تاویل الاحادیث فی رموز قصص الانبیاء از حضرت الامام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (عربی)

 

تاویل الاحادیث فی رموز قصص الانبیاء از حضرت الامام شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (عربی)

علوم وہبی میں شاہ صاحب کوعلمِ تاویل قصص الأنبیاء عطا فرمایا گیا۔
شاہ صاحبؒ فرماتے ہیں کہ اللہ پاک نے مجھ پر حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضور اقدس ﷺ تک قرآن حکیم میں جتنے قصص قرآنی اور انبیا کے واقعات بیان کیے گئے ہیں، ان کے صریح فہم اور ان کی تاویل و تفہیم کا دروازہ کھولا گیا۔ شاہ صاحبؒ نے اس پر ’’تاویل الأحادیث‘‘ کے نام سے ایک مستقل کتاب لکھی۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضور اقدسؐ تک انسانی معاشرے کے ارتقا کے کون کون سے مراحل ہیں اور ہر مرحلے میں کس نبی کا کام کس نوعیت کا ہے۔ تمام انبیا کے بنیادی اساسی اصول تو ایک تھے۔ شاہ صاحبؒ فرماتے ہیں کہ: 
’’إعلم أن أصل الدّین واحد، اتّفق علیہ الأنبیاء و إنّما الاختلاف فی الشّرائع و المناہج‘‘ 
(جاننا چاہیے کہ دین کے بنیادی اصول ایک ہیں۔ اس پر تمام انبیا متفق ہیں۔ ان کے درمیان شریعت اور منھج میں اختلاف پایا جاتا ہے۔) 
شاہ صاحبؒ نے اس کو علمی طور پر مرتب اور مدوّن کردیا۔ 
اس کتاب ’’تاویل الأحادیث‘‘ کے ساتھ ’’البدور البازغہ‘‘ کا تیسرا مقالہ ملا کر پڑھا جائے، جس میں اقوام اور ملل پر گفتگو کی ہے۔ قومیں کیسے تشکیل پذیر ہوتی ہیں؟ ملتیں کیسے وجود میں آتی ہیں؟ اس طرح حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضور اقدسؐ اور ملت ِابراہیمیہ حنیفیہ تک ملتوں کی اس بحث کو اس کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے تو قرآن حکیم میں بیان کردہ انبیا کی پوری تاریخ کا ایک مربوط خاکہ ذہن میں آجاتا ہے۔ انبیائے کرام ؑکے علمی اور عملی طریقۂ کار کی پوری نوعیت واضح ہوجاتی ہے۔ پھر اسی تناظر میں حضور اقدسؐ کی ارتفاقِ رابع یعنی بین الاقوامی نظام قائم کرنے تک کے کام کی نوعیت خوب روشن ہوکر سامنے آجاتی ہے۔ سیرتِ نبویؐ پر یوں تو بہت سے لوگوں نے کام کیا ہے، لیکن ’’تاویل الأحادیث‘‘ کے آخر میں جو نبی اکرمؐ پر جامع اور پُرمغز گفتگو امام شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے کی ہے، وہ لائق مطالعہ ہے۔ اس مختصر سے وقت میں ہم اس پر تفصیلی گفتگو نہیں کرسکتے۔ اس طرح ماضی کی تاریخ کے تجزیے پر مشتمل قصص قرآنی کی ایسی تشریح و تعبیر کی کہ جس سے ہر شعبۂ زندگی میں انعام یافتہ حضرات (انبیا، صدیقین، شہدا اور صالحین) کے فکر و عمل کی حقانیت اور مغضوب علیہم اور ضالین کے فکر و عمل کی گمراہی بڑی خوبی سے واضح ہوجاتی ہے۔ اس کی روشنی میں قرآنی علم الاحکام کی حقانیت کا پورا اثبات ہوجاتا ہے


 

Comments