اسلام اور جمہوریت کا باہمی تعلق
اسلام اور جمہوریت کا باہمی تعلق
از
مفتی عبدالخالق آزاد رائے پوری
اسلام کا سیاسی نظام حکومت کیا ہے؟
مسلم معاشرے کی سیاسی تنظیم و تہذیب کا بنیادی ڈھانچہ کن بنیادوں پر استوار ہوتا ہے؟
عوام اور حکمرانوں کا باہمی رشتہ و تعلق کیونکر قائم ہوتا ہے؟
اجتماع، اداروں کی تشکیل اور قومی مفاد کے حوالے سے ان کی نفوذ پذیری کا رخ کیا ہونا چاہئے؟
یہ اور اسی طرح کے دیگر سوالات جن کے بڑا گہرا تعلق معاشرے کی سیاسی تعمیر و تشکیل کے ساتھ ہے۔ ہمیشہ محققین علمائے اسلام کے پیش نظر رہے ہیں۔ اور ہر دور میں انہوں نے اس حوالے سے بنیادی اصولوں کی وضاحت اور تشریح کی ہے۔ اور معاشرے کے اہم اور ٹھوس حقائق کو پیش نظر رکھ کر ان اصولوں کی عملی صورت گری کے لئے ایسا فریم ورک دیا ہے جو نہ صرف معاشرے کے سیاسی رخ کو متعین کرتا رہا ہے۔ بلکہ معاشرہ میں عدل و انصاف پر مبنی سیاسی مساوات کے لئے بنیادی مواد اور حکمت عملی بھی فراہم کرتا رہا ہے
اگرچہ ہر دور میں اسلام کے نظام حکومت کا سیاسی تصور بڑا واضح اور روشن رہا ہے۔ لیکن اس دور میں بعض "اسلام پسند " حلقوں کی جانب سے اسلام کے سیاسی تصور اور اس کے نظام حکومت کے بارے میں بڑی مبھم اور بے سروپا باتیں پھیلائی جا رہی ہیں۔
کبھی اسلام کے سیاسی نظام حکومت کے حوالے سے خلافت الہند" کا نعرہ دیا گیا اور متحدہ ہندوستان میں انگریز سامراج کے خلاف چلنے والی قومی جدو جہد آزادی کی تحریک کو سبو تاژ کرنے کی کوشش کی گئی
کبھی پاکستان کے آئین میں چند "اسلامی دفعات " شامل ہو جانے کو اسلام کی سیاسی فتح قرار دیا گیا۔
اور یہ بھی ہوا کہ اسلام کے شورائی نظام کا نام لیکر نامزد شوری " قائم کی گئی جو "شوری کرلی" کے نام سے مشہور ہوئی۔ اور اس کے ذریعے سے سیاسی آمریت اور جبر کی ایسی سیاہ رات ملک پر مسلط کی گئی کہ عام لوگوں کے ذہنوں میں اسلام کے سیاسی نظام حکومت کے بارے میں طرح طرح کے شکوک و شبہات جنم لینے لگے اور اس حوالے سے اسلام کی حقیقی اور روشن تعلیمات پر سے لوگوں کا اعتماد اٹھنے لگا۔
کبھی ایسے "کمیشن " قائم کئے گئے جنہوں نے سیاسی جماعتوں کو ختم کرنے، اور یکجہتی "آمریت " کو عین اسلام قرار دیا۔
اور آجکل "خلافت بمقابلہ جمہوریت " کا راگ بھی بڑے زور و شور سے الاپا جا رہا ہے تاکہ اجتماعی تقاضوں کے مطابق جمہوری سوچ اور رویوں کو ختم کر کے آمرانہ اور پر تشدد رویوں کو "خلافت اسلامی " کی آر میں ابھارا جائے۔
غرض کہ ایسی مبهم اور دور از حقائق سیاسی نظریات و افکار اسلام کے سیاسی نظام کے حوالے سے پھیلائے جا رہے ہیں کہ جن کا اسلام کی حقیقی سیاسی تعلیمات سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں۔ بلکہ اسلام کے نام پر اس کے رخ زیبا کو داغدار کرنے کے مترادف ہے۔
اسلام کا سیاسی تصور و نظام حکومت حقیقت میں کیا ہے؟ محققین علمائے حق نے اسے بڑے واضح افکار و نظریات کی صورت میں پوری وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ بلکہ ان کی جدوجہد کے عملی رخ نے بھی اس حقیقت کو بڑی حد تک واضح کیا ہے۔ چنانچہ حضرت امام شاہ ولی اللہ دہلوی سے لیکر شیخ الہند، مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا عبید اللہ سندھی تک علمائے حق کا ایسا سلسلہ ہے کہ جس نے دیگر میدانوں کے علاوہ سیاسی افکار و نظریات کی بھی مناسب تہذیب و ترتیب قائم کی ہے اور دور حاضر کے تقاضوں کے مطابق اسلام کی سیاسی تعلیمات، افکار و نظریات کو کچھ اس طرح نکھارا ہے کہ بنیادی طور پر اسلام کا سیاسی فکر و نظریہ واضح تر شکل میں ہمارے سامنے آجاتا ہے۔
آنحضرت نے اسلام کی سیاسی تعلیمات کی وضاحت کرتے ہوئے یہ حقیقت واضح کی ہے کہ اسلام ہر قسم کے ذاتی و تشخصی تسلط کی نفی مطلق کرتا ہے، اس نے روز اول ہی سے جو نظام حکومت قائم کیا۔ وہ خالص جمہوری اور شائبہ شخصیت سے پاک تھا۔ تصریحات کلام اللہ اور سنت مسلمین اولین سے بغیر کسی توجہ و تاویل کے ثابت ہوتا ہے که " حکومت جمہوری ملک ہے، ذات اور خاندان کو اس میں دخل نہیں " چنانچہ ان حضرات محققین علمائے اسلام نے پوری ذمہ داری کے یہ اعلان کر دیا کہ "اسلام ایک جمهوری نظام حکومت ہے " اور اسلام کی سیاسی تعلیمات کا یہ بنیادی تقاضہ ہے کہ ایسی حقیقی جمہوریت کے قیام کی جدوجہد کی جائے۔ جس میں قوموں کی آزادی اور حریت سیاسی مساوات، قانون کی حکمرانی، سماجی عدل معاشرے کی بحیثیت مجموعی ترقی اختلاف رائے کے باوجود ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے رویے اور جیسے جذبے فروغ پائیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان حضرات نے قومی جدوجہد آزادی کی تحریکات کو تشدد کی بجائے عدم تشدد اور جمہوری اصولوں کی بنیاد پر ترتیب دیا۔ اور جدوجہد آزادی کی قومی تحریکات کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلام حقیقی سیاسی مساوات کا قائل ہے۔ معاشرے کی تنظیم و تہذیب اور اس کی سیاسی تعبیر و تشکیل میں اس کا ہر فرد اسی طرح اپنا بنیادی حق رکھتا ہے۔ جس طرح معاشرے کی اپنی تشکیل میں میں ہر فرد کی موجودگی اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ معاشرہ افراد سے وجود پذیر ہوتا ہے اس کا تشخص افراد کی اجتماعی زندگی کا مرجون منت ہے۔ چنانچہ معاشرے کی ہمہ جہتی صورت گری میں افراد کا حق یکساں طور پر م مسلم حیثیت رکھتا ہے خاص طور پر معاشرے کے سیاسی تشخص کو ابھارنے میں افراد بنیادی کردار ادا کرتے ہیں اس حوالے سے تعاون باہمی کے سیاسی رخ کو متعین کرنے میں بھی افراد کا کردار بڑا تاریخ ساز ہوتا ہے۔ معاشرے میں اجتماعی اداروں کا اپنا ایک مقام ہوتا ہے ۔ اور ان کو صحیح طور پر کنٹرول کرنے کا نظام سیاسی اداروں کی مثبت تشکیل پر ہے۔ اور سیاسی اداروں کی مثبت تشکیل اسی وقت ممکن ہے جبکہ معاشرہ کے تمام افراد اپنے استصواب رائے سے حکومتی نظام چلانے کا کسی جماعت یا فرد کو مینڈیٹ دیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی اداروں کے انتخاب اور دیگر اجتماعی اداروں کی تشکیل و تنظیم میں معاشرے کے تمام افراد کا بالواسطہ یا بلاواسطہ تعلق ہونا ایک ایسا فطری اور بنیادی تقاضہ ہے جس سے صرف نظر نہیں کہا جاسکتا ہے۔
اس تناظر میں یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ معاشرے پر حکمرانی کرنے والے عوام کے حقیقی نمائندے منتخب ہوں، لوگ انہیں واضح مینڈیٹ دیں کہ وہ ان کے لئے ہمارے قومی حقوق اور اجتماعی مفادات کے تحفظ کے لئے حکمرانی کریں اور ہمارے حقوق کی ادائیگی کا صحیح بندو بست کریں یوں اسلام ایک ایسی سچی اور حقیقی جمہوریت پر مبنی سیاسی نظام رکھتا ہے کہ جس میں عوام کی اکثریت بغیر کسی جبرو کراہ کے اپنے حقیقی نمائندوں کو منتخب کرتی ہے یوں کسی بھی حوالے سے آمریت کی پر چھائیاں اسلام کے سیاسی نظام میں قابل برداشت نہیں ہوتیں۔
حقیقی جمہوریت اسلام کے سیاسی نظام کا ایک ایسا روشن اور سنہری پہلو ہے جو دنیائے انسانیت میں سب سے پہلے اسلام نے متعارف کرایا ، حکمرانی کا ایسا انداز جس میں کسی جبر کے بغیر معاشرے کا ہر فرد اپنی حقیقی رضامندی سے اپنا حکمران منتخب کرے اور اس کے ہاتھ پر بیعت کر کے اپنی رضامندی اور اپنے انتخاب کا اظہار کرے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اور خلفائے راشدین کی روشن زندگی کا ایسا لازوال سیاسی رخ ہے جو دنیا کی تاریخ میں ہمیشہ سے روشن مینار کی حیثیت رکھتا ہے ایسی حکمران جس میں حکمران اور عوام کے درمیان سیاسی کاچی اور معاشی حقوق کے حوالے سے کوئی امتیاز باقی نہ رہا۔ اور ہر فرد آزادی کے ساتھ اپنی رائے کا اظہار کرتا رہا اور حاکم وقت اپنی رائے اور صوابدید کا استعمال نہیں کرتا بلکہ جماعت کے اجتماعی مشورے اور اکثریت کی رائے کا اپنے کو پابند بتاتا ہے اور حکومت میں عوام کی شراکت کا کھلے عام اعتراف کرتا ہے۔ اس سے بڑھ کر اور کیا جمہوریت ہوگی۔ حقیقی جمہوریت کے خدو خال کو واضح کرنے میں حضرت عمر رضی اللہ کے درج ذیل الفاظ جمہوریت کی تاریخ میں اپنی مثال نہیں رکھتے۔
وہ ذمہ داری جو میں نے تمہارے معاملات چلانے کے لئے سنبھالی ہے تم اس میں مکمل طور پر میرے ساتھ شریک ہو تم میں سے ہر ایک فرد کی طرح میں بھی ایک فرد کی حیثیت رکھتا ہوں گویا میرا روٹ دوسرے کسی ایک فرد کے ووٹ کی طرح ہے) آج کے دور میں تمہاری جماعت حق پر قائم ہے حقائق کو سامنے رکھ کر آج تم نے ہی ؟ صحیح فیصلہ کرنا ہے جو میرے رائے کی مخالفت کرنا چاہتا ہے۔ بخوشی میری مخالفت کرے اور جو میری رائے سے اتفاق کرنا چاہے۔ بغیر کسی جبرو کراہ کے کرے۔ میں قطعا یہ نہیں چاہتا کہ تم لوگ میری رائے کو ضرور تسلیم کرو اور اس کے مطابق فیصلہ کرو " (کتاب الخراج صفحہ ۲۷)
عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اس قول کے پس منظر میں، حقیقی جمہوریت کی جو حضرت روح کار فرما تھی۔ اسے پیش نظر رکھ کر بعد کے علمائے محققین نے عوام کی اجتماعی رائے کو بڑی اہمیت دی ہے اور ایسے اداروں کی تشکیل پر زور دیا ہے جو حقیقی معنوں میں لوگوں کے نمائندے ادارے ہوں۔ اور قومی امنگوں کے مطابق نظام حکومت چلانے کی صلاحیت سے بہترور ہوں۔ ان اداروں میں ایسے افراد جائیں جو دھن و دولت، سرمایہ اور جاگیر کے بل بوتے پر نمائندے نہ بن جائیں۔ بلکہ حقیقی نمائندگی کی بنیاد پر اور اپنی صلاحیت کی وجہ سے اجتماعی اداروں میں پہنچیں۔ چنانچہ امام الہند شاہ ولی اللہ دھلوی سیاسی نظام حکومت کے حوالے سے یہ ضروری قرار دیتے ہیں کہ قوم کے منتخب اور عقلمند افراد کا ادارہ نظام حکومت چلائے، اس طرح شاہ صاحب نے اجتماعی ادارے کی اہمیت کو اپنی تحریروں میں جابجا اجاگر کیا ہے حقیقت یہ ہے کہ پارلیمانی نظام کا ابتدائی تصور شاہ ولی اللہ دہلوی کے سیاسی افکار میں پوری طرح جھلکتا محسوس ہوتا ہے
شاہ ولی اللہ دہلوی کے بعد انیسویں اور بیسویں صدی میں برا عظیم پاک و ہند میں علمائے حق اور مسلم زعماء نے جب قومی حوالے سے سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا۔ تو انہوں نے مسلمہ جمہوری اصولوں کو پیش نظر رکھ کر تنظیم سازی کا عمل مکمل کیا۔ اور جمہوریت کے حوالے سے عملی طور پر سیاسی جدوجہد کی داغ بیل ڈالی۔ حتی کہ مسلمانوں کے تعلیمی
اداروں کا داخلی نظام بھی جمہوریت کے اصولوں پر کام کرتا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان میں کوئی سیاسی جماعت خواہ وہ اسلامی " لیا، اپنے اوپر جہاں کیئے ہوئے ہے ما نہیں۔ جمہوری اصولوں کی اہمیت اور واقعیت سے انکار نہیں کرتی۔ بلکہ تمام سیاسی جماعتوں کا دعوی یہ ضرور ہے کہ وہ مسلمہ جمہوری اصولوں پر عمل پیرا ہیں۔
ان گزار اشات سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام کا سیاسی نظام حکومت حقیقت میں حقیقی جمہوریت پر مبنی ہے اور اس کے مسلمہ اصولوں کا اسلام سے نہ صرف یہ کہ کوئی تضاد نہیں ہے بلکہ اسلام کے یہ وہ عالمگیر اصول ہیں جن پر سیاسی عمارت کی تعمیر ہوتی ہے ۔