عصر حاضر میں صنف نازک اور علوم القرآن از تنزیل بیگ قادری

جدید دور میں خواتین کے لیے تفسیر القرآن اور علوم القرآن کی تعلیم کی ضرورت و اہمیت سے روشناس کرواتی ایک نافع تحریر

عصر حاضر میں صنف نازک اور علوم القرآن

The delicate gender and the sciences of the Quran in the modern era
The delicate gender and the sciences of the Quran in the modern era


مضمون: عصر حاضر میں صنف نازک اور علوم القرآن
لکھاری : تنزیل بیگ قادری  (ایم فل اسلامیات)

جدید دور میں خواتین کے لیے تفسیر القرآن اور علوم القرآن کی تعلیم کی  ضرورت و اہمیت سے روشناس کرواتی ایک نافع تحریر۔

ہمہ مقبول حقیقت ہے کہ عورت ہر عملی و نظری سطح پر انسانی معاشرے کی اساس ہے۔ حکیم اساس ہے۔ حکیم الامت علامہ اقبال را التیمیہ نے اسی عالمگیر حقیقت کا اظہار اپنے پہلو دار الفاظ میں یوں فرمایا: 

وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ 

اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں

اس کی بنیادی وجہ یہ کہ عورت معاشرے کی تشکیل اور تعمیر و ترقی میں بہت فعال کردار ادا کرتی ہے۔ یہی اساسی فعال کردار اس بات کا متقاضی ہے کہ معاشرے کو مستحکم اور پائیدار بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے عورت کی تعلیم و تربیت اس نہج پر کی جائے کہ معاشرہ قومی و بین الاقوامی سطح پر اپنے طے کردہ اہداف حاصل کر لے۔

چونکہ عورت انسانی معاشرے کی بنیاد ہے لہذا الازمی امر ہے کہ اس کے اساسی کردار کا تعین آغاز فکر و نظر میں کر لیا جائے تا کہ اہداف مقصورہ کی تشخیص اور منہاج تحصیل کی شناخت میں آسانی ہو جائے ۔ 

اس ضمن میں جب ہم غور وفکر کرتے ہیں تو نمایاں طور پر عورت کے چار کردار ہمارے سامنے آتے ہیں :

عورت بحیثیت ماں 

عورت بحیثیت بیوی

عورت بحیثیت بیٹی

عورت بحیثیت فرد

عورت بحیثیت ماں :

ماں کی حیثیت سے عورت کا کردار بہت ہی اہم، بنیادی اور فیصلہ کن ہے۔ ماں کی گود بچے کی پہلی درسگاہ ہے۔ اسی مکتب اول سے بچے کے اخلاق، آداب معاشرت، افکار و نظریات اور حکمت و دانش کی نشو و نما ہوتی ہے۔ گویا بحیثیت ماں عورت ایک تاریخ ساز ہستی ہے۔ جب ماں پیکر عفت و عصمت، با کردار، بلند پایہ اخلاق و اقدار اور اعلی معیارات حیات کی حامل ہو گی تو وہ معاشرے کو حسنین کریمین، امام اعظم، داتا گنج بخش علی ہجویری ، غوث اعظم، اورنگ زیب عالمگیر ، علامہ اقبال اور قائد اعظم جیسی عظیم المرتبت اور عالی قدر شخصیات دیتی ہے۔ جن کے علم و آگہی، فہم و فراست اور ولولہ انگیز نظریات کی بدولت عالم ہست و بود میں انقلابات تازه بر پا ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر ماں ہی حیات پرور کردار اور زندگی کے اعلی معیارات و اقدار سے تہی دامن ہو گی تو تباہی اور بر بادی معاشرے کا مقدر بن جائے گا۔

عورت بحیثیت بیوی

بیوی کی حیثیت میں عورت کا کردار دو آتشہ ہو جاتا ہے۔ کیونکہ یہاں رشتہ و تعلق کے وہ مناظر کھلتے ہیں جن کا پھیلا ؤ خاوند، اولاد، سرال اور اس کے اپنے خاندان کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے اگر تعلقات و رشتہ داری کی اس خلیج میں کسی عدم توازن کی وجہ کوئی طوفانِ ناہنجار اٹھ کھڑا ہو تو کئی نفسیاتی پیچیدگیوں کو جنم دے دیتا ہے جن کے منفی اثرات نه صرف خاوند، سسرال، اولاد اور دیگر رشتہ داروں بلکہ خود عورت اور اس کے خاندان پر بھی مرتب ہوتے ہیں ۔ بالاآخر پورا گھر اتفاقی اور نا ہم آہنگی کا شکار ہو کر مزید تمیرے پہلے ہی بھر جاتا ہے ۔۔

عورت بحیثیت بیٹی

شخصی تشکیل و تشکیل نو کے جس کٹھن عمل سے بطور بیوی عورت گزرتی ہے ایک حد تک اسی عمل سے وہ بحیثیت بیٹی بھی گزرتی ہے لیکن یہاں سطح محدود ہوتی ہے کیونکہ اس مقام پر تاثیر و تاثر کا حیطه مخصوص فطری انداز میں اس کے والدین اور دیگر بہن بھائیوں تک محیط رہتا ہے تاہم جہاں والدین اس کی شخصیت سازی کرتے ہیں وہاں وہ فطری طور پر والدین کے جذبات و احساسات میں ایک ایسی لطافت اور طرحداری پیدا کر دیتی ہے جس کا تجربہ والدین کو پہلے کبھی نہیں ہوتا۔ اس میں شک نہیں کہ جذبات و احساسات کی ایسی متعدد گتھیاں ہیں جو صرف اور صرف اولاد کے ذریعے سے ہی والدین پر کھلتی ہیں۔ یہی وہ وقت ہوتا ہے جب عورت ایک ہمہ جہت فعال معاشرتی فرد کی تربیت بھی حاصل کرتی ہے جس کی بدولت اس کے مخصوص معاشرتی ، قومی ، اور معاشی حالات میں آزادی و پابندی کی حدود کا راز اس پر منکشف ہوتا ہے۔

عورت بحیثیت فرد

عورت کی چوتھی حیثیت بطور فرد کے ہے۔ اس حیثیت کے تحت گھریلو زندگی سے ماوراء عورت کے تمام روابط و تعلقات اور سرگرمیاں مندرج ہوں گی۔ لیے شک و شبہ عورت اپنی ہر حیثیت میں کارگر فرد ہے لیکن یہ تقسیم سہولت فہم کے لیے گئی ہے تا کہ اس کی فعالیت کا حیطه به اعتبار کار کردگی ممتاز رہے ۔ لہذا درون خانہ اور بیرون خانہ کی مختلف ذمہ داریوں اور آداب کی وجہ سے الگ الگ درجہ بندی کی گئی ۔

کیونکہ بحیثیت فرد معاشرہ ہر انسان سے درون خانہ تقاضے اور ، جبکہ بیرون خانہ اور ہوتے ہیں اور جب وہ انسان عورت ہو تو اخلاق و آداب معاشرہ کا دائرہ محتاط انداز میں حالات و واقعات کے پیش نظر ایک مخصوص شکل میں نمودار ہوتا ہے۔ اہل نظر کو اس حقیقت کا ادراک بخوبی ہے۔

حصول علم ہر مردوزن پر فرض :

اگر عورت کی مذکورہ سابقہ حیثیات اور ہر حیثیت میں اس کے کردار کی فعالیت پر واقعیت کے ساتھ غور کیا جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ اسے آداب و اخلاق، تعمیر شخصیت اور رویہ سازی میں ایک خاص تربیت کی ضرورت ہے اور اس تربیت کی خشت اول حصول علم ہے کیونکہ صرف علم ہی انسان کو اعلی اخلاق و اقدار اور آداب معاشرت کا حامل بناتا، اور اس میں احساس و شعور کی نئی جہتیں استوار کرتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ سید المرسلین ﷺ نے ہر مسلمان مردوزن پر حصول علم کو فرض قرار دیا۔ فرمانِ نبوی ہے کہ :

طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ

علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے ( سنن ابن ماجه )

اسی بناء پر ایک مقام پر قرآن مجید نے اہل علم اور جہلاء کے مابین عدم مساوات پر زور دیتے ہوئے واضح کر دیا کہ :

هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُوا الْأَلْباب 

تو کیا وہ جو علم رکھتے ہیں اور وہ جو علم نہیں رکھتے برابر ہیں؟ صرف اہل عقل و دانش ہی نصیحت قبول کیا کرتے ہیں
( سورۃ الزمر : ۸ )

اس حقیقت کے ادراک کے بعد کہ علم ہر مردو زن کے لیے ایسے ہی ضروری ہے جیسے خوراک، اب یہ سوچنا بھی واجب ہے کہ کونسا علم ہے جو قوانین حیات، مثبت اقدار انسانیت، جامع اخلاق و آداب زندگی ، احکام معاشرت اور تقاضا ہائے فطرت انسان کی تسکین کا حامل ہے؟ غور و خوض کے اس اہم ترین محاذ پر جب ہم عالم رنگ و بو میں ظہور کردہ مجموعات تفکیرات پر ایک معروضی نظر ڈالتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ علم قرآن وسنت کے سوا اور کوئی ایسی شے دنیائے فکر و نظر میں موجود نہیں ہے جو جامعیت کے ساتھ تمام شعبہ حیات میں انسانیت کی راہنمائی کر سکے ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے که قرآن و سنت اپنی وضع احکامات اور توضیح آداب میں ہر قسم کی افراط و تفریط سے منزہ ہے ۔ یہیں سے یہ عقدہ بھی کھل چاتا ہے کہ عورت کے لیے، جو انسانی معاشرے کی حتمی بنیاد، تخلیق حق کی آماجگاہ اور اس کی تعمیر وترقی میں فعال کردار ہے، قرآن وسنت کے علم اور اس کی تعلیمات نورانی کی ضرورت ہے۔ حکیم الامت رحمۃ اللہ  کمال لطافت سے اس بنیادی اصول کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

بیگانہ رہے دیں سے اگر مدرسہ زن 

ہے عشق و محبت کے لیے علم و ہنرموت

کیونکہ قرآن و سنت اصولی صلح پر تمام شعبہ ہائے حیات میں درکار علوم و آداب کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ ازدواجی زندگی ہو یا عائلی، معاشرت ہو کہ معاملت، سیاسیات ہو کہ اقتصادیات ، فزکس، کیمسٹری، ٹیکنالوجی، طب جیسے سائنسی میدان ہوں کہ اداکاری ، موسیقی اور دیگر فنون لطیفہ کے مجالات ہر کہیں کلام الہی میں مطلوبہ قوانین و ضوابط اور مقصودہ اخلاق و آداب کی بابت اکمل راہنمائی ملتی ہے۔ قرآن کریم نے اپنی اسی جامعیت اور آفاقیت کا تذکرہ بایں الفاظ کیا ہے :

وَلَقَدْ صَرَّفْنَا لِلنَّاسِ فِي هَذَا الْقُرْآنِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ فَأَبَى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُورًا

اور اس قرآن میں لوگوں کے لیے ہم نے یقیناً ہر قسم کی مثالیں طرح طرح سے بیان فرما دیں مگر اکثر نے محض ناشکری کرتے ہوئے ان کا انکار کر دیا ( بنی اسرائیل: ۸۹)

اور پھر اسی جامعیت اور شمولیت پر ثبت مہر کے لیے ارشاد ربانی ہوا:

لا رَطْبٍ وَلَا يَا بِسِ الَّا فِي كِتَبٍ مُّبِينٍ

کوئی خشک و تر ایسا نہیں جو کھول کر بیان کر دینے والی عظیم کتاب ( قرآن ) میں نہ ہو ( الانعام: ۵۹)

لیکن قرآن وسنت سے راہنمائی کا حصول اور اس کی تعلیمات و تقریرات سے احکام و قوانین کا استخراج ہما شما کے بس کا روگ نہیں ہے۔ بلکہ جس طرح سے ہر علم کو سمجھنے کے لیے اس کے اصول وضوابط سے متعلق کسی ماہر سے تعلیم کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح قرآن وسنت ہے، جو کہ تمام ظاہری و باطنی علوم و فنون کا منبع ہے، مستفیض ہونے کے لیے کسی ماہر قرآن و سنت سے علوم القرآن کی تعلیم ضروری ہے اور عورت چونکہ انسانی معاشرے میں مرکزی کردار کی حیثیت رکھتی ہے اسے بدرجہ اولی علوم القرآن کے حصول کی اشد ضرورت ہے تا کہ وہ اپنی درون خانہ اور بیرون خانہ زندگی کو منضبط انداز میں اعلی انسانی سطح پر اعتماد کے ساتھ گزار سکے ۔

بلا شک و شبہ مردوں کے لیے بھی علوم القرآن پر دسترس حاصل کرنا انتہائی ضروری ہے تاہم عورتوں کے لیے بدرجہ اولی ضروری ہے کیونکہ درسگاہ انسانیت اور کارگاه آدمیت میں جو مقام و مرتبہ عورت کو حاصل ہے اس کا اولین تقاضا ہی یہی ہے تا کہ وہ نہ صرف اپنی ذاتی بلکہ اپنی اولا د و متعلقات کی صحیح سمت میں تہذیب و تربیت کر کے انھیں معاشرے کا ایسا ذمہ دار فرد بنا سکے جو اللہ اور اس کے رسول بھی نا اہلی کا مطلوب

ہے اور یہ تقاضا اس وقت تک پورا نہیں ہوتا جب تک عورت قرآن عظیم کی تفہیم میں مختلف عملی تفسیری پہلؤوں سے شناسا نہ ہوگی ۔ آدمی کے لیے ان متعدد تفسیری پہلؤوں کی معرفت کس قدر ضروری ہے اس کا اندازہ مندرجہ ذیل فرمانِ رسول ﷺ سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے :

الْقُرْآنُ ذَلُولٌ ذُو وُجُوهِ فَاحْمِلُوهُ عَلَى أَحْسَنِ وُجُوهِهِ 

قرآن ہموار و آسان پہلو دار ہے لہذا تم بہترین پہلو سے اس کی مراد بیان کرو۔
(سنن دار قطنی )

قرآن کریم کی اس پہلوداری کے معنی خیز ادراک کے لیے علوم القرآن پر دسترس حاصل کرنا ہر اہل ہوش مردوزن کا فرض ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علمائے حق نے قرآن پاک کی فہم میں اپنی مرضی چلانے سے منع کیا ہے۔ ہاں البتہ جے مہم قرآن و سنت کا شوق ہو وہ سب سے پہلے کسی ماہر فن کی نگرانی میں علوم قرآن میں مہارت حاصل کرے اور پھر استخراج و استنباط احکام میں مصروف عمل ہو ۔ اور نہ کسی جاہل کی بات بھی بھی حجت نہیں ہو گی خواہ کسی جنون تعصب کے تحت اس پر عمل کر بھی لیا جائے کیونکہ گمراہی کو اصلاح وجدت کا نام دے کر رائج تو کیا جا سکتا ہے مگر اللہ اور رسول صیلی تعلیم کی بارگاہ اقدس میں وہ ہمیشہ گمراہی کے تحت ہی آئے گی اور اسی کے مطابق عذاب الہی مرتب ہوگا۔

عالم اسلام میں مردوزن میں سے ایسے نابغہ ہائے روزگار کا کبھی فقدان نہیں رہا جو علوم القرآن کے حتمی ماہر تھے ۔ تاہم جب اسلامی سلطنت زوال پزیر ہوئی تو اسی انحطاط کا شکار علماء فن بھی ہو گئے۔ ان نا گفتہ بہ احوال و واقعات میں جن لوگوں نے قرآن فہمی کا دعوی کیا اور اس دعوی کے تحت وہ تفسیر قرآن میں لگ گئے، ان میں سے اکثریت علوم قرآن وحدیث سے یکسر غافل تھے یا خود سے خود علوم قرآن پر ایک آدھ کتاب انھوں نے پڑھ لی تھی اور دعوائے علم و فضل کرنے لگے ۔ تاہم ابھی حالات میں معدودے چند ماہرین فن بھی کار گر رہے جن کی بدولت علم قرآن و سنت آج تک ہم تک اپنی اصلیت میں منتقل ہو رہا ہے۔

اسی دور زوال میں جو دوسری اہم تبدیلی واقع ہوئی وہ مسلم صفوں میں ظہور ملائیت ہے اور جوں جوں حالات دگرگوں سے دگرگوں تر ہوتے گئے عوام الناس پر ملائیت کی گرفت مضبوط ہوتی گئی۔ ان دگرگوں حالات و واقعات میں سب سے زیادہ نقصان عورت کو ہوا وہ اس صورت میں کہ عورتیں خود علوم القرآن سے تقریباً نا بلد ہو گئیں جبکہ زمانہ حسب معمول گونا گوں انقلابات لیتا رہا۔ آزادی کے نئے نظریات ابھرے، افکار نت نئی کروٹیں لینے لگے، ایسے میں عورت دو گروہوں کے ما بین گھر گئی : ایک طرف گروہ ملایاں اور دوسری طرف گروہ آزادگاں ۔ ان دونوں گروہوں میں جو قدر مشترک تھی وہ عورت کو اپنی ہوس و آز کا شکار بنانا تھی ۔ صرف رنگ مختلف تھا۔ مثلا کی آزو ہوس کا رنگ اور تھا اور آزادہ روکی ہوس رانی کا انداز الگ۔ اس دوراہے پر کھڑی عورت بالآخر آزادگان کی ہوس رانی یا مثلا کی آز و ہوس کا شکار ہو گئی اور اس طرح سے اسلام کے عنایت کردہ فطری مقام و مرتبہ سے وہ محروم ہوگئی۔

قابل غور سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ آزادی و پابندی کے بارے میں گزشتہ چند ایک صدیوں میں جو مختلف نظریاتی کشاکشیں رونما ہوئیں ان کے عمیق مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں میں علوم القرآن کی فہم و فراست ناپید ہو گئی لہذا ایک طرف تو وہ قرآنی تعلیمات سے حاصل شدہ آزادی و پابندی کے نظریات کی ضیا پاشیوں سے محروم ہو گئی، دوسری طرف اس محرومی کی بدولت اسلام کے عطا کردہ نسوانی حقوق سے نابلد ہو گئی۔ نتیجتا اب اس کے پاس صرف دو راستے رہ گئے: 

اول: مطلق آزادی ؛ 

دوم: مطلق پابندی 

اور یہ دونوں راستے در حقیقت ہوس رانی اور گمراہی کے راستے ہیں اور یہ امر قابل صد افسوس ہے کہ علوم القرآن سے ذاتی عدم واقفیت کی بناء پر عورت نے ابھی دور استوں میں سے ایک کا انتخاب کر لیا۔ ایک پر ملا خوش ؛ دوسرے پر آزادہ کیش مسرور، جبکہ عورت دونوں طرف اپنے فطری حقوق سے محرومی پر مغموم ۔

گزران وقت کے ساتھ ساتھ یہ صورت احوال گمبھیر سے گمبھیر تر ہوتی جارہی ہے۔ ملا عورت کو حق زیست سے بھی محروم کرنے کے درپے ہے جبکہ آزادہ کیش ہر لمحہ عورت پر اپنے دندانِ آزو ہوس جمائے بیٹھا ہے۔ اس پر مستزاد کہ آج ہمارے معاشرے میں بدعنوانی ، دھوکہ دہی ، رشوت خوری، لوٹ مار، فرقہ واریت اور دہشتگردی جیسی تباہ کن برائیاں عام ہوتی جارہی ہیں۔ ان شش جہت گمبھیر حالات و واقعات میں انسان نوع به نوع نفسیاتی پیچیدگیوں کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔

اس محیط تاریک میں ہماری اولین ترجیح یہ ہے کہ افراد میں قرآن و سنت کا گہرا شعور پیدا کیا جائے تا کہ انسانی معاشرہ اصلاح کی طرف گامزن ہو۔ عورت چونکہ انسانی معاشرہ کی بنیادی اکائی ہے جس کے ذمے صحت مند تعلیم و تربیت کا فریضہ ہے لہذا ضروری ہے کہ وہ علوم القرآن میں تندہی سے مہارت و لیاقت حاصل کرے تا کہ قرآن و سنت سے درست سمت میں استنباط احکام و آداب کر کے نہ صرف اپنی اولاد و متعلقات کی اعتماد کے ساتھ اصلاح کر سکے بلکہ اپنے فطری حقوق کا مدلل انداز میں حصول اور دفاع و تحفظ کر سکے۔ والحمد لله رب العالمین - ...

Download PDF

إرسال تعليق

Type Your Feedback