ندوہ کے شب و روز : محاضرہ ( اسلام اور کمیونزم )
✍️ ابو سفیان بن محمد مہراللقاء
دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ
آج (١٩ دسمبر ٢٠٢٢ء) بعد نماز مغرب متصلا استاذ محترم جناب سید عنایت اللہ صاحب ندوی کا جمالیہ ہال میں اسلام اور کمیونزم کے عنوان سے ایک قیمتی محاضرہ تھا ، محفل کھچا کھچ بھری ہوئی تھی ، تلاوت کلام اللہ اور نعت خوانی کے بعد استاذ محترم نے اپنا قیمتی محاضرہ پیش کیا کہ :
کمیونزم:-
دنیا میں بہت سے مذاہب پائے جاتے ہیں ان ہی میں سے ایک مذہب ہے کمیونزم جس کا نظریہ یہ ہے کہ " انسان خود بخود پیدا ہوگیا اور یہ انسان بندر کی ترقی یافتہ شکل ہے " انکا یہ نظریہ سراسر غلط ہے اسمیں وجود باری تعالیٰ کا انکار ہے حالانکہ ہر چیز کا خالق و مالک اللہ تعالیٰ ہے اور اس کو کمیونزم کے علاوہ تمام مذاہب کے لوگ مانتے ہیں _
کمیونزم کا بانی:-
کمیونزم کا جو اصل بانی ہے وہ چارلز ڈارون ہے انہوں نے " origin of Species " (انواع حیات کی ابتدا) اور " The Descent of Man " (ورود انسان) نامی دو کتابیں لکھیں جس میں انہوں نے مذاہب کی بنیاد ہی کو متزلزل کردیا، خدا کے وجود اور اس کی تخلیقی کردار ہی کا انکار کر دیا اور یہ مضحکہ خیر تصور پیش کیا کہ انسان خود بخود بندر سے پیدا ہو گیا ہے ، اس کو ڈارون کی تھیوری کہا جاتا ہے ،
کارل مارکس کا دور:-
پھر اسکے بعد کارل مارکس کا زمانہ آتا ہے جس نے اس کو اور ترقی دی اور انہوں نے بھی " Das Capital " ( سرمایہ ) اور Communist " Manifesto " (کمیونسٹ اعلامیہ) دو کتابیں لکھیں ، ان میں سے سرمایہ نامی کتاب تو اتنی مقبول ہوئی کہ وہ دنیا کی تیسری سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب بن گئی ، ان دونوں کتابوں میں کارل مارکس نے مذہب کو افیون قرار دیا، سارے مذہبی نظریات کا کھلم کھلا مذاق اڑایا اور روحانیت کا سختی سے انکار کیا، کائنات کی ایک نئی تاریخ لکھی اور پر زور دلائل سے یہ ثابت کیا کہ دنیا و کائنات میں محض مادہ ہی مادہ ہے، روح نام کی کوئی چیز نہیں ہے، پورنی انسانی تاریخ محض مادیت کی تاریخ ہے اور مادہ کے حصول کی کشمکش کی تاریخ ہے _
ان مذکورہ کتابوں نے انسانی آبادی پر بہت بڑا اثر ڈالا ہے، بہت بڑی تعداد میں لوگوں نے کمیونسٹ نظریہ کو اپنا لیا ہے، ۷۷ کروڑ ٦٤ لاکھ افراد پوری دنیا میں ایسے ہیں جو کسی مذہب کو نہیں مانتے ، وہ کھلم کھلا اپنے کو غیر مذہبی کمیونسٹ کہتے ہیں _
مولانا نے اسکے بعد بتایا کہ :
کمیونزم کے مطابق انسانی تمدن کے ادوار :-
کمیونسٹ انسانی تمدن کو پانچ ادوار میں نقسیم کرتے ہیں :
(١) قدیم اشتراکی دور
(٢) غلامی کا دور
(٣) جاگیر داری کا دور
(٤) سرمایۂ داری کا دور
(٥) پرولتاری اور اس کے بعد کا انقلاب کا دور
پرولتاریوں یعنی دبے کچلے انسانوں کی آمرانہ حکومتیں قائم ہوں گی جب کہ کسی فرد کو جائیداد ترکہ میں نہیں ملے گی، کوئی فرد زمینوں اور کارخانوں کا مالک نہیں ہوگا، ہر تندرست آدمی کام کرے گا ، ہر فرد اپنی طاقت وصلاحیت کے مطابق سماج کو دے گا اور اپنی ضرورت کے مطابق لے گا ، سماج میں نہ کوئی امیر ہوگا نہ کوئی غریب ، نہ کوئی بادشاہ ہوگا نہ کوئی غلام سارے انسان ایک سطح پر آجائیں گے ، وہی کمیونسٹ نظام ہوگا _
معاشی نظام کے نفوذ کا طریقہ:-
کمیونسٹ اپنے سماجی ، سیاسی اور معاشی نظام کو نافذ کرنے کے لیے انقلاب کا طریقہ اختیار کرتے ہیں ، کسانوں کو جاگیر داروں کے خلاف ، مزدوروں کو صنعت کاروں کے خلاف ، اور عوام کو بادشاہ کے خلاف بھڑکاتے ہیں اور بغاوتوں پر اکساتے ہیں ، اس کیلئے ادب و صحافت تقریر و تحریر کے ذرائع استعمال کرتے ہیں ، مزدور یونین ، کسان یونین اور طلباء نین تشکیل کرتے ہیں ، ان یونینوں کے ذریعہ انقلاب کی راہ ہموار کرتے ہیں _
کمیونسٹ انقلاب:-
١٩١٧ء میں کمیونسٹوں کو زبردست کامیابی ملی جب کہ روس میں لینن کی سرکردگی میں انقلاب آگیا ، کمیونسٹوں کے پروپیگنڈوں سے متاثر ہوکر روس کے باشندے، روسی زار (بادشاہ) کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ، زار کی فوج اور روسی کمیونسٹوں کے درمیان خونیں تصادم شروع ہو گیا ، بالآخر کمیونسٹوں کی سرخ فوج بادشاہ کی سفید فوج پر غالب آگئی ، بادشاہ کا تختہ پلٹ کر اسے ہلاک کر دیا گیا اور روس میں کمیونسٹ پارٹی کی حکومت قائم ہوگئی _
لینن نے محاذ آرائی کے دوران روسی مسلمانوں سے بڑے فراخ دلانہ وعدے کے کہ اگر کمیونسٹ انقلاب کامیاب ہو گیا تو ان تمام مسلم علاقوں کو آزاد کر دیا جائے گا، جن پر زار روس نے قبضہ کر لیا ہے، یہ وعدہ کر کے ترک و تاتاری مسلمانوں سے انقلاب کی کامیابی کے لیے تعاون مانگا ، مسلمانوں نے اس کے وعدہ پر بھروسہ کر کے انقلاب کا بھر پور ساتھ دیا، لیکن جب انقلاب کی کامیابی پر مسلمانوں نے اپنے اپنے علاقوں کی آزادی کا اعلان کیا تو لینن ہی کے حکم پر کمیونسٹ سرخ فوج نے مسلم علاقوں پر حملہ کر کے دوبارہ ان پر قبضہ کر لیا ، صرف قبضہ ہی نہیں کیا بلکہ ایسے بھیانک مظالم ڈھائے کہ ان کے تذکرہ سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ، مساجد ، مدارس اور خانقاہوں پر تالے لگوادئے ، علماء ومشائخ کو قطار میں کھڑے کر کے سب کو ایک طرف سے ہلاک کر ڈالا _
اسٹالین کا سفاک کردار:-
لینن کے مرنے کے بعد اسٹالین جب روس کا کمیونسٹ صدر بنا تو اس نے مظالم کے سارے پچھلے ریکارڈ توڑ ڈالے ، پانچ کروڑ مسلمانوں کا قتل عام کیا ، قرآن کے نسخوں کو جلواڈالا ، قرآن پڑھنے پڑھانے ، ڈاڑھی رکھنے، نماز پڑھنے تک پر پابندی لگادی ، روسی بادشاہ کے مقابلہ میں روسی کمیونسٹ مسلمانوں کے حق میں کہیں زیادہ دشمن ، سفاک اور بے رحم نکلے _
دوسری طرف روسی کمیونسٹ حکومت نے ادب و لٹریچر، صحافت و میڈیا کے ذریعہ کمیونسٹ نظام کی افادیت کا پر زور پروپیگینڈا شروع کردیا ، مختلف ملکوں میں کمیونسٹ یونینس قائم کر کے ان کے ذریعہ شاہی یا جمہوری حکومتوں کا تختہ پلٹ کر اقتدار پر قبضہ کرنے کے لیے کسانوں اور مزدوروں کو اکسایا، ان سے متاتر ہوکر کئ ایک ملکوں میں پے در پے کمیونسٹ انقلابات برپا ہوئے ، ان میں سے پولینڈ، رومانیہ ، ہنگری ، البانیہ، چیکوسلواکیہ وغیرہ ممالک قابل ذکر ہیں _
چین میں کمیونسٹ انقلاب:-
پھر دوسری کامیابی کمیونسٹوں کو اس وقت ملی جب ۱۹٤٩ء کو چین میں ماؤزے تنگ کی قیادت میں کمیونسٹوں نے اقتدار پر قبضہ کر لیا ، چین میں کمیونسٹ انقلاب آنے کے بعد کمیونسٹوں کی طاقت میں بے پناہ اضافہ ہوگیا ، دنیاک بڑے رقبہ اور بڑی آبادی والے ملکوں میں کمیونزم کے نافذ ہونے پر دیگر بہت سارے ملکوں پر اس کا اثر پڑا ، پھر کئی اور ملکوں میں پے در پے کمیونسٹ انقلابات آئے جن میں ویتنام ، کمبوڈیا ، کیوبا، ونیزویلا، مشرقی جرمنی، شمالی کوریا ، جنوبی یمن، شام، عراق، یوگوسلاویہ ، الجزائر اور مصر جیسے ممالک شامل ہیں ، روس اور چین دونوں نے اپنے اپنے طور پر مختلف ملکوں میں کمیونسٹ تحریک کو اپنے وسائل کے ذریعہ تقویت پہنچانے کی بھر پور کوشش شروع کر دی _
مولانا نے اسکے بعد بتایا کہ :
اب کمیونسٹوں کا حوصلہ کافی بلند ہو چکا تھا، اس حوصلہ سے سرشار ہو کر سوویت روس کی کمیونسٹ حکومت نے افغانستان میں کمیونزم کو نافذ کرنے کی سعی شروع کر دی ، پھر جب وہاں کمیونسٹوں اور ان کے مخالفین کے درمیان محاذ آرائی شروع ہوئی تو کمیونسٹوں کو تقویت پہنچانے کے لیے سوویت روس نے افغانستان میں اپنی فوجیں بھیج دیں، اب کیا تھا دونوں کے درمیان گوریلا جنگ چھڑ گئی اور یہ جنگ دس سال تک چلی ، بالآخر روسیوں کو شکست ہوئی ، اس ہار کا بین الاقوامی سیاست پر زبردست اثر پڑا ، بہت سارے ممالک جہاں کمیونزم نافذ ہو چکا تھا وہاں کمیونسٹ حکومت کے خلاف عوام سڑکوں پر آگئے ، عوام نے کمیونسٹ حکومتوں کا تختہ پلٹنے کی کوشش شروع کردی، چنانچہ 1949ء میں ہنگری، چیکوسلواکیہ، البانیہ، پولینڈ اور مشرقی جرمنی وغیرہ بہت سارے ممالک سے کمیونزم کا جنازہ نکل گیا _
اس کی بعد سوویت روس بھی ٹوٹ کر بکھر گیا ، ۱۳/ ممالک ایک ساتھ روسی شکنجے سے 1991ء میں آزاد ہو گئے ، روس سے کمیونزم کا خاتمہ کر دیا گیا ، جہاں ۷۰ سال قبل کمیونزم کو پوری سختی سے نافذ کیا گیا تھا، وہاں سے بھی کمیونزم کا جنازہ نکل گیا، لوگوں نے لینن اور اسٹالین کے مجسموں کو ڈھا کر زمین بوس کر دیا ، لیکن آج بھی کچھ کمیونسٹ ممالک ہیں جہاں کمیونزم نافذ ہے لیکن کمیونزم کو وہاں اس کی اصلی حالت میں نافذ نہیں کیا گیا ہے، وہاں سیاسی اعتبار سے تو کوئی آزادی نہیں ہے، البتہ کچھ معاشی اور مذہبی آزادی دے دی گئی ہے، جیسے چین ، ویتنام، شمالی کوریا ، الجزائر ، شام، کیوبا اور وینیز ویلا وغیرہ ممالک اس فہرست میں آتے ہیں _
خلاصہ:-
اسکے بعد مولانا نے کمیونزم کی حقیقت بھی بتائی اور اسی طرح سیکولرازم ، سوشلزم وغیرہ کے بارے میں مختصراً بیان کیا ، اسکے بعد طلبہ کی جانب موضوع کی مناسبت سے مختلف سوالات کے گئے مولانا نے ان سب کا تشفی بخش جواب دیا ، یہ پروگرام تقریباً ایک گھنٹہ چلا اور تمام طلبہ نے پروگرام کو بغور سماعت فرمایا ، اخیر میں ہم دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ مولانا کی عمر میں اور برکت عطا فرمائے اور تمام اراکین جمعیۃ الاصلاح کو جزائے خیر عطا کرے ، آمین .