محمد قاسم ولی اللہ تھیالوجیکل کالج اور سندھ ساگر انسٹیٹیوٹ کا عملی کام
دہلی کی جامعہ ملیہ میں بیت الحکمت قائم کرنے کے بعد ہم لاہور میں اس کی ایک شاخ کھولنے کے لیے مارچ ۱۹۴۴ ء میں چند ہفتے آ کر ٹھہرے ۔ لاہور کے نوجوان طبقے نے ہماری اسکیم سمجھنے کے بعد محمد قاسم ولی اللہ تھیالوجیکل کالج قائم کرنے کے لیے آمادگی ظاہر کی ، اور ہم نے نوجوانوں کی خاطر کالج کی اسکیم لکھ کر دے دی ، جس کو انہوں نے شائع بھی کر دیا ہے۔
ہمارا ارادہ ہے کہ ایسے کالج دہلی اور لاہور کے علاوہ سندھ میں بھی قائم کریں۔ میں بیماری کی حالت میں جب سندھ کی جمعیت طلبہ (کے جلسہ کی صدارت کے لیے حیدر آباد اور حیدرآباد میں کام سے فارغ ہو کر دار الرشاد پیر جھنڈے پہنچا ، سندھ میں ( ہمارے) جس قدر رفقا سندھ ساگر انسٹیٹیوٹ کے کارکن تھے ، انہوں نے جناب پیر ضیاء الدین شاہ ( صاحب العلم ) کو آمادہ کیا کہ وہ دار الرشاد ( گوٹھ پیر جھنڈا) کی نئی عمارت میں محمد قاسم ولی اللہ تھیالوجیکل کالج سندھ ساگر سوسائٹی کے الحاق میں شروع کرنے کی اجازت دیں۔
چنانچہ ۲۴۔ اپریل ۱۹۴۴ ء کو زیر صدارت پیر ضیاء الدین شاہ دار الرشاد کی عمارت میں جلسہ ہوا اور کالج کا افتتاح کیا گیا۔ فی الحال تعلیم کے لیے مولوی بشیر احمد بی اے لدھیانوی کو لاہور سے بلوا کر کالج کا وائس پرنسپل اور کالج سے ملحق اسکول کا ہیڈ ماسٹر مقرر کیا گیا ہے۔
طریقہ تعلیم
اس کالج میں بنیادی طور پر شاہ ولی اللہ کی تنہاسفی سکھائی جائے گی، جس کی نوعیت کے دو رنگ ہوں گے۔
سیاسی و سماجی مقاصد
اس کالج کی فلسفیانہ تعلیم کی بنیاد پر ہی ایک پولیٹیکل پارٹی بنے گی۔ جو مسلمانوں کی زندگی کی ترجمان رہے گی اور گاندھی ازم کے چکر سے نجات دلائے گی۔
ہماری نظر میں گاندھی ازم اور کانگریس دو الگ الگ چیزیں ہیں ۔ ہم اس وقت گاندھی ازم کے تنگ دائرہ میں کام کرنے پر مجبور ہیں، جس میں ہمارے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ لیکن برطانوی امپیریلزم کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔ کیوں کہ اس کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ اس کے اندر رہ کر ہم کام کر سکتے ہیں۔
یعنی جب بھی گاندھی ازم اور برٹش امپیریلزم کا مقابلہ ہوگا، تو ہم برٹش کے ساتھ کام کریں گے، نہ کہ گاندھی ازم کے تابع ہو کر ۔ ہم نے کابل میں اور کابل سے باہر انڈین نیشنل کانگریس کی بڑی خدمات انجام دی ہیں ۔ ان خدمات سے ہم کبھی دست بردار نہیں ہو سکتے۔ لہٰذا کانگریس میں گہری ولی اللہی فلاسفی کی بناء پر مستقل پروگرام چلائیں گے اور اس طرح انڈین نیشنل کانگریس کی برطانیہ سے مصالحت کرائی جائے گی۔
شمالی سندھ میں تحریک کی شاخیں
ہمارا خیال تھا کہ سندھ ساگر انسٹیٹیوٹ گوٹھ پیر جھنڈا کی چند شاخیں شمالی سندھ میں قائم کی جائیں ، جس کا نام "سندھ ساگر اکاڈمی" رکھا جائے ۔ مدت سے خواہش تھی کہ امروٹ تعلقہ گڑھی یاسین میں جو ہمارے مرشدوں کا مرکز ہے، سندھ ساگر اکاڈمی قائم کی جائے!
۲۵ مئی ۱۹۴۴ء کو اس کام کے لیے وڈیرہ مستی خان کے پوتے وڈیرہ ہدایت اللہ خان دل نے ایک قطعہ زمین عطا کی، جہاں امید ہے کہ سندھ ساگر اسکول کھولا جائے گا ، اور اس اسکول کے ذریعے امروٹی جماعت ایک مرکز پر جمع ہو جائے گی۔ امید ہے کہ دار السعادت گورو پہوڑ کے طلبہ اور قاسم العلوم تھرے چانی کی تحریکیں بھی اس مرکز سے وابستہ ہو جائیں گی۔
اس اسکول کی زمین کو دو حصوں میں بانٹا جائے گا:
اس کام میں ہمارے بہت سے رفقا ہم خیال ہیں، جن میں مولانا دین محمد صاحب وفائی عملی طور پر کام میں شامل ہوتے رہتے ہیں۔ یقینا یہ تحریک ملک وملت کے لیے بہت مفید ثابت ہوگی۔
جامعہ ملیہ دہلی سے تعلق
ہم بیمار ہیں اور عمر رسیدہ بھی مگر میری موت سے یہ تحریک مر نہیں جائے گی۔ جامعہ ملیہ دہلی میں بیت الحکمت قائم کر کے وہاں تعلیم کا جو کام ہم نے شروع کر دیا ہے، ہمارا ارادہ ہے کہ سندھی طلبہ کے لیے جامعہ ملیہ میں بورڈنگ ہاؤس بھی قائم کیا جائے ، جہاں سندھی نوجوان تعلیم حاصل کر کے سندھ میں اعلیٰ پیمانے پر کام کرتے رہیں۔
جامعہ میں فقط ابتدائی تعلیم دی جائے گی ۔ جامعہ جیسی تعلیم کہیں بھی نہیں دی جاتی ۔ اگر سندھ کے امراء کے بچے جامعہ میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے لیے گئے ، تو وہ بہترین طلبہ ثابت ہوں گے۔
اختتامیہ
ہم اوپر دکھا چکے ہیں کہ اس بیماری کی حالت میں سندھ کا سفر نوجوان عربی طلبہ کے جلسہ کی صدارت کے لیے کیا گیا ہے۔ حال ہی میں ہم دار السعادت میں رہ کر طلبہ کو ہدایات دے کر آئے ہیں ۔ یہ جماعت ہمارے مقاصد سے متفق ہے ۔ لہذا بزرگوں کا فرض ہے کہ وہ طلبہ کی حوصلہ افزائی کریں اور ان کاموں میں رکاوٹیں نہ ڈالیں ، اگر ان سے کوئی غلطی ہو جائے تو ان کو فراخدلی سے معاف کریں ۔ سندھ کے نوجوان طلبہ میں پوری استعداد موجود ہے ، جس پر زنگ لگ گیا ہے۔ اس کو چمکانے کے لیے کوشش کی جائے ۔ واللہ المستعان
ماخذ: ماہنامہ توحید، کراچی، جون ۱۹۴۴
تحریر: مولانا عبیداللہ سندھی