہاں کی زمین ہے۔ فطرت کے خزانے ، موتی، جواہرات ، خوشبوئیں ، گلاب کے عطر، ہاتھی ، شیر وغیرہ وغیرہ اور ان کے ساتھ علم وحکمت کے خزانے بھی ۔ وہ انداز جن کے ذریعے یہ خزانے ہندوستان سے مغرب میں منتقل ہوتے رہے ہمیشہ سے ہی عالمی تاریخ کا ایک اہم موضوع رہا ہے جو قوموں کی تقدیر کے ساتھ وابستہ ہے۔ ان قوموں کی خواہشات پوری ہوتی رہی ہیں اور آرزوؤں کی یہ سرزمین سرز مین لٹتی رہی ہے۔ مشرق کی بڑی قوموں میں سے یا جدید مغربی یورپ میں شاید ہی کوئی ہو چاہے وہ چھوٹی تھی یا بڑی اس نے لوٹ کھسوٹ میں اپنا حصہ نہ لیا ہو۔ زمانہ قدیم میں سب سے پہلے اسکندر اعظم نے زمین کے راستے ہندوستان میں قدم رکھا بلکہ اس نے تو محض اس سرزمین کو چھونے کی حد تک رسائی کی۔ کی موجودہ دور کی یورپی اقوام نے عجائبات کی اس سرزمین میں داخل ہونے کے براہ راست اور گھما کر زمینی اور سمندری راستے نکالے۔ انگریز قوم بلکہ صاف لفظوں میں ایسٹ انڈیا کمپنی اس خطہ کی حکمران ہے۔ یوں لگتا ہے کہ ایشیائی قوموں کی تقدیر میں یور چین اقوام کے ہاتھوں تسخیر لکھی ہے اور زود یا بدیر چین بھی تقدیر کے اس نوشتہ کا شکار ہو کر رہے گا۔ اس ملک میں کل میں کروڑ انسان بستے ہیں جن میں سے دس گیارہ کروڑ کے لگ بھگ انگریزوں کی رعیت ہیں۔ وہ ریاستی حکمران جو براہ راست برطانیہ کے ماتحت نہیں ان کے درباروں میں انگریز حکومت کے نمائندے (Agents) موجود ہوتے ہیں اور انگریز فوجی بھی ان درباروں سے تنخواہ پاتے ہیں۔ جب سے مرہٹوں کی سلطنت نے انگریزوں کے آگے ہتھیار ڈالے تھے۔ ہندوستان کے کسی حصے سے بھی اس خطہ کی آزادی کے لیے کوئی آواز نہیں اُٹھی۔ انگریزوں نے برما کی سلطنت پر بھی تسلط حاصل کر لیا ہے اور ان کی رسائی دریائے برہم پترا تیک ہو چکی ہے جہاں مشرق میں ہندوستان کی سرحد میں ختم ہو جاتی ہیں۔

اصل ہندوستان وہ ہے جسے انگریز طبیعی انداز میں دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں پہلا رکن یعنی عظیم جزیرہ نما جس کے مشرق میں خلیج بنگال ہے اور مغرب میں بحر ہند اور بقیہ ہندوستان جسے گنگا کی وادی نے اور ایران کی جانب اس کے پھیلاؤ نے تشکیل دیا ہے، شمال مشرق میں ہندوستان کی سرحد ہمالیہ کا سلسلہ کوہ بناتا ہے جسے یورپ لوگوں کے مشاہدہ کے مطابق دنیا کی بلند ترین چوٹیوں کا حامل پہاڑی سلسلہ قرار دیا جاتا ہے۔ کیونکہ اس کی چوٹیاں سطح سمندر سے چھبیس ہزار (۲۶۰۰۰۰) فٹ بلند ہیں۔ ان پہاڑیوں کی دوسری جانب بلندی کم ہونی شروع ہو جاتی ہے اور چین کی سلطنت وہاں تک پھیلی ہوئی ہے اور جب انگریزوں نے دلائی لاما کے پاس لہا سا جانے کا ارادہ کیا تو چینیوں نے انھیں روک دیا۔ بھارت کے مغرب میں دریائے سندھ بہتا ہے جس میں پانچ دریا آ کر مدغم ہو جاتے ہیں جسے پنج آب ( پنجاب ) کہتے ہیں جس میں اسکندر اعظم داخل ہوا تھا۔ انگریزوں کی سلطنت دریائے سندھ تک نہیں پہنچی ۔ سکھوں کا فرقہ اس ضلع میں آباد ہے جس کا نظم و نسق یکسر جمہوری قسم کا ہے۔ ان سکھوں نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے مذہب سے ہٹ کر ایک درمیانی راہ اختیار کی ہے ۔ وہ صرف ایک لافانی ہستی کے قائل ہیں وہ ایک طاقتور قوم ہیں اور انھوں نے کابل اور کشمیر کو فتح کر رکھا ہے۔ اس کے علاوہ دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے جنگجو نسل کے قبائل آباد ہیں۔


دریائے سندھ اور اس کے جڑواں بھائی دریائے گنگا کے درمیان وسیع میدانی علاقہ ہے۔ دوسری جانب دریائے گنگا کے اردگرد بہت وسیع و عریض سلطنتیں قائم رہی ہیں جن میں علوم نے ارتقا کی بہت کی منزلیں طے کی ہیں اور یہ کہ دریائے گنگا کے ساتھ ساتھ آباد ہونے والے ملک کو دریائے سندھ کے ساتھ بسنے والے ممالک کی بہ نسبت زیادہ شہرت ملی ہے۔ سلطنت بنگال بالخصوص بہت پھولی پھلی ہے۔ دریائے نربدا دکن اور ہندوستان کے درمیان حد فاصل کا کام دیتا ہے جزیرہ نما دکن ہندوستان سے زیادہ گونا گونی خصائص کا حامل ہے اور اس کے دریا دوسرے دونوں دریاؤں سندھ اور گنگا کی بہ نسبت زیادہ افادیت کے حامل تصور کیے جاتے ہیں جب کہ مؤخر الذکر کو ہندوستان کے تمام دریاؤں کا نمائندہ نام دے دیا گیا ہے۔ یعنی پوتر دریا۔ اس عظیم ملک کے تمام باسیوں کو جن پر ہم ابھی بحث کریں گے دریائے سندھ (Indus) کے حوالے سے انڈین (ہندوستانی) کہتے ہیں ( اور انگریز انھیں بندر کہتے ہیں) لیکن انھوں نے مجموعی طور پر سارے باشندوں کو اس نام سے نہیں پکارا کیونکہ یہ خطہ کبھی پوری ایک سلطنت میں شامل نہیں رہا۔ اگر چہ ہم سمجھتے یہی رہے ہیں۔


جہاں تک ہندوستانیوں کی سیاسی زندگی کا تعلق ہے ہمیں سب سے پہلے اس ترقی پر غور کرنا ہوگا جو اہل چین کے برعکس اہل سندھ نے کی ، چین کے اندر اس کے باشندوں میں ایک مساوات کی شکل دے دی گئی ہے چنانچہ سربراہی کی قوت مرکز میں تھی یعنی شہنشاہ کی ذات، چنانچہ چینیوں کو انفرادی طور پر کبھی بھی خود مختاری نہیں ملی اور نہ ہی وہ موضوعی آزادی کا خواب دیکھ سکے۔ اس اتحاد کی پیش روی کا دوسرا درجہ وہ اختلاف ہے جو اس اتحاد کی زبردست قوت کے خلاف اپنی خود مختاری قائم رکھتا ہے۔ ایک منظم زندگی کے لیے سب سے پہلے زندگی کی روح درکار ہے اور دوسرے نمبر پر اختلافات کا انتشار، جو منتظم ارکان فراہم کرتے ہیں اور اپنے مختلف وظائف زندگی کی ادائیگی کرتے ہوئے اپنے آپ کو ایک مکمل نظام میں ڈھال لیتے ہیں۔ البتہ اس انداز میں ان کی سرگرمیاں ان کی روح کی تشکیل نو کرتی ہیں۔ علیحدگی کی یہ آزادی چین میں مقصود ہے۔ وہاں کمی یہ ہے کہ اس گونا گونی سے خود مختار زندگی حاصل نہیں ہوسکتی۔ اس ضمن میں ہندوستان نے اہم پیش رفت کی ہے جہاں اس مطلق العنان قوت سے ، اس کے خود مختار ارکان پھٹ کر الگ ہو گئے ہیں۔ پھر ان امتیازات کو جوان کے درمیان موجود ہیں فطری عمل بتایا ہے۔ ایک قوم کی تگ و دو کو ان کے اتحاد کے مرکز کی حیثیت سے تیز تر کرنے اور بیک وقت اس قوم کے کردار سے آگاہی حاصل کرنے کے بجائے، جیسے کہ ایک منظم زندگی میں ہوتا ہے وہ یکر سنگ دلی کا رویہ اپنائے ہوئے اپنے گھسے پٹے طریق پر ہندوستانی قوم کو انتہائی ذلت آمیز روحانی غلامی کے انداز میں بُرا بھلا کہتے ہیں ان میں امتیازات ذاتوں کے باعث ہیں۔ ہر ایک جانی پہچانی حالت میں امتیازات روا رکھے گئے ہیں جن کا واضح اظہار ضروری ہے۔ قوم کو انفرادی حیثیت سے موضوعی آزادی کے درجہ تک پہنچنا چاہیے اور اس عمل میں اس گونا گونی کیفیت کو ایک معروضی شکل دینی چاہیے۔ لیکن ہندوستانی تہذیب ابھی آزادی اور داخلی اخلاقیات کی منزل تک نہیں پہنچی کیونکہ جن امتیازات کو اس قدرا چھالا گیا ہے ان کا تعلق تو صرف پیشوں اور روایات سے ہے۔ ایک آزاد ریاست میں بھی اس طرح کی رنگارنگی مختلف درجات کی تخلیق کا باعث بنتی ہے پھر بھی وہ آپس میں یکجا رہتے ہوئے اپنی انفرادیت برقرار رکھتے ہیں۔ ہندوستان میں ہمیں یہ تقسیم عظیم گروہوں کی شکل میں نظر آتی ہے۔ یہ ایک ایسی تقسیم ہے جو ساری سیاسی زندگی اور ادراک کو متاثر کرتی ہے۔ مختلف امتیازات کی درجہ بندی، چین کی وحدت کی طرح نتیجتا اپنے اصل اور حقیقی درجہ پر قائم رہتی ہے یعنی وہ افراد کی آزاد موضوعیت کا نتیجہ نہیں ہوتی ۔ ایک ریاست اور اس کے مختلف وظائف کا تجزیہ کرتے ہوئے ہمیں سب سے پہلے جو لازمی عمل نظر آتا ہے جس کی امکانی وسعت آفاقی ہے اور جس سے انسان مذہب کے اندر سب سے پہلے آگاہ ہوتا ہے اور پھر علوم میں بھی یعنی خدا، وہ آسمانی قوت جو بلاشبہ آفاقی ہے چنانچہ سب سے اعلیٰ ذات وہ ہو گی جس کے ذریعے خدا تک رسائی ہو سکتی ہے اور معاشرہ سے رابطہ کرایا جا سکتا ہے یعنی برہمنوں کی ذات ۔ دوسرا عصر یا ذات وہ ہے جو موضوعی قوت اور توانائی کا مظہر ہو۔ اس گروہ کو اپنی قوت کا ادراک بھی ہونا چاہیے تا کہ باقی سب اس کالو ہاما نیں اور دوسری ریاستوں سے مقابلے کے لیے اس پر اعتماد بھی کریں۔ یہ فرقہ یا ذات جنگجو اور حکمران لوگوں پر مشتمل ہے اور اسے کھشتری کہتے ہیں۔

اگر چه بعض برہمنوں کو بھی ریاست کے اعلیٰ انتظامی عہدوں پر بٹھا دیا جاتا ہے۔ تیسرا طبقہ وہ ہے جو معاشرے میں عمومی ضروریات کی فراہمی کا ذمہ دار ہے اس کی ذمہ داریوں میں زراعت ، صنعت و حرفت اور تجارت وغیرہ ہیں یہ ذات دیتی کہلاتی ہے۔ سب سے آخر میں وہ فرقہ رہ جاتا ہے جو ان سب کی خدمت کے لیے مقرر ہے یعنی دوسروں کے عیش و آرام کی فراہمی کے لیے کل پرزے، جس کا فریضہ یہ ہے کہ انتہائی قلیل معاوضہ پر دوسروں کی خدمت کرے اس فرقے یا ذات کو شو در کہتے ہیں۔ کچی بات تو یہ ہے کہ اس حقیر ذات کی ریاست کے اندر کوئی منظم حیثیت سرے سے ہے ہی نہیں ۔ کیونکہ اس کے افراد انفرادی خدمات انجام دیتے ہیں اس لیے ان کے پیشے ان اونچی ذات والوں سے وابستہ ہیں ۔ ان ذاتوں کی واضح درجہ بندی سے متعلق موجودہ دور میں ایک ریاست کے اور مجرد مساوات کے پہلو پر غور کرتے ہوئے، ایک بڑا اعتراض اٹھایا جاتا ہے لیکن معاشرتی زندگی میں تو مساوات کبھی بھی ممکن نہیں رہی کیونکہ جنس کے حوالے سے عمر کے لحاظ سے انفرادی امتیازات سامنے آتے ہیں اور اگر تمام شہریوں کو حکومت کے اندر برابر کا حصہ دے بھی دیا جائے تو پھر عورتوں اور بچوں کو نظر انداز کر دیا جائے گا۔ غربت اور امارت کے درمیان تفریق، مہارت اور ذہانت کا فرق کسی طرح ظاہر ہوگا لہذا مساوات کا نظریہ یہاں دم توڑ جائے گا لیکن جہاں یہ اصول ہمیں مختلف پیشوں سے وابستہ رہنے کی ترغیب دیتا ہے اور ان ذاتوں کے اندر رہنے کی راہ ہموار کرتا ہے جو ان کے لیے مخصوص ہیں تو ہندوستان میں تو اس سے بہت آگے بڑھ کر ایسے حالات نظر آتے ہیں۔ ایک فرد پیدائشی طور پر اس ذات سے وابستہ کر دیا گیا ہے جو اس کے آباؤ اجداد کی تھی اور اسے تادم مرگ اس سے وابستہ رہنا ہے۔ وہ تمام تر محسوس تو انائی جو اس کے اظہار کا ذریعہ بنتی ہے۔ موت کی نیند سو جاتی ہے اور اس زندگی کو جو ابھر کر سامنے آنے والی تھی ایک زنجیر میں جکڑ دیا جاتا ہے اور آزادی کا وہ قیمتی تصور جو ان امتیازات کے قیام کے وقت طے ہوا تھا یکسر ختم ہو جاتا ہے اور جو ظالمانہ انتخاب محض پیدائش کی بنا پر تفریق پیدا کرتا ہے وہ ان کو دوبارہ آپس میں ملنے نہیں دیتا۔ چنانچہ جونسلی امتیازات زمانہ قدیم سے چلے آ رہے ہیں ان کو ایک شادی کے بندھن سے تو ڑا نہیں جا سکتا اور پھر آریاؤں کے ہاں بھی سات ذاتیں (Indica II) بتائی جاتی ہیں اور لہجہ کے دور میں تو ان کی تعداد بڑھ کر میں ہوگئی تھی جو سب رکاوٹوں کے باوجود مختلف ذاتوں کے میل ملاپ سے ابھریں۔ اس کی بنیاد کثیر الازواج طریقہ کا رواج ہے۔ مثلاً ایک برہمن کو تین دوسری ذاتوں سے تین شادیاں کرنے کا حق ہے البتہ شرط یہ ہے کہ اس نے پہلی شادی اپنی ذات برادری میں کی ہو، شروع میں تو ایسی اضافی شادیوں کی اولاد کو کسی ذات سے منسوب نہیں کیا جاتا تھا لیکن ایک بادشاہ نے ان بے ذات قسم کے بچوں کو معتبر بنانے کے لیے ایک طریقہ رائج کیا۔ جس کے باعث فنون اور صنعت کا آغاز ہوا۔ ایسے بچوں کو مخصوص ملازمتیں دی جاتی تھیں۔ ان میں ایک طبقہ جولا با بن گیا دوسرا لوہار بنا اور اسی طرح ان پیشوں کی بنیاد پرنئی درجہ بندی ہوگئی اور ان اضافی ذاتوں میں سے بھی سب سے اعلیٰ نسل کے بچے وہ شمار کیے جاتے تھے جو برہمن باپ اور کھشتری ماں سے پیدا ہوں ۔ سب سے کم تر چنڈال شمار کیے جاتے ہیں جو غلاظت اور کوڑا کرکٹ کی صفائی مجرموں کو پھانسی دینے اور عمومی انداز میں گندے کام انجام دینے پر مامور ہیں۔ اس ذات کے افرادا چھوت کہلاتے ہیں اور ان سے شدید نفرت کی جاتی ہے اور پھر ان کی آبادیاں بھی بالکل الگ تھلگ اور عام شہریوں سے دور رکھی جاتی ہیں۔ چنڈالوں کے لیے یہ بھی لازم ہے کہ جب دوسری اعلیٰ ذاتوں کے لوگ گزر رہے ہوں تو راستہ چھوڑ کر الگ کھڑے ہو جائیں اگر کوئی ایسا کرنے میں کو تاہی کرے تو برہمن کو یہ حق ہے کہ اس وقت اس کی درگت بنادے۔ اگر کوئی چنڈال کسی تالاب سے پانی لے کر استعمال کرے تو بھرشٹ ( نا پاک) ہو جاتا ہےاور اسے از سرنو پوتر کیا جاتا ہے۔ 


اس کے بعد ہم ان ذاتوں کی اضافی حیثیت پر بات کریں گے۔ ان ذاتوں کی ابتدا ایک دیو مالائی حکایت سے وابستہ ہے جس کے مطابق برہمن کی ذات برھما کے منہ سے پیدا ہوئی۔ کھشتری قوم یعنی جنگجو قوم اس کے بازوؤں سے صنعتی قوم اس کی رانوں سے اور حقیر یعنی شودر اس کے پاؤں سے پیدا ہوئی۔ بہت سے مؤرخین اس مفروضے پر یقین رکھتے ہیں کہ سب سے پہلے برہمنوں نے اپنا ایک الگ تقدس مآ ب اتحاد قائم کیا اور پھر یہ حکایت از خود ہی گھڑ کر عام کر دی۔ پروہتوں یا مہینوں پر مشتمل ایک خصوصی قوم کا تصور ہی ایک انتہائی لوسم کی چیز ہے کیونکہ ایک حقیقی خانقاہ کا تصور ہمارے نزدیک یہی ہے کہ ذات کی درجہ بندی ایک قوم کے اندر ہو نہ کہ پیدائش کی بنیاد پر۔ ہر قوم میں زندگی کے مختلف پیشوں کو اپنے اظہار کا موقع ملنا چاہیے کیونکہ ان کا رشتہ انسان کی داخلیت سے ہوتا ہے۔ ایک پیشے کو لاز ما دوسرے پیشے کے تعاون کی ضرورت ہوتی ہے اور دونوں کی شناخت بلاشبہ کسی قوم کی ایک مشتر کہ زندگی کا خاصہ ہوتی ہے۔ پنڈتوں یا پروہتوں کی ایک قوم کبھی بھی کا شتکاروں اور سپاہیوں کے وجود کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی۔ دونوں کی تقسیم خارجی انداز میں نہیں کردینی چاہیے۔ پیٹے تو اندرونی ایچ کی بنا پر وجود میں آتے ہیں۔ یہ ایک قومی زندگی کی داخلیت سے جنم لیتے ہیں نہ کہ اس کے الٹ طریق پر اور یہ کہ ان ذاتوں کی تقسیم کو یہاں فطرت کے نظام سے منسوب کیا گیا ہے۔ یہ مشرق کے مخصوص قسم کے تصور کا نتیجہ ہے۔ کیونکہ عوام کو اتنا اختیار تو ہونا چاہیے کہ وہ اپنا پیشہ خود منتخب کر سکیں ۔ اس کے برعکس کہ اپنا داخلی موضوعیت کو ابھی تک مشرق میں خود مختار کی حیثیت سے تا حال تسلیم نہیں کیا گیا اور جب یہ امتیازات خود اندر گھس کر مداخلت کرتے ہیں تو ان کا یہ عقیدہ انھیں جکڑ کر رکھ دیتا ہے کہ کسی فرد کو از خود اپنی ذات یا پیشہ اختیار کرنے کا حق حاصل نہیں اور یہ کہ یہ تقسیم فطرت کی ودیعت کردہ ہے۔ چین میں عوام خود مختار نہیں ہیں وہ قانون کے اندر اور بادشاہ کے حکم کے تحت ہیں ان میں ذات کی کوئی تمیز نہیں۔ نتیجا ایک انسانی ارادے یا خواہش کی بنیاد پر افلاطون نے اپنی کتاب ” ری پبلک“ (Republic) میں یہ رائے دی ہے کہ حکمران طبقہ کو مختلف پیشوں کو فروغ دینے کی غرض سے مختلف طبقات کی تقسیم کا انتظام کرنا چاہیے۔ اس موقعہ پر ایک اخلاقی اور روحانی طاقت ہی فیصلہ کن ہے جبکہ ہندوستان میں یہ اختیار فطرت سے منسوب کر دیا گیا ہے لیکن اگر انسان کی معروضی شکلوں میں ہی پیشوں کی بنیاد پر ان امتیازات کو قائم ہونا تھا پھر بھی فطرت کی اس تقدیر بندی کو اس ذلت آمیز تقسیم تیک تو جانا نہیں چاہیے تھا جو ہمیں ہندوستان میں نظر آتی ہے۔ قرون وسطی کے جاگیر دارانہ نظام میں بھی عوام کو مخصوص پیشوں تک محدود کر دیا جاتا تھا لیکن وہاں صورت حال ایسی تھی کہ ہر شخص کو اعلیٰ سے اعلیٰ عہدہ تک پہنچنے کے لیے استحقاق حاصل تھا اور پھر مذہبی تقاریب میں تو ہر ایک شخص کو کھلے عام داخلے کی اجازت تھی چنانچہ یوں مذہب کے ضمن میں ہر ایک کے لیے آزادی نظر آتی ہے۔ اگر ایک مستری کا بیٹا مستری ہے اور کاشتکار کا بیٹا کا شتکار اور پیشے کے آزادانہ انتخاب کے لیے وہاں کے حالات کے مطابق مواقع بہت محدود تھے پھر بھی وہاں مذہب کا عصر ان پابندیوں سے یکسر آزاد نظر آتا ہے اور مذہب ایک ایسی ڈوری ہے جو سب کو یکجا رکھے ہوئے ہے لیکن ہندوستان میں معاملہ قطعاً اس کے برعکس ہے ۔ معاشرہ کے مختلف طبقات میں ایک اور امتیازی چیز جو عیسائی ملت میں اور ہندوستانی دوسری قوموں میں نظر آتی ہے وان کا اخلاقی مرتبہ ہے جو ہمارے ہاں تقریبا ہر ایک طبقہ میں ہے اور وہ یہ مرتبہ ہے جو انسان اپنے داخلی کردار کی بیاد پر متعین کرتا ہے ۔ اس حوالے سے اعلیٰ ذات کو نچلی ذات پر کوئی تفوق حاصل نہیں اور جب مذہب ہی ایک اعلیٰ دائرہ ہے جس کے سائے میں سب یکجا ہیں تو یہاں ہر طبقہ کے لیے البتہ قانونی مساوات، ملکیت اور ذات کے حقوق خود حاصل کیے جاتے ہیں لیکن اس حقیقت کے پیش نظر کہ ہندوستان میں، جبکہ اوپر بتایا جا چکا ہے اختلافات کی وسعت محض انسان کی داخلیت تک ہی نہیں بلکہ اس کی حتمی معروضیت تک ہے۔ چنانچہ اس طرح اس کے تمام تعلقات منقطع ہو جاتے ہیں پھر نہ تو اخلاق رہتا ہے نہ ہی عمل اور نہ ہی مذہب کا کوئی شائبہ نظر آتا ہے۔

ہر ایک ذات کے خصوصی وظائف اور حقوق ہیں۔ چنانچہ فرائض و حقوق کی شناخت انسانیت کے عمومی واسطے کے ذریعے سے نہیں بلکہ ان مخصوص ذاتوں کے حوالے سے ہوتی ہے۔ جب ہم ایک ضرب المثل بولتے ہیں کہ شجاعت ایک اخلاقی صفت ہے تو اس کے برعکس ہندو یہ کہے گا کہ شجاعت کھشتریوں کی صفت ہے ۔ چنانچہ انسانیت کو عمومی انداز میں، انسانی وظائف اور انسانی احساسات کو پینے کا موقع نہیں ملتا۔ ہمیں صرف ان فرائض کا پتہ چلتا ہے جو کسی ذات کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ہر شے ان امتیازات کی بھینٹ چڑھ کر جامد ہوگئی ہے اور اس جمود کے نتیجے میں ایک طے شدہ تقدیر نظر آتی ہے۔ یہاں اخلاقیات اور انسانی عظمت کا نام و نشان نہیں ملتا اور سفلی جذبات کو کھلی چھوٹ ملی ہوتی ہے۔ انسان خوابوں کی دنیا میں بھٹکتا پھرتا ہے اور اس کا انجام بر بادی کے علاوہ کچھ نہیں۔


براہمن حقیقت میں کیا ہیں اور برہمنی عظمت کن عناصر پر مشتمل ہے اس کی صحیح آگا ہی کے لیے ہمیں ہندو مذہب اور اس کے تصورات کا جائزہ لینا ہوگا اس کے بعد میں ہم کوئی قدم آگے بڑھا سکیں گے کیونکہ ذاتوں کے متعلق ہم حقوق کی بنیاد مذہبی رشتوں کے اندر ہے۔ برہما (مخنث یعنی نہ مرد نہ عورت ) اس مذہب میں سب سے اعلیٰ ہستی ہے لیکن اس مذہب میں اس کے علاوہ بھی بہت سے عظیم اوتار ہیں۔ 

وشنا کرشنا جو ابدی انداز میں مختلف شکلوں میں نفوذ کرتے رہتے ہیں اور شیو بھی یہ ایک مربوط تثلیث ہے۔ برھم سب سے بلند مرتبہ کا حامل ہے لیکن وشنو یا کرشنا اور شیو ( سورج ) علاوہ ازیں ہوا وغیرہ بھی ان کے اوتار ہیں۔ براہ راست برہما کو کوئی نذرانے یا قربانی پیش نہیں کی جاتی کیونکہ وہ قبول نہیں ہوتی ۔ بلکہ عبادت اور نذرانے دوسرے بتوں کے حضور پیش کیے جاتے ہیں۔ برھما اپنی ذات میں سب کے اتحاد کی حقیقی علامت ہے۔ انسان کی مذہب کے اندر سب سے بلند مرتبہ تک رسائی برہما کا ادراک ہے۔ اگر کسی برہمن سے پوچھا جائے کہ برہما کیا ہے تو اس کا جواب یہ ہوگا کہ جب میں مراقبہ میں بیٹھتا ہوں اور دنیاوی تعلقات سے رشتہ تو نہیں لیتا ہوں اور آنکھیں بند کر کے اپنے آپ سے اوم کہتا ہوں تو یہ "برہم ہے۔ انسانیت سے اس قطع تعلقی میں خدا سے خیالی واسطہ کا ادراک یہاں لتا ہے اس طرح کی محویت یا بے خبری ممکن ہے کچھ امور میں بغیر کی تبدیلی کے عمل کے رہ جائے جیسے کہ اشیا کے جذبات میں انسان آنا فانا بھڑک اُٹھتا ہے لیکن ایک ہندو کے نزدیک ہر ٹھوس شے کے لیے یہ ایک منفی حیثیت رکھتا ہے اور اعلیٰ ترین کیفیت اپنے آپ کو عظمت کے اس مرتبہ تک پہنچاتا ہے جس کے ذریعے ایک ہندو اپنے آپ کو دیوتا کے مرتبہ تک پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔ برہمن محض اپنی پیدائش کے باعث اس عظمت کے حامل ہیں چنانچہ ذاتوں کے امتیاز کا تعلق ان ابدی دیوتاؤں اور فانی انسان کے درمیان امتیاز کے ساتھ ہے۔ دوسری ذاتیں بھی اس عظیم ذات میں داخل ہو سکتی ہیں اور اس کا طریقہ مکرر جنم ہے۔ لیکن اس کے لیے کڑے مراحل یعنی اپنی ذات کی نفی ایذا رسانی اور مختلف کفاروں سے گزرنا پڑتا ہے۔ زندگی اور ہر زندہ انسان سے شدید نفرت ترک دنیا کے اس عمل کا طرہ امتیاز ہے غیر برہمنوں کی ایک کثیر تعداد اس مکر رعمل کی کوشش کرتی ہے اور وہ یوگی کہلاتی ہے ایک انگریز نے دلائی لابہ سے ملاقات کی غرض سے تبت کے سفر کے دوران ایک یوگی سے ملاقات کی۔ وہ بیان کرتا ہے کہ اس یوگی کے چلہ کا یہ دوسرا مرحلہ تھا اور وہ یہ سب کچھ برہمنیت کے مرتبہ تک رسائی کے لیے کر رہا تھا۔ اس نے اپنے پہلے چلہ کا مرحلہ بارہ سال تک مسلسل ٹانگوں پر کھڑا رہ کر کیا۔ اس دوران نہ تو وہ کہیں بیٹھا اور نہ ہی لیٹا۔ سب سے پہلے تو اس نے رسے کی مدد سے اپنے آپ کو ایک درخت کے ساتھ باندھ لیا تا آنکہ اس کو کھڑے کھڑے سونے کی مشق ہوگئی ۔ دوسرے مرحلے میں اسے اپنے دونوں ہاتھ باندھ کر مسلسل بارہ سال تک انھیں سر پر رکھنا تھا۔ اب تک اس کے ناخن بڑھ کر ہتھیلیوں تک آچکے تھے۔ تیسرا مرحلہ بالعموم ایسے نہیں گزارا جاتا ہے۔ عام طور پر تیسرے مرحلے میں ایک ہوگی کو ایک پورا دن پانچ قسم کی نار (آگ) میں گزارنا پڑتا ہے یعنی چار نا دیں جو آسمان کے چاروں کونوں کی علامت ہیں اور پانچواں سورج اسے اس آگ میں تین گھنٹے اور پینتالیس منٹ تک آگے، پیچھے جھولنا پڑتا ہے۔ وہ انگریز جواس قسم کے عمل کا عینی شاہد ہے اس کا کہنا ہے کہ آدھ گھنٹے کے اندر میں یوگی کے جسم کے ہر عضو سے خون بہنے لگا۔ اسے نیچے لگا دیا گیا اور وہ فوراً گر گیا اور اگر یہ خون ریز مرحلہ بھی خیریت سے گزر جائے تو اس طالب برہمنیت کو زمین میں گڑھا کھود کر سیدھا کھڑا کر کے اوپر مٹی ڈال دی جاتی ہے پھر تین گھنٹے اور پینتالیس منٹ کے بعد اسے باہر نکال لیا جاتا ہے۔ اس کے بعد بھی اگر وہ زندہ سلامت ہے تب یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس نے ایک برہمن کی سی روحانی قوت حاصل کر لی ہے۔


چنانچہ اپنی زندگی کی نفی اس انداز سے کر کے ہی کوئی شخص برہمنیت کے درجے تک پہنچ سکتا ہے۔ اپنی زندگی کی نفی کی انتہائی کیفیت ادراک کی تاریکی کی قسم سے ہے جس میں انسان ذہنی طور پر یکسر بے حس ہو جاتا ہے یعنی اپنے تمام جذبات اور آرزوؤں کا قتل۔ یہ ایسی کیفیت ہے جو خود برہمنوں میں بھی بہت اعلیٰ مرتبہ کی حامل متصور ہوتی ہے۔ چنانچہ آپ ہندوؤں کو دوسرے امور میں کتنا ہی بزدل اور پست ہمت کیوں نہ کہیں اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا بلکہ وہ اعلیٰ روحانی مرتبہ حاصل کرنے کے لیے اپنی جان تک قربان کرنے میں ذرا بھی تامل نہیں کرتے۔ اس قسم کی حقیقت کی ایک اور مثال اپنے شوہر کی موت پر بیوی کا زندہ جل کر مر جانا ہے۔ اگر کوئی عورت اس رسم کو توڑنے کا قصد کرے تو اسے ساری عمر معاشرہ سے کٹ کر تنہائی کی زندگی گزارنا پڑتی ہے۔ ایک انگریز کا کہنا ہے کہ اس نے ایک عورت کو اپنے بچے کی موت کے باعث خود کو زندہ جلاتے ہوئے دیکھا۔ اس انگریز نے اس عورت کو اس فعل سے روکنے کی اپنی پوری کوشش کی بالآخر اس نے اس عورت کے شوہر سے بھی درخواست کی جو پاس ہی کھڑا تھا لیکن اس نے اس بات پر کوئی توجہ نہ دی کیونکہ گھر میں اس کی اور بھی بیویاں تھیں ۔ کبھی کبھی تو ہیں میں عورتوں کو اپنے آپ کو گنگا کی لہروں کے سپرد کرتے دیکھا ہے۔ ایک اور موقع پر ایک انگریز سیاح نے کوہ ہمالیہ پر تین ہندو عورتوں سے ملاقات کی جو دریائے گنگا کے منبع کی تلاش میں تھیں تا کہ وہ اس پوتر دریا میں کود کر اپنی زندگیوں کا خاتمہ کریں اوڑیسہ کے ایک مندر جگن ناتھ ایک قع ہے اور جہاں لاکھوں ہند و جمع ہوتے ہیں وشنود ہوتا کی مذہبی تہوار کے موقع پر جو خلیج بنگال کے پاس واقع ۔ ہے اور مورتی کو ایک عظیم الشان رتھ پر رکھ کر کھنچا جاتا ہے جے پانچ سو آدمی مل کر کھینچتے ہیں اور بہت سے لوگ اپنے آپ کو اس رتھ کے پہیوں کے نیچے ڈال دیتے ہیں تا کہ ان کے پر خچے اڑ جائیں ساحل کی ساری پٹی ایسے انسانوں کے اعضا سے پٹی پڑی تھی جنھوں نے رتھ کے نیچے آکر جان دی۔ معصوم بچوں کی قربانی بھی ہندوستان میں ایک بڑی عام سی چیز ہے۔ عورتیں اپنے ننھے منے بچوں کو بڑی خوشی سے گنگا کی لہروں کے سپرد کر دیتی ہیں یا پھر سورج (سورج دیوتا) کی تپتی کرنوں کے نیچے پکھل جانے کے لیے رکھ دیتی ہیں۔ انسانی زندگی کے معاملے میں اخلاقیات کا تصور ہندوؤں میں دور دور تک نہیں ملتا۔ اوپر جو کچھ بیان ہو چکا ہے اس کے علاوہ بھی ہندوؤں کے کردار کی بہت سی صورتیں ہیں جو بالآ خراپنی ذات کو ختم کرنے پر منتج ہوئی ہیں۔ ہندوؤں کے نزدیک دنیا تیاگ دینے کے لیے یہ پہلا اصول ہے ۔


یہ نام اس فعل کو یونانیوں نے دیا تھا۔ نگے فقیر کوئی کام کرنے کے بجائے ادھر ادھر گھومتے پھرتے رہتے ہیں بالکل کیتھولک چرچ کے درویش پادریوں کی مانند جو دوسروں کی جرات پر زندگی گزارتے ہیں اور ان کا ہدف استغراق کی انتہائی حدود کو چھو لیتا ہوتا ہے جو شعور کی مکمل موت کی ایک شکل ہے اور جہاں سے حقیقی موت چند قدم سے زیادہ دور نہیں ہوتی ۔ عظمت کا یہ درجہ جو دوسروں کو بڑی جان لیوا مشقت کے بعد حاصل ہوتا ہے جبکہ پہلے بتایا جا چکا ہے برہمنوں کا پیدائشی حق ہے لہذا دوسری یعنی برہمنوں سے نچلی ذاتوں کے ہندوؤں کے لیے لازم ہے کہ وہ برہمنوں کی تکریم کریں ان کے سامنے بچھ جائیں اور یہ کہیں کہ مہاراج آپ دیوتا ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس عظمت کا ان کے اخلاقی کردار سے کوئی تعلق نہیں ہوتا بلکہ جہاں تک داخلی اخلاق کا تعلق ہے وہ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے اور اس کا انحصار محض خارجی اعمال اور زندگی کے متعلق حقیر اور سرسری نظریات کے ملغوبے پر ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انسان کو خدا کی مسلسل عبادت کا نمونہ ہونا چاہیے۔ اب ظاہر ہے کہ جب ہم ان ٹھوس شکلوں پر غور کریں جو وہ اختیار کرتے ہیں تو ان کے حکیمانہ نظریات کسی قدر کھو کھلے او ربے وزن نظر آئیں گے۔ اگر اس سے کچھ مفہوم اخذ کرنا ہے تو پھر ان نظریات کو نیا لباس پہنانا ہوگا۔ برہمن اس دور کا دیوتا ہے لیکن فطرت کے خلاف اس کی روحانیت تا حال اپنا کوئی رنگ یا تاثر پیش نہیں کر سکی ۔ چنانچہ جو کچھ بھی لا تعلق ہے ان کے نزدیک وہی سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ اصولاً برہمنوں کے فرائض دیدوں کی تلاوت ہے اور یہ حق صرف انہی کو حاصل ہے اگر کوئی شود رودید پڑھ لے یا کسی کو دید پڑھتے ہوئے سن لے اس کو سخت ترین سزا کا سامنا کرنا ہوگا اور اس کے کانوں میں ابلتا ہوا تیل ڈال دیا جائے اور گا۔ برہمنوں پر جو خارجی روایات کی پابندیاں ہیں وہ لاتعداد ہیں اور منوسمرتی کے عائد کردہ قوانین کے مطابق یہ سب ان کے فرائض کا اہم حصہ ہیں۔ مثلاً براہمن جب اُٹھ کر کھڑے ہوں تو ایک مخصوص پاؤں 

کا سہارا لیں ۔ ان کو دریا میں نہانا ہوگا ۔ ان کے بال اور ناخن بڑی صاف ستھری قوس کی شکل میں تراشے ہوئے ہونے چاہئیں۔ ان کا تمام جسم پاکیزہ ہو اور سفید لباس پہنیں۔ ان کے ہاتھ میں ایک مخصوص ساخت کا عصا ہونا چاہیے۔ ان کے کانوں میں سونے کی بالیاں ہوں اگر کوئی برہمن کسی نچلی ذات کے شخص سے مل لے تو اسے واپس آ کر اپنے آپ کو پوتر کرنا ہوگا۔ اسے ویدوں کی تلاوت مختلف انداز سے کرنی ہوگی ۔ ایک ایک لفظ الگ الگ کر کے یا پھر انھیں باری باری دوہرا کر یا آگے پیچھے کر کے۔ ایک برہمن کو سورج کے طلوع و غروب کے وقت نہیں دیکھنا چاہیے یا پھر جب سورج بادلوں سے ڈھکا ہوا ہو یا اس کا عکس پانی میں پڑا رہا ہو اسے ایسے رسے سے پھلا تک کر گزرنا منع ہے جس کے ساتھ گائے کا بچہ بندھا ہوا ہو۔ یا پھر جب بارش ہو رہی ہو تو اسے باہر نہیں نکلنا چاہیے۔ جب اس کی بنا بیوی کھانا کھا رہی ہو یا چھینک رہی ہو یا جمائی لے رہی ہو یا خاموشی سے بیٹھی ہو تو اسے اس کی جانب نہیں دیکھنا چاہیے۔ دو پہر کا کھانا کھاتے وقت اس کے بدن پر صرف ایک کپڑا ہونا چاہیے ۔ جب وہ غسل کرے تو کبھی بھی مکمل بے لباس نہ ہو۔ یہ پابندیاں یا ہدایات کی قدر نزاکت کی حامل ہیں اس کا اندازہ برہمنوں پر لگنے والی ان پابندیوں سے لگایا جا سکتا ہے جب وہ رفع حاجت کے لیے باہر نکلیں مثلاً یہ عمل وہ کسی چوراہے پر کسی راکھ کے ڈھیر پر کسی ہل چلائی ہوئی زمین پر کسی پہاڑی پر ، دیمیک کے گھر دندوں پر جلانے کے لیےاستعمال ہنے والی لکڑی پر کس کھائی میں چلتے پھرتے یا کھڑے ہو کر کسی دریا کے کنارے وغیرہ پر، انجام نہیں دے سکتے۔ رفع حاجت کے وقت انھیں پانی کی طرف، سورج کی طرف یا کسی جانور کی طرف دیکھنا نہیں چاہیے۔ دن کے وقت ان کا رخ شمال کی جانب اور رات کے وقت جنوب کی طرف ہو اور صرف سایہ کے نیچے انھیں رخصت ہے یہ جدھر چاہیں چہرہ گھمالیں ۔ ہر اس شخص کے لیے جو طویل العمری کا آرزومند ہولازم ہے کہ وہ ٹھیکریوں پر بنولوں پر راکھ پر ہکی کے چھلکوں پر یا اپنے پیشاب پر قدم نہ رکھے ۔ مہا بھارت کی نظموں میں سے نالا کے باب میں ایک کہانی ایک کنواری لڑکی سے متعلق ہے کہ وہ اکیس سال کی عمر میں ، یعنی اس عمر جس میں کنواری لڑکیاں اپنے شوہر کا انتخاب کرتی ہیں یا اپنے عشاق میں سے کسی ایک کا انتخاب کرتی ہیں ان کی تعداد پانچ ہے۔ لیکن دلہن نے یہ اعتراض کرتے ہوئے کہ ان میں سے چار اپنے پاؤں پر سیدھی طرح کھڑے نہیں ہو سکتے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ وہ سب دیوتا ہیں۔ لہذا وہ پانچویں کا انتخاب کر لیتی ہے جو ایک صحت مند جوان ہے لیکن ان چار مسترد شدہ دیوتاؤں کے علاوہ وہاں دو بد خواہ بھی موجود ہیں جنھیں اس لہن کا انتخاب پسند نہیں آتا اور اس وجہ سے وہ بدلہ لینے کی ٹھان لیتے ہیں۔ اب وہ منتخب شوہر کی ہر حرکت، ہر قدم اور ہر عمل کی نگرانی کرتے ہیں کہ اگر وہ کسی خفیف سی لغزش کا بھی مرتکب ہو جائے تو اسے زخمی کر دیں لیکن دوسری جانب وہ ہونے والا شوہر اگر اپنے دفاع کے لیے کوئی اقدام نہیں کرتا یہاں تک کہ وہ اس درجہ لا پروا ہو جاتا ہے کہ اپنے پیشاب پر بھی قدم رکھ دیتا ہے تو اس دشمن کا پلہ بھاری ہو جاتا ہے اور وہ اس پر عذاب کی شکل میں نازل ہو جاتا ہے اور اس غریب کو اٹھا کر کسی کھڈ میں پھینک دیتا ہے۔ ایک طرف جب کہ برہمنوں پر اتنی سخت پابندیاں اور قوانین کا نفاذ ہے تو دوسری جانب وہ اپنی زندگی میں انتہائی معتبر اور معزز ہونے کا شرف رکھتے ہیں۔ کسی بھی قسم کے جرم پر ان سے کوئی مواخذہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس طرح ان کی جائیداد بھی قطعا محفوظ تصور کی جاتی ہے۔ کوئی حکمران ایک برہمن کو جو سخت سے سخت سزا دے سکتا ہے وہ شہر بدر کرنے کی سزا ہے۔ انگریز لوگ ہندوستان کے اندر عدلیہ کے نظام میں ایک گروہ منصفین (Jury) کے طریقے کو رائج کرنا چاہتے تھے۔ اس میں نصف تعداد انگریزوں کی اور نصف ہندوستانیوں کی تھی۔ یہ رائے مقامی لوگوں تک پہنچائی گئی کہ نفاذ سے پہلے ان کی رائے بھی لے لی جائے ۔ ہندوؤں نے اس میں بہت سی ترمیمات کا مطالبہ کر دیا۔ من جملہ دیگر ان کا موقف یہ تھا کہ وہ اس بات کے حق میں نہیں کہ ایک برہمن کو موت کی سزادی جائے۔ اب دوسری باتوں کا کیا مذکور متاثر کی لاش کو دیکھنا یا اسکا معائنہ کرانا ہرگز نہیں ہو سکتا۔ اگر چہ ایک جنگجو آدمی کے معاملے میں سود کی شرح تین فی صد ہو سکتی ہے اور دیش کے لیے چارنی صد لیکن برہمن کو دو فی صد سے زیادہ ادائیگی پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ برہمن کے پاس اتنی شکتی ( قوت ) ہے کہ جو بھی حکمران اس پر یا اس کے اثاثوں پر ہاتھ ڈالے وہ اس پر بجلی گرا کر راکھ کر سکتا ہے۔ ایک حقیر سے حقیر براہمن بھی اتنا عظیم ہے کہ وہ بادشاہ سے گفتگو کرنے پر بھی بھرشٹ (ناپاک) ہو سکتا ہے۔ اگر کوئی شہزادہ کسی برہمن کی بیٹی کو شادی کے لیے منتخب کرے تو یہ برہمن کی توہین کے مترادف ہوگا۔ منو کے ضابطہ میں تحریر ہے : " اگر کوئی شخص براہمن کو اس کے فرائض سے آگاہ کرنے کے لیے سوچتا ہے تو بادشاہ کا فرض ہے کہ وہ ایسے استاد کے منہ اور کانوں میں ابلتا ہوا تیل ڈال دینے کا حکم دے۔ اگر کوئی ایک جنم والا د جنم والے کو برا بھلا کہے تو دس انچ لمبی لوہے کی سلاخ گرم کر کے اس کے منہ میں ٹھونس دی جائے ۔ دوسری جانب اگر کسی شودر سے کسی برہمن کی نشست پر بیٹھنے کا جرم سرزد ہو جائے تو ایسی ہی لوہے کی سلاخ گرم کر کے اس کی پیٹھ میں گھونپ دی جائے اور اگر وہ کسی برہمن کو دھکا دینے کا جرم کر بیٹھے تو اسکا ہاتھ یا پاؤں کاٹ دیا جائے نیز یہ کہ اگر کسی عدالت میں جھوٹی گواہی سے گہری ہو سکتی ہو تو ایسا جھوٹ بولنا اور جھوٹی گواہی دینا جائز ہے۔

جہاں برہمنوں کو دوسری نچلی ذاتوں پر بہت سے فوائد حاصل ہیں۔ اسی طرح درجہ بدرجہ دوسری ذاتوں کو بھی اپنی نچلی ذاتوں پر کچھ ایسی ہی نوعیت کی سبقت حاصل ہے۔ مثلاً اگر کوئی نچلی ذات سے شخص سے کوئی اچھوت چھو جائے اور اسے نا پاک کر دے تو اس شخص کو حق حاصل ہے کہ اسے زمین پر پیج دے۔ ایک اعلیٰ ذات کے نزدیک ایک نچلی ذات سے تعلقات کے حوالے سے انسانیت کا کوئی دخل نہیں ۔ کوئی بھی برہمن کسی مصیبت زدہ نچلی ذات کے آدمی کی مدد کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ دوسری ذاتوں کے لوگ اس بات کو بڑا اعزاز خیال کرتے ہیں کہ اگر کوئی برہمن ان کی بیٹی کو بیوی بنالے البتہ یہ کام وہ اس وقت کر سکتا ہے جب اس نے پہلے اپنی ذات کی ایک لڑکی سے شادی کی ہوئی ہو۔ پھر برہمن کو کئی کئی بیویاں رکھنے کی آزادی ہے پھر جب ان کا دل چاہے انھیں چھوڑ بھی سکتے ہیں۔ اگر ایک برہمن یا کسی اور ذات کا کوئی رکن مندرجہ بالا ضابطوں اور روایات کی خلاف ورزی کرتا ہے تو وہ خود بخود اس ذات سے خارج تصور کیا جاتا ہے اور اسے واپس آنے کے لیے اپنی پیٹھ میں ایک آنکڑ اٹھونک کر اس کے ذریعے آگے پیچھے جھولنا پڑتا ہے اور یہ عمل کئی بار کرنا پڑتا ہے اس کے علاوہ اپنی ذات میں واپسی کے لیے اور بھی طریقے ہیں۔ ایک ربعہ جسے کسی انگریز نے زخمی کر دیا تھا اس نے دو برہمنوں کو انگلستان بھیجا کہ اس انگریز کے خلاف نالش کریں دوسری جانب ہندوؤں کے نزدیک سمندر کا سفر ممنوع ہے اور ان دونوں سفیروں کو واپسی پر اپنی ذات سے خارج کر دیا گیا اور اپنی ذات میں واپسی کے لیے انھیں ایک سنہری گائے کے پیٹ سے جنم لینا ضروری تھا البتہ اس سزا میں اس قدر تخفیف کی گئی کہ گائے بناتے وقت ساری گائے لکڑی کی بنائی گئی اور وہ حصہ جس میں سے ان مجرموں کو گائے کے پیٹ سے ریٹنگ کر باہر نکلنا تھا سونے کا بنا دیا گیا۔ یہ مختلف قسم کے رسوم ورواج اور ان پرسختی سے عمل انگریزوں کے لیے بڑی جھنجھلاہٹ پیدا کرتا تھا۔ خاص طور پر سپاہی کی بھرتی کے وقت۔ پہلے پہل تو انھیں صرف شودروں سے بھرتی کیا گیا جو اس قسم کی زیادہ رسموں کے پابند نہیں تھے لیکن اس سے کام نہ چل سکا پھر وہ کھشتریوں کی طرف راغب ہوئے لیکن ان کو بہت سے مذہبی قواعد کی پابندی کر نالازم تھی مثلا یہ کہ وہ گوشت نہیں کھا سکتے کسی مردہ جسم کو ہاتھ نہیں لگا سکتے۔ کسی ایسے تالاب سے پانی نہیں پی سکتے جہاں سے کسی جانور یا کسی انگریز نے پانی پیا ہو دوسروں کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا نہیں کھا سکتے وغیرہ وغیرہ۔


ہر ہندو کو ایک پیشے کا لازمی پابند ہونا پڑتا ہے اور اس کو جاری رکھنا ہوتا ہے تا کہ نوکروں کی تعداد پر کوئی حد باقی نہ رہے مثلاً ایک لیفٹیننٹ کے لیے تھیں اور میجر کے لیے ساٹھ کی حد ۔ غرض ہر ذات کے لیے اپنے اپنے فرائض اور وظائف ہیں۔ جتنی نیچی ذات ہوگی اتنی ہی اس پر پابندیاں کم ہوں گی۔ ہر فرد کی حیثیت اس کی پیدائش کے دن سے متعین ہے۔ اس طے شدہ نظام سے ہٹ کر ہر عمل سے سختی سے نپٹا جاتا ہے۔ منٹو کے ضابطوں کے مطابق جتنی چھوٹی ذات ہو گی اتنی ہی سزائیں سخت ہوں گی اور دوسری باتوں میں بھی امتیازات ہوں گے اگر کسی بڑی ذات کا فرد کسی چھوٹی ذات کے فرد کے خلاف کوئی الزام بغیر ثبوت لگاتا ہے تو اول الذکر کے لیے کوئی سزا نہیں اور اگر صورت حال اس کے برعکس ہو تو بردی سخت سزا ملے گی۔ چوری کی وارداتیں خال خال ہیں اس ضمن میں جتنی اونچی ذات ہو گی اتنا ہی بھاری جرمانہ ہوگا۔


جائیداد اور اثاثوں کے معاملے میں برہمن کے لیے بڑی رعایتیں ہیں کیونکہ ان پر کوئی ٹیکس یا محصول عائد نہیں کیا جاسکتا ۔ شہزادوں کو حق ہے کہ دوسروں کی زمینی پیداوار کا نصف حکومت کے حق میں لے لیے بقیہ نصف کا شتکاری کے اخراجات برداشت کرنے اور کاشتکار کے خاندان کا پیٹ پالنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔


یہ ایک بہت ہی اہم سوال ہے کہ آیا زرعی زمین جو ہندوستان میں ہے، کاشتکار کی ملکیت ہے یا اس نام نہاد جا گیر دار کی۔ انگریزوں کو بھی اس مخصوص مسئلہ کے طے کرنے میں بڑی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ کیونکہ جب انھوں نے بنگال فتح کیا تو ان کے لیے یہ بات لازمی تھی کہ اس طریقے کا تعین کریں جس کے ماتحت جائیداد پر ٹیکس لگایا جائے۔ لہٰذا انھیں یہ فیصلہ کرنا تھا کہ یہ سیکس کا شکار پر لگے گایا زمین کے مالک پر۔ پھر ٹیکس مالک پر لگا دیا گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مالکوں نے بہت سے کاشتکاروں سے زمینیں خالی کرا کر اعلان کر دیا کہ زمینیں بنجر پڑی ہیں ان پر ٹیکس عائد نہیں کیا جا سکتا اور میکس میں چھوٹ حاصل کر لی۔ پھر انھوں نے ان ہی کا شتکاروں کو روزانہ کی مزدوری پر بہت سستے داموں ملازم 

رکھ لیا۔ خود کا شتکاری کروانے لگے۔ ایک دیہات کی ساری کی ساری آمدنی جب کہ اوپر بیان ہو چکا ہے دو حصوں میں تقسیم کی جاتی ہے اس میں ایک حصہ راجہ کو ملتا ہے اور دوسرا کا شتکاروں کو لیکن اس میں سے مناسب حصہ مندر کے پر دھت، منصف، پٹواری، برہمن جو مذہبی تقاریب کی نگرانی کرتا ہے اور کی نجوی ( جو سعد اور نحس دونوں کی پیش گوئی یا بدشگونی کرتا ہے ، لوہار، بڑھتی، کمہار، کہا، حجام، طبیب، رقاصاؤں ، موسیقار اور شاعر کو ملتا ہے ۔ یہ ضابطے طے شدہ اور نا قابل تغیر ہیں اور کسی کی مرض کے تابع نہیں ہیں چنانچہ ایک ہندو کے لیے کسی سیاسی انقلاب کا تصور کوئی معنی نہیں رکھتا کیونکہ اسے تو تقدیر کا لکھا ہر حال میں بھگتنا پڑتا ہے۔

ذاتوں کی اور بیچ بیچ کے نظریے کا براہ راست تعلق مذہب سے ہے۔ کیونکہ جیسا کہ پہلے بتا یا جا چکا ہے کہ ذاتوں کے سارے دعوے لادینی نوعیت کے ہیں لیکن انھیں لاز ماند ہی نام دیا گیا ہے اور اس سارے کھیل میں برہمن کی حیثیت اپنی پوری آن بان کے ساتھ ایک دیوتا کی سی ہے۔ منو کے شاستر میں لکھا ہے کہ : ” انتہائی شدید ضرورت کے تحت بھی بادشاہ کوکسی برہمن کو برانگیختہ کرنے سے بچنا چاہیے کیونکہ وہ اپنی روحانی قوت سے اس کو تباہ کر سکتے ہیں ۔ وہ جو آگ سورج اور چاند کو پیدا کرتے ہیں ۔ وہ نہ تو خدا کے اور نہ ہی اپنی قوم کے ماتحت ہیں بلکہ دوسری تمام ذاتوں کے لیے خود دیوتا ہیں۔ یہ ایک ایسی صورت حال ہے جو ہندو کی درہم برہم ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے۔ فطرت اور انسان کا خوابیدہ اتحاد جس کے اندر تمام مظاہر اور معاملات میں ایک مہیب وحشی پین جھلکتا نظر آ لتا نظر آتا ہے۔ ہم ہندو ذہنیت کے نچوڑ کی حیثیت واضح کر چکے ہیں ہندو کی دیو مالائی روایات تخیل سے سے ایک انتہائی نا شائستہ انداز میں انحراف کی شکل میں جس میں کوئی بھی شے ڈھنگ سے مرتب شدہ نظر نہیں آتی۔ جو بھی ہے وہ ہمیں ایک رزیل ترین سطح سے فورا اعلیٰ سطح تک لے جا کر انتہائی اعلیٰ وارفع مقام سے انتہائی سفلی اور ذلت آمیز گہرائی میں پھینک دیتی ہے۔ چنانچہ اس چیز کا انکشاف بھی بہت مشکل ہے کہ ہندو براہم (Brahm) سے کیا مراد لیتے ہیں۔ ہم تو اسے اپنی سوچ کے مطابق بالاترین آسمانی ہستی کہہ سکتے ہیں جو یکتا ہے ۔ جس نے زمین اور آسمان کو تخلیق کیا ۔ ہندوستانی اس کا اطلاق براہم پر کرتے ہیں ۔ دراصل برھم واضح طور پر برا ہم سے الگ ایک تخیل ہے۔ اول الذکر کا ایک وجود ہے جو وشنوا اور شیو سے بہت مختلف ہے چنانچہ اکثر ہند اس کو بالاترین ہستی سمجھتے ہیں جو مذکورہ بالا دیوتا کے اوپر ہے یعنی جو برہما کی مثل ہے۔ انگریزوں نے اس سمجھ میں بہت عرق ریزی کی ہے کہ براہم کی حقیقت تک پہنچیں ۔ ولفورڈ کا کہنا ہے کہ ہندوؤں کے عقیدے کے مطابق فردوس دو ہیں۔ ایک زمینی جنت اور دوسری روحانی سوچ ۔ ان تک رسائی کے حصول کی خاطر دو مختلف قسم کی عبارات اختیار کی جاتی ہیں ایک میں خارجی قسم کی تقریبات ہیں یعنی بتوں کی پوجا۔ دوسری عبادت میں یہ تصور ہے کہ اس بالاترین قوت کو روحانی انداز میں اعزاز دینا چاہیے۔ چنانچہ اس قسم کی عبادت میں کسی کی قربانی، نذرانے یا یاترا کا کوئی تصور نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ہندوؤں میں شاید ہی کوئی دوسرے انداز کو اختیار کرتا ہو کیونکہ وہ ابھی تک یہ نہیں سمجھ سکے کہ دوسرے طریقے پر اس ہستی کو کیونکر خوش کیا جا سکتا ہے اور اگر کوئی شخص کسی ہندو سے یہ سوال کرے کہ کیا تم بتوں کو پوجتے ہو تو اس کا جواب ہاں میں ہوگا ۔ لیکن اگر اس سے یہ سوال کیا جائے کہ کیا تم کسی بالا ترین ہستی کی عبادت کرتے ہو تو وہ انکار کر دے گا اور اگر اس سے مزید یہ سوال کیا جائے : ” تمھارے اس عمل کا مطلب کیا ہے؟ محض ساکن مراقبہ جس کا ذکر تمھارے کچھ سیانے کرتے ہیں تو اس کا جواب یہ ہوتا ہے: ” جب میں کسی دیوتا کی پوجا کرتا ہوں تو زمین پر بیٹھ کر ایک پاؤں دوسری ران پر رکھ لیتا ہوں پھر آسمان کی طرف منہ اُٹھاتا ہوں اور ہاتھ باندھ کر خاموشی سے اپنے تصورات کو بلند کرتا جاتا ہوں اور پھر میں کہتا ہوں کہ میں براہم ہوں ۔ آسمانی قوت۔


ہم اپنے آپ کو براہم کہنے کے مفہوم سے آگاہ نہیں ۔ مایا کی وجہ سے (یعنی جو خارجی دنیا نے دھوکے کی شکل پیدا کی ہے ہمارے ہاں اس کی براہ راست عبادت منع ہے اور اس کی فطرت میں اس کے ہاں کوئی نذرانہ بھی پیش نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ ایسا کرنے سے خود اپنی ذات کی عبادت مراد ہوگی ۔ ہر کیفیت میں دراصل یہ براہم کا تصور یا ظہور ہے جسے ہم مخاطب کرتے ہیں ۔ ان خیالات کو اپنے تصور میں ڈھالتے ہوئے ہم یوں کہیں گے کہ براہم تصور کی ایک پاکیزہ شکل ہے یعنی خداوند اپنی ذات میں بغیر کسی الجھن کے ۔ اس کے لیے کسی مندر کو پوتر نہیں کیا جاتا اور اسے کسی عبادت کی ضرورت نہیں۔ اسی طرح کیتھولک مذہب میں گرجا گھر خدا کے نام سے منسوب نہیں ہوتے بلکہ کچھ درویشوں کے نام سے ہوتے ہیں۔ کچھ دوسرے انگریزوں کے خیال کے مطابق جنھوں نے محض براہم کے مفہوم پر تحقیق کے لیے اپنے آپ کو وقف کر رکھا ہے۔ براہم ایک بے معنی وصف ہے جس کا تمام دیوتاؤں پر اطلاق ہوتا ہے چنانچہ وشنو کہتا ہے " میں براہم ہوں اور سورج، ہوا اور سمند ر سب براہم کہلاتے ہیں۔ چنانچہ برا ہم اس رونے کی بنیاد پر ایک مادے کی وہ سادہ ی کیفیت یا شکل ہے جواپی فطری صلاحیت کی بنیاد پر اپنی ذات کو قدرت کے لامحدود مظاہر کی شکل میں ڈھال لیتی ہے کیونکہ یہ استغراق یہ خالص یکتائی وہ ہے جو ہر شے کی بنیاد میں داخل ہے جو ابدی زندگی کی جڑ ہے اس یکجائی کے تدبر میں تمام معروضیت معدوم ہو جاتی ہے کیونکہ خالص تصور عظیم ترین خلا میں خود بخود تدبر کرتا ہے۔ اسے حاصل کرنے کے لیے اصل موت پہلے مرنا پڑتا ہے۔ اس استغراق تک پہنچنے کے لیے تمام اخلاقی سرگرمیوں، عزم اور ارادوں سے علیحدگی اختیار کرنا پڑتی ہے۔ نیز فہم و تدبر سے بھی ہاتھ دھونا پڑتا ہے جیسے کہ فو“ کے مذہب میں ہے اور یہ کفارہ کی وہ شکل ہے جس کا ذکر ہم اوپر کر چکے ہیں۔


اس منفی تصور کی مکمل تفہیم کے لیے ہمیں براہم کا ٹھوس انداز میں گہرے تدبر سے جائزہ لینا ہوگا کیونکہ ہندو مذہب کا اصول محض گونا گونی کیفیت کا انتشار ہے چنانچہ یہ تصورات حقیقی وحدت سے خارج ہو جاتے ہیں اور جو کوئی بھی اس سے انحراف کرتا ہے وہ ایسی چیز بن جاتا ہے جو صرف دانش کی دنیا میں پائی جاتی ہے یعنی دانشورانہ تصورات کی ایک بے سوچی بھی شکل۔ اس طرح سے مادی اشیا کا ٹھوس تارو پودر روح سے دور جا پڑتا ہے اور ایک وحشیانہ پراگندہ خیالی میں گم ہو جاتا ہے، سوائے اس کے جو براہم کی خالص مثالیت میں جذب ہو جائے۔ باقی سب دیوی دیوتا محض سوچ کی حد تک ہیں۔ پہاڑ ، ندیاں، مویشی ، سورج، چاند اور گنگا اور اسی طرح سب اس سے اگلا مرحلہ اس وحشیانہ پراگندہ خیالی کے حقیقی امتیازات میں اجتماعیت ہے اور ملکوتی ہستیوں کی حیثیت سے ان کا ادراک ہے چنانچہ وشنو ، شیو اور مہادیو بر ہما سب الگ ہو جاتے ہیں۔ وشنو کی شکل میں وہ اوتار ہیں جن میں خود خدا انسان کے روپ میں ظاہر ہوا ہو اور وہ ہمیشہ تاریخی ہستیاں رہی ہیں جنھوں نے انقلاب برپا کیے اور نئے دور کی راہیں دکھائیں۔ اسی طرح تخلیق کی قوت ایک حقیقی عملی شکل ہے اور معبدوں کے غاروں میں، گھاٹیوں میں، پگوڈوں میں لنگ کو ہمیشہ مرد کی علامت اور گل کنول کو عورت کی علامت کے طور پر شہرت دی گئی ہے۔


اس ثنویت کے ہوتے ہوئے عقل و شعور کے میدان میں ایک جانب مجرد یگانگت یا وحدانیت اور دوسری جانب مجرد علیحدگی خدا کے ساتھ انسانی موضوعیت کے تعلق کے حوالے سے یقینا عبادت کی دوہری شکل کے مترادف ہے۔ عبادت کی معنویت کا ایک پہلو تو خالص عظمت کی نفی کرتا ہے


یعنی حقیقی خود آگاہی کی تنسیخ کرتا ہے جس میں بالا خرفرسودہ کم علمی کی منفی سوچ ظاہر ہو کر رہتی ہے اور دوسری جانب خودکشی ہے اور خود کو اذیتیں دے کر اس تمام تر متاع کا ضیاع ہے جسے زندگی طلب کرتی ہے۔ دوسری جانب عبادت کی ایک اور انتہا ہے۔ وحشیانہ پریشانی اور اضطراب کی شکل میں ۔ یعنی جب شعور و ادراک سے انفرادیت کا تمام تر احساس غائب ہو جاتا ہے اور محض فطری چیزوں میں استغراق باقی رہ جاتا ہے جس کے ساتھ انفرادیت اپنا تشخص قائم کر لیتی ہے اس طرح فطرت سے اپنے امتیاز کے شعر کوتباہ کر دیتی ہے۔ لہٰذا تمام مندروں میں طوائفوں اور رقاصاؤں کو رکھا جاتا ہے جن کو برہمن رقص کی دلکش انداز اپنائے اور دار با ادائیں دکھانے کی بڑے اہتمام سے تعلیم دیتے ہیں تا کہ وہ ملے شدہ رقم کے عوض آنے والوں کی خواہشات کو پورا کر سکیں ۔ اب یہاں اخلاقیات کے تمام تر دعوے اور اصول اور مذہب کا اخلاق سے کوئی تعلق ۔ یہ سب چیزیں باقی نہیں رہتیں۔ ایک طرف تو محبت، جنت غرض کہ ہر روحانی چیز ہندو کے قیاس کے گمان کے مطابق تصور کی جاتی ہے تو دوسری جانب اس کے تصورات حقیقی حساسیت کا مجسمہ ہیں اور وہ اپنے آپ کو محض فطرت کے بل پر عیاشیانہ مد ہوش میں فرق کر لیتی ہے چنانچہ نہ ہی عبادت کے مقاصد یا تو فنون کی پیش کردہ مایوس کن شکل میں یا وہ ہیں جو فطرت پیش کرتی ہے ہر پرندہ ہر بندر ایک حاضر دیوتا ہے۔ میں حقیقی آفاقی حیات کی شکل میں کوئی ہندو اپنے ذہن میں کسی مقصد کو اس کی حقیقی شائستہ خصوصیت کی بنا پر وابستہ رکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا


کیونکہ اس کے لیے سوچ بچار در کا رہے جبکہ ایک غلط انداز میں آفاقی جو ہر کی منتقلی حساس موضوعیت میں


کر دی گئی تو پھر مؤخر الذکر بھی اپنے حقیقی خدوخال سے نکل کر آفاقیت میں داخل ہو جاتا ہے اور یہ ایک


ایسا عمل ہے کہ اس سے اس کی بنیاد اکھڑ جاتی ہے اور وہ ابدیت تک وسعت پا جاتا ہے۔ اگر ہم کسی سے یہ سوال کریں کہ ہندوؤں کا مذہب کہاں تک ان کے اخلاق کی ترجمانی کرتا ہے تو جواب یہ ملے گا کہ ایک ہندو اپنے مذہب سے اسی طرح الگ اور بیگانہ ہے جیسے برا ہم اس مجرد حیات سے جس کا وہ جو ہر ہے۔ ہمارے نزدیک مذہب وجود کے اور اک کا نام ہے اور وہ وجود لازماً ہماری اپنی ذات ہے اور اس لحاظ سے ہمارے علم اور ارادے کا سرمایہ ہے جس کا اصل مقام اس بنیادی وجود کا مکس بنتا ہے لیکن اس کے لیے اس وجود کو ایک شخص درکار ہے جو آسمانی مقاصد کے حصول کے لیے سرگرداں ہے ۔ ایسے مقاصد جو انسانی آرزوؤں کی تحصیل کر سکیں اس قسم کا کوئی تصور جس میں محض


۱۷۸


خدا کو ہی انسانی اعمال اور آفاقی بنیاد کے طور پر ایک حقیقی وجود تسلیم کیا جائے اس طرح کی کوئی اخلاقی قدر ہندوؤں میں نہیں ہے۔ کیونکہ ان کے ادراک کے اندر روحانیت کا وہ مادہ ہی نہیں ہے۔ ایک طرف تو وہ نیکی اس میں سمجھتے ہیں کہ ہر عمل سے ہاتھ اُٹھا لیے جائیں۔ ایسی کیفیت جسے براہم کہتے ہیں دوسری جانب ان کا ہر عمل خارجی امور سے آلودہ ہے جوان کی داخلی شخصیت کی عکاسی کرتا ہے۔ چنانچہ جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے ہندوؤں کی اخلاقی حالت انتہائی زبوں حالی کا شکار ہے اور اس رائے سے تمام انگریز متفق ہیں۔ ہندوؤں کے اخلاق کے سلسلے میں ہمارے اخذ کردہ نتائج پر ان کی نرم گفتاری ، نرم روی اور ان کے خوبصورت اور جذباتی تصورات کے اظہار کا مصنوعی غلاف تو چڑھایا جا سکتا ہے لیکن ہمیں اس بات پر بھی غور کرنا چاہیے کہ انتہائی بدکردار قوموں کے رویوں میں بھی کئی ایسے پہلو ہوتے ہیں جنھیں شریفانہ اور شائستہ کہا جاتا ہے۔ ہمیں ایسی نظمیں چینی زبان میں پڑھنے کو ملتی ہیں جن میں محبت و الفت کے نازک ترین جذبات ابھرتے ہیں جن میں گہرے احساسات، عاجزی، انکساری کی بہترین تصویر کشی کی گئی ہے۔ ایسی نظموں کو یورپ کے بہترین ادب کے مقابلہ میں پیش کیا جا سکتا ہے اس طرح کے خدو خال ہمیں ہندوؤں کی نظموں میں بھی ملتے ہیں لیکن راست بازی، اخلاق ، روح کی آزادی اور انفرادی حقوق کا ادراک دوسری چیز ہے جسمانی تعذیب اور روحانی قتل میں کوئی جاذبیت نہیں اور نہ ہی ان میں آفاقیت میں سمو جانے کی صلاحیت ہے دھوکہ بازی اور مکاری ہندوؤں کے کردار کے بڑے اجزا ہیں۔ فریب دینا، چوری کرنا، ڈاکہ زنی اور قتل و غارت ان کے ہاں معمول کی چیزیں ہیں۔ ایک طاقتور اور فاتح کے پاؤں پڑنا اور خوشامد کرنا اس کے برعکس مفتوح اور ماتحت پر جبر و تشدد اس کی سرشت میں شامل ہے۔ ہندو کی انسان دوستی کے رویے کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہو گا کہ وہ خونخوار جانوروں کو قتل نہیں کرتے بلکہ ان کے لیے اچھے سے اچھے شفا خانے تعمیر کرتے ہیں خاص طور پر بوڑھی گایوں اور بندروں کے لیے لیکن پورے ملک میں آپ کو بوڑھے ، ضعیف بیمار اور ناتواں انسانوں کے لیے ایک بھی ادارہ نہیں ملے گا۔ ایک ہندو چیونٹیوں پر پاؤں نہیں رکھے گا۔ لیکن جب کوئی غریب مسافر بھوک سے مر رہا ہوتا ہے تو ان کی ساری انسانیت خاموشی اختیار کر لیتی ہے۔ برہمن تو بالخصوص انتہائی بداخلاق ہیں۔ انگریزی وقائع نگاروں کے مطابق ان کا کام بس کھانا اور سوتا ہے۔ ان کے قواعد کے اندر جو عمل ان کے لیے منع نہیں ان کا فیصلہ ہو کر اپنی مرضی سے کرتے ہیں۔ جب وہ معاشرتی زندگی میں کوئی حصہ لیتے ہیں تو ان کے کردار میں لالچ، فریب کاری اور عیاشی صاف عیاں ہو جاتی ہے جو لوگ ان ان کے لیے خوف و دہشت کا مقام رکھتے ہیں یہ ان کے روبرو بڑے عاجز بن جاتے ہیں اور پھر اس عاجزی کا انتظام اپنے ماتحتوں سے لیتے ہیں۔ ایک انگریز مصنف کا کہنا ہے کہ میں نے ان میں ایک شخص کو بھی دیانت دار نہیں پایا۔ بچوں کے دل میں ایسے والدین کے لیے کوئی تکریم کا جذبہ نہیں۔ بیٹوں کو اپنے باپوں کا استحصال کرتے دیکھا گیا ہے۔


اگر ہم ہندوؤں کے علوم وفنون کا جائزہ لیں تو ہم بہت دور نکل جائیں گے۔ لیکن اس پر ہم عمومی رائے ضرور دیں گے کہ اس کی اصلی قدر و قیمت کی زیادہ قریب سے شناخت کی جائے تو وہ ہندوستان کی عقل و دانش کے وحشی پن کی شہرت سے کسی طرح بھی کم نہیں ہوگی ۔ ہندوؤں کے خالص لوگ لینے کے تصور کے اُصول اور اس نظریے میں جو حساسیت کے بالکل مخالف سمت جاتا ہے سے یہ ظاہر ہے کہ مجرد ادراک اور تصور کے سوا کسی چیز میں ارتقا ممکن نہیں۔ چنانچہ یہ ایک تجرباتی حقیقت ہے کہ جہاں ان کی زبان نے ارتقائی مراحل بتدریج طے کیے ہیں وہاں جب علوم وفنون کے حقائق زیر بحث آتے ہیں تو ان پر ہرگز کوئی توجہ نہیں دی جاتی ۔ جب انگریزوں نے اس ملک پر غلبہ حاصل کر لیا تو ہندوستانی تہذیب کے آثار کو از سر نو روشناس کرانے کے لیے کام شروع ہوا۔ اس وقت ولیم جونز نے سب سے پہلے اس سنہری دور کی نظموں پر تحقیقات کی۔ انگریزوں نے کلکتہ میں ڈرامے دکھائے ۔ اس سے برہمنوں میں بھی ڈراما دکھانے کی رغبت پیدا ہوئی اور وہ ڈراما کالی داس کا تصنیف کردہ شکنتلا تھا۔ اس میں ہندو تہذیب کی تحقیق کے جذبے کو بہت اُبھارا گیا تھا اور یہ کہ جب نئے انکشافات سامنے آجاتے ہیں تو پرانے چہروں کو نفرت کی وادی میں دفن کر دیا جاتا ہے۔ ہند و منظوم ادب اور فلسفہ کو یونانی ادب پر بہت فوقیت دکھائی گئی ہے۔ ہمارے نقطہ نظر سے جو دستاویزات بہت زیادہ اہم ہیں۔ وہ ہندوؤں کی قدیم ادبی اور مذہبی ضوابط کی کتب میں خاص طور پر وید ۔ اس کی تقسیم تو کئی انداز سے کی گئی ہے لیکن زیادہ مشہور چار ہیں۔ ان ویدوں کا جزوی حصہ پوجا پاٹھ کے طریقوں پر مشتمل ہے اور جزوی حصہ رسوم و رواج پر ہے۔ ان ویدوں کے چند قلمی نسخے یورپ میں بھی پہنچتے ہیں اگر چہ مکمل شکل میں انتہائی دستاویزات ہیں۔ یہ تحریر میں پام کے چوں پر سوئی سے کندہ کی گئی ہیں ان دیدوں کی تحریروں کو سمجھنے میں بہت مشکلات پیش آتی ہیں کیونکہ ان کی تحریر انتہائی قدیم دور کی ہے اور زبان بہت پرانی سنسکرت ہے البتہ کول بروک نے ان کے ایک حصہ کا ترجمہ کیا ہے لیکن یہ غالباً ایک تبصرہ سے لیا گیا ہے اور اس طرح کے تبصرے عام ہیں اس دور کی دو مشہور نظمیں رامائن اور مہا بھارتا جو رزمیہ ہیں وہ بھی یورپ پہنچی تھیں۔ اس میں سے اول الذکر کا تین چوتھائی حصہ چھپ چکا ہے اس کی دوسری جلد بہت نایاب ہے۔ ان تعلیمات کے علاوہ پر ان بھی بہت قابل ذکر دستاویزات ہیں۔ پر ان میں ایک دیوتا یا ایک مندر کی تاریخ درج ہے وہ مکمل طور پر مضحکہ خیز ہے۔ ہندوؤں کی ایک اور مستند کتاب منو کے قوانین ہیں، اس ہندو قانون ساز کو کریشن مینوز سے تشبیہ دی گئی ہے۔ یہ ایک ایسا نام ہے جو مصریوں میں بھی معروف ہے اور یقینا اس نام کا یوں کثرت سے دھرایا جانا بھی قابل توجہ ہے اور اسے محض اتفاق نہیں کہا جا سکتا۔ منو کے اخلاق کا مجموعہ ہی اس کی اشاعت کلکتہ میں سرڈ بلیو جونز کے ترجمہ کے ساتھ ہوئی ہندوؤں کے مجموعہ قوانین کی بنیاد ہے۔ یہ کتاب دیوتاؤں کے شجرہ نسب سے شروع ہوتی ہے جو نہ صرف دوسری قوموں کے دیو مالائی تصورات سے یکسر مختلف ہے بلکہ خود ہندو روایات کی بھی نفی کرتا ہے کیونکہ اس میں چند نمایاں تحریریں ایسی بھی ہیں جو سب کو متاثر کرتی ہیں دوسرے پہلوؤں سے ہر شے اتفاق قیاس اور تخیل پر چھوڑ دی گئی ہے جس کے نتیجے میں بہت سی کثیر الجہت روایات ، صورتیں اور نام ایک غیر مختم سلسلہ سے دی گئی ہیں وہ دور جب منو کی کتاب تالیف ہوئی یکسر نا معلوم دور ہے اور اس کا تعین نہیں ہو سکا ہے اس روایت کا تعلق تمیں صدی قبل از بیج سے ہے۔ اس روایت میں سورج دیوتا کے بچوں کی نسل کا ذکر ہے جن میں سے بعد میں ایک بچہ چاند بن کر نمودار ہوتا ہے البتہ ایک بات طے ہے که دستاویز انتہائی قدامت کی حامل ہے اور انگریزوں کے نزدیک اس سے آگاہی حاصل کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ ہندوؤں کے نزدیک اس سے آگاہی حاصل کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ ہندوؤں کے قوانین سے متعلق ان کی معلومات کا مآخذ یہی ہے۔


ذات، مذہب اور ادب میں امتیازات کے لیے ہندوؤں کے نظریے کی وضاحت کے بعد اب ہمیں ان کی سیاسی زندگی کے انداز ، طریق کار کا بھی لاز ماذکر کرنا چاہیے، ناگزیر کیفیت اور بنیادی قوت ارادی کی آزادی ہے۔ چنانچہ ہندوستان میں انتہائی من مانی، مکار اور ذلت آمیز مطلق العنانیت اپنے پورے جوبن پر ہے۔

چین، ایران، ترکی اور در حقیقت عمومی انداز میں ایشیا مطلق العنانی کا منظر پیش کرتا ہے اور وہ بھی جبر و تشدد کے انداز میں لیکن ان ملکوں میں اسے عدل و انصاف سے انحراف پر ضر در محمول کیا جاتا ہے اور اسے عوام کا مذہب اور ان کی اخلاقی حس اسے قبول نہیں کرتی ۔ ان ممالک میں جبر و استبداد سے نفرت نظر آتی ہے ان کے نزدیک یہ ضرورت نہیں بلکہ یہ اتفاقیہ اورایک بد نظمی کی شکل ہے اور اسے نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن اس کے برعکس ہندوستان میں اسے معمول کا درجہ حاصل ہے کیونکہ وہاں اُس ذاتی آزادی کا شعور ہی نہیں جس کے ساتھ اس خود مختاری کی کیفیت کا موازنہ کیا جا سکے اور جو عوام میں بغاوت کا ایک جذبہ ابھار سکے۔ البتہ محض ایک خفیف سے احتجاج کی شکل رہ جاتی ہے جو جسمانی جنبش تک محدود ہے اور بس انتہائی لازمی ضروریات اور لطف سے محرومی کی ٹیس باقی رہ جاتی ہے چنانچہ ایسی قوم کے معاملے میں جسے ہم دوہرے مفہوم یعنی دو غلے پن سے تعبیر کرتے ہیں۔ تاریخ کی تلاش فضول ہے اس طرح یہاں چین اور ہندوستان کے مابین فرق کھل کر سامنے آ جاتا ہے۔ چینیوں کے پاس ان کے ملک کی تاریخ پوری جزئیات کے ساتھ موجود ہے اور یہ بات پہلے بتائی جا چکی ہے کہ ان کے ہاں ہر چیز مکمل صحت کے ساتھ یعنی ہندو ریاست کا نظم ونسق ۔ ایک ریاست عوام کے جذبوں کی ترجمان ہوتی ہے اس انداز سے کہ اس میں رعایا کی خودشناسی ، ان کی آرزوؤں کی آزادی قانون متصور ہوتی ہے۔ چنانچہ ایسی ریاست لازمی طور پر آزاد تمناؤں کے ادراک کی عکاسی کرتی ہے۔ چینی ریاست میں شہنشاہ کے اخلاقی فیصلے ہی قانون ہوتے ہیں لیکن اس طرح معروضی، داخلی آزادی کچل دی جاتی ہے اور آزادی کا ضابطہ انسانوں کے جسموں پر تو حکمرانی کرتا ہے مگر دلوں پر نہیں ۔ ہندوستان میں معروضیت کا بنیادی پہلو یعنی تخیل کا ۔ فطری اور روحانی امتزاج سے تعلق رکھتا ہے۔ اس میں فطرت اپنے آپ کو آفاقی یکجائی کے عامل کے طور پر پیش نہیں کرتی اور دوسری جانب روحانی عنصر بھی فطرت سے اختلاف کے ادراک میں ایسا نہیں کرتا۔ یہاں جس چیز کی کمی ہے وہ ہے اُصول میں اس کا تضاد۔ یہاں آزادی بطور مجرد ارادہ اور بطور موضوعی آزادی دونوں طرح مفقود ہے یعنی ریاست کی اصل بنیاد - آزادی کا اصول ہی نا پید ہے۔ چنانچہ ریاست کی حقیقی اصطلاح میں ایسی ریاست ، ریاست کہلائی ہی نہیں جاسکتی۔ تجزیہ کے لیے یہ نکتہ بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ اگر چین کو ہم ریاست کے علاوہ کوئی اور نام نہیں دے سکتے یعنی یہ محض ریاست ہے تو ہندوؤں کا سیاسی تانا بانا، ہمارے سامنے محض ایک قوم پیش کرتا ہے لیکن ریاست کا کہیں وجود نہیں۔ دوسرے نمبر پر جب ہم چین میں اخلاقی مطلق العنانی دیکھتے ہیں تو ہندوستان کی سیاسی زندگی کے آثار کا جوبھی نام لیں وہ بغیر کسی ضابطہ کے بغیر کسی اخلاقی قاعدہ یا آثار مذہب کے ایک مطلق العنانی کی شکل میں ہے کیونکہ اخلاق اور مذہب ( جہاں تک مؤخر الذکر کا تعلق انسانی عمل سے ہے ) تاریخی مواد کے روز نامچوں میں درج ہوتی تھی لیکن ہندوستان کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ اگر چہ ہندوستان کے ادبی خزانوں کی حالیہ تحقیق سے ہندوؤں کی اس شہرت کا انکشاف ہوا ہے جو انھوں نے علم ہندسہ علم فلکیات اور جبرو مقابلہ میں مہارت کے باعث پائی اور یہ کہ انھوں نے فلسفہ میں بھی ترقی کی اور ان کے ہاں زبان کے اصول وضوابط کا ارتقا اس حقیقت سے آشکار ہے کہ کسی زبان نے اس قدر ترقی نہیں کی جس قدر سنسکرت نے کی۔ اس کے باوجود ہم تاریخ کے سلسلہ میں ہندوستان کے لیے کوئی مثبت رائے نہیں دے سکتے ۔ بلکہ ہم تو یہ کہیں گے کہ اس کا وجود ہی ناپید ہے۔ کیونکہ تاریخ کے لیے ہوش و خرد در کار ہے۔ کسی شے کا بے لاگ موضوعی نقطہ نظر سے تجزیہ اور دوسری اشیا سے اس کی عقلی تعلق کا ادراک کرنے کا نام تاریخ ہے چنانچہ صرف وہی تو میں تاریخ میں نام پانے کی اہل ہیں اور بالعموم ادب میں بھی جو ارتقا کے اس مقام پر فائز ہوں (اور وہ اسے نقطہ آغاز شمار کریں) جہاں افرادکو اپنی خود مختارانہ زندگی کے مقصد کی سمجھ بوجھ ہو یعنی انھیں خود آگاہی حاصل ہو جائے۔


چینیوں پر نظر ڈالتے ہوئے ، ان کے مرتبے کا تعین ان کی ان مساعی کی روشنی میں کیا جائے گا جو انھوں نے اپنی ریاست کی تکمیل کے لیے کیں اس انداز سے جہاں انھوں نے فطرت کی خود مختار نمو تک رسائی حاصل کی ہے۔ انھوں نے اپنے مقاصد کے شعور میں بھی کافی ترقی کی ہے اور اپنی ذات سے ہٹ کر ان کو سمجھنے کی کوشش کی ہے کیونکہ ان کے مقاصد حقیقی نوعیت کے میں اور ان کا ان کی ذات سے بھی واضح تعلق ہے اور ہندوؤں کو پیدائشی طور پر ایک جادو تقدیر سے وابستہ کر دیا گیا ہے جہاں ایک جانب تو ان کی روحانی سوچ مثالی حد تک ہے کہ ان کے شعور کو، اُن کی مثالیت میں جامد عقلیت اور ابدی تصورات کے مابین تصادم کے عمل سے آگاہی حاصل ہے تو دوسری جانب ان کے حساس مقاصد کا لا تعداد شکلوں میں ڈھل جانا ان کی مثالیت کی قدر کو کھو دیتی ہے اور یہی بات انھیں تاریخ کے مرتب الروات کرنے کے عمل کے لیے نااہل قرار دیتی ہے جو واقعات بھی ظہور پذیر ہوتے ہیں وہ ان کے ذہنوں میں الجھے ہوئے خوابوں کی مانند منتشر ہو جاتے ہیں ہم جس چیز کو تاریخی حقائق اور صداقت کے نام سے جانتے ہیں وہ واقعات سے دانشورانہ اور مد برانہ انداز سے آگاہی ہے اور ان کے پیش کرنے میں قطعی دیانت درکار ہے اور اس طرح کی کوئی بات ہمیں ہندوؤں میں تلاش کرنے سے نہیں ملتی ۔ اب ہم اس کمزوری کی وضاحت کریں گے جو جزوی طور پر ان کی اعصابی ناتوانی اور بے جا جوش کا باعث ہے جو ان کو کسی مقصد سے ایفا کرنے میں مانع ہے اور نہ ہی اسے عقل و شعور میں جگہ لینے دیتی ہے کیونکہ ان کے کسی مقصد کی تفہیم کے انداز میں ایک حساس اور تخیلاتی سرشت اسے ایک مضطرب خواب میں تبدیل کر دیتی ہے اور جزوی طور پر یہ حقیقت آڑے آتی ہے کہ راست گوئی سرے سے ان کی فطرت کے خلاف ہے ۔ یہ لوگ دیدہ دانستہ اور بڑے سلیقے سے ایسے مواقع پر بھی دروغ گوئی سے کام لیتے ہیں جہاں ابہام کا شائبہ نہیں ہوتا کیونکہ ان کا خمیر ہی ایک خوابیدہ اور ذہنی نا پائیداری کی کیفیت سے عبارت ہے۔ ایک شدید غفلت میں تحلیل شدہ عنصر، چنانچہ ان کی زندگی کے مقاصد بھی ان کے غیر حقیقی تصورات تصہ اور عارضی تخیل میں تحلیل ہو کر رہ جاتے ہیں ان کی زندگی کا یہ ایک مخصوص انداز ہے اور صرف یہی ہمارے لیے ہندو ذہنیت کا اندازہ کرنے کے لیے کافی ہے اور اس سے وہ سب نتائج اخذ کیے جاسکتے ہیں جن کا اوپر ذکر ہو چکا ہے۔


لیکن تاریخ قوموں کے لیے ہمیشہ سے بڑی اہمیت کی حامل رہی ہے کیونکہ یہ محض اسی ذریعے سے اس کے ارتقا کے اس راستے سے آگاہی ہو سکتی ہے جو اس نے اپنے جذبے سے اختیار کیا جو اپنے آپ کو قوانین میں، تہذیب و تمدن میں، رسوم ورواج میں اور کارناموں میں ظاہر کرتا ہے۔ اخلاقی اور عدالتی اداروں پر مشتمل قوانین کسی قوم کے استقلال کے لیے ایک مستقل عنصر ہیں لیکن تاریخ کسی قوم کو اس کے اپنے کارناموں میں اس انداز سے پیش کرتی ہے جو ان کے لیے خارجی ہوتا ہے۔ ایک قوم کی حیات تاریخ کے بغیر اپنے ہی اندر بن دیکھے گم رہتی ہے یعنی لا تعداد صورتوں میں خود اپنے من مانے افعال کا تکرار – تاریخ اس ہنگامی ہر کو تواتر عطا کرتی ہے اور اس میں ٹھہراؤ پیدا کرتی ہے ۔ اسے آفاقیت بخشتی ہے اور اس عمل کے دوران اس کے لیے قابل عمل ضابطہ تحقیق کرتی ہے۔ نظام عمل یعنی ایک سنجیدہ سیای صورت حال ے تعین اور اتقاکے لیے یہ ایک انتہائی لائی ہتھیار ہے۔ کیونکہ لبر

تخیلاتی قوتوں میں ایک محکم مقصد کو برقرار رکھنے کے عمل میں اس کو آفاقیت کا درجہ دینے کے لیے یہ ایک مشاہداتی طریق کار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندو اپنے اندر تاریخی موادکی کم مائیگی کے باعث کوئی تاریخ نہیں رکھتے اور نہ ہی ان کے ہا کسی کارنامہ کی شکل میں تاریخ موجود ہے یعنی کسی حقیقی سیاسی نظام میں نمو اتی ہوئی ارتقا کی کوئی کمی نظرنہیں آتی۔


ہندوؤں کی تحریروں میں وقت کے تعین کا ذکر بھی ہوا ہے اور بہت سے ایسے اعداد دیے گئے ہیں جو علم فلکیات سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ان کی ابتدا یا آغاز کے اعداد ان کے اپنے من مانے ہیں۔ چنانچہ کچھ بادشاہوں کے متعلق بیان کیا گیا ہے کہ انھوں نے ستر ہزار سال یا اس سے بھی زیادہ مدت تک حکمرانی کی۔ آفرینش کے نظریے میں برہما جو از خود پیدا ہوئے اُن کے متعلق یہ تصور ہے کہ وہ میں ہزار سال زندہ رہے، وغیرہ وغیرہ۔ بادشاہوں کے لاتعداد ناموں کا حوالہ دیا گیا ہے ان میں وشنو کا مظہر شامل ہے۔ اب ان میں تاریخی عمل کی کوئی رمق تلاش کرنا محض مضحکہ خیز بات ہوگی ۔ ان کی نظموں میں بھی بادشاہوں کا تذکرہ کثرت سے ہے ممکن ہے کہ یہ تاریخی شخصیات رہی ہوں لیکن ان کی حقیقت بھی قصے کہانیوں میں گم ہو جاتی ہے یعنی وہ ایک دفعہ دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں اور دس ہزار سال غائب رہنے کے بعد پھر نمودار ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ ان اعداد کی حقیقی معنوں میں وہ حیثیت نہیں جو ان سے منسوب کی جاتی ہے۔


نتیجتاً ہندوستانی تاریخ کے متعلق قدیم ترین اور قابل اعتماد ذرائع وہ تحریریں ہیں جو یونانی مصنفین نے چھوڑیں اور یہ اس دور کی بات ہے جب اسکندراعظم ہندوستان میں داخل ہوا۔ ان تحریروں سے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے ارادے اس دور میں بھی ایسے ہی تھے جیسے آج ہیں۔ شمالی ہندوستان میں چندر گپت کو ایک نامور حکمران کی حیثیت حاصل رہی ہے جس کی حکومت باختر یہ تک پھیلی ہوئی تھی۔ مسلمان مؤرخین ہمیں معلومات کے اور ذرائع بھی فراہم کرتے ہیں کیونکہ مسلمان حکمرانوں نے ہندوستان میں اپنی فتوحات کا آغاز دسویں صدی عیسوی میں کیا۔ ایک ترک غلام غزنوی خاندان کا بانی تھا اس کے بیٹے محمود غزنوی نے اس دسویں صدی میں ہندوستان پر حملہ کیا اور کم و بیش سارے ہندوستان پر قبضہ کر لیا۔ اس نے مغربی کابل کو اپنے دارالحکومت کے لیے منتخب کر کے اس میں رہائش اختیار کی اور اس کے دربار میں اس کا درباری شاعر فردوسی تھا۔ خاندان غزنوی کی حکومت زیادہ مدت برقرار نہ رہ سکتی۔ اسے مغلوں اور افغانوں نے ختم کر دیا۔ بعد کے ادوار میں تقریباً سارے کا سارا ہندوستان یورپی حکمرانوں کے تسلط میں رہا چنانچہ ہندوستان کی تاریخ کے متعلق جو کچھ بھی مواد میں میسر اد آتا ہے وہ غیر ملکی ذرائع سے ہی ملتا ہے۔ مقامی ادب ہمیں صرف مہم تصویر میں مہیا کرتا ہے۔ اہل یورپ ہمیں اس امر سے آگاہ کرتے ہیں کہ ہندوستانی ادب یا تحریروں کی دلدل سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ اگر کچھ قابل اعتماد معلومات ہمیں ہندوستان کے اندر سے ملتی ہیں جو قدیم مندروں کے اندر کندہ تحریروں اور تصویروں اور انھیں پیش کردہ نذرانوں کی صورت میں ہیں۔ لیکن اس طرح کی معلومات سے ہمیں صرف نام ملتے ہیں معلومات کا دوسرا ذریعہ فلکیات سے متعلق ادب ہے جو انتہائی قدامت کا حامل ہے۔ کول بروک نے ان سب تحریروں کا بڑے غور سے مطالعہ کیا ہے اگر چہ اس ضمن میں کوئی مخطوطہ پیش کرنا تو بہت دشوار ہے کیونکہ برہمن ایسی تحریر میں بڑی خفیہ رکھتے تھے اس کے علاوہ ان میں بار بار تحریف کے بعد یہ کچھ سنخ بھی ہو چکی ہیں۔ یہ بات عیاں ہے کہ تارا منڈل (ستاروں کے مجموعے Constellatiouns) کے بارے میں جتنے بھی بیانات ہیں وہ سب متضاد ہیں اور پنڈت حضرات ان تحریروں میں اپنے دور کے حالات بیان کرنے کے لیے تحریف کرتے رہتے ہیں۔ ہندوؤں کے پاس اپنے بادشاہوں کے اعداد و شمار اور فہرستیں بھی موجود ہیں لیکن یہ بھی کچھ من مانے انداز میں مرتب کی گئی ہیں کیونکہ موازنہ سے پتا چلتا ہے کہ ایک ہی دور کی ایک فہرست میں دوسری کی بہ نسبت میں نام زیادہ درج ہیں اور اگر یہ فہرستیں درست بھی ہوں تو بھی یہ تاریخ کا حصہ نہیں بن سکتیں ۔ صداقت کے ضمن میں برہمنوں کے ہاں ضمیر نام کی کوئی چیز نہیں۔ کیپٹن ولفورڈ نے ہر خطہ سے بہت محنت اور کثیر سرمایہ صرف کر کے کچھ مسودات تیار کیے ہیں۔ اس نے برہمنوں کی ایک کثیر تعداد کو جمع کیا اور انھیں ان مسودوں سے اقتباسات لینے کے لیے کہا اور کچھ نمایاں واقعات مثلاً آدم اور وا اور طوفان نوح وغیرہ کے متعلق ان سے استفسارات کیے۔ برہمنوں نے اپنے آجر کے کہنے پر مطلوبہ معلومات فراہم کر دیں لیکن ان مسودات میں سے کوئی بھی کام کی چیز برآمد نہیں ہوئی۔ ولفورڈ کے اس موضوع پر بہت سے مقالات تحریر کیے تا آنکہ اس نے اس کے فریب کا سراغ لگالیا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ اتنی مشقت بے سود اُٹھائی۔ یہ بالکل درست ہے کہ ہندوؤں کے پاس ایک محدود دور ہے وہ اس سنہری دور کا آغاز بکرماجیت سے کرتے ہیں جس کے دربار میں کالی داس تھا جو ڈراما شکنتلا کا مصنف ہے۔ صرف اسی دور میں عظیم شہرت کے حامل شعرا کی شناخت ہوئی ۔ ” بکرماجیت کے دربار میں نورتن تھے۔ یہ بات برہمنوں کی زبانی کہی جاتی ہے لیکن ہمیں اس سنہری دور کی تاریخوں کے بارے میں کوئی علم نہیں ہو سکا۔ کچھ روایات – کے مطابق یہ دور ۴۳۹۱ قبل مسیح کا ہے لیکن کچھ مورخین کا خیال ہے کہ پچاس قبل از سیح کی بات ہے اور اسی رائے پر زیادہ اصرار کیا جاتا ہے۔ آخر کار بیفلے کی تحقیقات کے مطابق اس دور کا تعین بارھویں صدی قبل از مسیح میں کیا گیا ہے لیکن مزید حالیہ تحقیقات بتاتی ہیں کہ بکرماجیت کے نام کے ہندوستان میں پانچ یا سات اور شاید آٹھ یا نو بادشاہ ہوگزرے ہیں چنانچہ اس امر میں بھی ہمیں قطعی غیر یقینی صورت حال کا سامنا ہے۔


جب اہل یورپ کو ہندوستان سے شناسائی ہوئی تو ان کے سامنے چھوٹی چھوٹی راجہ ہانیوں کی ایک کثیر تعداد تھی جن کے سربراہان مسلمان شہزادے یا ہندو راجے تھے اور وہاں کے نظم ونسق کی شکل کم و بیش جاگیردارانہ نظام سے مشابہت رکھتی تھی اور یہ راجواڑے ضلعوں میں منقسم تھے جن کے گورنر یا تو مسلمان تھے یا پھر ہندوؤں کی جنگجو نسل کے لوگ تھے۔ ان والیوں (گورنروں ) کے ذمہ محصولات جمع کرنا اور جنگ کے موقع پر تعاون فراہم کرنا ہوتا تھا اور یوں وہاں کسی حد تک شخصی حکومتیں قائم تھیں ۔ یعنی شہزادوں کی مجلس مشاورت ۔ لیکن وہ شہزادے بس طاقت کے بل پر حکومت کرتے تھے۔ اطاعت نام کی کوئی چیز وہاں موجود نہ تھی۔ چنانچہ اگر شہزادوں کے پاس دولت نہ ہوتی تھی تو فوج ضرور موجود ہوتی تھی اور وہ اسے مفادات کی خاطر ہمسایہ کمزور ریاستوں پر چڑھ دوڑتے تھے اور ان کو خراج دینے پر مجبور کر دیتے تھے اور وہ بھی یہ خراج انتہائی مجبوری کی حالت میں ادا کرتے تھے۔ چنانچہ اس نوعیت کی صورت حال میں کوئی وقفہ یا انقلابی دور نہیں آیا بلکہ یہ سلسلہ جاری رہا۔ جبکہ اس دوران ارتقا کا کوئی پہلو سامنے نہیں آیا۔ البتہ جب کسی نہ کسی حکمران کی رگ حمیت پھڑکتی تو وہ اپنے سے کمزور پر حملہ کر دیتا تو یوں یہ حکمران خاندان کی تاریخ بنتی نہ کہ قوموں کی مختلف سازشوں اور بغاوتوں کا طویل سلسلہ تھا اور یہ رعایا کا اپنے حکمران کے خلاف نہیں بلکہ مثال کے طور پر بادشاہ کے بیٹے کا اپنے باپ کے خلاف، چچاؤں اور بھتیجوں کے درمیان کھینچا تانی اور درباریوں کا اپنے آقا کے خلاف بلوہ۔ چنانچہ یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ اگر چہ اہل یورپ کو ہندوستان میں ایسی ہی صورت حال ملی لیکن یہ بھی سابقہ عظیم سلطنتوں کے زوال کا نتیجہ تھی۔ مثال کے طور پر یہ فرض کیا جا سکتا ہے کہ مغل شہنشاہوں کا دور خوشحالی اور شان و شوکت کا دور تھا اور اس دور میں سیاسی کیفیت ایسی تھی کہ ہندوستان غیر ملکی حملہ آوروں کے باعث کسی سیاسی یا مذہبی خلفشار کا شکار نہیں تھا۔ لیکن اس خصوصی دور کے متعلق منظوم داستانوں یا قصہ کہانیوں کے ذریعے تاریخی طور پر جو شکل وصورت اور نقشہ ہمارے سامنے آتا ہے اس لئے بھی اس منقسم کیفیت کا اظہار ہوتا ہے جو پے درپے جنگوں اور سیاسی تعلقات میں کشیدگی کا نتیجہ تھے البتہ تصورات اور خوابوں کی دنیا میں رہتے ہوئے ہم حالات کی تصویر کشی مختلف انداز میں ضرور کر سکتے ہیں۔ یہ صورت حال ہندو تمدن کی منفی یا نا پختہ سوچ کا نتیجہ تھی جس کا وہ بر ملا اظہار کرتے تھے۔ برہمنوں اور بدھ مت کے پیروکاروں کے درمیان اور وشنو اور شیو کے پجاریوں کے مابین جنگوں نے بھی اس خلفشار میں حسب توفیق اپنے حصے کا حق ادا کیا۔ اس حقیقت کا انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ہندوستان میں یہ چلن مشترک انداز میں سرایت کیے رہا لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ یہ بڑی حیرت کی بات ہے کہ ہندوستان کی مختلف ریاستیں ایک دوسرے سے متضاد کردار کی حامل رہیں مثلا دیکھنے میں یہ آیا کہ اگر ایک ریاست عیش کوشی میں مگن انتہائی ناتوانی اور انکساری کا مظاہرہ کر رہی ہے تو اس کے برعکس ایک دوسری ریاست کے عوام بڑے غیور، جنگجو اور بعض بڑے وحشی ہیں۔


چنانچہ اس ساری بحث کو سمیٹے ہوئے اگر ہم ایک بار پھر ہندوستان اور چین کے حالات کا موازنہ عمومی انداز میں کریں تو ہم دیکھیں گے کہ چین یکسر خواب و خیال اور تصوراتی کیفیت سے الگ رہا اور ان کی زندگی کی روش انتہائی سادہ مگر ابدی اور تو انا حقائق پر بنی تھی۔ اس کے برعکس ہندوستان کے متعلق ہم صاف صاف کہہ سکتے ہیں کہ ان کے پیش نظر ایسا کوئی واضح مقصد نظر نہیں آتا جس کا تجزیہ کیا جا سکے کوئی بھی ایسی چیز نہ تھی جے ہم تصورات کے دائرے سے باہر کھینچ کر حقیقی دنیا میں لائیں اور اس کا سنجیدگی سے ادراک کر سکیں، چین میں قوانین کے لیے مواد اخلاقیات سے اخذ کیا گیا ہے جس کی تجسیم خارجی انداز میں متعین روابط سے کی گئی ہے جبکہ ان سب کی نگرانی اور سر پرستی شہنشاہ کی دانش اور فراست کرتی ہے اور خود شہنشاہ ایک باپ کی شفقت کے انداز میں اپنی سب رعایا کا بلا تفریق خیال رکھتا ہے۔ اس کے برعکس ہندوؤں میں اتحاد کے بجائے ان کا قوی طرۂ امتیاز تفریق و انتشار ہے، مذہب، جنگ، صنعت و حرفت، تجارت حتی کہ معمولی سے معمولی پیشے میں بھی واضح تفریق کا اظہار ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہاں اجتماعیت نام کی کوئی چیز سرے سے ہے ہی نہیں اور اس کے سارے کے سارے تقاضے ختم ہو چکے ہیں۔ اس تمام صورت حال کے پہلو بہ پہلو ایک مہیب اور عقل و خرد سے عاری تصور بھی چھٹا ہوا ہے جو عوام الناس کے اخلاقی اقدار اور کردار کو بے بصیرت خارجی اعمال کی ابدیت سے وابستہ کر دیتی ہے جو خرد سے اتنا ہی عاری ہوتا جتنا احساسات سے۔ انسانی بہبود کی تمام عزت و تو قیر کو بالائے طوق رکھ دیتا ہے اور اس کی انتہائی شدید اور ظالمانہ انداز سے مخالفت کو اپنا فرض بنا لیتا ہے۔ ان امتیازات کی شدت کے ساتھ پابندی کے بعد کسی ریاست کی آفاقی آرزوؤں کے اندر سوائے وسواس کے اور کیا باقی رہ جاتا ہے جس کی سربلندی کے خلاف صرف ذات پات کے مسلمہ امتیازات پناہ حاصل کر سکتے ہیں چینی لوگ اپنی سادہ لوح سنجیدگی کی عظمت کا پرچم بلند کیے ہوئے محض مجرد حقائق کے آگے سر تسلیم خم کرتے ہیں اور کسی جامد اور یقینی امر پر وہمی انداز میں ایمان لانے سے شدید نفرت کرتے ہیں۔ ہندوؤں کے ہاں ایسے کوئی الگ تھلگ اوہام نہیں جو عقل و خرد کے سامنے تضاد بن کر کھڑے ہوں۔ ان کی تو ساری کی ساری زندگی اسی تصور اور وہم کے تسلسل پر قائم ہے کیونکہ ان کے نزدیک ہر چیز انقلاب پذیر ہے اور نتیجا غلامی میں جکڑی ہوئی ہے۔ فنا کے عمل ، عقل و شعور سے قطعا بیگانگی ، اخلاق اور موضوعیت سے کوئی مثبت احساس اور اپنی ذات سے آگاہی صرف لا محدود بے مہار تصورات سے انحراف سے بھی ہو سکتی ہے جس میں ایک زخمی روح کی مانند کسی کروٹ چین نہیں لیتی ، نہ ہی اسے سکوں ملتا ہے جیسے کسی ایسے شخص کے اندر جو صرف اپنے بدنی وجود کی جانب توجہ دیتا ہے اور اس کی روح اپنی حیات کے لیے اسے نا قابل برداشت سمجھتی ہے اور اپنے سکون وقرار کے لیے خوابوں کی دنیا میں اور افیون کے اثر سے ہذیانی کیفیت میں مسرت تلاش کرتی ہے۔

Comments