Tafseer Usmani ka Ajzai Tarkibi by Molana Wali Razi

 تفسیر عثمانی کے ترکیبی عناصر

از محمد ولی رازی

تفسیر عثمانی کا تعارف
تفسیر عثمانی کا تعارف 


الحمد لله وكفى وسلام علی عبادہ الذین اصطفی

تفسیر عثمانی پچھلے ساتھ برسوں سے بر صغیر کی اردو تفاسیر میں ایک نہایت مقبول اور انتہائی معتبر نام رہا ہے۔ اس غیر معمولی مقبولیت کی وجہ اس تفسیر کی وہ بعض خصوصیات تو میں ہی جو دوسری تفاسیر میں مفقود میں اور جن کا مختصر ذکر ان سطور میں ان شاء اللہ آگے آئے گا لیکن میرے خیال میں اس کی اصل وجہ ان تین اکابر کا علم و فضل، اخلاص وللبیت اور کمال اور احتیاط و ادب کے ساتھ قرآن کریم کی خدمت کی دھن ہے جو اصل تفسیر عثمانی کے اجزائے ترکیبی ہیں۔ یہ تین بڑے نام حضرت شاہ عبد القادر دیلوی، حضرت شیخ مولانا محمود حسن صاحب اور شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللہ علیم کے ہیں۔ تغییر عثمانی کے افادیت، خصوصیات اور اہمیت کا اندازہ کرنے کے لیے اس کا تاریخی پس منظر جاننا ضروری ہے۔ اس پس منظر میں قارئین کے لیے اس تفسیر کے اصل مقام کو متعین کرنے میں سوات ہوگی ۔

موضح القرآن :

حضرت شاہ عبد القادر کا اردو ترجمہ " موضح القرآن"  اپنی غیر معمولی خصوصیات کی وجہ سے بر صغیر کے مسلمانوں میں المامی ترجمہ " کے نام سے مشہور رہا ہے ۔ اور حقیقت میں یہ قرآن کریم کا واحد ترجمہ ہے جو اردو میں پہلا با محاورہ ترجمہ ہونے کے ساتھ ساتھ قرآنی الفاظ کی ترتیب اور اس کے معانی و مفہوم سے حیرت انگیز طور پر قریب ہے۔ حضرت شاہ صاحب نے اس ترجمہ کی تکمیل میں تقریباً چالیس سال جو محنت شاقہ اٹھائی ہے وہ اہل علم سے پوشیدہ نہیں ہے۔ قرآن کریم کا یہ ترجمہ اردو زبان کا ایک قیمتی سرمایہ ہے۔ جس کی حفاظت ہندو پاک کے مسلمانوں کے لیے ایک دینی فریضہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ حضرت شیخ  السنہ السنہ نے اس ترجمہ میں متعدد خوبیوں کا تذکرہ کرنے کے بعد تحریر فرمایا ہے۔

حضرت محمدون علیہ الرحمہ کا ترجمہ جیسے استعمال محاورات میں بے نظیر سمجھا جاتا ہے ویسے بھی باوجود پابندی محاورہ قلت تغیر اور نفت تبدل میں بھی بے مثل ہے"۔ 

(مقدمه ترجمه شیخ الهند . دارالتصنیف - کراچی )

چودہویں صدی کے آغاز تک اردو میں قرآن کریم کے متعدد ترجمے شائع ہو چکے تھے۔ ان میں بعض ترجمے بامحاورہ اور مروج زبان میں اہل علم واہل ذہانت حضرات کے تھے۔ اور اس کے مقابلے میں بعض تراجم ایسے بھی آئے جو آزاد خیال حضرات نے کیے تھے اور جن میں گوناگوں اغلاط و مفاسد پائے جاتے تھے۔ اور ان میں قرآن کریم کے مفاہیم پر زبان کے تقاضوں کو ترجیح دی گئی تھی آسان اور با محاورہ زبان کی وجہ سے یہ ترجمے عوام میں مقبول ہونے لگے۔ دوسری طرف حضرت شاہ عبد القادر کے ترجمے سے استفادہ عام میں کچھ دشواریاں پیش آنے لگیں

 اول تو یہ کہ 

اس  ترجمے کے بعض الفاظ اور محاورات وقت گزرنے کے ساتھ یا تو متروک ہو گئے یا ان کا استعمال بہت کم ہو گیا۔

دوسری دشواری

 ترجمہ کی وجہ سے نہیں بلکہ طبیعتوں کی مسل پسندی کی وجہ سے پیدا ہوئی یعنی اس ترجمہ کی جو سب  سے نمایاں اور ممتاز خوبی تھی کہ کم سے کم الفاظ میں قرآن کریم کے منظوم و منشاء کی تعبیر۔ میسی خوبی ان طبیعتوں پر گراں گزرنے لگی جو نغور و فکر کی عادی نہیں رہیں۔ اس وجہ سے بھی ان کا میلان ان جدید ترجموں کی طرف زیادہ ہونے لگا۔ ان ترجموں کی غلطیوں اور مفاسد سے لوگوں کو بچانے کیلئے اس وقت کے علمائے کرام کو اس بات کی شدید ضرورت محسوس ہوئی کہ ایک نیا ترجمہ سہل اور آسان اردو میں ایسا کیا جائے جو ایک طرف ان مفاسد سے بھی پاک ہو اور دوسری طرف مروجہ محاورے کے مطابق سہل اور آسان ہو۔

 

ترجمه شیخ الہند:

اس وقت کے اہل علم نے حضرت شیخ السند سے ایسا ترجمہ کرنے کی درخواست کی۔ حضرت نے نور و فکر کے بعد فرمایا کہ پہلی ضرورت یعنی زبان و محاورے کی سولت تو بعض نئے ترجموں سے پوری ہو گئی جو اہل علم و فہم حضرات نے کئے ہیں ۔ البتہ یہ ترجمے ان خوبیوں سے محروم ہیں جو موضح القرآن میں موجود ہیں۔ اب اگر کوئی نیا ترجمہ کیا جائے گا تو وہ آسان اور با محاورہ تو ہو گا مگر حضرت شاہ صاحب کے ترجمے کی خوبیاں کہاں سے آئیں گی ؟ فرمایا کہ اب یہ اندیشہ پیدا ہو گیا ہے کہ نئے ترجموں کی موجودگی میں حضرت شاہ صاحب کی یہ بے مثال قرآنی خدمت کہیں رفتہ رفتہ معدوم ہی نہ ہو جائے ۔ چنانچہ حضرت شیخ الہند فرماتے ہیں۔

"اس چھان بین اور دیکھ بھال میں تقدیر الہی سے یہ بات دل میں جم گئی کہ حضرت شاہ صاحب کا افضل و مقبول و مفید ترجمه رفته رفته تقویم پارینہ نہ ہو جائے ۔ یہ کسی قدر نادانی بلکہ کفران نعمت ہے۔ اور وہ بھی سرسری عذر کی وجہ سے اور عذر بھی وہ جس میں ترجمہ کا کوئی قصور نہیں اگر قصور ہے تو لوگوں کی طلب کا قصور ہے "۔

اسلئے حضرت شیخ الہند نے جدید ترجمہ کا ارادہ تو اسلئے نہیں فرمایا کہ حضرت شاہ عبد القادر کے ترجمہ کی حفاظت ضروری تھی۔ البتہ اس ترجمے سے استفاد کرنے میں مذکورہ بالا دشواریاں تھیں انکو دور کرنے کا ارادہ فرما لیا۔ چنانچہ اس ارادے کے بارے میں آپ فرماتے ہیں۔

اس لئے ننگ خلائق کو یہ خیال ہوا کہ حضرت شاہ صاحب ممدوح کے مبارک مفید ترجمہ میں لوگوں کو جو کل دو خلجان میں یعنی ایک بعض الفاظ و محاورات کا متروک ہو جانا دوسرے بعض بعض مواقع میں ترجمہ کے الفاظ کا مختصر ہونا۔ جو اصل میں تو ترجمہ کی خوبی تھی مگر بنانے زمانہ کی سولت پسندی اور مذاق طبیعت کی بدولت اب یہاں تک نوبت آگئی کہ جس سے ایسے مفید اور قابل ترجمہ کے متروک ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ سو اگر غور و احتیاط کے ساتھ ان الفاظ متروکہ کی جگہ الفاظ مستعملہ لے لئے جائیں اور اختصار و اجمال کے موقعوں کو تدبر کے ساتھ کوئی لفظ مختصر زائد کر کے کچھ کھول دیا جائے تو پھر ان شاء اللہ حضرت شاہ صاحب  کا یہ صدقہ فاصلہ بھی جاری رہ سکتا ہے ۔ " 

( مقدمہ ترجمہ شیخ الہند )

اس للہیت و اخلاص اور احتیاط و تدبر کے ساتھ حضرت شیخ اللہ نے مذکورہ بالا دو مقاصد سامنے رکھ کر حضرت شاہ صاحب کے ترجمے موضح القرآن میں نظر ثانی اور ترمیم کا کام شروع فرما دیا۔ اور آخر ۱۳۳۶ ء میں اس عظیم خدمت کو مکمل فرمایا۔

اور اس میں بھی جس احتیاط و ادب سے کام لیا ہے وہ حقیقت میں انہی حضرات کا حصہ ہے۔ ملاحظہ فرمائیے اپنے ترجمے کے مقدمہ میں ارشاد فرماتے ہیں۔

"جس موقع پر ہم کو لفظ بدلنے کی نوبت آئی وہاں ہم نے یہ نہیں کیا کہ اپنی طرف سے جو مناسب سمجھا بڑھا دیا۔ نہیں بلکہ حضرات اکابر کے تراجم میں سے لینے کی کوشش کی ہے ۔ خود موضع القرآن میں دوسری جگہ کوئی لفظ مل گیا۔ یا حضرت مولانا رفیع الدین کے ترجمے میں یا فتح الرحمن میں ۔ حتی الوسع ان میں سے لینے کی کوشش کی ہے۔ ایسا تغیر جسکی نظیر مقدس حضرات کے تراجم میں نہ ہو۔ ہم نے کل ترجمہ میں جائز نہیں رکھا۔

اللہ اکبر ان حضرات کی بے نفسی، خوف خدا اور اپنے بزرگوں کا احترام و ادب کا یہ نمونہ کتنا مفید اور سبق آموز ہے ؟ 

"تمام تراجم میں تلاش و جستجو کی یہ محنت شاقہ اسلئے اٹھائی کہ اپنی جانب سے ایک آدھ لفظ کا اضافہ بھی گوارا نہ تھا۔ اسی اخلاس و للبیت ہی کا ثمرہ ہے کہ ترجمہ شیخ الہند کو جو مقام آج حاصل ہے وہ کسی دوسرے ترجمے کو حاصل نہیں ۔

 اس ترجمے کو موضع القرآن سے ممتاز رکھنے کیلئے آپ نے اس کا نام " موضح فرقان تجویز فرمایا تھا۔ مگر یہ ترجمہ شیخ الہند کے نام سے مشہور و معروف ہوا۔

حضرت شیخ الہند نے چھ اشعار پر مشتمل ایک قطعہ میں اس ترجمہ کی تاریخ بیان فرمائی ہے۔ اس قطعہ کا آخری شعر جس  سے تاریخ نکلتی ہے ۔ یہ ہے ۔

بے شش و پنج بگفته محمود                            سال او موضح فرقان حمید

اس شعر سے تاریخ اس طرح نکلتی ہے کہ بے شش و پنج (یعنی چھ اور پانچ ۔ کل گیارہ اعداد) کم کر دیں تو " موضح  فرقان" حمید کے اعداد سے سال ۱۳۳۶ھ نکل آئے گا۔

 

فوائد عثمانی:

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ حضرت شاہ عبد القادر نے اپنے ترجمہ کے ساتھ کچھ مختصر حواشی بھی تحریر فرمائے تھے جن میں اختصار کے ساتھ انتہائی مفید تفسیری توضیحات شامل تھیں ۔ حضرت شیخ السلف نے ترجمہ کی تکمیل کے بعد ایک اہم کام یہ بھی شروع فرمایا کہ ان حواشی کو دوبارہ اپنی زبان میں اس طرح تحریر کرنا شروع کیا کہ جہاں جہاں ضرورت سمجھی وہاں اجمال کی تفصیل فرما دی اور مفید تفسیری وضاحتوں کا اضافہ بھی فرمایا۔ لیکن حضرت شیخ الہند کی حیات میں یہ کام صرف سورہ آل عمران تک  ہو سکا۔ اور اس طرح تفسیری فوائد کا کام ادھورا رہ گیا۔

اس کام کی تکمیل کیلئے اللہ تعالی نے شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی کو منتخب فرمایا اور انہوں نے اپنے مشفق استاذ کے اس ادھورے کام کی تکمیل کا ارادہ فرمایا۔ اور انہی مقاصد کو سامنے رکھ کر نہایت ادب و احترام کے ساتھ جانفشانی سے اس کام کی طرف متوجہ ہوئے ۔ حضرت علامہ عثمانی کو اللہ تعالی نے جس علم و فضل، بصیرت و حکمت اور عصر حاضر کی مزاج شناسی عطا فرمائی تھی۔ انکے تحریر کردہ تفسیری فوائد میں جگہ جگہ ان کا اظہار ہوا۔ اور اس طرح فوائد عثمانی نے ایک ایسی مختصر مگر جامع اور عصر حاضر کی ضرورتیں پوری کرنے والی تفسیر کی جگہ لے لی۔ جسکی مثال اردو میں موجود نہ تھی۔ حضرت علامہ عثمانی نے خاص یوم عرفہ کو وقوف عرفات کے وقت ۱۳۵۰ء کو دیو بند میں اس کام کی تکمیل فرمائی ۔

حضرت علامہ عثمانی کے تجھے علمی اور تقریر و تحریر کی سحر انگیزی کا اندازہ اہل علم ہی کر سکتے ہیں ۔ تحریک پاکستان میں علمائے کرام کی جماعت کے سرخیل حضرت علامہ عثمانی ہی تھے۔ احقر کے والد ماجد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب حضرت عثمانی کے دست راست اور سب سے زیادہ معتمد علیہ تھے۔

احقر کو اپنی نوجوانی میں والد ماجد کے ساتھ حضرت عثمانی کی خدمت میں حاضری کی سعادت کثرت سے حاصل رہی۔ اگر چہ اس بے فکری کے زمانے میں نہ حضرت کے علمی مقام کا کوئی شعور تھا اور نہ اس باکمال شخصیت کے کمالات کا کوئی اندازہ۔ البتہ کراچی کے پر ہجوم جلسوں میں حضرت عثمانی کی سحر انگیز تقاریر کی اہمیت کا اثر آج بھی قلب میں محسوس ہوتا ہے۔ 

تفسیر عثمانی کی بعض خصوصیات:

تفسیر عثمانی کی اصل علمی خصوصیات کا اندازہ کرنا تو اہل علم کا کام ہے۔ لیکن اسکی خصوصیات جو مجھ جیسے ایک عام آدمی کو بھی بسورت نظر آجاتی ہیں ۔ مندرجہ ذیل ہیں۔

  1. مختصر ہونے کے باوجود قرآن کریم کے منشاء و مقوم کی تعبیر میں اپنی جامع ہے کہ اکثر مقامات پر قرآن کریم کے طالب علم کو بڑی تفسیر سے مستغنی کر دیتی ہے۔
  2. قرآن کریم کی آیات کا باہمی ربط اتنا واضح ہے کہ مسلسل ترجمہ پڑھنے والے کو کہیں ربط کی کمی کا احساس نہیں ہوتا۔
  3. قرآن کریم کی مختلف آیات میں جہاں جہاں ظاہری تعارض معلوم ہوتا ہے ان آیات کی طرف مراجعت کر کے رفع تعارض کی سہل تقریر کی گئی ہے۔
  4. عصر حاضر میں پیدا ہونے والے اشکالات کا شافی جواب دیا گیا ہے ۔ اور اکثر مقامات پر اپنے دلنشیں انداز میں عقلی دلائل بھی میاکئے گئے ہیں۔
  5. جن مقامات پر ایک سے زائد تفسیری آراء پائی جاتی ہیں وہاں راجع تفسیر کو ترجیحی وجوہات کے ساتھ اختیار فرمایا ہے۔
  6. اہل علم کیلئے اکثر مقامات پر ایسے لطیف علمی اشارات کر دیئے گئے ہیں جن سے ان مقامات پر متوقع دشواریوں کے حل کی طرف رہنمائی ملتی ہے۔
  7. زبان کی سولت اور جدید محاورات کی مطابقت کا اتنا غیر معمولی اہتمام فرمایا کہ ساٹھ سال گزر جانے پر بھی اس تفسیر کی زبان آج کی زبان معلوم ہوتی ہے۔

تفسیری عنوانات کا اضافہ :

زمانے کے ساتھ ساتھ ضرورتیں بھی بدلتی رہتی ہیں۔ اب تک تفسیر عثمانی قرآن کریم کے مایے ہی پر طبع ہوتی رہی ہے۔ اس زمانے میں طبیعتوں کی مسل پسندی اور بڑھ گئی۔ اور حاشیوں کا رواج رفتہ رفتہ ختم ہونے لگا۔ اب تک جس انداز میں تفسیر عثمانی چھپتی رہی ہے۔ اسکی صورت یہ ہے کہ بین السطور ترجمے میں جہاں تفسیری فائدہ دیتا ہے۔ اس کا نمبر دیدیا جاتا ہے اور بروی نمبر حاشیہ پر دے کر اسکے تحت تفسیر لکھ دی جاتی ہے اور پھر صفحہ کے فوائد کا نمبر ایک سے شروع ہوتا ہے اس صورت میں قباحت یہ ہے کہ ہر صفحہ کے تفسیری فوائد کو اسی صفحہ تک محدود رکھنا اکثر ممکن نہیں ہوتا۔ اس طرح ایک آیت کا تفسیری قائدہ اگر دیکھتا ہے تو ضروری نہیں کہ وہ مضمون اسی صفحہ پر مل جائے ۔ وہ کسی انگلے صفحہ پر دیکھنا ہوتا ہے اور اس طرح استفادہ میں دشواری پیش آتی ہے۔ دوسری قباحت یہ ہے کہ حاشیہ میں جگہ کی کمی کی وجہ سے قلم باریک ہوتا ہے اور پڑھنے والے کو ایک انجمن سی محسوس ہوتی ہے۔ اور چونکہ اس زمانے میں اشاعت و طباعت کی سولتوں کی وجہ سے جدید کتابیں بہت صاف  اور سہل ہوتی ہیں۔ اس لئے اس قدیم طرز کے حاشیوں کو دیکھ کر ہی عام پڑھنے والا گھبراہٹ محسوس کرتا ہے ۔ چنانچہ خود مجھے بھی جب کبھی استفادہ کی ضرورت پیش آئی تو معارف القرآن کی آٹھ جلدوں پر مشتمل تفسیر سے استفادہ نسبتا زیادہ آسان معلوم ہوا۔ ان وجوہات کی وجہ سے تفسیر عثمانی کی افادیت بھی متاثر ہونے لگی ۔ اب پھر یہ ضرورت پیش آئی کہ جدید تقاضوں کے مطابق اسکی نئی کتابت و طباعت ہو اور معاشیہ کی بجائے یہ تفسیری فوائد باقاعدہ تفسیر کے متن کے طور پر شائع کئے جائیں ۔

جس وقت احقر نے یہ مضمون تحریر کیا تھا برادر محترم ہمارے درمیان موجود تھے اور اس کام کی تکمیل پر بے اندازہ خوشی کا اظہار فرمایا۔ اور مجھے انعام سے بھی سرفراز فرمایا۔ تقریبا دس ماہ کی تکلیف دہ علالت کے بعد اللہ کا حکم پورا ہوا اور وہ 11 اگست 1990ء کو اپنے مالک حقیقی سے باہلے ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون اللہ تعالی انہیں وہاں لیتی رہنا اور مغفرت کے انعامات سے نوازے۔ آمین

میرے برادر محترم مولانا محمد رضی عثمانی ( مالک دار الاشاعت کراچی ) کی ایک طویل عرصہ سے یہ خواہش تھی کہ وہ اسکے تفسیری فوائد پر عنوانات کا اضافہ کروا کے اسکو جدید طرز کے مطابق از سر نو شائع کریں ۔ میرے بھتیجے اور برادر محترم کےصاحبزادے عزیزم خلیل اشرف سلمہ نے شعبان ۱۴۰۴ھ کے آخر میں مجھ سے اس خواہش کا اظہار بھی کیا اور درخواست بھی کہ تفسیری عنوانات کا کام میں کردوں ۔ اس کام کی اہمیت اور افادیت میں تو کوئی شبہ نہیں تھا لیکن اس کا کبھی وہم بھی نہیں گزرا تھا کہ مجھ جیسے بے علم و عمل آدمی کے بارے میں بھی سوچا جا سکتا ہے کہ تفسیر عثمانی کی اس علمی خدمت کی کوئی اہلیت اس میں موجود ہے۔ پھر یونیورسٹی میں اپنی تدریسی مصروفیات کے علاوہ پچھلے تقریبا ڈھائی سال سے بائبل سے قرآن تک ( اردو ترجمہ اظہار الحق ) جو تین جلدوں پر مشتمل ہے اسکے انگریزی ترجمے کے کام میں مصروف تھا اور اس وقت تیسری بلد کا آغاز ہی کیا تھا۔ اسکے علاوہ بھی کچھ دوسرے تحریری کاموں میں مشغول ہونے کی وجہ سے اس نے کام کو شروع کرنے کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ لیکن ساتھ ہی یہ لانچ بھی قوت کے ساتھ دل میں پیدا ہوا کہ اگر حق تعالی شانہ مدد فرمائیں اور اس انقر سے قرآن کریم کی یہ خدمت ہو سکے تو یہ ایک ایسی نعمت اور سعادت ہوگی کہ جس کا تصور بھی انقر نہیں کر سکتا ۔ بردار عزیز جسٹس مولانا تقی عثمانی سلمہ اللہ تعالی سے اس کا ذکر آیا تو انہوں نے بھی اصرار سے اس کام کی تائید کی اور اس طرح اس خدمت کیلئے کچھ ہمت پیدا ہونے لگی ۔ رمضان المبارک شروع ہو گئے اور آخر یہ ہمت ارادے کی شکل اختیار کر گئی چنانچہ  9 رمضان المبارک ۱۲ اپریل ۱۹۸۹ء کی شب میں اللہ تعالی کی مدد کے بھروسے سے احقر نے اس کام کی ابتداء کر دی ۔ اور دوسرے تحریری کاموں کو فی الحال ملتوی کر دیا ۔ اس کام کی ابتداء میں ایک طرف تو یہ خیال انتہائی مسرور کن تھا کہ اس تفسیر میں جن اکابر کے نام شامل ہیں انکے نام کے ساتھ اس سراپا خطا کار و روسیاہ کا نام بھی شامل ہو گیا تو یا بعید ہے کہ ان حضرات کی برکت سے حق تعالی شانہ اس احقر کے ساتھ بھی آخرت میں رحمت کا معاملہ فرما دیں اور جس طرح گندم کے ساتھ خس و خاشاک بھی اسی قیمت پر تل کر چلے جاتے ہیں اس طرح شائد حق تعالی شانہ ان بڑے ناموں کے ساتھ احقر کو بھی خس و خاشاک کی طرح قبول فرما لیں۔ دوسری طرف اپنی بے بنا عتی، بے علمی اور بے عملی کے پیش نظر یہ خوف بھی طاری رہا کہ اپنی نا اہلی کے باوجود اس کام کی جرات پر کہیں موائدہ نہ جائے۔

الحمد لله 9 رمضان المبارک ۱۳۰۰ ه ۱ اپریل ۱۹۸۹ء کو شروع کر کے و صفر المظفر ۱۳۱۰ھ ستمبر ۱۹۸۹ء کو پورے پانچ ماہ میں اسکی تکمیل ہوگئی۔ اگر یہ کوئی مفید کام ہوا ہے تو حق تعالی شانہ کی دی ہوئی توفیق اور سعادت کے شکر کیلئے میرے پاس الفاظ نہیں، ورنہ میرے لئے یہ بھی بڑی کامیابی ہوگی کہ آخرت میں حق تعالی شانہ کا یہ مواخذہ نہ ہو کہ تو نے یہ جرات کیوں کی ؟ 

رب اغفر وارحم وانت خير الراحمين ۔

تفسیر عثمانی میں اس وقت احقر نے جو کام کئے ہیں وہ دو میں۔ ایک تو یہ کہ ہر سورت کے فوائد کے نمبر مسلسل لگائے گئے ہیں اور وہی نمبر بین السطور ترجمے میں دیئے گئے ہیں۔ مثلاً سورہ بقرہ میں جتنے فوائد ہیں، جو تین سو سے زائد میں ان کے نمبر ایک سے شروع کر کے آخر تک مسلسل لگائے گئے ہیں۔ اس سے قرآنی آیت یا الفاظ کے متعلقہ فائدے کو دیکھنا پہلے کے مقابلے میں بہت سہل ہو جائے گا۔ دوسرا اصل کام تفسیری عنوانات قائم کرنے کا ہے اس کام کی مشکلات اور دشواریوں کا اندازہ احقر کو کام شروع کرنے کے بعد ہی ہوا۔ مثلاً ایک عام دشواری تو یہ ہی تھی کہ قرآن کریم کی ایک آیت میں متعدد مضامین ہوتے ہیں ان میں سے کس مضمون کو عنوان بنایا جائے اس کا یہ فیصلہ اکثر مقامات پر سخت دشوار ہوا۔ اسکے علاوہ بھی اس کام میں کیا تزاکتیں اور عملی دشواریاں ہیں اس کا اندازہ اہل علم کر سکتے ہیں ۔ ان کا تذکرہ غیر ضروری طوالت کا سبب ہو گا۔

تفسیری عنوانات قائم کرنے کے وقت جو امور انقر کے پیش نظر رہے یا جو فوائد اور سولتیں اس اضافے سے متوقع  ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں۔

  1. کل تفسیری عنوانات کی تعداد لگ بھاگ پانچ ہزار ہے۔
  2. ان تفسیری عنوانات کی فہرست در حقیقت تفسیر عثمانی کا ایک تفصیلی انڈکس ہے جو خود مستقل افادہ کی چیز ہے ۔
  3. ہر سورت کے تفسیری عنوانات پر نظر ڈالنے سے اس سورت کے مضامین سے اجمالی واقعیت چند لمحوں میں حاصل ہو جاتی ہے ۔
  4. احقر نے عنوانات قائم کرنے کے وقت حضرت مولانا عثمانی کے فوائد ہی کو بنیاد بنایا ہے اور اس پر سختی سے عمل کیا ہے مثلا قرآن کے ظاہری الفاظ سے ایک عنوان بظاہر متعین معلوم ہوتا ہے مگر تفسیر میں اس طرف التفات نہیں کیا گیا تو تقسیم ہی کے مطابق عنوان اختیار کیا گیا ہے ۔
  5. ایک تعمیری فائدے میں اگر ایک سے زائد مضامین بیان ہوئے ہیں تو اس موقع کے مناسب اگر تفسیر میں واضح طور پر کسی ایک مضمون پر زور ہے تو وہاں اس مضمون کو عنوان بنایا گیا ہے۔
  6. بعض تفسیری فوائد میں حضرت علامہ نے طویل کلام کیا ہے۔ اس میں اگر کوئی اہم علمی بختہ یا کوئی مفید مضمون آیت کی تفسیر کے ذیل میں آگیا ہے تو اس جگہ کوئی نیا نمبر لگائے بغیر ایک نیا عنوان قائم کر دیا گیا ہے۔ اسلئے یہ ضروری نہیں کہ ایک فائدہ کا صرف ایک ہی عنوان ہو۔
  7. قصص اور واقعات کی تکرار میں اکثر مقامات پر قرآن کریم نے کہیں کہیں معمولی فرق کیا ہے۔ مثلاً حضرت موسی  حضرت نوح اور دوسرے انبیاء علیم السلام کے واقعات مختلف جگہوں پر بار بار آئے ہیں۔ ان میں جہاں کوئی نئی تفصیل یانی اطلاع موجود ہے اسکے عنوان میں شامل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس طرح واقعات کی مختلف تفصیلات فہرست مضامین سے آسانی سے معلوم کی جاسکتی ہیں۔
  8. یہ اہتمام نہیں کیا گیا کہ صرف ان تفسیری فوائد پر عنوان لگایا جائے جنکی عبارت کچھ طویل ہو، بلکہ اگر کسی جگہ صرف ایک سطر کا فائدہ ہے اور اس کا مضمون عنوان کا متقاضی ہے تو وہاں بھی عنوان قائم کر دیا گیا ہے۔
  9. حتی الوسع احتیاط کے باوجود اس کام میں بہت جگوں پر احقر سے سو و خطا کا صدور یقینا ہوا ہو گا۔ اسکے لئے درخواست ہے کہ احقر کو یا ناشر کو ان مقامات کی نشاندہی فرما دیں تو انکو آئندہ طباعت میں درست کر لیا جائے۔ آخر میں بارگاہ رب العالمین میں دست بدعا ہوں کہ وہ اس حقیہ کوشش کو قبول فرما کر اسکو پڑھنے والوں کیلئے مفید اور انقر کیلئے دین و دنیا کا سرمایہ بنا دے۔ آمین ۔

محمد ولی رازی

۳۲۷ - بی اشرف منزل - گارڈن ایسٹ کراچی نمبر ۵ 
مورخہ یکم ربیع الاول ۱۳۱۰ ۳ اکتوبر ۶۱۹۸۹

 

Comments