ولی اللہی فلاسفی از مولانا عبیداللہ سندھی

امام شاہ ولی اللہ کے نظریہ کی بنیاد انسانیت، اجتماعیت ، سرمایہ شکنی اور خدا پرستی پر تھی ۔ یہ انقلابی نوعیت کا جامع پروگرام تھا


ولی اللہی فلاسفی از مولانا عبیداللہ سندھی

ولی اللہی فلاسفی از مولانا عبیداللہ سندھی
ولی اللہی فلاسفی از مولانا عبیداللہ سندھی


آغاز

امام ولی اللہ دھلوی مغلیہ دور کے آخری دنوں میں دہلی میں پیدا ہوئے ۔ اس وقت دنیا ایک عظیم الشان انقلاب کے دروازہ پر کھڑی تھی۔

یورپ میں عربوں کے ذریعہ علم پھیلنے کے بعد مقامی دماغ علمی ترقی کی طرف متوجہ ہو رہا تھا۔ جس سے اس کی اجتماعیت مادی ترقی اور اس کی پیداوا را مپیرئل ازم اور سرمایہ داری پیدا ہونے والی تھی۔

اس زمانے میں ہندوستان کے اس فلسفی نے ہندوستان میں ایسے پروگرام کا اعلان کیا، جس کی بنیاد انسانیت، اجتماعیت ، سرمایہ شکنی اور خدا پرستی پر تھی ۔ یہ انقلابی نوعیت کا جامع پروگرام تھا۔

ہم نے یورپ میں رہ کر اس انقلابی فکر اور اقتصادی پروگرام کا جو مطالعہ کیا ہے۔ اس کی بناء پر بلا خوف و تردید کہہ سکتے ہیں کہ یورپ امام ولی اللہ دہلوی کے انقلابی اقتصادی پروگرام پر ایک حرف کا اضافہ نہیں کر سکا۔ اور انہوں نے مذہبیت کی جو تشریح کی ہے، اس سے مذہبیت نہ صرف اس انقلابی پروگرام میں سموئی گئی ہے بلکہ انسانیت کا اہم جزو قرار پائی ہے۔

امام ولی اللہ کے پروگرام کے اہم اجزاء

امام ولی اللہ کے پروگرام کے اہم اجزاء حسب ذیل ہیں۔

(1) اجتماعیت             (الف)اجتماعی اقتصادیات         ( ب ) اجتماعی اخلاق

(۲) انقلاب

(۳) مادیت کی نئی تشریح

(۴) جمہوریت

اب ہم اس پر ذرا تفصیل سے غور کرتے ہیں۔

امام ولی اللہ دہلوی نے انسان کی ترقی کے جو درجے مقرر کئے ہیں۔ ( جنہیں وہ ارتفاقات کا نام دیتے ہیں) ان کا آخری درجہ ارتفاق رابع، بین الاقوامیت کے قائم مقام ہے۔ 

اس اجتماعیت میں وہ ایسی سوسائٹی کے قائل ہیں جس میں ایک حصہ انسانی ضروریات کا احساس کرتا ہے۔ پھر اگر کسی ضرورت کے پورا کرنے کا سامان کوئی شخص ایجاد کر لیتا ہے تو باقی بہ لوگ اس ایجاد کو اپنا لیتے ہیں۔ اسی طرح انسانی ترقی درجہ بدرجہ مشتری کے استعمال تک بلکہ اس سے بھی او پر پہنچ سکتی ہے۔

اجتماع لازمی عنصر

وہ لکھتے ہیں کہ اگر کسی جنگل میں ایک مرد اور عورت اتفاق سے جمع ہو جا ئیں تو وہاں انسانی نسل کا سلسلہ قائم ہو جائے گا۔ اور وہاں اس طرح جو سوسائٹی پیدا ہوگی وہ خود بخود انسانی ترقی کے تمام درجوں سے گزرے گی۔ یہ ترقی جس کی انتہاء کل اقوامیت وارتفاق چہارم ہے۔ جو اربع کا طبعی خاصہ ہے۔

ایسے ہی وہ اجتماعیت کو انسانی فرد کا لازم جزء مانتے ہیں اور قرار دیتے ہیں۔ کہ انسان جب حیوانیت سے اونچا اٹھتا ہے۔ تو اس میں رفاہ عامہ کا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ اسی سے اجتماعیت پیدا ہو گی ۔

امام صاحب کے نزدیک کسی ملک کی زمین قابل تقسیم نہیں ہے۔ اس بارے میں وہ ازالۃ الخفاء میں حضرت عمر کا فتوی پیش کرتے ہیں ۔ جنہوں نے بعض زبردست صحابہ کی مخالفت کے باوجود عراق کی اراضی تقسیم کرنے سے انکار کر دیا۔ اور آخر ان صحابہ کو بھی حضرت عمرؓ کے فیصلہ کی سچائی ماننی پڑی۔ کیونکہ وہ فیصلہ قرآن کریم کے منشاء مطابق نکلا۔

ایسے ہی حضرت امام کانوں (معدنیات) کے متعلق احادیث کا بیان فرماتے ہیں۔ جس کی رُدے کانوں پر ایک شخص کا قبضہ نہیں ہو سکتا۔ گویا پیداوار کے بڑے بڑے ذرائع شخصی ملکیت میں نہیں دیے جاسکتے ۔

اخلاقیات  کا معاشیات سے تعلق

امام ولی اللہ دہلوی اس امر پر بہت زور دیتے ہیں کہ عوام کے اخلاق اجتماعی اقتصادیات  سے متاثر ہوتے ہیں۔ اس سلسلہ میں وہ ایران اور روم کی مثالیں پیش کر کے ثابت کرتے ہیں کہ جب پیداوار کے ذرائع ایک چھوٹے سے طبقہ کے قبضہ میں آجا ئیں اور بڑا طبقہ محروم کر دیا جائے تو چھوٹے طبقہ کے اخلاق تباہ ہو جاتے ہیں۔

امام ولی اللہ دہلوی پہلے بزرگ ہیں ، جنہوں نے اخلاق عامہ کو اس نقطہ نگاہ سے دیکھا اور مدون کیا۔

عام علماء مشرقی ہوں یا مغربی ، اخلاق پر انفرادی نقطہ نگاہ سے بحث کرتے ہیں۔ لیکن امام صاحب اجتماعی اخلاق کو اقتصادیات کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ اور حجۃ اللہ البالغہ میں اس پر کافی بحث کرتے ہیں۔

ان کی حکمت میں یہ دنیاوی چیز ہے۔ یورپ نے اس اجمال پر تفصیل کی بلند عمارت پر کھڑی کر دی ہے، لیکن اس پر کوئی اصولی اضافہ نہیں کر سکا۔

امام ولی اللہ کا نظریہ اخلاقیات

اس لئے جب ہم اخلاقیات کو اقتصادیات اور اجتماعیات سے ملاتے ہیں تو امام ولی اللہ کی پیروی کرتے ہیں نہ کہ یورپ کی ۔

حضرت موسیٰ فرعون کے مقابلے میں کامیاب ہوئے ، حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی نبوت موسوی نبوت کے مشابہ ہے۔ اس سلسلہ میں جب ہمارے علماء کو فرعون کی مشابہ کسی شخص کی ضرورت ہوئی تو انہوں نے ابو جہل کا نام لے لیا۔ حالانکہ ابو جہل مکہ کی بستی کے ایک سردار سے

زیادہ حیثیت نہ رکھتا تھا۔ کیا اسے ہلاک کرنے کے لئے محمد رسول اللہ ﷺ کی ضرورت تھی؟ کیا کوئی چھوٹے درجہ کا نبی نہ آسکتا تھا ؟

بعثت نبوی ﷺ کا مقصد

امام ولی اللہ اس سے انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ کی نبوت کا مقصد قیصر و کسری کے نظاموں کو برباد کرنا تھا۔ اس کے بعد آپ کی تعلیمات ہر زمانے میں کسرئی اور قیصر جیسے نظاموں کو برباد کرتی رہے گی۔

اس زمانے میں کسری ایران آریائی قوموں کا مرکز تھا اور قیصر روم ، اسرائیلی قوموں کا مرکز تھا۔ ان دونوں نے ادھم مچا رکھا تھا۔ اور انسانیت کے بہت بڑے طبقہ کو اقتصادی غلامی میں مبتلا کر رکھا تھا۔ ان دونوں کو ختم کر کے کامل پروگرام دینا جو اس قسم کے نظاموں کو ہمیشہ برباد کرتا رہے اسلام اور نبی اکرم ﷺ کا مقصد تھا۔



إرسال تعليق

Type Your Feedback