مولانا شبلی بحیثیت سیرت نگار از ظفر احمد صدیقی
یه کتاب
علامہ شبلی نعمانی کی شخصیت اور خدمات
علامہ شبلی نعمانی کا شمار بیسویں صدی کی مایہ ناز شخصیات میں ہوتا ہے۔ قدیم و جدید کے امتزاج اور گوناگوں اوصاف و کمالات کی جامعیت کے لحاظ سے وہ یگانۂ روزگار تھے۔ علم و ادب کے مختلف میدانوں میں ان کی خدمات ہمیشہ یادگار رہیں گی۔
تحقیقی سفر کا آغاز
میں نے علامہ شبلی کی علمی و ادبی خدمات کے موضوع پر پی ایچ ڈی کا مقالہ تیار کیا جس میں ایک باب "سیرۃ النبی" کے تحقیقی و تنقیدی جائزے سے متعلق تھا۔ اس باب میں اس معرکہ آرا کتاب کے محاسن و خوبیوں کے ساتھ ساتھ اس کی کمیوں اور فروگذاشتوں کی نشاندہی بھی کی تھی۔
مقالے پر رد عمل
جب میں نے یہ مقالہ اتر پردیش اردو اکادمی کو بغرض اشاعت بھیجا تو اکادمی نے رائے کے لیے اسے دارالمصنفین اعظم گڑھ بھیج دیا۔ اس زمانے میں سید صباح الدین عبدالرحمن ناظم دارالمصنفین تھے جنہیں میرا مقالہ خصوصاً "سیرۃ النبی" سے متعلق باب سخت گراں گزرا۔ انہوں نے مقالے کے خلاف منفی رپورٹ ارسال کی۔
مفصل مضمون کی تیاری
اس رد عمل کے بعد میرے دل میں یہ ارادہ پیدا ہوا کہ "سیرۃ النبی" سے متعلق ایک مفصل مضمون ترتیب دوں جس میں اپنے دعوے کے دلائل قوت و تسلسل کے ساتھ پیش کروں۔ میرے بزرگ دوست مولانا نظام الدین اسیر (استاذ جامعہ اسلامیہ بنارس و مدیر مجلہ ترجمان الاسلام) نے مجھے اس کام پر آمادہ کیا اور ترجمان الاسلام میں اشاعت کا وعدہ کیا۔
تحقیقی کام کی تفصیلات
میں نے پوری کتاب "سیرۃ النبی" کو بالاستیعاب بار بار پڑھا، یادداشتیں تیار کیں، حوالوں کا اشاریہ بنایا اور اصل مصادر سے مراجعت کی۔ ابتدائی اندازہ تھا کہ مباحث دو تین شماروں میں آجائیں گے لیکن بات بڑھتی چلی گئی یہاں تک کہ گفتگو سات قسطوں میں پایۂ تکمیل کو پہنچی اور مضمون نے کتاب کی شکل اختیار کر لی۔
تنقید پر رد عمل
جیسا کہ اندازہ تھا، مضمون کی دو تین قسطیں ہی شائع ہوئی تھیں کہ ارباب دارالمصنفین نے اس کا برا مانا۔ ماہ نامہ "معارف" اعظم گڑھ (نومبر ۱۹۹۵ء) کے شذرات میں اس کے خلاف سخت رد عمل کا اظہار کیا گیا اور سیرۃ النبی کے دفاع میں کئی مقالات لکھے اور لکھوائے گئے۔
اہل علم کی رائے
سلسلہ مضامین کی اشاعت مکمل ہو جانے کے بعد، مدیر ترجمان الاسلام نے ملک کے سرکردہ علما اور اہل قلم کو اظہار خیال کی دعوت دی۔ خوش قسمتی سے توقع سے زیادہ اہل علم نے اس سلسلہ مضامین کو پڑھا اور اپنی آراء تحریر کیں۔ یہ تمام تحریریں ترجمان الاسلام کے ایک مستقل شمارے (اپریل تا جون ۱۹۹۶ء) میں شائع ہوئیں۔
کتابی شکل میں اشاعت
گذشتہ چند مہینوں کے دوران اس سلسلہ مضامین کو کتابی شکل میں شائع کرنے کا موقع ملا۔ میں نے تعطیلات گرما کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پوری کتاب پر نظر ثانی کی، ترمیمات و اضافے کیے، تمام حوالوں کی ازسرنو مراجعت کی اور اہل علم کی نشاندہی کردہ اغلاط کو دور کیا۔
اہل علم کے تاثرات
جن اہل علم حضرات نے اس کتاب پر اظہار خیال فرمایا، ان سب کا شکریہ۔ منتخب تحریروں کو کتاب کا جزو بنایا گیا:
مولانا نعمت اللہ اعظمی (استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند) کی تحریر "ابتدائیہ" کے طور پر
مولانا برہان الدین سنبھلی (شیخ التفسیر دارالعلوم ندوۃ العلماء) کی تحریر "تاثرات" کے عنوان سے
شمس الرحمن فاروقی کی تحریر "چند باتیں" کے عنوان سے
تنقیدی نقطۂ نظر کی ضرورت
شیخ عبدالقاہر جرجانی کے اصول کے مطابق، اگر سیرۃ النبی کو علی الاطلاق سب سے زیادہ جامع المعلومات اور محققانہ کتاب سیرت نہ کہا جاتا اور اس پر متوازن تنقید کے نتیجے میں شدید رد عمل کا مظاہرہ نہ کیا جاتا تو اس کی خامیوں کو اس تفصیل سے بیان کرنے کی ضرورت بھی پیش نہ آتی۔
علامہ شبلی کے بارے میں مؤقف
علامہ شبلی کی شخصیت راقم کی نگاہ میں پہلے بھی محبوب و محترم تھی اور اب بھی ہے۔ ان کی علمی و ادبی فتوحات کے سامنے سر نیاز خم ہے، لیکن اس محبت و عقیدت پر حق گوئی کو قربان نہیں کیا جا سکتا۔
انتساب
یہ کتاب جامعہ اسلامیہ بنارس کے نام منسوب کی جا رہی ہے جہاں راقم کو ربع صدی تک علوم عربیہ و اسلامیہ کے درس و تدریس کے مواقع میسر آئے اور جس کے کتب خانے سے مستفید ہوتا رہا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس ادارے کو آباد رکھے۔
ويرحم الله عبدا قال آمينا