پاکستانی معاشرے میں مذہب کی چار اقسام - ایک تجزیاتی مطالعہ

مفتی ڈاکٹر سعید الرحمن اعوان کے تجزیہ کے مطابق پاکستانی معاشرے میں مذہبی رویوں کی چار اقسام: رسمی، فرقہ وارانہ، قنوطی اور سیاسی مذہب
پاکستانی معاشرے میں مذہب کی چار اقسام - ایک تجزیاتی مطالعہ

پاکستانی معاشرے میں مذہب کی چار اقسام

مفتی ڈاکٹر سعید الرحمن اعوان کے تجزیہ کے مطابق پاکستانی معاشرے میں پائے جانے والے مذہبی رویوں کی چار واضح اقسام

پاکستانی معاشرے میں مذہب کا کردار

قیام پاکستان کے پس منظر میں جو عوامل کار فرما تھے، ان میں انگریز کی حکمت عملی، ہندوؤں کی تنگ نظری، مسلمانوں کی معاشی بد حالی وغیرہ اپنی جگہ اہمیت رکھتے ہیں لیکن ان تمام پر جو چیز حاوی نظر آتی ہے، وہ مسلمانوں کی جذباتیت ہے کہ جب انہیں نفاذ اسلام کا سنہرا سپنا دکھایا گیا تو وہ بغیر سوچے سمجھے اس سحر میں ایسے گرفتار ہوئے کہ انہوں نے نہ تو اپنے قائدین کی انگریز نوازی کی تاریخ کو دیکھا اور نہ ہی بقیہ ہندوستان میں رہ جانے والی مسلم اقلیتوں کی مستقبل کی حالت زار کا اندازہ کیا۔

بعد ازیں جب پاکستان ، دنیا کے نقشہ پر ظاہر ہو گیا تو یہاں بجائے حقیقی دین کے مذہب کی مختلف شکلیں اور متعدد تعبیرات ظہور پذیر ہوئیں جس کے نتیجے میں دین کی حقیقی اہمیت معاشرے کی نظروں سے اوجھل ہو کر رہ گئی یوں اس ملک میں جس کے حصول کے لئے عوامی پیمانے پر سب سے بڑی قوت محرکہ دین تھا ، سب سے زیادہ مظلوم صنف بھی یہی قرار پایا۔

کسی طرف سے معاشرتی امور میں مادی انکار کو نمایاں اور حقیقی اہمیت دے کر مذہب کو ایک نجی معاملہ بنادیا گیا، کسی نے مذہب کی تعبیر اس انداز سے کی کہ اس کے دائرہ میں وسعت کی بجائے انتہائی تنگ دامنی کا احساس ہونے لگا، کسی نے مذہب کو عبادات کے روپ میں اس طریقے سے پیش کیا کہ اسلام میں بھی مسخ شدہ عیسائیت و یہودیت کی مانند معاشرتی امور سے لا تعلق نظر آنے لگا اور کسی نے مذہب کی سیاسی تعبیر کو اپنا مقصود نظر بنا لیا۔

مذہبی رویوں کی چار اقسام

بنیادی طور پر معاشرے میں موجود مذہبی رویوں کی چار اقسام بن جاتی ہیں جو درج ذیل ہیں:

1
🕌

رسمی مذہب

ہمارے معاشرے کی اکثریت اس مذہب پر عمل پیرا ہے، بالخصوص معاشرے کے مرفه الحال طبقات میں تو اس مذہب کا چلن ہے۔ اس مذہب کے نقطہ نظر سے عام معاشرتی زندگی اپنے من پسند طریقوں پر گزاری جاتی ہے خواہ کسی کی دل آزاری ہوتی ہو یا کسی کے حقوق پر زد پڑتی ہو۔ اس مذہب کی ساری تان نماز، شادی اور خوشی کے دیگر مواقع پر ادا کی جانی والی رسومات پر ہی ٹوٹتی ہے، اس میں زندگی کے دیگر معمولات سے کوئی بحث نہیں ہوتی۔

2
⚔️

فرقہ وارانہ مذہب

اس مذہب کو ماننے والے در حقیقت ایک مخصوص دائرے میں رہنے والے افراد کے ماسوا کسی کو اپنے سے متعلق نہیں سمجھتے۔ وہ اپنے کچھ مزعومات و خیالات کو عقائد کا درجہ دے کر ان سے اتفاق نہ رکھنے والوں کو نہ صرف اپنے مذہب سے خارج بلکہ دین سے بھی منحرف قرار دیتے ہیں۔ فرقہ وارانہ مذہب کے ماننے والے در حقیت تنگ نظر اور جاہلی تعصب کے حامل ہوتے ہیں، ان کے مذہب کی بنیاد سب و شتم، تیرا اور کفر سازی کے فتوے ہوتے ہیں۔

3
🌫️

قنوطی مذہب (مایوس کن)

اس مذہب کے ماننے والے اپنے تئیں عبادات پر قائم ہوتے ہیں اور ان کا سارا زور اس بات پر ہوتا ہے کہ عبادت گاہوں میں مخصوص عبادات انجام دی جائیں۔ لیکن عبادت گاہوں سے باہر کی زندگی سے کوئی تعلق نہ رکھا جائے۔ اس طرح ان کے مزاج میں ایک قسم کی رہبانیت در آتی ہے اور معاشرتی سرگرمیوں کے بارے میں ان کا رویہ قنوطیت اور مایوسی کا آئینہ دار ہوتا ہے۔

4
🏛️

سیاسی مذہب

اس مذہب کے ماننے والے، سیاسی مقاصد کے حصول کو بنیادی اہمیت دیتے ہیں، خواہ اس کے لئے رائج الوقت کوئی طریقہ بھی اختیار کرنا پڑے، ان کا مقصود قیام عدل اور تحفیذ شریعت کی بجائے محض حصول اقتدار ہوتا ہے۔ جس بناء پر سیاسی قلابازیاں اس مذہب کا ایک ناگریز تقاضہ قرار پاتی ہے۔ سیاسی مذہب میں قلبی روحانیت کی کوئی جگہ نہیں ہوتی اس لئے خواہشات کی حکمرانی اور حرص و ہوس کا غلبہ ہوتا ہے۔

رسمی مذہب کی تفصیل

اس مذہب سے منسلک افراد میں مذہب سے تعلق اگر زیادہ ہوگا تو وہ رفاہی اداروں اور مساجد و مدارس کو چندہ بھی ادا کریں گے۔ اس مذہب میں اصول و نظریات پر یقین کی وہ روح نہیں پائی جاتی جو انسان کو متحرک اور باعمل بناتی ہے چنانچہ انسانی طبائع اس مذہب کے تحت مختلف نوعیت کے اوہام و خیالات کا مجموعہ بن جاتی ہیں۔

چنانچہ اس مذہب کے پیروکاروں کی نظر میں جادو ٹونے ، ٹوٹکے اور دیگر عملیات کی سب سے زیادہ اہمیت ہوتی ہے۔ چنانچہ مختلف آستانوں اور درباروں میں نیز عاملوں اور پیشہ ور لوگوں کے ہاں ایسے لوگوں کی کثرت سے آمد ورفت ہوتی ہے انہیں دین کے اساسی حقائق سے زیادہ ٹونے ٹوٹکوں پر اعتماد ہوتا ہے۔

اس مذہب کے پیروکاروں کے ہاں بنیادی طور پر ذاتی اور گروہی مفادات کا حصول ہی اہمیت رکھتا ہے جس کے لیے وہ کسی بھی قسم کے ہتھکنڈے کو استعمال کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے جبکہ اس کے برعکس انہیں اجتماعی مفادات سے کوئی تعلق یا لگاؤ نہیں ہوتا۔

فرقہ وارانہ مذہب کی تفصیل

اس مذہب کے پر چارک اپنے عقائد کی اشاعت سے زیادہ اس چیز کو زیادہ اہم گردانتے ہیں کہ دوسرے مذاہب کے سر بر آوردہ لوگوں کو طعن و تشنیع کا ہدف بنایا جائے اور ان کے بارے میں ایسا لب ولہجہ اختیار کیا جائے جس سے اشتعال پیدا ہو۔

فرقہ وارانہ مذہب کے حاملین کے ہاں دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کی حیثیت ایک اچھوت سے زیادہ نہیں ہوتی۔ وہ لب و لہجہ کی روشنی کے ساتھ طاقت کے استعمال سے بھی دریغ نہیں کرتے، جس سے معاشرے میں افتراق و تقسیم کا عمل شروع ہو جاتا ہے اور اس کی وحدت پارہ پارہ ہوتی ہے۔

یہاں یہ واضح رہے کہ فرقہ واریت کی ترویج اور عقائد حقہ کی دعوت دو متضاد نوعیت کے امور ہیں۔ فرقہ وارانہ مذہب کا محرک گروهی برتری و بڑائی اور دوسروں کی تحقیرو تنقیص ہوتا ہے جب کہ دعوت حق کا محرک انسانیت کی ہمدردی اور اس کی خیر خواہی ہوتی ہے۔

قنوطی مذہب کی تفصیل

قنوطی یا رہبانی مذہب کے پیروکار، زندگی کو مختلف بلکہ متضاد خانوں میں تقسیم کر کے اس کے ایک حصہ کو مذہب کے ماتحت اور بقیہ حصوں کو مذہب کی دسترس سے دور کر دیتے ہیں اور اس طرح اپنے آپ کو مکمل دیندار کے روپ میں پیش کرتے ہیں۔

عام معاشرے میں بھی نیکی اور مذہبیت کا تصور بھی یہی کچھ رہ گیا ہے یہ طرز عمل، بنی اسرائیل کے اس طرز عمل سے ملتا جلتا ہے جس میں انہوں نے اپنی کتاب کے بعض حصوں کے خلاف ورزی کرتے ہوئے اس کے کچھ حصے پر عمل کر لیا کرتے تھے۔

الغرض دین کو صرف عبادات پر مشتمل خیال کر کے معاشرتی معمولات کو اس سے علیحدہ کر دینا، عافیت پسندی کی نفسیات کی آئینہ دار ہے کہ دنیوی معاملات میں دین کا احیاء مستقل اور مسلسل جدو جہد کا متقاضی ہے۔

سیاسی مذہب کی تفصیل

سیاسی ضرورتوں کے تحت مذہب کا سہارا لینے والے جب اپنی ضرورتوں اور تقاضوں کے لئے موجودہ دین کا لباس تنگ محسوس کرتے ہیں تو وہ نئی نبوت کے اجراء سے بھی نہیں ہچکچاتے تاکہ ایک نئے مذہب کے تحت سیاسی ضرورتوں کی بہ آسانی تکمیل ہو سکے۔

بہر کیف اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جب مذہب سیاسی اغراض و مقاصد کا آلہ کار بن جاتا ہے تو مذہب انسانی اور معاشرتی کمزوریوں کے ساتھ سمجھوتہ کر لیتا ہے اور اقتصادی عدم توازن کی پشت پناہی کرنے لگ جاتا ہے، اس طرح پورے معاشرے پر عیش و عشرت کی ذہنیت مسلط کرنے کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔

خلاصہ کلام حقیقی دین اور اس کے علمبردار اہل حق کے راستے میں مذہب کے عنوان کے تحت مختلف صورتوں میں (جن میں سے بعض کا تذکرہ ہوا) مشکلات اور رکاوٹیں پیدا کی جاتی ہیں تا کہ دین حق کو رو بہ عمل آنے سے روکا جا سکے۔ اس لئے ضروری ہے کہ معاشرے میں موجود مذہبی رویوں کا تجزیہ کیا جائے اور ان کے حقیقی مقاصد کو بے نقاب کیا جائے۔

ویڈیو پسند آئی؟

اگر آپ کو یہ ویڈیو پسند آئی ہو تو لائک کریں، سبسکرائب کریں اور شیئر ضرور کریں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس علمی تجزیے سے مستفید ہو سکیں!

ہمیں کمنٹس میں ضرور بتائیں: "آپ کے خیال میں پاکستانی معاشرے پر ان چار میں سے کون سا مذہبی رویہ سب سے زیادہ حاوی ہے؟"

Post a Comment

Type Your Feedback