بڑبڑاہٹ از قلم اسامہ سعید

بڑبڑاہٹ
انقلاب ایران سے پہلے"شاہِ ایران"خطے کی طرف سے امریکی ایجنٹی  کر تارہا ۔اس وقت عربوں کی کوئی وقعت نہ تھی، یہ چندہ اکٹھا کرنے کے لیے در در پر جایا کرتے تھے ۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب عرب سے تیل نکلنا شروع نہیں ہوا تھا، تب ہمارے ایران سے بہت اچھے تعلقات رہے اور مزے کی بات تو یہ کہ عوام کی ایک بڑی تعداد یہ بھی نہیں جانتی تھی کہ ایران شیعہ اور ہم سنی ہیں ۔ اس وقت ایران کی حیثیت یہ تھی کہ ایران  کو ایشیاء میں سامراجی طاقتوں کا پولیس مین کہا جاتا تھا ۔
اور  پھر جیسے ہی ایران میں انقلاب رونما ہوا ، یک لخت دونوں ملکوں (پاکستان اور ایران) کے تعلقات  بدترین ہوگئے ، اسکی وجہ یہ تھی کہ ہم امریکہ کو بہت کام کے آلہ کار نظر آرہے تھے۔ اور وہ ہمیں قربانی کا بکرا بنا کر اپنے مفادات کا تحفظ چاہتا تھا۔
اور دوسری طرف دیکھا جائے تو ایرانی انقلاب کے بعد عالمی سامراج کو ایک آزاد خودمختار ریاست اور مستحکم معیشت والا ایران نظر آرہا تھا جو کہ کبھی بھی ان کے لیے خطے میں آلہِ کاری کا کردار ادا نہ کرتا ۔  ایران سے جب کسی قسم کی آلہ کاری کی امید نہ رہی تو اس بات کے چلتے سامراجی قوتوں نے ایران پر کئی طرح کی درآمدات و برآمدات کی پابندیاں عائد کیں، مگر یہ پابندیاں کارگر ثابت نہ ہوئیں اور  داخلی طور پر ایران کو مضبوط معیشت بننے سے نہ روک سکیں۔اس صورت حال سے نمٹنے کیلئے سعودیہ کو میدان میں لایا گیا۔جس کا کام خطے میں پولیس مین کا کردار ادا کرنا تھا۔
اور اگر ہم اپنا جائزہ لیں تو  ہمیں برطانیہ نے پہلے ہی 1947ء میں جدید نو آبادیاتی نظام کے تحت امریکہ کے ہاتھوں  فروخت کردیا۔ اسی معاہدے کے تحت کئی نئی ریاستیں بھی وجود میں لائی گئی تھیں تاکہ باآسانی حکمرانی ہو سکے ۔اور ہمارے حکمرانوں نے بھی وفاداری نبھانے میں کوئی کثر شاید ہی غلطی سے  چھوڑی ہو۔  ہم نے افغان جہاد میں امریکہ کے کہنے پر  روس کے خلاف نوجوان کی ایک کثیر تعداد کو واصل جنت کیا اور اپنی دنیا کی جنت سیدھی کی۔اور حسب توقع ڈالر کی ریل پیل عام عوام تک نہ پہنچ پائی اور انکی حالت بد سے بدترین ہو گئی۔ اور ایرانی انقلاب کے so called "مضر اثرات" کو اپنے وطن عزیز سے دور رکھنے کے لیے شیعہ سنی فسادات کا جم غفیر لگایا گیا. نئے پولیس مین (سعودیہ عرب) نے اپنے افسر کی ایماء پر خوب ریال خرچ کیے اور پھر ہم نے نوجوانوں کو  دولت کی دیوی کے بھینٹ چڑھایا۔ اپنے ملک اور تعلیمی اداروں کو فرقہ واریت کے پر تعفن دلدل میں دھنسا دیا۔ جس کا اقرار آرمی چیف جنرل باجوہ جرمنی میں کر چکے ہیں۔
آج جب ہمیں ملکی اور بین الاقوامی حالات نے مجبور کیا تو ہمیں اپنا قبلہ درست کرنا پڑا۔بہت سے داعین جنت جو وقت کے تقاضوں کو سمجھنے  سے معذور ہوچکے تھے انکو جبری واصل جنت کیا گیا۔ کچھ داعین حق  اپنے آپ کو حالات کے تحت ڈھال چکے ہیں اور ما ضی کی غلطیوں کا کہیں بر ملا تو کہیں دبادبا سا اظہار ہو رہا ہے۔ مگر ابھی بہت سا سفر باقی ہے ابھی بہت سا ماضی کا قرض باقی ہے۔جب تک کسی قومی سوچ کے تحت عدل کی بنیاد پر نئے سماجی معاہدات نہیں  تشکیل دیے جائیں گے اس وقت تک ذلت و رسوائی کے عذاب سے نکلنا ناممکن ہے۔
ذرا موسم تو بدلا ہے، مگر پیڑوں کی شاخوں پر
نئے پتوں کے آنے میں کچھ دن لگیں گے
بہت سے زرد چہروں پر غبار کم ہے بےشک
پر ان کو مسکرانے میں ابھی کچھ دن لگیں گے

اسامہ سعید



Blog ::  MIANA LIBRARY 


نوٹ 📔 :: آپ کی قیمتی آراء میرے لئے مزید بہتری کا عندیہ ثابت ہونگی.

 آپ اپنی آراء سے اس پیج کو دن دگنی اور رات. چگنی بہتری کی طرف گامزن کر سکتے ہیں. 

اگر آپ اس پیج کو پھلتا پھولتا دیکھنے کے خواہشمند ہیں

 تو 

 نیچے 🔽 موجود کمنٹ سیکشن میں جاکر کمنٹ کریں اور اس کی مزید بہتری کے لیے آراء دیں.


Comments