قطر کے دارالحکومت دوحہ میں حماس کی سیاسی قیادت کو نشانہ بنانے کا اسرائیلی فضائی حملہ ایک کثیرالجہتی واقعہ
قطر کے دارالحکومت دوحہ میں حماس کی سیاسی قیادت کو نشانہ بنانے کا اسرائیلی فضائی حملہ ایک کثیرالجہتی واقعہ ہے۔ اس مکمل ناکام حملے کے دور رس تزویراتی اثرات مرتب ہوں گے۔
اسرائیل نے دوحہ میں ایک ایسے حساس وقت پر حملہ کیا، جب قطر غزہ میں جنگ بندی کے لیے ایک اہم ثالث کا کردار ادا کر رہا تھا۔ اس حملے سے نہ صرف قطر کی علاقائی خودمختاری کی خلاف ورزی ہوئی بلکہ اس نے قطر کی علاقائی، عسکری اور سفارتی ساکھ کو شدید نقصان پہنچایا۔
دستیاب اوپن سورس معلومات کے تحت اسرائیل کے دس F-35 جنگی طیاروں نے اس آپریشن میں حصہ لیا، جنہوں نے اردن اور سعودی عرب کی فضائی حدود استعمال کیں۔ ان جہازوں کو قطر ہی کے "العدید ایئربیس" سے پرواز کر کے برطانوی اور امریکی "ایئل ٹینکرز" نے فضا میں ایندھن فراہم کیا، جس کے بعد وہ واپسی کی پرواز کے قابل ہوئے۔
دوحہ حملے کا سب سے چونکا دینے والا پہلو قطر اور سعودی عرب کے انتہائی جدید فضائی دفاعی نظاموں کی مکمل ناکامی ہے۔ اس حملے کے دوران نہ تو دونوں ممالک کے کسی زمینی فضائی دفاعی نظام نے کوئی ردعمل ظاہر کیا اور نہ ہی ان ممالک کی فضا میں موجود کسی طیارے نے الرٹ جاری کیا۔
ایسا کیوں ہوا؟ اس حوالے سے تین مختلف نظریات ہیں:
پہلا نظریہ
یہ ہے کہ اردن، سعودی عرب اور قطر تینوں کی معاونت سے یہ آپریشن سرانجام دیا گیا، اس لیے کسی الرٹ یا وارننگ کی گنجائش ہی نہیں تھی۔
دوسرا نظریہ
یہ ہے کہ اسرائیلی اسٹیلتھ صلاحیت رکھنے والے یہ طیارے مکمل Passive Mode میں پرواز کر رہے تھے۔ اُن کے تمام ریڈار اور سینسرز پورے آپریشن کے دوران بند رہے۔ انہیں اسرائیل کے علاوہ سعودی عرب اور قطر پر پرواز کرنے والے امریکی ایواکس طیاروں کی رہنمائی حاصل تھی، اس لیے سعودی یا قطری دفاعی نظام کو ان کی خبر نہیں ہو سکی۔
تیسرا نظریہ
یہ ہے کہ قطر کے "العدید ایئربیس" کے علاوہ سعودی عرب اور کویت میں موجود امریکی افواج نے اسرائیل کے حملے کے دوران سعودی اور قطری ریڈارز کو سائبر حملوں کے ذریعے جام کر دیا تھا، اس لیے وہ کوئی انتباہ جاری نہیں کر سکے۔
ہ ظاہر کرتا ہے کہ سعودی عرب اور قطر اپنی سرزمین پر جدید ترین مغربی دفاعی نظاموں کی تعیناتی کے باوجود اپنی سلامتی اور خودمختاری کو یقینی بنانے کے قابل نہیں ہیں۔ اسرائیل اور امریکہ جب چاہیں ان خلیجی ممالک کی حساس تنصیبات ہی نہیں بلکہ ان کے شاہی خاندانوں کو بھی نشانہ بنا سکتے ہیں۔ یہ حقیقت ان ممالک کے بادشاہوں کو امریکہ پر کامل انحصار کی پالیسی پر نظرِ ثانی پر مجبور کر سکتی ہے۔
دوسرا اہم پہلو اس کا سفارتی پہلو ہے۔
اسرائیلی حملے کے بعد وائٹ ہاؤس کی ترجمان کیرولائن لیویٹ نے میڈیا بیان میں دعویٰ کیا کہ حملے سے قبل قطر کو اس کی باقاعدہ اطلاع دی گئی تھی۔ جس کے بعد قطر کے وزیرِ خارجہ نے میڈیا پر آ کر اس دعوے کی تردید کی اور بتایا کہ حملے کے دس منٹ بعد امریکہ کی جانب سے اطلاع موصول ہوئی کہ اسرائیل نے حماس کی قیادت کو نشانہ بنایا ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ قطر امریکہ کی درخواست پر ثالثی کر رہا ہے اور امریکہ کی جنگ بندی تجاویز پر مذاکرات کے لیے حماس کا وفد دوحہ آیا ہے۔ اس کے بعد قطری وزیراعظم شیخ محمد بن عبدالرحمٰن الثانی نے بھی میڈیا پر آ کر اس کو براہِ راست قطر پر حملہ قرار دیا۔ کہا کہ اسرائیلی حملے کا جواب دینے کا پورا حق رکھتے ہیں۔
اس کے بعد امریکی صدر ٹرمپ کو کہنا پڑا کہ
"دوحہ میں حملے کا فیصلہ میرا نہیں بلکہ نتن یاہو کا تھا، میں اِس سے خوش نہیں ہوں۔ میں نے اسرائیلی حملے کے بارے میں قطر کو پیشگی مطلع کرنے کی ہدایت کی تھی، لیکن بدقسمتی سے وارننگ دینے میں تاخیر ہوئی"۔
اس حملے نے اسرائیل کی عرب ممالک کے ساتھ جاری سفارتی پیشرفت کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ اسرائیل نے اپنے ممکنہ علاقائی اتحادیوں کے سامنے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ کسی کی خودمختاری اور سلامتی کا احترام نہیں کرتا۔
اس حملے کا تیسرا اور سب سے اہم پہلو حماس انٹیلیجنس کے ہاتھوں موساد اور سی آئی اے کی ایک بار پھر دوٹوک شکست ہے۔
اسرائیل نے اتنا بڑا جیو پولیٹیکل رسک لینے سے پہلے یقینا اس آپریشن کو ہر حوالے سے یقینی بنانے کا انتظام کیا ہوگا۔ دستیاب معلومات کے مطابق موساد اور سی آئی اے کا زیادہ انحصار حماس وفد کے قطر میں زیرِ استعمال موبائل فونز کی لوکیشن اور زمین پر موجود جاسوسی نیٹ ورک پر تھا۔ لیکن حماس انٹیلیجنس انہیں خوبصورتی سے چکمہ دینے میں کامیاب رہی۔ حماس لیڈر شپ کی ٹریکنگ موبائل فون لوکیشن اور سی آئی اے و موساد کے زمین پر جاسوسوں کے ذریعے کی جا رہی تھی۔
لیڈر شپ مختلف مقامات سے حماس کے اعلیٰ مذاکرات کار خلیل الحیا کے دفتر میں جمع ہوئی۔ جس کی تصدیق جاسوسوں اور موبائل لوکیشن نے کی۔ اس کے بعد اُن کے موبائل فون وہیں پر موجود رہے، زمینی جاسوس بھی ان میں سے کسی کے نکلنے کو نوٹ نہیں کر سکے۔ تاہم وہ کسی خفیہ راستے سے کسی اور جگہ چلے گئے تھے، اس لیے جان لیوا حملے میں مکمل محفوظ رہے۔
(عرب میڈیا کا دعویٰ ہے کہ وہ موبائل چھوڑ کر عصر کی نماز پڑھنے مسجد گئے تھے، لیکن ایسا ہوتا تو زمینی جاسوس اس سے آگاہ ہو جاتے۔)
یہ ناکامی نہ صرف اسرائیل کے لیے ایک تزویراتی دھچکا ہے بلکہ حماس کے لیے ایک بڑی فتح بھی ہے۔
حماس نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ وہ اسرائیلی انٹیلیجنس کے لیے ایک ناقابلِ تسخیر قوت ہے۔ یہ فتح حماس کی بقا اور مزاحمت کو مزید تقویت دے گی۔
بشکریہ
#مہتاب_عزیز