![]() |
مکتوب 6: جذبہ و سلوک، جمالی و جلالی تربیت، فنا و بقا، اور نسبتِ نقشبندیہ کی فوقیت |
"رسالہ قدسیہ" (مصنفہ حضرت خواجۂ خواجگان خواجہ بزرگوار نقشبند قدس سرہ العزیز) کے بعض حاشیوں میں اس عبارت کو اپنے ظاہری مفہوم سے پھیر کر اپنے موہوم مطلب پر حمل کیا گیا ہے حالانکہ یہ عبارت اپنے ظاہری معنی پر محمول ہے اور ظاہری معنی سے ہٹانے اور تاویل کے قابل نہیں ہے۔ اس تربیت کی علامت محبتِ ذاتی کے ساتھ متحقق ہونا ہے، اس کے تحقق سے پہلے ممکن نہیں ہے، اور محبت ذاتی فنا کی علامت ہے اور فنا سے مراد اللہ تعالیٰ کے سوا ہر چیز کا فراموش ہو جانا ہے۔
پس جب تک تمام علوم پورے طور پر سینے کے میدان سے صاف نہ ہو جائیں اور سالک جہلِ مطلق کے ساتھ متحقق نہ ہو جائے وہ فنا سے بہرہ ور نہیں ہو سکتا، اور یہ حیرت و جہل دائمی ہے اس کا زائل ہونا ممکن نہیں ہے اور ایسا نہیں ہے کہ کبھی حاصل ہو جائے اور کبھی زائل ہو جائے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ مقامِ بقا باللہ سے پہلے جہالت محض ہے اور مقامِ بقا باللہ حاصل ہونے کے بعد جہالت اور علم دونوں جمع ہو جاتے ہیں۔ سالک عین نا دانی کی حالت میں شعور کے ساتھ ہوتا ہے اور عین حیرت کے وقت میں حضور کے ساتھ ہوتا ہے اور یہ مقام حق الیقین4 کا مقام ہے کہ اس میں علم اور عین ایک دوسرے کے لیے حجاب نہیں ہیں اور وہ علم جو اس قسم کی جہالت سے پہلے حاصل ہوتا ہے وہ احاطۂ اعتبار سے خارج ہے (یعنی اعتبار کے لائق نہیں ہے)۔
اس حالت کے با وجود اگر علم ہے تو اپنے آپ میں ہے اور اگر شہود ہے تو وہ بھی اپنے آپ میں ہے اور اگر معرفت یا حیرت ہے تو وہ بھی اپنے آپ میں ہی ہے۔ جب تک کہ نظر باہر کی اشیاء میں ہے بے حاصل (بیکار) ہے، اگرچہ اپنے آپ میں بھی نظر رکھتا ہو، بیرونی اشیاء سے نظر بالکل منقطع ہو جانی چاہیے۔
حضرت خواجہ بزرگ (یعنی خواجہ بہاؤ الدین نقشبند) قدس اللہ سرہٗ فرماتے ہیں کہ "اہل اللہ فنا و بقا کے بعد جو کچھ دیکھتے ہیں اپنے آپ میں دیکھتے ہیں اور جو کچھ پہچانتے ہیں اپنے آپ میں ہی پہچانتے ہیں اور ان کی حیرت اپنے وجود ہی میں5 ہے"۔
اس عبارت سے بھی صاف طور پر مفہوم ہوتا ہے کہ شہود، معرفت اور حیرت اپنے نفس میں ہی ہے اور بس، اپنے آپ سے باہر کی اشیاء میں ان میں سے کوئی بھی نہیں ہے، جب تک ان تینوں میں سے کوئی ایک امر بھی اپنے نفس سے باہر ہے اگرچہ اپنے آپ میں بھی رکھتا ہو، اس کو فنا حاصل نہیں ہے تو بقا اس کو کس طرح حاصل ہو جائے گی (کیونکہ) فنا و بقا میں مرتبے کی انتہا یہی ہے، اور یہ فنا مطلق ہے اور مطلق فنا عام ہے اور بقا، فنا کے اندازے کے مطابق ہوتی ہے (یعنی جس قدر فنا کامل ہو گی بقا بھی اسی قدر کامل ہو گی) اسی لیے بعض اولیاء اللہ، فنا و بقا کے ساتھ متحقق ہونے کے بعد اپنے باہر بھی شہود رکھتے ہیں، لیکن ان بزرگواروں (یعنی مشائخ نقشبندیہ قدس اسرارہم) کی نسبت تمام نسبتوں سے بلند تر ہے۔
نہ ہر کہ آئینہ دارد سکندری داند
نہ ہر کہ سر بتراشد قلندری داند
ترجمہ:
محض آئینہ رکھنے سے سکندر بن نہیں سکتا
فقط سر کے منڈانے سے قلندر بن نہیں سکتا
جب بہت سے قرن (کئی صدیاں) گزرنے کے بعد اس سلسلۂ عالیہ کے بڑے بڑے مشائخ میں سے ایک یا دو کو اس نسبت کے ساتھ شرف بخشتے ہیں تو دوسرے سلسلوں کے بارے میں کیا بیان کیا جائے۔ یہ نسبت حضرت خواجہ عبدالخالق6 غجدوانی قدس سرہٗ کی نسبت ہے اور اس نسبت کو پورا اور کامل کرنے والے حضرت خواجہ خواجگان یعنی حضرت خواجہ بہاؤ الدین7 نقشبند قدس سرہٗ ہیں اور آپ کے خلفاء میں سے حضرت خواجہ علاؤ الدین8 عطار رحمۃ اللہ علیہ اس دولت سے مشرف ہوئے تھے۔
ایں کارِ دولت ست کنوں تا کرا دہند
ترجمہ:
یہ ہے عظیم کام، ملے دیکھئے! کسے
یہ عجیب معاملہ ہے کہ پہلے جو بلا و مصیبت بھی واقع ہوتی تھی وہ فرحت و خوشی کا باعث ہوتی تھی اور یہ فقیر ﴿ہَلْ مِنْ مَّزِیْدٍ﴾ (ق: 30) "کیا اور زیادہ بھی ہے؟" کہتا تھا، اور دنیاوی ساز و سامان میں سے جو کچھ کم ہو جاتا تھا، اچھا معلوم ہوتا تھا اور یہ فقیر اسی قسم کی خواہش کرتا تھا۔
اب جب کہ عالم اسباب میں نزول واقع ہوا ہے اور اپنی عاجزی و محتاجی پر نگاہ پڑی ہے، اگر تھوڑا سا بھی نقصان لاحق ہو جاتا ہے تو پہلے ہی جھٹکے میں ایک قسم کا رنج و غم پیدا ہو جاتا ہے اگرچہ وہ جلد ہی دور ہو جاتا ہے اور کچھ بھی باقی نہیں رہتا۔
اسی طرح اگر پہلے یہ عاجز بلا و مصیبت کے دور ہونے کے لیے دعا کرتا تھا تو اس سے اس بلا و مصیبت کو دور کرنا مقصود نہیں ہوتا تھا بلکہ اس سے مقصود اللہ تعالیٰ کے حکم ﴿اُدْعُوْنِی اَسْتَجِبْ لَکُمْ﴾ (المؤمن 40 آيت 60) "تم مجھ سے مانگو میں قبول کروں گا" کی تعمیل و فرماں برداری بجا لانا تھا لیکن اب دعا سے مقصود بلاؤں اور مصیبتوں کا رفع کرنا ہے اور وہ خوف و غم جو پہلے زائل ہو چکے تھے اب پھر لوٹ آئے ہیں اور اب معلوم ہوا کہ وہ حالت سکر کی وجہ سے تھی۔
صحو کی حالت میں عاجزی و محتاجی اور خوف و حزن اور غم و خوشی جس طرح سے کہ عام لوگوں کو لاحق ہوتی ہے اس خاکسار کو بھی ہے۔ ابتدا میں بھی جب کہ دعا سے بلا و مصیبتوں کا دفع کرنا مقصود نہیں تھا دل کو یہ بات اچھی نہیں لگتی تھی لیکن حال غالب تھا (اس لیے مجبور تھا) دل میں خیال گزرتا تھا کہ انبیاء علیہم السلام کی دعا اس قسم کی نہیں تھی جس سے وہ اپنی مراد کا حاصل ہونا چاہتے ہوں۔
اب جب کہ یہ خاکسار اس حالت سے مشرف فرمایا گیا اور معاملے کی حقیقت واضح کر دی گئی تو معلوم ہوا کہ انبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات کی دعائیں عاجزی و حاجت مندی اور خوف و حزن کی وجہ سے تھیں محض حکم کی تعمیل کے لیے نہیں تھیں۔ بعض امور جو اس فقیر پر ظاہر ہوتے رہتے ہیں حضور کے حکم کے مطابق کبھی کبھی ان کے عرض کرنے کی گستاخی کرتا ہے۔