چینی سفارت خانے (ماسکو) کی جاری کردہ فہرست: جنگ عظیم دوم کے بعد امریکا کی بمباری/فوجی کارروائیوں کا شکار ممالک

امریکا کی جنگیں، دوہرے معیارات اور عالمی خاموشی کی کہانی۔ سچ سے آگاہی ہی انصاف کی پہلی سیڑھی ہے۔

عالمی منافقت کا بے نقاب چہرہ:

 امریکی فوجی مداخلتوں کی وہ فہرست جو مغربی میڈیا چھپاتا ہے




 امریکی 'امن' کا خون آشام ریکارڈ: 30 ممالک، ایک طاقت اور منافق عالمی ضمیر


پاکستان اور ہندوستان میں بحث کیوں ضروری ہے؟

ماجد خان صاحب کے حوالے سے یہ بات اہم ہے کہ پاکستان اور ہندوستان، دونوں ہی ممالک تاریخ میں امریکی خارجہ پالیسی کے اثرات کا شکار رہے ہیں۔ پاکستان خود امریکی ڈرون حملوں (2007-2015) کی فہرست میں شامل ہے، جبکہ ہندوستان بھی کئی مواقع پر امریکی سیاسی دباؤ کا سامنا کر چکا ہے۔ دونوں ممالک کے عوام کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ "بین الاقوامی برادری" کے نام پر کس طرح کے دوہرے معیارات اپنائے جاتے ہیں۔

اس فہرست پر بحث کرنے سے دونوں ممالک کے شہریوں کو یہ احساس ہو سکتا ہے کہ:

  1. امریکی مداخلت کا دائرہ کار کتنا وسیع ہے – صرف مسلمان ممالک ہی نہیں، بلکہ لاطینی امریکا، ایشیا، یورپ اور افریقہ کے ممالک بھی اس کا نشانہ بنے ہیں۔

  2. مغربی میڈیا کی "نیوز سلیکشن" – ایران یا روس کی جارحیت پر تو ہر طرف شور مچتا ہے، لیکن امریکا کے ماضی کے بارے میں خاموشی اختیار کی جاتی ہے۔

  3. دونوں ممالک کی سالمیت – پاکستان اور ہندوستان دونوں کو اپنے علاقائی مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے، ان دوہرے معیارات کے خلاف آواز اٹھانے کی ضرورت ہے۔


چینی سفارت خانے کی فہرست کا پس منظر اور پیغام:

چین نے یہ فہرست ماسکو میں اپنے سفارت خانے کے ذریعے جاری کی، جو ایک سفارتی اور نظریاتی جواب ہے۔ اس کا مقصد امریکا اور مغرب کے "Double Standards" کو بے نقاب کرنا ہے۔ خاص طور پر جب ایران نے اسرائیل پر جوابی حملہ کیا تو مغربی میڈیا نے اسے "عالمی خطرہ" قرار دیا، لیکن امریکا کی 30 سے زائد ممالک پر بمباری کو نظرانداز کر دیا گیا۔

چین کا موقف ہے:

  • امریکا اخلاقی رہنمائی کا حق نہیں رکھتا، کیونکہ اس کا اپنا ہاتھ خون سے رنگین ہے۔

  • مغربی ممالک کا "انسان حقوق" کا بیانیہ منافقت پر مبنی ہے، جب وہ خود اپنی فوجی کارروائیوں میں ہزاروں شہریوں کے قتل پر خاموش رہتے ہیں۔

  • دنیا کو "اصلی خطرے" کی نشاندہی کرنی چاہیے – اور وہ خطرہ امریکا ہے، جو مسلسل بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرتا رہا ہے۔


مغربی معاشرے کا رویہ – خاموشی، منافقت، یا بزدلی؟

سوال اٹھایا گیا ہے:

"کیا کبھی مغربی معاشرے نے امریکا پر برہمی ظاہر کی؟"

جواب ہے: ہاں، لیکن محدود پیمانے پر۔

  • ویتنام جنگ کے خلاف امریکا اور یورپ میں بڑے پیمانے پر احتجاج ہوئے۔

  • عراق جنگ (2003) کے خلاف دنیا بھر میں احتجاجی مظاہرے ہوئے، لندن، پیرس اور نیویارک میں لاکھوں افراد نے حصہ لیا۔

  • BLM تحریک نے امریکی پولیس اور فوج کی جارحیت پر سوال اٹھائے۔

لیکن مسئلہ یہ ہے کہ:

  1. مغربی میڈیا کا کنٹرول – میڈیا اکثر حکومتی بیانیے کو ہی پیش کرتا ہے، اور امریکی فوجی کارروائیوں کو "ضروری اقدام" یا "انسانی حقوق کی بحالی" کے طور پر پیش کرتا ہے۔

  2. معاشی اور فوجی طاقت کا خوف – بہت سے ممالک امریکا پر تنقید کرنے سے ڈرتے ہیں، کیونکہ وہ امریکی امداد، تجارت یا فوجی تحفظ پر انحصار کرتے ہیں۔

  3. ثقافتی ہژمونی – ہالی وڈ اور مغربی میڈیا نے امریکا کو "دنیا کا محافظ" ظاہر کیا ہے، جس سے عوامی رائے متاثر ہوتی ہے۔


بین الاقوامی نظام کی بے حسی – ایک "منافق عالمی ضمیر"

جیسا کہ بیان کیا گیا، "بین الاقوامی برادری" (جس میں UN، IMF، World Bank وغیرہ شامل ہیں) اکثر خاموش تماشائی بنی رہتی ہے۔ مثال کے طور پر:

  • عراق پر حملہ (2003) بین الاقوامی قانون کے خلاف تھا، لیکن امریکا پر کوئی پابندیاں نہیں لگیں۔

  • فلسطین پر اسرائیلی جارحیت پر تو UN میں قراردادیں پیش ہوتی ہیں، لیکن امریکی بمباری پر نہیں۔

  • نظام کی عدم مساوات – سلامتی کونسل کے مستقل اراکین (امریکا، برطانیہ، فرانس) خود ہی فوجی جارحیت کے مرتکب ہیں، اس لیے وہ ایک دوسرے کو روکتے نہیں۔


پاکستان اور ہندوستان کے لیے سبق:

  1. خودمختاری کا تحفظ – دونوں ممالک کو اپنی خارجہ پالیسی میں متوازن رویہ اپنانا چاہیے، اور کسی بھی بیرونی طاقت کی بلاوجہ مداخلت کو مسترد کرنا چاہیے۔

  2. دوہرے معیارات کے خلاف آواز – دونوں ممالک کو بین الاقوامی فورمز پر ان دوہرے معیارات کے خلاف بات کرنی چاہیے، خواہ وہ امریکا کی طرف سے ہوں یا چین کی طرف سے۔

  3. عوامی شعور بیداری – اس فہرست کو سوشل میڈیا، تعلیمی اداروں اور میڈیا میں زیر بحث لانا چاہیے، تاکہ عوام "بین الاقوامی برادری" کی حقیقت سمجھ سکیں۔


چین کا سیاسی مقصد – "طاقت کے مراکز کو متوازن کرنا"

چین یہ فہرست جاری کر کے:

  • امریکی اخلاقی بالادستی کو چیلنج کر رہا ہے۔

  • خود کو "امن پسند طاقت" کے طور پر پیش کر رہا ہے۔

  • مغرب کے "Propaganda" کا جواب دے رہا ہے۔

یہ اطلاقی سفارت کاری (Applied Diplomacy) کی ایک مثال ہے، جہاں چین امریکا کی "Soft Power" کو اس کے ہی ہتھیاروں (فہرست سازی، میڈیا وار) سے کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔


اختتامی نقطہ:

دنیا کو ایک متوازن بین الاقوامی نظام کی ضرورت ہے، جہاں طاقتور ممالک قانون سے بالاتر نہ ہوں۔ پاکستان اور ہندوستان سمیت تمام ترقی پذیر ممالک کو چاہیے کہ وہ غیر جانبداری، باہمی احترام اور بین الاقوامی قانون کی پاسداری کی بنیاد پر اپنے تعلقات استوار کریں، نہ کہ کسی بڑی طاقت کے مفادات کی بھینٹ چڑھ کر۔

یہ فہرست صرف ایک "ریکارڈ" نہیں، بلکہ ایک "انتباه" ہے کہ اگر عالمی ضمیر بیدار نہ ہوا، تو امریکا کی طرح دیگر طاقتیں بھی یہی راستہ اختیار کریں گی۔


Download PDF

ایک تبصرہ شائع کریں

Type Your Feedback