خطبہ توبہ از حضرت محمد ﷺ

 خطبه توبه



خطبه : يا معشرَ المهاجرين خمسُ خِصالٍ إذا ابتليتم بهنَّ وأعوذُ باللهِ أن تدركوهنَّ لم تظهَرِ الفاحشةُ في قومٍ قطُّ حتَّى يُعلِنوا بها إلَّا فشا فيهم الطَّاعون والأوجاعُ الَّتي لم تكُنْ مضت في أسلافِهم الَّذين مضَوْا ولم ينقُصوا المكيالَ والميزانَ إلَّا أُخِذوا بالسِّنين وشدَّةِ المؤنةِ وجوْرِ السُّلطانِ عليهم ولم يمنَعوا زكاةَ أموالِهم إلَّا مُنِعوا القطْرَ من السَّماءِ ولولا البهائمُ لم يُمطَروا ولم يَنقُضوا عهدَ اللهِ وعهدَ رسولِه إلَّا سلَّط اللهُ عليهم عدوًّا من غيرِهم فأخذوا بعضَ ما في أيديهم وما لم تحكُمْ أئمَّتُهم بكتابِ اللهِ تعالَى ويتخيَّروا فيما أنزل اللهُ إلَّا جعل اللهُ بأسَهم بينهم

الراوي : عبدالله بن عمر | المحدث : المنذري | المصدر : الترغيب والترهيب | الصفحة أو الرقم : 3/29 | خلاصة حكم المحدث : [إسناده صحيح أو حسن أو ما قاربهما] | التخريج : أخرجه ابن ماجه (4019)، وابن أبي الدنيا في ((العقوبات)) (11) واللفظ له

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم متوجہ ہوئے اور فرمایا:

 ”مہاجرو! پانچ (آزمائشیں) ہیں جن میں تم مبتلا ہو گے اور میں اس بات سے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتا ہوں کہ تم ان کو پاؤ: (۱) جب کسی قوم میں بدکاری عام ہو جاتی ہے اور وہ اعلانیہ اس کا ارتکاب کرتے ہیں تو ان میں طاعون اور مختلف بیماریاں، جو ان کے اسلاف میں نہیں تھیں، پھیل جاتی ہیں۔ (‏‏‏‏۲) جب لوگ ماپ تول میں کمی کرتے ہیں تو انہیں قحط سالیاں، سخت تکلیفیں اور بادشاہوں کے ظلم دبوچ لیتے ہیں۔ (‏‏‏‏۳) جب لوگ زکوٰۃ ادا کرنے سے رک جاتے ہیں تو آسمان سے بارش کا نزول بند ہو جاتا ہے اور اگر چوپائے نہ ہوتے تو ان پر بارش نازل نہ ہوتی۔ (۴) جب یہ لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد و پیمان کو توڑتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان پر ان کے دشمنوں جن کا تعلق ان کے غیروں سے ہوتا ہے کو مسلط کر دیتا ہے جو ان سے ان کے بعض اموال چھین لیتے ہیں اور (۵) جب مسلمانوں کے حکمران اللہ تعالیٰ کی کتاب کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے اور اس کے نازل کردہ قوانین کو ترجیح 
نہیں دیتے تو اللہ تعالیٰ اس کو آپس میں لڑا دیتا ہے۔“

تشریح حضرت ابن مسعود سے مروی ہے ۔ آنحضرت نے ارشاد فرمایا 
تم سے پہلے لوگ ایسے تھے کہ جب ان میں کوئی گناہ کرتا تو روکنے والے دوڑ پڑتے ۔ اور اسے کہتے خدا سے ڈرو ۔ لیکن دوسرے ہی دن وہ اس کے ساتھ خلا ملا کر لیتے اور ان کے ساتھ بیٹھ کر کھاتے پیتے ۔ گویا گذشتہ کل اس کا گناہ انہوں نے دیکھا ہی نہیں تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے جب ان کی یہ حالت دیکھی تو ان کے دلوں میں باہم عداوت پیدا کردی اور پھر ان کے پیغمبر حضرت داؤد ، اور حضرت عیسیٰ کی زبان سے ان پر لعنت کرائی اور یہ اس لئے کیا کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی اور حد سے تجاوز کر گئے تھے ۔ قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے تم امر بالمعرف اور نہی عن المنکر کا فرض انجام دو ۔ ظالموں اور حق کے خلاف اقدام کرنے والوں کو روکو ، وگرنه الله تعالى تمہارے دلوں میں بھی عداوت پیدا کر دے گا ۔ اور تم ایک دوسرے پر لعنت بھیجنے لگو گے جس طرح کہ تم سے اگلے لوگ کیا کرتے تھے ۔“


اور ابن ابی الدنیا نے ایک روایت نقل کی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت يوشع بن نون کو بذریعہ وحی یہ خبر بھیجی تھی کہ تیری قوم میں سے چالیس ہزار اچھے لوگوں کو ۔ اور ساٹھ ہزار شریر بدکاروں کو ہلاک کرنے والا ہوں ۔ انہوں نے عرض کیا ۔ پروردگار عالم ! شریروں کو ہلاک کرنا تو بجا ہے ۔ لیکن بھلے لوگوں نے کیا خطا کی ہے؟ اللہ تعالی نے جواب دیا ۔ یہ اس لیے کہ جب میں ان شریروں پر خفا تھا تو یہ لوگ ان پر کیوں خفا نہ ہوئے ۔ کیوں یہ لوگ ان کے ساتھ کھاتے پیتے رہے ؟“


اور ابن عبدالبر نے ابو عمران سے ایک روایت نقل کی ہے کہ

 "کسی آبادی کے لیے اللہ تعالیٰ نے دو فرشتے بھیجے کہ اس آبادی کو تباہ و برباد کر دو ۔ جب یہ فرشتے وہاں پہنچے تو دیکھا ایک شخص مسجد میں کھڑا نماز پڑھ رہا ہے ۔ فرشتوں نے عرض کیا ۔ اے پرور دگار اس آبادی میں تیرا فلاں بندہ بھی تو ہے ، جو نماز پڑھ رہا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ۔ آبادی کو اور آبادی کے ساتھ اس کو بھی ہلاک کر دو ۔ میرے لیے اس کی پشیانی پر کبھی بل نہیں پڑے کبھی نافرمانوں پر ناراضگی کا اظہار نہیں کیا ۔“


اور حمیدی نے حضرت مسعر کی روایت نقل کی ہے ۔

 اللہ تعالیٰ نے کسی آبادی کو ہلاک کرنے کے لیے ایک فرشتہ بھیجا ۔ فرشتہ نے کہا پروردگار عالم اس آبادی میں فلاں عابد موجود ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے وحی بھیجی کہ پہلے اس کو بلاک کر دو ۔ پھر آبادی کو ہلاک کرو کیونکہ میرے لئے کبھی اس کی پیشانی پر شکن نہیں پڑی ۔"


اور ابن ابى الدنيا حضرت وہب ابن منبہ سے روایت کرتے ہیں ۔

 جب حضرت داؤد عليه الصلاة و السلام سے خطا ہو گئی تو بارگاہ الہی میں التجا کی ۔ اے پروردگار عالم ! میری مغفرت فرمایا ، الله تعالیٰ نے فرمایا تیرا گناہ میں معاف کرتا ہوں لیکن اس کی عار کا بوجھ بنی اسرائیل پر ڈالتا ہوں ۔ انہوں نے عرض کیا یہ کیسے ہو سکتا ہے ، تو حاکم عادل ہے ؟ تو کسی پر ظلم نہیں کیا کرتا ، گناہ میں کروں اور سزا دوسرے بھگتیں - الله تعالیٰ نے وحی بھیجی کہ جب تم سے خطا ہوتی تو ان لوگوں نے جلد ہی اس سے انکار (مخالفت کیوں نہ کی ۔


اور ابن ابی الدنیا نے حضرت انس بن مالک سے روایت کی ہے کہ

 میں اور ایک شخص حضرت عائشہ صدیقہ لی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا ام المومنين ! زلزلہ کے بارے میں کوئی حدیث تو بیان فرمائیے ۔ انہوں نے فرمایا لوگ جب بدکاری کو جائز قرار دے لیں ، شراب نوشی کرنے لگیں ۔ اور گانے بجانے کے آلات استعمال کرنے شروع کر دیتے ہیں تو آسمان پر غیرت الہی جوش میں آ جاتی ہے ۔ پھر وہ زمین کو زلزلہ کا حکم دیتا ہے اگر لوگ جلد سے جلد توبہ کر لیتے ہیں اور معاصی ترک کر دیتے ہیں تو ٹھیک ورنہ اللہ تعالیٰ ان کی آبادی کو منہدم اور مسمار کر دیتا ہے ۔ حضرت انس نے کہا ۔ ام المومنين ! كيا يہ ان کے حق میں عذاب ہوگا ؟ انہوں نے فرمایا نہیں یہ ایمان والوں کے حق میں پند و موعظت اور رحمت ہے اور کافروں کے حق میں عذاب اور خدا کا قہر و غضب - حضرت انس نے یہ سن کر کہا آنحضرت کی وفات کے بعد میں نے ایسی خوش کن ، فرحت آگین حدیث کوئی نہیں سنی ۔


اور ابن ابی الدنیا نے ایک مرسل حدیث روایت کی ہے کہ

 رسول الله صلى الله علیہ وسلم کے عہد میں زمین میں زلزلہ آیا تو آپ نے زمین پر اپنا ہاتھ رکھا اور فرمایا ۔ رک جا ابھی تیرے لیے اس وقت نہیں آیا ۔ اس کے بعد آپ صحابہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا ۔

تمہارا پروردگار تم کو گناہوں سے تائب ہونے کا حکم دیتا ہے ، توبہ کرو ۔


عہد فاروقی میں ایک مرتبہ زلزلہ آیا حضرت فاروق نے لوگوں کو خطاب کر کے فرمایا : 

اے زمین تھم جا ۔ کیا میں نے تیرے اوپر لوگوں میں انصاف نہیں کیا ؟

مآخذ : سنن ابن ماجه ، مسند امام احمد بن حنبل ، الدواء الشافي - ابن قيم .


Comments