نئی نسلوں کو باقی رکھنے کے لئے معیاری اسکولوں کی ضرورت: مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ

 

نئی نسلوں کو باقی رکھنے کے لئے معیاری اسکولوں کی ضرورت:

 مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ 



نئی نسل میں دینی تعلیم کے فروغ کے لئے حضرت مولانا کی کوششیں۔۔
بقلم: عبداللہ دامدا ابو ندوی
(دینی تعلیمی کونسل کے حوالے سے)

حضرات! 

مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی تمام تقریریں اور تحریریں ایک جگہ جمع کی جائیں اور محققین اور ریسرچ کرنے والے ان تقریروں اور تحریروں کے بنیادی عناوین پر غور کریں تو بلاشبہ ان تمام عناوین میں سب سے زیادہ اور سب سے مقدم تحفظ ایمان وتحفظ شریعت اور ’’نئی نسل میں ایمان کے فروغ کی کوششیں‘‘ جیسے عناوین رہیں گے۔ نئی نسل کے ایمانی تحفظ اور ان کو دین کے بنیادی علوم سے واقف کروانا‘‘ یہ مولانا مرحوم کے مشن کا بنیادی مقصد تھا۔

آزادئ ہند کے خوں چکاں واقعے کے بعد مسلمانوں کو درپیش مسائل میں سب سے بڑا اور سب سے اہم مسئلہ تعلیم کا تھا، یوں تو حکومت وقت نے یہ پالیسی منظور کی تھی کہ سیکولر حکومت میں تعلیم بھی سیکولر رہے گی اور دین و مذہب سے اس کوکوئی سروکار نہ ہوگا لیکن وقت اور حالات کے نشیب و فراز نے بہت جلد اس پالیسی سے پہلو تہی اختیار کرلی اورحکومت نے اپنے نصاب میں ایسی چیزیں شامل کیں جس سے مسلمان کے عقیدے اور ایمان پرضرب لگ رہی تھی.

مولانا ؒ نے لکھا ہے:

’’موجودہ تعلیمی نظام صرف لادینی ہی نہیں وہ ایک مثبت و معین نظامِ تعلیم ہے ،ہندو دیو مالا اس میں شامل ہے،انگریزوں کے زمانے میں تعلیم سیکولر تھی، بلی کتے کے قصے ہوتے تھے، اس وقت زبان سکھانے والی ابتدائی کتابوں سے نہ کسی کے عقیدے پر اثر پڑتا تھا نہ کسی مخلوق کا تقدس پیدا ہوتا تھا اور نہ اس کائنات میں کسی مخلوق کا تصرف و اختیار معلوم ہوتا تھا، اس وقت بھیڑیے، چیتے، بندر اور لومڑی اور بلی کتے کے قصے بچے پڑھتے تھے، ویسے کے ویسے ہی گھر آتے تھے جیسے جاتے تھے، لیکن اب صورتحال یہ نہیں ہے، سرکاری نصابی کتابوں میں عقیدہ پر اثر ڈالنے والے اسباب، قصے کہانیاں اور مضامین ہوتے ہیں جو کسر کتابوں میں رہ جاتی ہے وہ ماسٹر صاحبان پوری کرتے ہیں، بچوں کو کچھ اجتماعی کام ایسے کرنے پڑتے ہیں جو اسلام کے عقیدۂ توحید کے منافی ہیں‘‘۔

(خطبات علی میاں۔ جلد اول۔ ص :۲۱۸)

مولاناؒ نے ملت اسلامیہ ہندیہ کو اس سے باخبر کیا اور بار بار باخبر کیا ۔جب مولانا ؒ نے ۱۹۹۹ ؁ ء میں بھٹکل کا دورہ کیا اس وقت آخری خطاب میں مولانا مرحوم نے نئی نسل کے متعلق تشویش ظاہر کرتے ہوئے بڑے درد سے فرمایا تھا کہ’’ آج ہندوستان میں جو خطرات پیدا ہوگئے ہیں،مسلمانوں اور اسلام کے لیے اور معاذ اللہ نسلی ارتداد کا جو خطرہ پیدا ہوگیا ہے کہ اب جو نسل پیدا ہوگی،ہندوستان میں،اس کو اسلام کی تعلیمات اور جو بنیادی عقائد ہیں اور جو امتیازات ہیں مسلمانوں کے،ان سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔آپ اپنے بچوں کا اور آئندہ نسل کا پورا انتظام کریں کہ وہ نسل پوری اسلام پر تیار اور عقائد کے لحاظ سے بھی جذبات کی حیثیت سے بھی،اپنی ثقافت وکلچر کے لحاظ سے بھی اور ذہنیت کے اعتبار سے بھی آیندہ نسلوں کا انتظام کریں۔ 

(ملت اسلامیہ کا مقام و پیغام)

اس وقت نصاب تعلیم میں ہندوانہ عقائد و خیالات اور ہندو تہذیب و روایات کو اس طرح ٹھونسا گیا کہ ان کا مقصد ہندو تہذیب و روایات کی تبلیغ کے سواکچھ نہ تھا،یہاں تک کہ مسلمانوں کے سامنے دو باتیں رہ گئیں کہ یا تو اپنی نسلوں کے دینی اور تہذیبی ارتداد پر راضی ہوجائیں(العیاذ باللہ)یا پھر اس فیصلے کے ساتھ کھڑے ہوجائیں کہ ہمیں اللہ کی مدد سے ایک ایک مسلمان بچے کو ارتداد کے طوفان سے بچانا ہے۔جب وندے ماترم کی ترویج اور سرسوتی کے سامنے اظہار عقیدت کو لازم کیے جانے کا معاملہ سامنے آیا تو مولانا نے اس معاملے کی سخت مذمت کی،اور کہاکہ:

’’اگر اس کو بدلا نہ گیا تو ہم بچوں کو درسگاہوں سے ہٹالیں گے‘‘۔

چناں چہ اس کا بہت اثر رہا اور حکومت نے اس کا خاص نوٹس لیتے ہوئے اپنے حکم نامے کو واپس لیا۔

جب معاملہ ہندو پوروج کا آیا اور اس پر زور دیا گیا کہ قدیم ہندوستان کی بزرگ شخصیات کو ہر ہندوستانی اپنا بزرگ اور مقتدا مانے،اور اس کے ساتھ یہ نوٹ بھی چڑھا دیا گیا کہ جو ان کو مقتدا اور رہنما نہ مانے وہ اپنے آپ کو ہندوستانی نہ کہے،اس وقت یوپی حکومت نے اس کو سختی کے ساتھ لازمی کیا تھا اور اسمبلی کے ا سپیکر ٹنڈن نے سخت رویہ اختیار کیا تھا ۔اس صورتحال پر مولانا بے چین ہوگئے،اس لیے کہ مولانا نے اس کو نئی نسل کے ایمان و عقیدے اور ان کے دین و شریعت کے لیے خطرہ سمجھا ،آنے والی نسلوں کے ذہن و قلب میں انبیاء ،صلحاء اور اتقیاء کی عظمت ہونے کے بجائے غیروں کے سنت سادھؤوں کی عظمت ہونے کا خطرہ محسوس کیا اور اس طرح کا دباو اور اسی پر اصرار جمہوری نظام کے بھی خلاف تھا۔مولانا نے اپنے خامۂ معجز نما کو حرکت دی ،اس ظالمانہ رویے کی مذمت کی،سختی کے ساتھ اہل اقتدار کو خط لکھا،اوران کو ہندی اور انگریزی میں رسالہ کی شکل میں شائع کیا،اور پھر اس کام کو باقاعدہ جاری رکھنے کے لیے مجلس اشاعت کے نام سے لکھنؤ میں دفتر بھی قائم کیا۔

اس پُرفتن دور میں جہاں ایک طرف حکومت اور اس کی ایجنسیاں اور لابیاں نئی نسل کو کفرو الحاد اور شرک و ارتداد کے گھڑے میں ڈالنے کا عزم لیے پوری طرح تیار تھیں، وہیں دوسری طرف ملت کے چند باشعور اور دور بیں حضرات اس طوفان بلا خیز کے مقابلے کے لیے کمربستہ تھے ۔اللہ نے اس وقت قاضی محمد عدیل عباسی صاحب ؒ کو توفیق دی اور انھوں نے نئی نسل کو غیروں کے چنگل سے بچانے کے لیے اور نئی نسل کو کفر و الحاد کی راہ سے ہٹانے کا بیڑا اٹھایا۔

انھوں نے ایک کارآمد تدبیر یہ اختیار کی کہ 

  • مسلمان بچوں کو حکومتی نظام تعلیم سے روکے بغیر ان کے لیے پرائمری سطح پر ایک متوازی اسلامی تعلیم کا نظم کریں، جو اسکول کے اوقات کے علاوہ اوقات میں دی جائے،
  • اس کے علاوہ کل وقتی آزاد،خود کفیل مکاتب کے قیام کی کامیاب تحریک کا آغاز بھی کیا اور
  •  مسلمانوں کے سامنے تجویز رکھی کہ یہ پورا نظام تعلیم خود مسلم عوام کے ایسے معمولی تعاون سے چلایا جائے جو ان کے لیے قابل برداشت ہے۔

اس تعلیمی اور تربیتی مشن کو انھوں نے اس وقت کے مخلصین اور ملت کے درد رکھنے والے علماء اور دانشواران کے سامنے رکھا۔جب حضرت مولانا سید ابوالحن ندوی ؒ کے سامنے یہ تجویز پیش ہوئی تو انھوں نے نئی نسل کے ایمانی تحفظ کی اس تحریک کو نہ صرف سرا ہا بلکہ دامے،درمے ،سخنے قدمے رفیق بن گئے۔

اس لیے کہ بقول حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی مدظلہ العالی:

’حضرت مولانا رحمۃ اللہ علیہ کو ہندوستان کی آزادی کے وقت ہی سے خاص طور پر اس مسئلہ کی بڑی فکر ہوگئی تھی،چناں چہ انھوں نے اس کے لیے جگہ جگہ تقریریں کیں اور ذمہ دارانِ حکومت کو خطوط کے ذریعے متوجہ کرنے کی کوشش کی،اور دینی تعلیمی کونسل کی تشکیل کے وقت ہی سے اس کو اپنی توجہات سے تقویت پہنچائی،اس سلسلہ میں ان کی صدارتی تقریریں ،مختلف موقعوں پر ان کے خطابات ،ان کی اسی توجہ و فکر مندی کے آئینہ دار ہیں۔‘‘

(مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ؒ عہد ساز شخصیت ص۲۱۴)

ان کے علاوہ حضرت مولانا منظور احمد نعمانی ؒ بھی ان کے ساتھ برابر کے شریک رہے۔اور یہ باقاعدہ ’’دینی تعلیمی کونسل ‘‘کے نام سے ادارہ تشکیل پایا۔پہلے پہل یہ کونسل مخصوص علاقوں تک محدود تھی،لیکن مولانا ؒ اور مولانا منظور صاحب ؒ کے اصرار پر اس کو صوبائی پیمانے پر عام کیا گیا۔اور ۳۰/۳۱/دسمبر ۱۹۵۹ء اور یکم جنوری ۱۹۶۰ ء کی تاریخوں میں ایک صوبائی دینی کانفرنس بلائی ۔

مولانا ؒ نے کاروان زندگی میں اس کانفرنس کے متعلق لکھا ہے کہ:

اس کانفرنس میں صرف صوبہ ہی نہیں بلکہ صوبہ کے باہر سے بھی ممتاز مسلمان دانشوروں ،تعلیمی مسئلہ سے دلچسپی رکھنے والوں ،قومی کارکنوں اور تنظیموں کے سربراہوں کو بلایا،اس پہلی کانفرنس کی صدارت کے لیے قرعۂ فال میرے نام نکلا ،کونسل کی صدارت کے لیے بھی میرا ہی انتخاب ہوا۔یہ کانفرنس اور اس میں پیش کیا گیا خطبہ ایک طرح سے اس سفر اور سمت میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے،اور ہندوستانی مسلمانوں کے ملی تشخص اور ان کے بنیادی مسائل کی تاریخ لکھنے والا اس کو نظر انداز نہیں کرسکتا۔تقسیم ہند کے بعد مشکل سے دوایک تحریکیں ہوں گی جو دینی تعلیمی کونسل کی تحریک کی طرح ٹھوس،بنیادی اور وقت کے اہم ترین مسئلہ پر شروع کی گئی ہوں گی۔ 

(کاروان زندگی حصہ اول، ص ۴۶۲)

تعلیمی کونسل کے ایک اجلاس میں فرمایا کہ:

 ’’ہماری پہلی دینی تعلیمی کانفرنس کے موقع پر نہ صرف یہ کہ عصر حاضر کے تقویم کے دو سال گلے مل رہے تھے اور سال کہن سالِ نو کو اپنی ذمہ داریوں اور غیر مختتم کاموں کی امانت سپرد کررہا تھا بلکہ ہندوستان کی ملتِ اسلامیہ کے اکثرو بیشتر اہلِ درد و اصحاب فکر ملت کے درد اور تلخ کامی کے احساس کے ساتھ مشورہ اور تبادلۂ خیال میں مصروف اور ملت کی حفاظت و خدمت کے لیے شیرو شکر اور ایک جان دوقالب ہورہے تھے،اسی مبارک اجتماع سے دینی تعلیمی کونسل کا وجود عمل میں آیااور ایک منزل کے مختلف اور متفرق مسافر نیا قافلہ بنا کر نئے عزم و حوصلہ ،نئی صدائے جرس اور نئے بانگِ درا کے ساتھ منزل کی طرف رواں ہوئے‘‘۔

 

مولانا ؒ نے اپنی سیکڑوں تقریروں میں

’’ماتعبدون من بعدی‘‘

کی جامع تشریح کرکے نئی نسل کی ایمانی و اخلاقی پرورش اور ان کو ایمان پر باقی رکھنے کی تلقین کی۔مولانا نے اکثر کہا اور اس کے ذریعے اپنی دلی خواہش کا اظہار کیا کہ :

’’اگر مجھ سے کوئی پوچھے کہ ملت کے لیے صرف ایک پوسٹر بنانا ہے اور صرف ایک جملہ کی گنجائش ہے۔اس کے علاوہ کچھ نہیں تو میں کہوں گا کہ ’’ماتعبدون من بعدی‘‘لکھ دو،پوسٹر کے نیچے لکھو کہ ہر مسلمان اپنی اولاد سے دنیا سے جانے سے پہلے سوال کرے اور جب تک دنیا میں ہے اپنا جائزہ لے،محاسبہ کرے کہ اس کے نزدیک اس کی اہمیت ہے یا نہیں؟وہ اپنے بچوں کے لیے آئندہ نسل کے لیے یہ اطمینان کرنا ضروری سمجھتا ہے یا نہیں۔اور یہ سوال افراد کے پیمانے پر ،خاندان کے پیمانے پر ،برادری کے پیمانے پر اور آخر میں کہتاہوں کہ ملت کے پیمانے پر اور ملت ہندیہ اسلامیہ کے پیمانے پر ہمارے دلوں پر نقش ہے یا نہیں؟‘‘

 (تکبیر مسلسل ۴۷۰)

مولانا نے دینی تعلیمی کونسل کے پلیٹ فارم سے پوری ملت کے نام پیغام دیا کہ

 ’’میری تمام درد مند مسلمانوں سے اپیل ہے کہ وہ دینی تعلیمی کونسل کے کاموں کو آگے بڑھانے کی کوشش کریں اس کی شاخوں اور ضلعی مرکزوں کو وسیع کرنے اور اس کے قائم کردہ مکاتب کو مضبوط و منظم کرنے کی فکر کریں‘‘۔

دینی تعلیمی کونسل کی اہمیت و افادیت روز بروز بڑھے گی اور شدت سے محسوس کی جائے گی،ہمارا فرض ہے کہ اس کی حفاظت کریں اور اس کو ترقی دینے کی کوشش کریں ،یہ وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے‘‘۔

دینی تعلیمی کونسل سے زیادہ ٹھوس،مفید اور تعمیری تحریک اور جدوجہد ادھر ایک طویل عرصے سے مسلمانانِ ہند کی تاریخ میں وجود میں نہیں آئی‘‘۔

 (تکبیر مسلسل ص ۹)

حضرت مولانا ؒ نے اپنی تحریروں اور تقریروں سے مغرب اور مغرب زدہ تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں کی بھر پور مذمت کی، جو دراصل تعلیم کے نام پر نئی نسل کو زہر کے پیالے دے رہے تھے،جس سے نئی نسل ایمانی اور اخلاقی انارکی کا شکار ہورہی تھی۔

ترجمان حقیقت علامہ اقبال ؒ کے بقول : ع

 اور یہ اہلِ کلیسا کا نظامِ تعلیم

ایک سازش ہے فقط دین و مروت کے خلاف

حضرت مولانا نے اس وقت مغرب کے ایوانوں میں جاکرصدائے احتجاج بلند کیا اور ببانگ دہل کہا کہ ع

دل بدل جائیں گے تعلیم بدل جانے سے

یہ وہ وقت تھا جب پوری کی پوری نسل یورپ کو اپنا قبلہ سمجھ رہی تھی اور جوق درجوق یہاں کا رخ کیا جارہا تھا ،نئی نسل اپنے امیدوں کا مرکز مغرب کی تعلیم گاہوں اور یونیورسٹیوں کو تصور کررہے تھے،اور اچھے اچھے اس سیلاب میں بہے جارہے تھے،

 

بقول پروفیسر عبدالرحیم قدوائی صاحب کے: 

مغرب کا عفریت پوری دنیا بالخصوص عالم اسلام کو اپنے شکنجے میں جکڑے ہوا تھا ترکی میں بنیادی اور قدیم ترین اسلامی ادارے خلافت کا سقوط ،پورے عالم عرب پر سیاسی بالا دستی اور ثقافتی یورش ،عالم اسلام کے عین قلب اور قبلہ اول میں صہیونیت کی سرپرستی،بلقان ،طرابلس ،سودان افغانستان حتی کہ حجاز مقدس میں مسلح افواج کا نرغہ اور خود ہندوستان میں پے درپے اور منظم طور پر ایسے اقدام جن کی زد مانند برق مسلمانوں کے تشخص اور اجتماعی مفادات کو خاکستر کررہی تھی۔

نئی نسل کی تعلیم وتربیت غیر ذمہ دارانہ اور غیر اسلامی ماحول (مغربی اور لادینی ماحول )میں دینے سے ہونے والے نتیجے کی طرف مولانا مرحوم نے اپنی کتاب مسلم ممالک میں اسلامیت اور مغربیت کی کشمکش میں کچھ یوں روشنی ڈالی ہے:

’’اس وقت مغرب ایک اخلاقی جذام میں مبتلا ہے،جس سے اس کا جسم برابر کٹتا اور گلتا چلا جارہا ہے،اور اب اس کی عفونیت پورے ماحول میں پھیلی ہوئی ہے،اس مرضِ جذام کا سبب (جو تقریباً لاعلاج ہے)اس کی جنسی بے راہ روی اور اخلاقی انارکی ہے،جو بہیمیت و حیوانیت کے حدود تک پہنچ گئی ہے۔لیکن اس کیفیت کا بھی حقیقی و اولین سبب عورتوں کی حد سے بڑھی ہوئی آزادی ،مکمل بے پردگی،مرد و زن کا غیر محدود اختلاط،اور شراب نوشی تھی ،کسی ملک میں اگر عورتوں کو ایسی ہی آزادی دی گئی ،پردہ یکسر اٹھادیا گیا،دونوں صنفوں کے اختلاط کے آزادانہ مواقع فراہم کیے گئے ،مخلوط تعلیم جاری کی گئی تواس کا نتیجہ اخلاقی انتشاراور جنسی انارکی ،سول میرج ،تمام اخلاقی و دینی حدود و اصول سے بغاوت اور بالاختصار اس اخلاقی جذام کے سوا کچھ نہیں جو مغرب کو ٹھیک انھیں اسباب کی بنا پر لاحق ہوچکا ہے۔

جب کوئی ایسی قوم جو متعین و محکم عقائد ،مستقل فلسفۂ حیات اور مسلکِ زندگی ،اپنی ایک مستقل تاریخ (جو محض ماضی کا ایک ملبہ نہیں بلکہ آیندہ نسلوں کے لیے نشانِ راہ کی حیثیت) رکھتی ہے ،اور جس کے لیے پیغمبر کی شخصیت اور اس کا زمانہ آئیڈیل کی حیثیت رکھتا ہے،جب کسی ایسی قوم یا دور کا نظامِ تعلیم قبول کرتی ہے،جو اساس و بنیاد اور مثال و معیار میں اس سے مختلف بلکہ اس کی ضد واقع ہوئی ہے،تو قدم قدم پر تصادم ہوتا ہے،اور ایک کی تعمیر دوسرے کی تخریب ،اور ایک کی تصدیق دوسرے کی نفی و تردید ،ایک کا احترام دوسرے کی تحقیر کے بغیر ممکن نہیں،ایسی حالت میں پہلے ذہنی کشمکش پھر عقائد میں تزلزل ،پھر اپنے دین سے انحراف اور قدیم افکار و اقدار کے بجائے جدید افکارو اقدار کا آنا ضروری ہے۔

حضرت مولانا ؒ نے مغربی تعلیم کے اثر کی مثال کچھ اس طرح دی کہ :درخت اپنے طبعی نظام سے نشو نما پائے تو وہ اپنے برگ و بار ضرور پیدا کرے گا،اور وقت پر پھل لائے گا،انسانوں کو اس کا اختیار ہے کہ درخت نہ لگائیںیا اس کو پانی نہ دیں،یا جب تیار ہوتو اس کی ہستی کو ختم کردیں،مگر اس کا اختیار نہیں کہ ایک توانا و تندرست سرسبز و شاداب درخت کو اپنے نوعی و جود و شخصیت کے اظہار اور وقت پر پھل پھول لانے سے روک سکیں۔یہی معاملہ مغربی نظام تعلیم کا ہے،وہ اپنی ایک روح اور اپنا ایک منفرد ضمیر رکھتا ہے،جو اپنے مصنفین و مرتبین کے عقیدہ و ذہنیت کا عکس ،ہزاروں سال کے طبعی ارتقاکا نتیجہ،اہل مغرب کے مسلمہ افکار و اقدارکا مجموعہ اور ان کی تعبیر ہے،یہ نظام تعلیم جب کسی اسلامی ملک یا مسلمان سوسائٹی میں نافذ کیا جائے گا تو اس سے ابتداءً ذہنی کشمکش ،پھر اعتقادی تزلزل ،پھر ذہنی اور بعد میں (الاماشاء اللہ)دینی ارتداد قدرتی ہے۔(ص ۲۴۴)

گویا حضرت مولانا ؒ نے اپنے پسندیدہ شاعرڈاکٹر علامہ اقبالؒ کی زبانی فرمایا کہ: ع

خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقی سے مگر

لب خنداں سے نکل جاتی ہے فریاد بھی ساتھ

ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم

کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ

مولانا ؒ نے جب دیکھا کہ نئی نسل اردو سے کنارہ کشی اختیار کررہی ہے اور رسم الخط کی بخیہ ادھیڑی جارہی ہے،جس سے نئی نسل اپنے دین اور ایمان سے دور ہورہی ہے تو مولانا نے آخری درجے کی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے یہاں تک فرمایا کہ:

’’جو چیز کسی ملتت کو اس کے ماضی سے اس کے مذہب سے،اس کی تہذیب سے ،اس کے کلچر سے ملاتی ہے وہ رسم الخط ہے ،رسم الخط بدلا نسل بدل گئی،آج ہندوستان میں یہی ہورہا ہے، فرقہ وارانہ فسادات محض ملک کو بدنام کرتے ہیں،فائدہ ان کا کچھ نہیں ہے،تعلیم کا نظام بدلنا کافی ہے۔ایک طویل منصوبہ بندی ہے،ذرا دیر لگے گی،تیس چالیس برس میں خود ایک ایسی نسل تیار ہوجائے گی جس کے نزدیک کفر و ایمان کا فرق ،توحید و شرک کا فرق ،عقائد و مذہب کا فرق سب بے معنی باتیں ہوجائیں گی کچھ کرنا نہیں پڑے گا۔مسلمان ماں باپ اس ڈر سے کہ ہمارے بچے کا کیریر خراب ہوجائے گا ،اس کی مادری زبان اردو نہیں لکھواتے، اس کی دینیات کی تعلیم کا انتظام نہیں کرتے، بھلا ایمان کے ساتھ یہ بات جمع ہوسکتی ہے؟ مسلمان کی شان تو یہ ہے کہ اگر کسی طریقے سے یہ معلوم ہوجائے کہ اس کے بچے کی تقدیر میں اسلام نہیں ہے یا خدا نخواستہ مسلمان نہیں رہے گا تو دعا کرے کہ اللہ اس کو خیر وعافیت سے اٹھالے۔ یہ مسلمان کی شان ہے۔

(خطبات علی میاں جلد اول/ص۲۲۲/۲۲۳)

مولانا ؒ نے جب بھی کہا برملا اور بلاخوف و خطر کہا، نئی نسل کو دین پر بحال رکھنے اور ان کے دین و ایمان کی بقا کی کوششوں میں آپ نے ہر اذیت کو برداشت کیا،اس راہ کے کانٹوں کو بھی پھول سمجھا۔ حکومتوں اور ایجنسیوں کے دباؤ کی بھی پروانہ کی۔ جب وندے ماترم پر مولانا نے سخت ترین تنقید کی تو آپ پر حکومت کی طرف سے دباؤ ڈالا گیا، چونکہ مولانا کی آواز دور دور تک پہنچی تھی، اس لئے ہندوفرقہ پرست طاقتوں نے اس کا برا مانا اور ان کے قائدین نے سخت بصرے کئے اور مزید شاخسانہ یہ پیش کیا کہ (۲۲ نومبر ۱۹۹۸ کی رات) ان کی قیام گاہ رائے بریلی میں مسلم دشمن افراد نے داخل ہوکر خانہ تلاشی لی۔ مگر مولانا اپنے موقف پر پوری طرح ڈٹے رہے اور ان لوگوں کو اپنی حرکت پر ہر طرف سے سخت سے سخت سننا پڑا‘‘۔

مولاناؒ نے ملت اسلامیہ ہندیہ کے نونہالوں کے نام ہمیشہ خود اعتمادی، خود داری اور ایمان پر برقراری کی دعوت دی، ایمانی اور اخلاقی پہلووں کو سامنے ر کھ کر بچوں کا نصاب تیار کیا، تاکہ بچے بچپن ہی سے ایمان اور اخلاق ے زیور سے آراستہ ہوں۔ دوسرے الفاظ میں مولانا نے نئی نسل کے نام اکبر الہ آبادی کی زبانی یہی پیغام دیا:

تم شوق سے کالج میں پڑھو، پارک میں پھولو

جائز ہے غباروں میں اڑو ، چرخ میں جھولو

بس ایک سخن بندۂ عاجز کا رہے یاد

اللہ کو اور اپنی حقیقت کو نہ بھولو

(مضمون نگار ماہنامہ "پھول” کے مدیر ہیں)

 

Comments