ہمارے جملہ مسائل کا حل کیا ہے؟ بطور انسان اور بطور مسلمان ہم پر کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے ؟ اس حوالے سے ہر مسلمان کو کردار ادا کرنا ہوگا ۔
جب تک اجتماعی رویے معاشرے میں رائج نہیں ہوںگے اس وقت تک ہم ایسے ہی سرگرداں پھرتے رہیں گے ۔
آج کے دور میں کچھ طبقے غیر ملکی سامراج کی حمایت میں مختلف طرح کے نعروں میں مذہب کا غلغلہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور مسلمانوں کے مذہبی جنون اور عقیدت کو اپنے ناجائز گروہی و ذاتی مفادات کے لیے کردار ادا کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ ایسے میں ان کی سخت باز پرس اور دیکھ ریکھ کی ضرورت ہے
ابھی حال ہی میں ایک عالمی شخصیت پاکستان کا چکر لگا کر گئی ہے جو ایک ایسے موضوع کی چیمپئین ہے جو موضوع ہی سرے سے دجل پر مبنی ہے ۔ اہل فکر و نظر کو اس حوالے سے چوکنا رہنا ہوگا کہ ایسے لوگوں کی ڈوریں کہاں سے ہل رہی ہیں۔
اج کے دور میں تقابل ادیان پر بحث ضرورت نہیں ہے -
بلکہ تقابل نظاموں پر مکالمے کی شدید ضرورت ہے۔
سرمایہ داریت دنیا کے وسائل کو لوٹ رہا خاص طور پر مسلمان ممالک کو - اور نظام سرمایاداری نے مسلمانوں کو مذھبی لسانی جھگڑوں میں الجھا کر تقسیم کیا اور بڑی آرام سے حُکمرانی بھی کر رہا ہے اور لوٹ مار بھی کررہا ہے.اسلیے مبلیغین کو اس طرف متوجہ ھونا چاھیے- رہی بات مذاھب کی تو ہر دور میں مذھب نے انسانیت کی رھنمائی کی ہے مسئلہ مذاھب کا نہیں مسئلہ ہر دور میں موجود فرعون (سیاسی مافیہ ) قارون (معاشی لوٹ کھسوٹ کی مافیہ) ہامان (مذھبی شدت پسند علماء سو کی مافیہ فرقہ پرست) مسئلہ ان کا چلا ارہا ہے
Comments