تاریخ ہند میں امام ولی اللہ کا مقام از مولانا عبیداللہ سندھی

تاریخ ہند میں امام ولی اللہ کا مقام اور حکمت الادیان یا فلسفہ تاریخ کیا ہے؟

تاریخ ہند میں امام ولی اللہ کا مقام

از مولانا عبیداللہ سندھی

 تاریخ ہند میں امام ولی اللہ کا مقام از مولانا عبیداللہ سندھی


باب اول : حکیم الہند الامام ولی اللہ الدہلوی امام ائمۃ الانقلاب في القرن الثانی الہندی

[1] چونکہ عقلی اجتماعی اصول پر تاریخ ہند کا مطالعہ کرنے میں ہم کسی مؤرخ کو امام نہیں مانتے۔

اس لئے ہمارے لئے ضروری ہے کہ جس فلسفہ کا ہم تعارف کراتے ہیں ، اس کی ماہیت اور جس زمین اور زبان سے ہم اسے ربط دیتے ہیں۔ اس کے متعلق اپنا طرز تفکر صراحت بیان کرتے ہیں۔ تاکہ ہمارا نظریہ سمجھنے میں اصطلاحی اختلاف سے غلط فہمی نہ ہو۔


الف: حکمت الادیان یا فلسفہ تاریخ کیا ہے؟

جب انسانیت کا ایک حصہ کسی بڑے قطعہ زمین میں لمبی مدت تک مل جل کر رہتا ہے۔ اور قدرت الہیہ اس کی طبعی ترقی کے ساتھ عقلی اور اخلاقی بلندی کا سامان بہم پہنچاتی ہے۔ یعنی اس میں انبیاء کرام اور اولیاء عظام کے ساتھ صالح سلاطین اور حکام پیدا ہوتے ہیں۔ یا حکماء اور شعراء کے ساتھ عدالت شعار بادشاہ اور بلند ہمت سپاہی بر سر کار آتے ہیں۔ اسی طرح وہ بڑی قوم ترقی کے تمام مدارج طے کرتی ہے۔ اور اپنی حکومت کا نظام بناتی ہے ۔ جس سے ظلم کی بیخ کنی ہو۔ شہر بساتی ہے علم و ہنر پھیلاتی ہے۔ جس سے رفاہیت عامہ کا سامان بہم پہنچتا ہے۔ اس کی ہمسایہ تو میں اس کی رفاقت اور سر پرستی میں اپنی فلاح سمجھتی ہیں۔ اگر اس کی اجتماعی تاریخ کو انسانیت کے عام پسند عقلی افکار اور اخلاق پر مرتب کیا جائے تو اسے حکمت الادیان یا فلسفہ تاریخ کہا جائے گا۔


ب: ہم ہند کی اسلامی تاریخ کا مطالعہ سیحی تاریخ کے دوسرے ہزار سے شروع کرتے ہیں ،

190 ء عیسوی میں سلطان محمود غزنوی نے ہند کا مشہور قلعہ ہند فتح کیا اور لاہور کے ہندو راجہ کے نواسے کو اس کا حاکم بنایا۔ جس طرح امیر المؤمنین فاروق اعظم نے مدائن فتح کر کے سلمان پاری کو اس کا گورنر بنایا تھا۔

ج: ہنڈ دریائے سندھ کے مغربی کنارے پر اٹک کے قریب ہے۔

اس سرزمین کے باشندے پشتو بولتے ہیں۔ پشتان یا پٹھان ۔ غرب تک ہنڈ کے شمال مغربی پہاڑوں اور میدانوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔


کابل ، غزنی، قندھار، پشاور اور کوئٹہ اس کے مشہور شہر ہیں اور چونکہ تحقیق سے ثابت ہو چکا ہے کہ پشتو بھی کشمیری ، پنجابی اور سندھی کی طرح سنسکرت کی شاخ ہے۔ اس لئے اس قوم کو ہندوستانی اقوام میں شمار کرتے ہیں ۔ اس قوم نے گنگا جمنا کے دو آب میں ایک وسیع خطہ ( روہیلکنڈ ) کو اپنا وطن بنایا ہے۔


[۲] سلطان محمود غزنوی سے شروع کر کے امیر تیمور کے حملے تک ہم ہندوستانی تاریخ کا پہلا دور مانتے ہیں اور امیر تیمور سے بہادر شاہ تک دوسرا دور۔

دوسرے دور میں عالمگیر کے بعد تنزل شروع ہوا۔ عموماً تنزل نمودار ہونے کے بعد ہی قوموں کا فلسفہ معین ہوتا ہے۔ ہمارے امام الائمہ بھی اس عہد کے امام الانقلاب ہیں۔


الف: کسی عقلی ومذہبی تحریک کو کسی خطہ زمین کی طرف منسوب کرنے کے لئے ضروری ہے کہ

اس کا مرکز اس زمین میں ہو۔ اس لئے ہند کے اسلامی دور میں ہم مسلمانان ہند کی کسی تحریک کو اس وقت تک ہندوستانیت سے موصوف بنا نہیں سکتے جب تک اس کا مرکز ہند میں پیدا نہ ہو چکا ہو۔


ب: امیر المؤمنین عثمان کے زمانے میں کابل فتح ہوا۔

اور ولید بن عبدالملک کے زمانے میں سندھ فتح ہوا۔ مگر اسے خلافت عربیہ کا ایک حصہ مانتے ہیں۔ یہاں ہندوستانیت کا ذکر نہیں ہو سکتا۔


ج: سلطان محمود غزنوی نے اسلام کے لئے ہندوستانی مرکز کی بنیاد قائم کر دی۔

وہ میں اپنا مرکز حکومت منتقل کرنا چاہتے تھے۔ خلیفہ المسلمین نے سقوط بغداد سے تھوڑا عرصہ پہلے دہلی کے حکمراں کو سلطانی اختیارات استعمال کرنے کی اجازت دی ۔ خلافت اسلامیہ کے اندر  ہندوستانی مسلمانوں کا اپنا مرکز بن گیا۔ اس دور کے اخیر تک سلاطین دہلی اسلامی خلافت سے رکھتے رہے ہیں۔

امیر تیمور کے حملے کے بعد ہندوستانی مرکز بیرونی تعلق سے آزاد ہوا۔ سکندر لودھی نے غالباً پہلی مستقل حکومت ۔۔۔۔ ہندوؤں کو پارسی پڑھا کر دفتر کے کام میں دخیل کار بنایا۔

مندرجہ بالا مضمون میں خالی جگہوں پر اصل عبارت چونکہ پڑھی نہیں جاسکتی ، لہذا اسے خالی چھوڑ دیا گیا ہے۔ [ ت س]

Post a Comment

Type Your Feedback