مودودی فکر کا سامراجی گٹھ جوڑ: پاکستانی نوجوانوں کو کیا قیمت چکانی پڑی؟ از ڈاکٹر وقاص

مودودی فکر کے پاکستانی سیاست پر اثرات، جاگیرداری کا شرعی جواز، اور شاہ ولی اللہ کے تصورِ عدل کا تنقیدی موازنہ

مودودی فکر کا سامراجی گٹھ جوڑ: پاکستانی نوجوانوں کو کیا قیمت چکانی پڑی؟

 از

 ڈاکٹر وقاص

مودودی فکر کا سامراجی گٹھ جوڑ پاکستانی نوجوانوں کو کیا قیمت چکانی پڑی؟ از ڈاکٹر وقاص
مودودی فکر کا سامراجی گٹھ جوڑ پاکستانی نوجوانوں کو کیا قیمت چکانی پڑی؟ از ڈاکٹر وقاص
بنیادی تجزیہ:

یہ تحریر پاکستان میں مذہبی سیاست پر مولانا مودودی کے افکار کے گہرے اثرات کو تنقیدی نظر سے دیکھتی ہے۔ ڈاکٹر وقاص احمد نے تین کلیدی نکات پر روشنی ڈالی ہے جو پاکستانی مذہبی بیانیے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

اہم اصطلاحات کی وضاحت:

  1. مودودی فکر
    سید ابوالاعلیٰ مودودی کا سیاسی اسلام کا وہ تصور جو اسلامی ریاست، شریعت کے نفاذ اور معاشرتی اصلاح کے نظریات پر مبنی ہے۔ اسے جماعت اسلامی کی بنیادی نظریاتی اساس سمجھا جاتا ہے۔

  2. جاگیرداری (Feudalism)
    زمین کی ملکیت کا وہ نظام جس میں زمیندار طبقہ کسانوں سے محنت کشی کرواتا ہے۔ تحریر کے مطابق مودودی نے اسے شرعی جواز فراہم کیا جبکہ شاہ عبدالعزیز دہلوی جیسے علماء اس کے مخالف تھے۔

  3. پین اسلام ازم (Pan-Islamism)
    بین الاقوامی سطح پر مسلم اتحاد کا نظریہ جسے مصنف "قومی شناخت کی بجائے مذہبی شناخت کو مرکز بنانے" والا تصور قرار دیتے ہیں۔ اس کا تعلق اخوان المسلمین جیسی تحریکوں سے جوڑا گیا ہے۔

  4. سامراجی مفادات (Colonial Interests)
    یورپی طاقتوں کے وہ استعماری مقاصد جنہیں مصنف کے مطابق مودودی فکر نے بالواسطہ طور پر تقویت دی، خاص طور پر افغان جہاد اور علاقائی تنازعات کے تناظر میں۔

  5. شاہ ولی اللہ کا تسلسل
    برصغیر میں 18ویں صدی کے مصلح شاہ ولی اللہ دہلوی کی فکری روایت جس میں معاشی انصاف، قومی خودمختاری اور سماجی ہم آہنگی پر زور دیا گیا تھا۔

متن کا خلاصہ بطور نکات:

  1. تاریخی تضاد:
    مودودی کے زمین کے نجی ملکیت کے نظریے کو شاہ عبدالعزیز دہلوی کی روایتی تفسیر کے برعکس قرار دیا گیا ہے۔

  2. بین الاقوامیت کا المیہ:
    پین اسلام ازم کو قومی سطح کی سیاسی جدوجہد سے روگردانی کا ذریعہ بتایا گیا ہے، جیسے 1970 کی دہائی میں بعث پارٹی کے خلاف امریکی مدد۔

  3. تاریخی تسلسل کا انکار:
    اسلامی تہذیب کے ہزار سالہ عہدِ زریں کو "ملوکیت" قرار دینے کو مسلم نوجوانوں کی تاریخی شعور سے محرومی سے جوڑا گیا ہے۔

  4. نفسیاتی اثرات:
    اس فکر کو نوجوانوں میں "سستی جذباتیت"، "غیر حقیقی یوٹوپیا" اور "تاریخی تجزیے کی صلاحیت سے محرومی" کا سبب قرار دیا گیا ہے۔

ثقافتی تناظر:

  • افغان جہاد کے اثرات:
    تحریر میں اس بات پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے کہ مودودی فکر نے "معصوم نوجوانوں کے ارزاں خون" کو سامراجی جنگوں میں استعمال ہونے دیا۔

  • پاکستانی مقتدرہ:
    فوجی حکومتوں اور طاقتور اداروں کو اس فکر کا حامی بتایا گیا ہے جو "مشرقی پاکستان کے حقوق سلب کرنے" جیسے اقدامات میں مددگار ثابت ہوئے۔

تنقیدی جائزہ:

  • روایتی علماء vs متجددین:
    شاہ ولی اللہ کے تصورِ عدل کو مودودی کے "نجی ملکیت کے غیر محدود حق" کے خلاف ایک متبادل نظریہ کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔

  • عرب بہار کا تضاد:
    تحریر میں اشارہ کیا گیا ہے کہ جہاں عرب قوم پرست تحریکیں سامراج مخالف تھیں، وہیں پین اسلامسٹ گروہوں نے انہیں کمزور کرنے میں کردار ادا کیا۔

اس تحریر کا بنیادی مقصد نوجوان نسل کو روایتی اسلامی فکر کی طرف رجوع کرنے کی ترغیب دینا ہے، خاص طور پر شاہ ولی اللہ کے ان تصورات کی طرف جو معاشی انصاف اور قومی خودمختاری پر زور دیتے ہیں۔ مصنف کا ماننا ہے کہ مودودی فکر کی "کج فہمیوں" نے مسلم معاشروں کو انتشار اور بیرونی مداخلت کا شکار بنایا ہے۔


تحریر ملاحظہ فرمائیں:-

Download PDF


إرسال تعليق

Type Your Feedback