کتاب پس منظر اسلام از حکیم اجمل خاں پر مفتی ڈاکٹر سعید الرحمن اعوان صاحب کا تعارفی مضمون
قرآن حکیم اور اسوہ حسنہ --- اسلامی تعلیمات کے دو بنیادی ستون
ایک دوسرے سے اس طرح وابستہ ہیں کہ ان
کو ایک دوسرے سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا بلکہ ان کو ایک دوسرے کے بغیر سمجھنے کی
کوشش، فکری انتشار اور گروہی تشکیل کا باعث بنتی ہے اسی بنا پر محقق اہل نظر دونوں
کا ایک دوسرے کے حوالہ سے نہ صرف مطالعہ کرتے ہیں بلکہ ان کے ہاں ایک صالح اجتماعی
نظام فکر کی اساس ان کے بغیر وجود میں ہی نہیں آتی۔
بعثتِ نبوی اور نزولِ قرآن: تاریخِ انسانی میں انقلابی موڑ
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت
اور نزول قرآن حکیم، تاریخ انسانی میں ذہنی و سماجی ارتقاء کا ایک انقلاب انگیز
مرحلہ ہے جس کو گزشتہ تاریخ سے الگ تھلگ کر کے درست طور پر نہیں سمجھا جا سکتا ہے،
اسی لیے قرآن حکیم نے اپنے تعارف میں "مصدق لما بین یدیہ " یعنی گزشتہ
کتابوں کی تصدیق کا ذکر اہتمام کے ساتھ شامل کیا ہے تاکہ اس کے مطالعہ میں دور
نزول قرآن کی فکری و سماجی تاریخ پیش نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ تاریخی تسلسل اور
فکری ارتقاء ملحوظ خاطر رہے۔ کسی فکر کے تاریخی تسلسل سے انکار، در حقیقت اس فکر
کے ارتقائی مدارج سے انکار کے مترادف ہوتا ہے۔ جس کا نتیجہ ذہنی جمود فکری محدودیت
سطحی سوچ اور جذباتی رد عمل کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے ، یوں وہ سر یہ ودم بریدہ
فکر معاشرے کی متوازن رہنمائی میں مطلوبہ کردار ادا کرنے کی صلاحیت سے عاری ہوتا
ہے۔
موجودہ مذہبی فکر کا بحران: تاریخی تسلسل سے بیگانگی
آج کی سرگرم اور معروف مذہبی شخصیات
اور ان کی صاحب وسائل جماعتوں کی یہی کوتاہی فکر ہے کہ وہ بظاہر جدید تقاضوں کی
علمبردار بھی ہیں اور جدید سائنسی آلات کے استعمال کی شوقین بھی، لیکن تاریخی
تسلسل ارتقاء سے فکرنی رشتہ نہ ہونے کے سبب وہ صحیح سمت میں جاندار رہنمائی سے
قاصر ہیں اور ایک جیسی سطحی و جذباتی سوچ کے گرداب میں ہی گردش کر رہی ہیں۔
ارتقاء کا فلسفہ: صحیح تناظر میں مطالعۂ ماضی و حال کی کنجی
فلسفه ارتقاء اور تاریخی تسلسل کا
چولی دامن کا ساتھ ہے اور اس سے ماضی کے افکار و ادوار کا صحیح تناظر میں مطالعہ
کیا جا سکتا ہے اور یہی شعوری مطالعہ ‘ عصر حاضر کی رحجانات کو صحیح طور پر جانچنے
کا میزان مہیا کرتا ہے ، اسی بنا پر فلسفہ ارتقاء اور اس کے تقاضوں سے مکمل آگی کے
بغیر جدیدیت کی دعوت محض مرعوبیت اور ذہنی پسماندگی کی آئینہ دار رہ جاتی ہے۔
دینِ اسلام کے بارے میں عمومی غلط فہمی: ماضی سے یکایک انقطاع
کا تصور
ہمارے ہاں دین اسلام یا قرآن حکیم کے
بارے میں عمومی رویہ یہ ہے کہ وہ یکا یک پردہ غیب سے ظہور میں آنے والا دین یا
کتاب ہے ، اس کا ماضی سے کوئی رشتہ ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ اس نے گزشتہ ادیان یا
کتابوں کو بیک قلم منسوخ کر دیا ہے۔ اور پھر اس کی برتری کو غیر حکیمانہ اور
متشدانہ انداز میں تمام انسانیت پر لازمی قانون کے طور پر عائد کرنے کی سوچ نے تو
کئی فکری پیچیدگیاں اور عملی قباحتیں جنم دے دی ہیں۔ لیکن اگر دین اسلام کو اس کے
تاریخی مناظر سے منقطع کرنے کی بجائے اس سے منسلک کر کے سمجھنے کی سعی کی جائے
جیسا کہ قرآن حکیم نے گزشتہ انبیاء کرام علیہم السلام اور ان کی وحیوں پر ایمان
لانے اور انہیں تفریق و امتیاز نہ کرنے پر زور دیا ہے تو اس سے دین اسلام اور نزول
قرآن ایک ناگزیر تاریخی تقاضہ قرار پاتا ہے جس سے انکار، در حقیقت قوانین فطرت
بالخصوص قانون ارتقاء سے لاعلمی اور تنگ نظر ذہنیت کی ہی دلیل ہو سکتا ہے۔
کتاب ’’پس منظر اسلام‘‘ کا مرکزی مقصد اور اس کی ضرورت
پروفیسر الحاج محمد اجمل خاں مرحوم کی
زیر نظر کتاب در حقیقت اسی حوالہ سے بعثت رسول خاتم صلی اللہ علیہ وسلم اور نزول
قرآن حکیم کے تاریخی جغرافیائی مذہبی سیاسی اور معاشرتی پس منظر کو موضوع تحقیق
بناتی ہے جس سے بعثت نبوی کو منطقی انداز میں سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ اور انسانی
فکر کے ارتقاء میں دین اسلام کے کلیدی کردار کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے۔
جاہلی معاشرے کا ایک متوازن اور حقیقی جائزہ
ہمارے مورخین بالعموم قریش اور مکہ کی
سوسائٹی کو تمام اخلاقی برائیوں کا جس طرح مرقع بنا کر پیش کرتے ہیں۔ اس سے شاید
وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معجزاتی حیثیت کو تو اجاگر کرنے میں کامیاب ہو
جاتے ہوں لیکن اس سے فاسد معاشروں میں تبدیلی کے لیے اسوہ " کی حیثیت مجروح
ہو کر رہ جاتی ہے جو بعثت نبوی کا بنیادی مقصد ہے ، اس حوالہ سے زیر نظر کتاب میں
مصنف نے جزیرہ عرب کی جغرافیائی نوعیت، عربوں کی خانہ بدوشانہ زندگی کے ان کے
اخلاق و کردار پر وارد ہونے والے دور رس اثرات مکہ کے شاہراہ تجارت ہونے کے حوالہ
سے حیثیت اور اس حوالہ سے معاشرے پر اثرات نیز مکہ مکرمہ میں مذہبیہ عدلیہ اور
عسکریہ پر مبنی نظام ریاست کے خدوخال نہایت متوازن انداز سے نمایاں کئے ہیں جس سے
ملکی سوسائٹی کی حقیقی صورت حال سامنے آتی ہے اور یوں اس میں رسول انقلاب ٹیم کے
کردار کو بحیثیت "اسوہ" جاننے میں مدد ملتی ہے جس سے عصر حاضر میں مکمل
کاجی تبدیلی کے لیے کلیدی استفادہ میں مدد ملتی ہے۔
مذہبی تصورات کی اصلاح میں قرآن و سنت کا کردار
قرآن حکیم اور سیرت نبوی کو جاننے کے
لیے اس عہد کے مذہبی تصورات سے آگاہی بھی ایک اہم مقام کی حامل ہے کہ اس سے یہ
اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ دین اسلام نے ان تصورات کو کس طرح تبدیل کیا ان کے غیر
منطقی خدوخال کس طرحدرست کیے اور اس سلسلے میں انسانی ذہن میں وسعت و ترقی کے کن
پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے، یہاں یہ امر لائق ذکر ہو گا کہ قریش نے مکہ مکرمہ میں
اپنے طبقاتی نظام کو چونکہ مذہبی بنیادوں پر مضبوط بنایا ہوا تھا، اس لیے قرآن اور
آپ نے ان بنیادوں پر مسلسل سخت اور بے رحم تنقید کی تاکہ اس نظام کی اساس کو جڑ سے
اکھاڑ کر وحدت فکر اور انسانیت دوستی کی اساس پر ایک صالح عادلانہ معاشرہ استوار
کیا جاسکے۔
عصرِ حاضر میں غلبۂ اسلام کے صحیح مفہوم کی تشکیل کے لیے لازمی
شرط
دین
اسلام کے اس پس منظر سے واقفیت در حقیقت عصر حاضر میں غلبہ اسلام کے مفہوم اور
دائرہ کار کے تعین کے لیے نہایت ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر خود ساخته تصورات یا
برآمد شدہ خیالات اسلام کی تعبیر بن جاتے ہیں جو معاشرے میں فکری انار کی کا ذریعہ
بن کر اس کے ارتقائی سفر میں رکاوٹ ثابت ہوتے ہیں۔ واضحرہے کہ عہد آدم علیہ
الصلواۃ والسلام سے لے کر رسول عالم سلیم کے زمانہ تک آنے والی متنوع شریعتوں،
متعدد کتب و صحف اور متواتر وحی و الہامات سے انسانی سماج میں فلسفہ ارتقاء کی جس
کار فرمائی کا اندازہ ہوتا ہے، اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور اسی بنا پر آپ پر
نازل شدہ وحی کو اس حوالہ سے گزشتہ انبیاء اکرام پر نازل شدہ وحی سے تشبیہ دی گئی
ہے۔ (سورۃ النساء آیت نمبر 163)
وحیِ الہی کا تسلسل اور اس کا اصل مقصد
ہر وحی الہی نے معاشرے میں قائم
سیاسی، معاشی، معاشرتی اور مذہبی اجارہ داریوں کے خلاف انسانی ذہن کے نشوو نما کا
اہتمام کیا۔ اس بنا پر نزول وحی کے لیے ہمیشہ اسی شخصیات کا انتخاب کیا گیا جو
وسعت نظر متوازن مزاج اور قوی اعصاب کے مالک ہونے کے ساتھ عقل کے انتہائی کمال پر
فائز تھے اور پھر اس کی روشنی میں ان کی ذہنی صلاحیتیں غور و فکر کے مراحل کی سیر
کر چکی تھیں اور اس بنا پر ان کی بعثت سے قبل ہی معاشرے کی نظریں ان پر مرکوز ہوتی
تھیں اور اسے ان سے بڑی توقعات وابستہ ہوئی تھیں (سورہ ھود آیت نمبر ۸۷۶۲ واقعہ حجر اسود)
نبی کریم ﷺ پر نزولِ وحی: فکری آمادگی اور کلام کی نوعیت
جب رسول حکمت صلی اللہ علیہ وسلم پر
" تحنث " اور گہرے غور و فکر کے بعد جب وحی نازل ہوئی اور آپ کی زبان
مبارک سے کلام الہی جاری ہوا تو بقول مصنف "حقیقت یہ تھی کہ اس نوعیت کا کلام
عربی شاعری یا سحرو کہانت میں موجود نہ تھا، اسی لیے قرآن کا یہ دعوی تھا کہ کلام
عرب میں قرآن کی مانند کلام موجود نہیں ہے جو ان کی شاعری اور کہانت کے برعکس
درستی اخلاق اور تعمیر و انسانیت کا سبق دیتا تھا اور اسی لیے وہ جنات کا لایا ہوا
کلام نہ تھا بلکہ ملکوتی رسالت کے ذریعہ اللہ کے پاس سے آیا تھا " (یہاں یہ
امر لائق ذکر ہو گا کہ مصنف نے وحی کی حقیقت آشکار کرنے کے لیے جو بحث کی ہے وہ
دیگر مباحث کی طرح لائق مطالعہ ہے)
قرآنِ حکیم کی مختلف تعبیرات اور اس کا مصدر
قرآن حکیم چونکہ آپ کی زبان مبارک پر
جاری ہوا، اس لیے اس کو " قول رسول" سے بھی تعبیر کیا گیا (سورۃ الحاقہ
آیت نمبر (۴۰)
اور جس ملکوتی ذرایعہ سے اس کا نزول
ہوا، اس کی طرف بھی نسبت کی گئی ہے (سورۃ التکویر آیت نمبر (۱۹) اور جس ذات احد نے نازل کیا، ظاہر ہے اس کی طرف نسبت میں کوئی
اشکال ہی نہیں، اس لیے اس کو کلام اللہ " بھی کہا گیا (سورۃ التوبہ آیت نمبر
(1) در حقیقت قرآن حکیم کے الفاظ اسی زبان کے ہیں جو رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم
کی اپنی زبان تھی لیکن ان الفاظ کا انتخاب منجانب اللہ ہوا کرتا تھا، چنانچہ امام
شاہ والی اللہ فرماتے ہیں کہ الفاظ کی تشکیل جبروت کے مطابق ہوتی ہے۔
انسانی نفسیات اور ارتقائی عمل کو پیشِ نظر رکھتا ہوا قرآن
قرآن حکیم چونکہ انسانی ہدایت کے لیے
نازل کیا گیا اس لیے اس میں انسانی نفسیات کے تقاضوں کو پوری طرح پیش نظر رکھا گیا
ہے اور پھر نزول قرآن کا عرصہ کم و بیش تمیں برسوں پر محیط ہے ، اس لیے اس عرصہ
میں ارتقاء کے عمل کو بھی ملحوظ رکھا گیا، چنانچہ بسا اوقات انسانی معاشرے میں
ارتقاء کے سبب ایک حکم منسوخ کر کے دوسرا حکم نازل کیا گیا اور اگر ناسخ احکامات
ابتداء نازل کر دیئے جاتے تو یہ قانون ارتقاء کے منافی اور انسانی نفسیات کے
تقاضوں سے ہم آہنگ نہ ہوتے اور یوں وہ اجنبی بن کر رہ جاتے۔
قرآن بطور قانونِ تشریعی (نظامِ ہدایت)
قرآن حکیم قانون الہی ہے لیکن اس کا
یہ مفہوم تکوینی نظام کے حوالہ سے نہیں ہے کیونکہ بقول مصنف " قانون الہی تو
فطرة و طبعا ہر مخلوق کی طبیعت میں راسخ ہوتا ہے اور اس کے لیے کسی نبی کی ضرورت
نہیں ہوتی" جبکہ قرآن حکیم تشریعی نظام کے حوالہ سے قانون الہی ہے ، کیونکہ
اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل و شعور اور ادراک و تمیز کے ساتھ ساتھ اشیاء کے حسن و
فتح، پسندیدہ و ناپسندیدہ امور کی پہچان ہدایت و گمراہی اور حق و باطل میں امتیاز
نیز افراد کو اجتماعی سلسلے میں مسلک کرنے کے لیے ایک بہترین نظام بھی عطا کیا۔ یہ
نظام جس کا نام نظام تشریعی ہے کائنات میں پہلے انسان کے ساتھ ہی عالم تشریع پر
حاوی ہے ار انبیاء و رسل کے ذریعہ انسانی دنیا پر مسلسل کار فرما رہا ہے اور اس کی
فلاح و بہبود کا ضامن و کفیل ہے ، یہی نظام جب حد کمال کو پہنچا تو قرآن عزیز کی
شکل میں جلوہ افروز ہوا (بحوالہ اسلام کا اقتصادی نظام از مولانا حفظ الرحمن
سیوہاروی ص (۴۸)
کتاب ’’پس منظر اسلام‘‘ کی جامعیت اور خصوصیات
الغرض قرآنی حوالہ سے سیرت النبی کے
مطالعہ کے لیے اس کے پس منظر سے جس واقفیت کی ضرورت ہے، زیر نظر کتاب اس کو با حسن
پورا کرتی ہے ، اس حوالہ سے یہ ایک فکر انگیز اور منفرد حیثیت کی حامل کتاب ہے،
چنانچہ اس میں لموه حسنہ سے شعوری آگہی کے لیے تاریخ تمدن عرب، نفسیات اور جاہلیت
کے حالات کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا گیا ہے یہ کتاب بنیادی موضوع پر تاریخ کے
علاوہ تفسیر تقابل ادیان فلسفه و کلام ، عمرانیات و نفسیات اور مستشرقین کی آراء
کے حوالہ سے لائق غور و فکر مضامین پر مشتمل ہے۔ یوں وحدت موضوع کے باوجود مضامین
کا تنوع بھی موجود ہے۔
اختتامیہ: ایک فکر انگیز کاوش
مصنف نے اس منفرد موضوع پر قلم اٹھانے
کی جو سعی مشکور انجام دی ہے، وہ یقینا اہل دانش کے لیے سرمایہ فکر کی حیثیت رکھتی
ہے کتاب میں چند ایک مقامات پر جمہور کی رائے سے اختلاف اور تعبیر کی غرابت بھی ہے
لیکن اس سے کتاب کی بنیادی اہمیت کسی طور متاثر نہیں ہوتی ۔ لائق مبارکباد ہیں
برادر محترم حافظ محمد ندیم صاحب جن کی علم دوستی اور ذوق آگہی کے سبب یہ کتاب
پاکستان میں پہلی بار منظر عام پر آئی ہے۔ امید واثق ہے کہ اہل نظر و فکر فکری
ارتقاء اور تاریخی تسلسل کی اہمیت کے تناظر میں اس کتاب کا خیر مقدم کریں گے اور
فکر نو کی اساس پر جہان نو کی تشکیل کی جانب متوجہ ہوں گے۔
۔