15 سماجی و معاشی ولی اللہی نکات

15 سماجی و معاشی ولی اللہی نکات 

شاہ ولی اللہ کے افکار کے مطابق انسان اور انسانی معاشرے کے بارے میں یہ پندرہ نکات سامنے آتے ہیں:

01

(الف)   انسان میں ذاتی غرض کی بجائے مفادِ عامہ کو اپنانے کی خصوصیت موجود ہے۔

 (ب)    انسان ہر قسم کی پاکیزگی اور جمالیاتی حِس کا حامل ہے۔

  (ج)    وہ اپنے علم کو بڑھانے اور خود غرضی سے پاک مقاصد کو پورا کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔

اگر انسان یہ تینوں خصوصیات کھو بیٹھے تو وہ انسان کہلانے کا مستحق نہیں۔

02 

فرد اور معاشرہ دو الگ الگ چیزیں نہیں ہیں۔ ایک انسان کی تکلیف پوری انسانیت کی تکلیف ہے۔

03

معاشرے کی ترقی کے لئے تمام انسانوں کو معاشی طور پر خوشحال ہونا ضروری ہے۔

04

اگر وہ خوشحال نہیں ہوں گے تو وہ مذہب اور اخلاقی ضابطوں کی پابندی نہیں کر سکیں گے اور معاشرہ تباہ ہو جائے گا۔ اس لئے لوگوں کی خوشحالی کا مطلب ہے ایک صالح اور نظریاتی معاشرے کا قیام۔

05

اگر انسان کو صحیح ماحول اور مناسب تربیت میسر نہیں آئے تو وہ لالچی بن جاتا ہے۔ دوسروں کی محنت پر عیش کا خواہش مند ہو جاتا ہے۔ جب کوئی چیز ملتی ہے تو وہ اس میں اضافے کا خواہاں ہوتا ہے۔

06

زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی کوشش سے ایک نظام پیدا ہو جاتا ہے۔ جس میں چالاک لوگوں کا ایک طبقہ تمام وسائلِ پیداوار کا مالک بن بیٹھتا ہے۔ اس نظام میں غریبوں اور مزدوروں کی کوئی عزت نہیں ہوتی۔ وہ دولت مند غاصبوں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ یہ نظام قیصر و کسریٰ کا نظام ہے۔

07

اسلام قیصر و کسریٰ کے نظام کو توڑنے کے لئے آیا تھا۔

08

دولت کا حقیقی مالک خدا ہے۔ بنیادی طور پر کوئی چیز کسی کی ملکیت نہیں۔

09

خدا کی ساری زمین ایک مسجد اور سرائے کی طرح ہے جو اس نے تمام مسافروں کے لئے وقف کر دی ہے۔ اس سے فائدہ اٹھانے میں سب انسان برابر کے شریک ہیں۔

10

معدنیات کی کانیں (اور دیگر وسائلِ پیداوار) کسی ایک فرد کی ملکیت نہیں ہو سکتیں۔

11

معاشرے میں امدادِ باہمی کے اصول کو اس طرح رائج کیا جائے کہ کوئی شخص کسی دوسرے شخص کے لئے معاشی تنگی کا باعث نہ بننے پائے اور ہر شخص خوشحال زندگی بسر کر سکے۔

12

ایسے معاشی ادارے جڑ سے ختم کئے جائیں جن کے ذریعے دولت چند ہاتھوں میں جانے کا موقع ہے۔

13

معاشی استحکام اور غیر استحصالی نظام کے لئے ضروری ہے کہ ہر شخص کوئی نہ کوئی کام کرے اور اپنی روزی خود کمائے۔ دوسرے کی محنت سے فائدہ نہ اٹھا سکے۔

14

ایسے پیشے جو نہ تو براہ راست ملکی پیداوار میں مدد دےتے ہیں اور نہ پیداواری اداروں کی فہرست میں آتے ہیں یا جو پیشے صرف دولت مندوں کی عیش و عشرت میں مددگار کا کام دےتے ہیں ختم ہو جانے چاہئیں۔ ان پیشوں سے معاشرہ اخلاقی اور معاشی دونوں طرح زوال پذیر ہو جاتا ہے۔

15

صرف دَس بیس درہم، گھر کی ضرورت کا سامان، استعمال کی چیزیں اور دن رات کے کاروبار میں استعمال ہونے والی رقم اکتناز نہیں۔ اس سے زیادہ دولت کا ذخیرہ اکتناز ہے جو اسلام میں حرام ہے۔ 

Comments