ہجرت سے پہلے مدینہ کی درس گاہیں از مولانا اطہر مبارک پوری

ہجرت سے پہلے مدینہ کی درس گاہیں از مولانا اطہر مبارک پوری

Educational Institutions of Madinah Before the Hijra' by Maulana Athar Mubarakpuri.

Educational Institutions of Madinah Before the Hijra' by Maulana Athar Mubarakpuri

بیت عقبہ اولی کے عہد میں مدینہ منورہ میں قرآن اور دین کی تعلیم کا چرچا ہو گیا تھا اور قبیلہ انصار کی دونوں شاخ اوس اور خزرج کے عوام اور اعیان و اشراف جوق در جوق اسلام میں داخل ہونے لگے اور ہجرت عامہ سے دو دو - سال قبل ہی وہاں مساجد کی تعمیر اور قرآن کی تعلیم کا سلسلہ جاری ہو گیا تھا۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے۔

لقد لبثنا بالمدينته قبل ان يقدم علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم سنتين نعمر المساجد ونقيم الصلواة

ہمارے یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے دو سال پہلے ہی ہم لوگ مدینہ میں مسجدوں کی تعمیر اور نماز کی ادائیگی میں مشغول تھے۔

اس دو سالہ درمیانی مدت میں تعمیر شدہ مساجد میں نماز کے امام ان میں معلمی کی خدمت بھی انجام دیتے تھے۔ اسی کے ساتھ اس مدت میں تین مستقل درسگاہیں بھی جاری تھیں اور ان میں باقاعدہ تعلیم ہوتی تھی۔ اس وقت تک صرف نماز فرض ہوئی تھی۔ اس لئے قرآن کے ساتھ نماز کے احکام و مسائل اور مکارم اخلاق کی تعلیم دی جاتی تھی۔ یہ تینوں درسگاہیں اس طرح جاری تھیں کہ شہر مدینہ اور اس کے انتہائی کناروں اور آس پاس کے مسلمان آسانی کے ساتھ تعلیم حاصل کر سکیں۔ پہلی درس گاہ قلب شہر میں مسجد بنی زریق میں تھی۔ جس میں حضرت رافع بن مالک زرقی رضی اللہ عنہ تعلیم دیتے تھے۔ دوسری درس گاہ مدینے کے جنوب میں تھوڑے فاصلے پر مسجد قبا میں تھی جس میں حضرت سالم مولی ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ امامت و معلمی کے فرائض انجام دیتے تھے، اس سے متصل حضرت سعد بن خیمہ رضی اللہ عنہ کا مکان واقع تھا جو بیت العزاب کے نام سے مشہور تھا اور جہاں مکہ مکرمہ سے آئے ہوئے مہاجرین مقیم تھے اور تیسری درس گاہ مدینہ سے کچھ فاصلے پر شمال میں تنقیح المخضمات نامی علاقے میں تھی جس میں حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ پڑھاتے تھے اور حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ کا مکان گویا مدرسہ تھا۔

ان تین مستقل تعلیم گاہوں کے علاوہ انصار کے مختلف قبائل اور آبادیوں میں قرآن اور دینی احکام کی تعلیم جاری تھی اور ان کے معلم و منتظم انصار کے رؤسا اور اعیان اور با اثر حضرات تھے۔ مکہ مکرمہ میں ضعفاء و مساکین نے سب سے پہلے دعوت اسلام پر لبیک کہا اور وہاں کے بڑوں کے مظالم کا شکار ہوئے اور مدینہ منورہ کے مسلمانوں کا معاملہ اس کے بالکل برعکس تھا۔ یہاں سب نے پہلے اعیان و اشراف اور سرداران قبائل نے برضا و رغبت اسلام قبول کر کے اس کی ہر طرح کی مدد کی، خاص طور سے قرآن کی تعلیم کا معقول انتظام کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔

ما يفتح من مصر أو مدينته عنوة فان المدينته فتحت بالقرآن  کچھ ملک اور شہر زور و زبردستی سے فتح ہوتے ہیں۔ مدینہ قرآن کے ذریعے فتح ہوا ہے۔ مدینہ کی مذکورہ بالا تینوں درسگاہوں میں باتفاق علمائے میرد مغازی سب سے پہلے قرآن کی تعلیم مسجد بنی زریق میں ہوئی ۔

اول مسجد قرى فيه القرآن بالملينته مسجد بنی زریق سب سے پہلی مسجد جس میں مدینہ میں قرآن پڑھا گیا بنی زریق کی مسجد ہے۔

پہلی درس گاه مسجد بنی زریق

اس درس گاہ کے معلم حضرت رافع بن مالک زرتی قبیلہ خزرج کی شاخ بنی زریق سے ہیں، بیعت عقبہ اولی کے موقع پر مسلمان ہوئے اور دس سال کی مدت میں جس قدر قرآن نازل ہوا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو عنایت فرمایا جس میں سورہ یوسف بھی شامل تھی اپنے قبیلہ کے نقیب و رئیس تھے اور ان کا شمار مدینہ کے کاملین میں تھا۔ اس وقت کی اصطلاح میں کامل ایسے شخص کو کہا جاتا تھا ان اوصاف کے حامل تھے۔ انہوں نے مدینہ واپس آنے کے بعد ہی اپنے قبیلے کے مسلمانوں کو قرآن کی تعلیم پر آمادہ کیا اور آبادی میں ایک بلند جگہ (چبوترے) پر تعلیم دینی شروع کی۔ مدینہ میں سب سے پہلے سورہ یوسف کی تعلیم حضرت رافع ہی نے دی تھی اور یہاں کے پہلے معلم و مقری میں ہیں، بعد میں اسی چبوترہ پر مسجد بنی زریق کی تعمیر ہوئی جو قلب شہر میں مصل (مسجد غمامہ) کے قریب جنوب میں واقع تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لانے کے بعد حضرت رافع کی تعلیمی و دینی خدمات اور ان کی سلامتی طبع کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے ۔ اس درس گاہ کے استاد اور اکثر شاگرد قبیلہ خزرج کی شاخ بنی زریق کے مسلمان تھے۔

دوسری درس گاه مسجد قبا

دوسری درس گاہ مدینہ کے جنوب میں تھوڑے فاصلے پر مقام قبا میں تھی، جہاں مسجد کی تعمیر ہوئی۔ بیعت عقبہ کے بعد بہت سے صحابہ جن میں ضعفائے اسلام کی اکثریت تھی۔ مکہ سے ہجرت کر کے مقام قبا میں آنے لگے اور قلیل مدت میں ان کی اچھی خاصی تعداد ہو گئی۔ ان میں حضرت سالم مولی ابو حذیفہ قرآن کے سب سے بڑے عالم تھے، وہی ان حضرات کو تعلیم دیتے تھے اور امامت بھی کرتے تھے۔ یہ تعلیمی سلسلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری تک جاری تھا، عبد الرحمن بن غنم کا بیان ہے۔

حدثني عشر من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم قالوا كنا نتدارس العلم في مسجد قبا اذ خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال تعلموا ما شئتم أن تعلموا فلن باجركم الله حتى تعملوا  

 رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے دسیوں صحابہ نے مجھ سے بیان کیا کہ ہم لوگ مسجد قبا میں علم دین پڑھتے پڑھاتے تھے۔ اس حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے اور فرمایا کہ تم لوگ جو چاہو پڑھو، جب تک عمل نہیں کرو گے اللہ تعالی تم لوگوں کو اجر و ثواب نہیں دے گا۔

اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ قبا کے مہاجرین میں متعدد حضرات قرآن کے عالم و معلم تھے، ان میں حضرت سالم مولی ابو حذیفہ سب سے زیادہ علم رکھتے تھے اور وہی امامت کے ساتھ تدریسی خدمت میں بھی نمایاں تھے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر کا بیان ہے۔

لما قدم المهاجرون الاولون العصبته موضع بقباء قبل مقدم رسول الله صلى الله وسلم كان بنومهم سالم مولى ابی حنیفۃ، و كان اكثر هم قرانا  

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے پے عصبہ آئی جو قبا کی ایک جگہ ہے تو ان لوگوں کی امامت سالم مولی ابو حذیفہ کرتے تھے، وہ ان میں قرآن کے سب سے بڑے عالم تھے۔ سے پہلے مہاجریں اولین کی جماعت جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ رات میں حضرت سالم کو قرآن پڑھتے ہوئے سنا تو اظہار پسندیدگی کرکے فرمایا کہ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے میری امت میں سالم جیسا قرآن کا عالم و قاری پیدا کیا ہے؛ نیز آپ نے صحابہ سے فرمایا کہ ان چاروں قرآن کے عالموں و قاریوں سے قرآن پڑھو، عبداللہ بن مسعود سالم مولی ابو حذیفہ ، ابی بن کعب اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنم ، حضرت سالم ایک غزوہ میں مہاجرین کے علمبردار تھے، بعض لوگوں کو ان کی قیادت میں کلام ہوا تو انہوں نے کہا کہ بئس حامل القرآن انا یعنی ان فررت یعنی اگر میں جنگ سے فرار ہوا تو میں برا حامل قرآن ہوں گا اور غزوہ کرتے رہے یہاں تک کہ ان کا دایاں ہاتھ کٹ گیا تو جھنڈا بائیں ہاتھ میں لے لیا اور وہ بھی زخمی ہو گیا تو بغل میں لے لیا اور جب زخمی ہو کر گر گئے تو اپنے آقا حضرت ابو حذیفہ کا حال دریافت کیا اور جب معلوم ہوا کہ وہ شہید ہو گئے تو کہا کہ مجھے ان ہی کے پہلو میں دفن کیا جائے۔ حضرت ابو حذیفہ نے سالم کو اپنا بیٹا بنا لیا تھا ۔ ان تصریحات سے حضرت سالم کے علم و فضل اور قرآن میں ان کے امتیاز کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے اور یہ کہ وہی قبا کی درس گاہ میں تعلیمی خدمت بھی انجام دیتے تھے۔

یہاں حضرت ابو خیر سعد بن بشیر اوی رضی اللہ عنہ کا مکان گویا مدرسہ قبا کے طلبہ کے لئے دار الاقامہ تھا وہ اپنے قبیلہ بنی عمرو بن عوف کے نقیب و رئیس تھے ، بیعت عقبہ کے موقع پر اسلام لائے، مجرد تھے اور ان کا مکان خالی تھا اس لئے اس میں ایسے مہاجرین قیام کرتے تھے جو اپنے بال بچوں کو مکہ مکرمہ چھوڑ کر آئے تھے یا جن کے آل اولاد نہیں تھے۔ اس وجہ سے ان کے مکان کو "بیت العزاب" اور "بیت الاعزاب " کہا جاتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کے وقت قبا میں حضرت کلثوم بن ہرم کے مکان میں فروکش تھے۔ اس کے قریب حضرت سعد بن خیمہ کا بیت العزاب تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موقع بہ موقع وہاں تشریف لے جاتے اور مہاجرین کے ساتھ بیٹھا کرتے تھے۔ یہ مکان مسجد قبا سے متصل جنوبی سمت میں تھا اور یہیں دار کلثوم بن ہوم بھی تھا۔ اس درس گاہ کے استاد اور شاگرد دونوں مہاجرین اولین تھے جن میں مقامی مسلمان بھی تھے۔

تیسری درس گاہ نقیح الخصمات

میں واقع تھا۔ یہ تیری درس گاہ مدینہ کے شمال میں تقریباً ایک میل دور حضرت اسعد بن زرارہ کے مکان میں تھی جو حرہ بنی بیاضہ -تھا۔ یہ آبادی بنو سلمہ کی بستی کے بعد تتبع الخصمات نامی علاقے میں تھی۔ : جو نہایت سرسبز و شاداب اور پر فضا علاقہ تھا۔ یہاں خفیہ نام کی نرم و نازک اور خوش رنگ گھاس اگتی تھی۔ اسی طرف سے وادی عقیق میں سیلاب آتا تھا۔ بعد میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہاں گھوڑوں کی چراگاہ بنائی تھی۔

یہ درس گاہ اپنے محل وقوع کے اعتبار سے پرکشش ہونے کے ساتھ اپنی جامعیت اور اپنی افادیت میں دونوں مذکورہ درس گاہوں سے مختلف اور ممتاز تھی۔ بیعت عقبہ میں انصار کے دونوں قبائل اوس اور خزرج کے نقباء اور روساء نے دعوت اسلام پر لبیک کہہ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ مدینہ میں قرآن اور دین کی تعلیم کے لئے کوئی معلم بھیجا جائے تو ان کے اصرار پر آپ نے حضرت مصعب بن عمیرہ کو روانہ فرمایا۔ ابن اسحاق کی روایت کے مطابق بیعت عقبہ اولی کے بعد ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مصعب بن عمیرہ کو انصار کے ساتھ مدینہ روانہ فرمایا

فلما انصرف عنه القوم بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم معهم مصعب بن عمير بن باشم بن عبد مناف بن عبدالدار بن قصی وامره ان يقرنهم القرآن ويعلمهم الإسلام ويفقههم في الدين لكان يسمى المقرى بالمدينه مصعب وكان منزله على اسعد بن زرارة بن علس ابی امامۃ

" جب انصار بیعت کر کے لوٹنے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ مصعب بن عمیر کو روانہ فرمایا اور ان کو حکم دیا کہ وہ وہاں لوگوں کو قرآن پڑھائیں۔ اسلام کی تعلیم دیں اور ان میں دین کی بصیرت اور صحیح سمجھ پیدا کریں۔ چنانچہ حضرت مصعب مدینے میں مقدس کے لقب سے مشہور ہوئے اور ان کا قیام حضرت ابو امامہ اسعد بن زرارہ کے مکان میں تھا۔"

حضرت مصعب بن عمیرہ ابتدائی دور میں اسلام لائے تھے۔ ناز و نعمت میں پلے ہوئے تھے، جب ان کے مسلمان ہونے کی خیر خاندان والوں کو ہوئی تو انہوں نے سخت سزا دے کر مکان کے اندر بند کر دیا مگر حضرت مصعب کسی طرحنکل کر مہاجرین حبشہ میں شامل ہو گئے۔ بعد میں مکہ واپس آئے اور مدینہ کی طرف ہجرت کی۔ حضرت براء بن عازب کا بیان ہے کہ حضرت اسعد بن زرارہ خزرجی نجاری بیعت عقبہ اولی میں اسلام لائے۔ اپنے قبیلہ کے نقیب تھے وہ انصار کے نقباء میں سب سے کم سن تھے ان کا انتقال ان میں ہوا جب کہ مسجد نبوی کی تعمیر ہو رہی تھی۔ قبیلہ بنو نجار کے لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ ہمارے لئے کسی کو نقیب مقرر فرما دیں، آپ نے فرمایا کہ میں خود تم لوگوں کا نقیب ہوں ایک قول کے مطابق وہ بیعت عقبہ سے پہلے ہی مکہ جا کر مسلمان ہوئے گئے تھے اور انصار مدینہ میں وہ پہلے مسلمان ہیں۔

یہ دونوں حضرات قرآن کی تعلیم اور اسلام کی اشاعت میں ایک دوسرے کے شریک تھے۔ حضرت مصعب بن عمیر لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ان کا لقب مقری یعنی معلم مشہور ہو چکا تھا۔ حضرت قرآن کی تعلیم کے ساتھ اوس اور خزرج دونوں قبائل کی امامت بھی کرتے تھے اور ایک سال کے بعد جب اہل مدینہ کو اسعد بن زرارہ نے جمعہ کی فرضیت سے پہلے ہی مدینہ میں نماز جمعہ کا اہتمام کیا، اس کی بھی امامت عام طور پر حضرت مصعب بن عمیر کیا کرتے تھے۔ اس لئے نماز جمعہ کے قیام کی نسبت بعض روایتوں میں ان کی طرف کی گئی ہے۔ حضرت مصعب بن عمیر کے ہمراہ حضرت ابن ام مکتوم بھی آئے تھے اور وہ بھی قرآن کی تعلیم دیا کرتے تھے۔ حضرت براء بن عازب کا بیان ہے اول من قدم علينا مصعب بن عمير وابن أم مكتوم وكانوا یقرون الناس   سب سے پہلے ہمارے یہاں مدینہ میں مصعب بن عمیرہ اور ابن ام مکتوم آئے اور یہ حضرات لوگوں کو قرآن پڑھاتے تھے۔

بخاری کی ایک روایت ہے فکانا یقران الناس یعنی یہ دونوں حضرات لوگوں کو پڑھاتے تھے ۔ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معصب بن عمیر کو خاص طور پر تعلیم کے لئے بھیجا تھا اور حضرت ابن ام مکتوم ان کے محدود طریقے پر یہ خدمت انجام دیتے تھے۔ ان کا نام عمرد یا عبداللہ بن قیس ہے۔ حضرت خدیجہ کے ماموں زاد بھائی اور قدیم الاسلام صحابی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عام طور پر غزوات میں ان کو مدینے کا امیر مقرر فرماتے تھے اور دہی نماز پڑھاتے تھے۔ اس درس گاہ کے ایک طالب علم حضرت براء بن عازب کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ ساتھ تھے۔ اس لئے اس درس گاہ کی تعلیمی سرگرمی میں ان کا تذکرہ نہیں آتا ہے۔ ویسے بھی ابن ام مکتوم تا بیٹا تھا اور وسلم کی تشریف آوری سے پہلے ہی میں نے طوال مفصل کی کئی سورتیں یاد کر لی تھیں، نقیع الخصمات کی یہ درس گاہ صرف قرآنی کتب اور مدرسہ ہی نہیں تھی بلکہ ہجرت عام سے پہلے مدینہ میں اسلامی مرکز کی حیثیت رکھتی تھی۔ اوس اور خزرج کے درمیان ایک مدت سے قبائلی جنگ برپا تھا۔ آخری معرکہ حرب بعاث کے نام سے مشہور ہے جو ہجرت سے پانچ سال قبل ہوا تھا۔ ان جنگوں میں دونوں قبائل کے بہت سے آدمی مارے گئے تھے جن میں ان کے اعیان و اشراف بھی تھے اور دونوں قبائلی باہمی کشت و خون سے چور ہو چکے تھے۔ اس حال میں اسلام ان کے حق میں رحمت ثابت ہوا اور يقول ام المومنین حضرت عائشه حرب بحاث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ آنے کا سبب بناء، دونوں قبائل کے افراد میں باہمی نفرت کی جو باس اسلام لانے کے بعد بھی باقی تھی۔ ایک قبیلہ والے دوسرے قبیلہ کی امامت پر اعتراض کر سکتے تھے اس لئے دونوں قبائل نے حضرت مصعب بن عمیرہ کی امامت پر اتفاق کیا۔

فكان مصعب بن عمير بنومهم وذالك ان الأوس والخزرج كره بعضهم ان يومه بعض فجمع بهم اول جمعته في الإسلام

 مصعب بن عمیرہ ان سب کی امامت کرتے تھے کیونکہ اوس اور خزرج ایک دوسرے کی امامت کو نا پسند کرتے تھے اور دونوں قبائل کو جمع کر کے اسلام میں پہلا جمعہ قائم کیا۔

ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صورت حال کے پیش نظر حضرت مصعب بن عمیرہ کو لکھا کہ اہل مدینہ کو جمعہ پڑھائیں۔ پہلی نماز جمعہ میں صرف چالیس مسلمان شریک ہوئے، بعد میں ان کی تعداد چار سو ہو گئی۔ پہلے جمعہ کو ایک بکری ذبح کی گئی اور اس سے نمازیوں کی ضیافت ہوئی۔ جس سے دونوں قبائل کے لوگوں میں باہمی الفت اور خیر خواہی کا جذبہ پیدا ہوا اللہ اس کے ساتھ یہودیوں کے یوم السبت کی مذہبی رونق کے مقابلے میں یہاں کے مسلمانوں میں اس سے ایک دن پہلے عید الاسبوع (ہفتہ کی عید) کی مسرت و اجتماعیت کا مظاہرہ ہوا گویا یہودیوں کے مقابلے میں یہ پہلا جرات مندانہ اجتماعی اور دینی مظاہرہ تھا۔

نیز نتیح الحصمات کی اس دینی درس گاہ اور اسلامی مرکز کی وجہ سے مدینہ کے یہودیوں کے دینی و علمی مرکز بیت المدارس واقع فہر کی حیثیت کم ہو گئی۔ جہاں وہ جمع ہو کر تدریس و تعلیم اور دعا خوانی کے ذریعہ مذہبی سرگرمی جاری رکھتے تھے ۱۲؎ اور اوس و خزرج یہودیوں سے بے نیاز ہو کر اپنے علمی و دینی مرکز سے وابستہ ہو گئے۔ اسلام سے پہلے اوس اور خزرج میں لکھنے پڑھنے کا رواج بہت کم تھا اور اس بارے میں وہ یہودیوں کے محتاج تھے۔ البتہ چند لوگ لکھنا جانتے تھے۔ ان ہی میں رافع بن مالک زرقی زید بن ثابت اسید بن حضیر سعد بن عبادہ ابی بن کعب وغیرہ تھے، ان میں اکثر ہجرت عامہ سے پہلے مسلمان ہو کر تعلیم و تدریس میں سرگرمی دکھاتے تھے اور نقیح المخصمات کے مرکز سے ان کا خصوصی ربط و تعلق تھا اور اوس و خزرج کے مختلف قبائل اس علمی و دینی مرکز سے وابستہ تھے، ان تین مستقل درس گاہوں کے علاوہ اس زمانے میں مدینے کے مختلف علاقوں اور قبیلوں میں تعلیمی مجالس و حلقات جاری تھے، خاص طور سے بنو نجار بنو عبد الاشمل بنو ظفر بنو عمرو بن عوف بنو سالم وغیرہ کی مسجدوں میں اس کا انتظام تھا اور عبادہ بن صامت" عقبہ بن مالک معاذ بن جبل" عمر بن سلمه اسید بن حغیر مالک بن مویرت ان کے امام و معلم تھے۔

ان درس گاہوں کے نصاب تعلیم کے سلسلے میں یہ جانتا ضروری ہے کہ اس وقت تک عبادات میں صرف نماز فرض ہوئی تھی اور بیعت عقبہ کے وقت انصار مدینہ سے بیعت نساء (عورتوں کی بیعت لی گئی تھی، یعنی یہ کہ ہم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے، نہ چوری کریں گے، نہ زنا کریں گے، نہ اپنی اولاد کو قتل کریں گے، نہ کسی پر بہتان لگائیں گے اور نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معروف میں نافرمانی کریں گے۔ ان درس گاہوں میں قرآن کی تعلیم کے ساتھ ان ہی امور کے بارے میں تعلیم و تربیت دی جاتی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و اللہ علیہ وسلم نے حضرت مصعب بن عمیر کو تین باتوں کا حکم دیا تھا۔

وامره ان يقرئهم القرآن، ويعلمهم الاسلام ويفقههم في الدين ان کو قرآن پڑھائیں ، اسلام کی تعلیم دیں اور ان میں دین کی بصیرت پیدا کریں۔

اس ہدایت کے مطابق ان درس گاہوں میں جس قدر قرآن اس مدت میں نازل ہوا تھا اس کی تعلیم دی جاتی تھی۔ عام طور سے آیات و سور زبانی یاد کرائی جاتی تھیں۔ انصار نے بیعت میں جن باتوں کا اقرار کیا تھا ان پر عمل کی تلقین و تاکید کی جاتی تھی۔ یہ درس گاہیں رات دن صبح شام سے آزاد تھیں اور ہر شخص ہر وقت ان سے استفادہ صبح شام کی کرتا تھا۔

 

Download PDF

ایک تبصرہ شائع کریں

Type Your Feedback