کپاس کی سلطنت
کپاس اور دنیا کی سیاسی و معاشی تاریخ
تحریر: وہارا امباکر
جنگی کیپٹلزم کے نظام کا دنیا پر افتخار ہوئیں اور انیسویں صدی میں غلبہ رہا۔ اس کا انحصار امیر اور طاقتور یورپیوں کے لئے دنیا کو دو الگ حصوں میں تقسیم کرنے میں تھا۔ ایک اندر " اور ایک " باہر "۔ اندر والی دنیا میں قانون تھے، ادارے تھے، انسانی حقوق تھے۔ باہر کی دنیا پر غلبہ تھا، غلامی تھی ، زبر دستی تھی۔
01
سلطنت
یہ جنوری 1860 کا دن تھا۔ مانچسٹر چیمبر آف کامرس کی سالانہ میٹنگ میں 68 ممبران اکٹھے ہوئے تھے۔ یہ دنیا کا سب سے زیادہ صنعتوں والا شہر تھا اور یہ لوگ کپاس کے تاجر اور کپڑے کے صنعتکار تھے۔ پچھلے 80 سال میں انہوں نے دنیا بدل دی تھی۔ زراعت، تجارت اور صنعت کا عالمی نیٹورک بن چکا تھا۔ دنیا بھر میں کپاس اگتی تھی اور برٹش فیکٹریوں کا رخ کرتی تھی۔ دنیا کے دو تہائی تکلے یہاں پر تھے۔ مزدوروں کی فوج اسے گھما کر دھاگہ بناتی تھی اور اسے بن کر کپڑا۔ پھر تاجر اسے دنیا کے منڈیوں میں لے جایا کرتے تھے۔
یہ حضرات پر مسرت تھے۔ ان کے صدر ایڈمنڈ پوٹر نے تقریر میں کہا کہ صنعت کی حیران کن بڑھوتری کی رفتار نے پورے ملک کو خوشحال کر دیا ہے، خاص طور پر مانچسٹر کو۔ مانچسٹر، برطانیہ، یورپ، امریکہ، چین، ہندوستان، جنوبی امریکہ اور افریقہ پر بھی اس ملاقات میں بات ہوئی۔ کاٹن کے صنعت کار ہنری ایشور تھ نے کہا کہ ؛
یہ کاروبار جتنی خوشحالی لے کر آیا ہے ، انسانی تاریخ میں کامیابی کی ایسی کوئی اور مثال نہیں "۔
یہ خوشگوار موڈ بلا سبب نہیں تھا۔ یہ لوگ پوری دنیا میں پھیلی ہوئی سلطنت کے مرکز میں تھے۔ یہ کپاس کی سلطنت تھی۔ ان کی فیکٹریوں میں دسیوں ہزار مزدور کام کرتے تھے۔ بڑی سپننگ کی مشینیں چلتی تھیں۔ گھن گھرج کی آواز دیتی مشینوں میں سے کپڑا نکلتا تھا۔ امریکہ کے غلاموں کی اگائی گئی کپاس سب سے زیادہ آتی تھی۔ اور یہاں بنائی مصنوعات دنیا کے کونے کونے میں جایا کرتی تھیں ۔ اس وجہ سے عالمی معاملات میں یہاں دلچسپی تھی۔ حالانکہ ان کا اپنا پیشہ سیاست سے بالکل الگ تھلگ تھا۔ یہ دھاگے اور کپڑے کے تاجر تھے ۔ شور مچاتی، گندی، رش والی اور ناخوشگوار ماحول والی فیکٹریوں کے مالک تھے۔ ان کے شہر کو گلے سے چلنے والے سٹیم انجن کی کالک سے سیاہ تھے جہاں انسانی پینے اور فضلے کی بدبو پھیلی رہتی تھی۔ یہ ایک بڑی سلطنت چلا رہے تھے لیکن کہیں سے سلطان نہیں لگتے تھے۔
صرف سو سال پہلے ان کے اجداد "کپاس کی سلطنت " کی سوچ پر قبقہ لگاتے۔ کپاس چھوٹی سی اراضی پر اگائی جاتی تھی اور آگ کے الاؤ کے آگے بیٹھ کر اس پر کام ہوتا تھا۔ برطانیہ میں کپاس کی صنعت چھوٹی سی تھی۔ ایسا نہیں کہ لوگ کپاس سے ناواقف تھے۔ یورپ میں انڈیا سے ململ، چھینٹ اور لٹھا آیا کرتا تھا۔ یورپی دیہاتوں میں مرد و خواتین گھر میں کپڑا بنا کرتے تھے ۔ امریکا، افریقہ اور ایشیا میں جوار ، مکئی اور شکر قندی کے ساتھ کپاس بھی لگائی جاتی تھی۔ اس سے کپڑا بنا جاتا تھا جس سے گھر یلو ضروریات یا حکمرانوں کی خواہشات پوری کی جاتی تھیں۔ صدیوں سے ڈھاکہ ، کانو، ٹیوٹی ہوا کان اور دوسری جگہوں میں کپڑا بنایا اور رنگا جاتا تھا۔ اس میں سے کچھ کی تجارت بھی ہوتی تھی۔
سٹول پر بیٹھی خاتون جو جھونپڑی کے باہر چرخہ کات رہی ہے۔ اس کو صنعتی انقلاب نے تبدیل کر دیا۔ 1860 میں سٹیم انجن سے چلتے کئی ملین مشینی نکلے تھے جن کو دیہاڑی پر مزدور چلاتے تھے ( اور ان میں بچے بھی ہوتے تھے )۔ یہ مزدور چودہ گھنٹے روزانہ بھی کام کرتے تھے اور کئی ملین کلوگرام کا دھاگہ بنتا تھا۔ یہ کام گھر سے نکل کر فیکٹری میں چلا گیا۔ ہزاروں میل دور کھیتوں میں غلام مشقت کرتے تھے اور ان بھوکی فیکٹریوں کو کپاس کی خوراک ملتی تھی۔ مغربی افریقہ بنے ہوئے کپڑے سے لدے ہونے اونٹوں کے صحرا میں سفر کرتے قافلوں کی جگہ سمندر میں دخانی جہازوں نے لے لی تھی۔
کسی کو احساس بھی نہیں ہوا تھا اور عالمی طور پر ایک دوسرے سے جڑی ہوئی پیچیدہ صنعتی کامپلیکس وجود میں آگئی تھی۔ اس روز کمرے میں خود کو شاباش دینے والے لوگ خود بھی اس کے ماضی سے ناواقف تھے ۔ اور جتنا فرق دنیا کا اپنے ماضی سے تھا، اس سے زیادہ فرق اپنے مستقبل سے۔ اگر انہیں بتایا جاتا کہ کپاس کی سلطنت دنیا کو آئندہ کیسے بدلنے والی ہے تو وہ اس پر یقین نہ کرتے۔
سو سال بعد ، 1960 تک کپاس ایک بار پھر ایشیا، چین، سوویت یونین اور ہندوستان کی طرف چلی گئی۔ دھاگے اور کپڑے کی پیداوار بھی۔ برطانیہ اور باقی یورپ میں ٹیکسٹائل کی چند فیکٹریاں ہی بچیں ۔ اس کے بڑے گڑھ ۔۔۔ مانچسٹر، ملہاوس، بار مین ، لوول ۔۔۔۔ اجڑے ہوئے کارخانوں سے اٹے پڑے تھے۔ مزدور بے روز گار تھے ۔ 1963 میں لیور پول کاٹن ایسوسی ایشن ، جو ایک وقت میں دنیا کی اہم ترین تجارتی ایسوسی ایشن تھی، ان فرنیچر نیلام میں بیچ رہی تھی۔ کپاس کی سلطنت ، جس کے بڑے حصہ پر یورپ چھایا رہا تھا، منہدم ہو چکی تھی۔
یہ سیریز اس کتاب سے ہے
The Empire of Cotton - Global History: Sven Beckert