اکبر تاریخ کے اوراق میں_____ (قسط سوم) دینِ الٰہی اور صلح کُل کی حقیقت



 اکبر تاریخ کے اوراق میں_____

(قسط سوم)

"دینِ الٰہی" اور "صلح کُل" کی حقیقت-! 

اکبر پر لگے من گھڑت الزام اور اہل مذہب سے عقیدت کا نظارہ کر لینے کے بعد جستجو و غور فکر کا ایک اور قدم آگے بڑھاتے ہیں۔ جس کو سمجھنا ازحد ضروری ہے۔ 

 یورپین تاریخ کا یہ وہ الم ناک صفحہ ہے جس کو ہمارے نصاب تعلیم کے ساتھ عمداً مرکب کر کے ہمیں اپنی ہی تاریخ سے بدظن کرنے کی منظم سعی کی گئی ہے۔ 

تاریخ پڑھنے والا جب ان اوراق کی گردانی کرتا ہے تو وہ ششد ہو کر رہ جاتا ہے۔ نتیجتاً کچھ اسی بہاؤ میں بہہ جاتے ہیں اور کچھ ہوتے ہیں جو سوالات کا بار اٹھائے حقیقت کے متلاشی ہوتے ہیں اور پھر وہ سراغ پا ہی لیتے ہیں۔ 

مقصود اس تمام تر تمہید کا یہ ہے کہ آج عیسائی مؤرخین کے  کذب و افتراء کی ردا شق کرنے کی سعی کریں گے جس کے نور پر انہوں نے ظلمت کی چادر اوڑھ رکھی ہے۔ 

اور ہمیں اپنی ہی تاریخ سے کاٹنے کے لیے اکبر پر مذہبی وار کیے۔ جن کی حقیقت اسی تحریر میں اجاگر کریں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

مؤرخین کی طرف سے کیے گئے مذہبی وار جن کو آج ہم "دینِ الٰہی"  "صلح کل" "اکبر کے جدید مذہب کی بنیاد رکھنے" کے نام سے پڑھنے اور سننے کو ملتی ہیں۔ 

اکبر کی مذہبی پالیسی جس کو "دینِ الٰہی" کہا گیا___ 

اکبر کی مذہبی پالیسی کے دو پہلوں تھے۔ ایک انتظامی اور سیاسی معاملات میں "صلح کل" کی پالیسی اور دوسری مریدان شاہی کے لیے قواعد و ضوابط جس کو "دینِ الٰہی" کہا جاتا ہے۔ 

آئین رہمنوئ کیا تھی_______

اکبر نے جو نظام ترتیب دیا تھا ابو الفضل اس کو "آئین رہمنوئ" کے تحت درج کرتا ہے۔ 

یعنی اکبر نے تمام فرقوں کو مختلف مذاہب کے مابین جو بنیادی اتحاد ہے اس پر جمع کیا۔ اکبر نے ان سب کے درمیان وحدت کا رشتہ تلاش کیا اور وہ مل ہی گیا۔ 

چناچہ ابوالفضل رقم طراز ہیں کہ "بہت سے ارباب تجرد مثلاً سنیاسی، یوگی، صوفی، اس حقیقت سے ہمکنار ہیں اور اس کی نگاہ فیض سے وہ فیوض حاصل کرتے ہیں جو چلوں سے بھی حاصل نہیں ہوتا۔ بادشاہ لوگوں کو مرید ہونے سے روکتا ہے اور بارہا ان سے کہتا ہے کہ مجھے کیا حق حاصل ہے کہ خود کہیں پہنچے بغیر دوسروں کی راہنمائی کا دم بھروں؟ لیکن لوگ نہیں مانتے ہیں اور ہزاروں اس کی مریدی میں داخل ہو گئے ہیں، جب کوئی بہت اصرار کرتا ہے اور بادشاہ اس کی پیشانی پر اخلاص کا نشان دیکھتا ہے تو اس کی بیعت قبول کرتا ہے"

بیعت کرنے کا طریقہ کار_____ بیعت کرنے سے متعلقہ جو بھی باتیں ہیں محض قصے کہانیوں کے سوا اور کچھ نہیں۔ کیونکہ مریدوں کی بیعت کا جو طریقہ تھا ابوالفضل نے اس کو تفصیل سے ذکر کیا ہے اس میں کسی تحریری بیعت نامے کا کوئی ذکر نہیں۔ 

چونکہ سارا سلسلہ بادشاہ سے اظہارِ عقیدت کا تھا جس کو آگے چل کر بعض کج بینوں نے اس میں جدتیں پیدا کر دیں۔ اور حقیقت حال چھپ کر رہ گئ۔ 

کیا اکبر ہی فقط آئین رہمنوئ کا پیروکار تھا؟_______

بسا اوقات بعض دفعہ پیر و مرشد بھی طریقہ بیعت اور اظہارِ عقیدت کے مختلف آئین بنا لیتے ہیں اور انہیں کوئی اسلام سے باہر نہیں سمجھتا۔ 

جیسے آج بھی ہمیں دیکھنے کو ملتا ہے کہ جب ہم شیخ کی بیعت کرتے ہیں تو وہ توبہ کے کلمات پڑھاتے ہیں، اقرار کراتے ہیں۔ اور پھر ہر شیخ کے ہاں اپنے سلسلے کے پیشِ نظر اس کے کلمات مختلف ہوتے ہیں۔ اور یہی کلمات اکبر کے تھے اب چونکہ وہ بادشاہ تھا تو اس بنا پر اس کو آئین کا نام دیا گیا۔

گویا یہ ایک طریقہ کار تھا جو بادشاہ کے عقیدت مندوں نے اپنا رکھا تھا۔ جس کو بعد میں جا کر دینِ الٰہی کا نام دیا گیا اور سب سے پہلے اکبر کے طریقہ کار کو دینِ الٰہی کا نام دینے والا عیسائی مؤرخ ہی تھا جس کی روش پر سب چل پڑے۔ 

دینِ الٰہی کی اصطلاح کس مؤرخ نے وضع کی______

عیسائی مؤرخ بلاک مین نے عیاری سے آئین اکبری کے پہلے انگریزی ایڈیشن میں "طریقہ" اور "روش" کا ترجمہ "دینِ الٰہی" کیا جو بعد کی درسی کتابوں میں رائج ہو کر مسلمات کی حیثیت اختیار کر گیا۔ 

ہمارے خیال میں کوئی وجہ نہیں کہ بلاک مین کی پیروی کی جائے اور ایک غلط فہمی اور غلط نمائی کو برقرار رکھا جائے۔ 

اکبر کی وفات سے ستر سال بعد دبستانِ مذاہب میں یورپین مؤرخ کی اصطلاح شامل کی گئی۔ 

بدایونی کا نظریہ______

 بدایونی جوکہ ایک متعصبانہ ذہنیت کے حامل ہیں وہ بھی اس کو طریقہ اور روش کا نام دیتا ہے۔ مزید کہتے ہیں "یہ ایک مذہب نہ تھا۔ بلکہ ارادت اور عقیدت کا سلسلہ تھا، جس کی بنیاد ماننے والوں کی کمزوریوں یعنی طمع و خوشامد خودپسندی پر قائم تھا"

"صلح کل" کی پالیسی کیا تھی______

اکبر کی دوسری پالیسی "صلح کل" کی تھی جس کو "عالمگیر امن" بھی کہا جاتا ہے۔ اکبری حکومت کے بالکل ابتدائی دور اختیار کر لی گئی تھی۔ 

جہانگیر نے "صلح کل" کی تعریف کی______

 جہانگیر نے اس پالیسی کی تعریف کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اسلامی ہندوستان کی تاریخ میں بالکل نئ چیز نہ تھی، 

جہاں تک مختلف مذاہب کے ساتھ رواداری اور سب طبقوں کو حکومت میں حصہ دینے کا تعلق ہے، 

اس پر صرف اکبر بادشاہ نے عمل نہیں کیا بلکہ فاتح سندھ محمد بن قاسم نے اس پر پوری طرح عمل کیا۔ 

کشمیر کے سلطان زین العابدین کے عہد حکومت میں یہی (صلح کل)  کا طریقہ انہیں کے پیشِ نظر رہا ہے۔ 

عہدے تجویز کرنے میں کمی  بیشی کا رہا ہے لیکن یہ اقدامات زیادہ تر سیاسی اور انتظامی تھے مذہبی بالکل نہ تھے۔

صرف اکبر نے دوسرے مذہب والوں اعلیٰ عہدے نہیں دیے_____

اسلامی ہندوستان کی تاریخ میں شیر شاہ سوری اور ان کے جانشینوں نے بھی ہندؤوں کو اعلیٰ عہدے دیے جانے کی کئ مثالیں ہیں۔ 

اس لیے ان اقدامات کی مسلمان امراء یا علماء نے مخالفت نہیں کی اور صلح کل کا طریقہ مغل نظام کا جز بن گیا جو تغیر و تبدل کے ساتھ برقرار رہا۔ 

تمام مذاہب کو کسی مشترکہ اصول پر متحد کرنے کا عمل ہمیں سیرت میں بھی نظر آتا ہے۔ جب آپ ﷺ نے مدینہ میں آکر مختلف مذہب سے تعلق رکھنے والوں کو اپنے معاہدے میں شامل کیا اور فرمایا " نحن قوم واحد "  ہم ایک ہی قوم ہیں۔ 

تو اس طریقہ کار کی بنیاد محمد بن قاسم یا شیر شاہ سوری یا زین العابدین نے نہیں آپﷺ نے رکھی ہے۔ 

جو کچھ اکبر نے کیا اس سے پہلے دوسرے بادشاہ بھی کر چکے ہیں چونکہ اکبر کا دورِ حکومت بطور نمونے اور خوشحالی کے ہے تو اس کو آلودہ کرنے کے لیے مذہبی وار کیے گئے۔

چونکہ اخبار کی کذب و صدق کا انحصار مؤرخین پر ہے تو ضروری ہے کہ ان کے حالات سے آگاہ کیا جائے زیادہ تر ملا عبد القادر بدایونی ہی ہیں جن کے حالات جانچنے کی ضرورت ہے۔۔۔۔  

قسط چہارم ان کے حالات پر لکھی جائے گی۔ 


✍️ ع م ر

Comments