مذہبی سیاست کا مستقبل؟

اس زوال مسلسل سے Secularisation کے عمل کو تقویت ملے گی۔ معاملہ محض یہ ہے کہ حکمت عملی میں چند خرابیاں ہوگئی ہیں نیت نیک ہے، تو ان کے لیے لازم ہے کہ

مذہبی سیاست کا مستقبل؟

 مذہبی سیاست کا مستقبل؟


مذہبی سیاست کے ساتھ یہ معاملہ نہیں کہ اس کے خوش گوار یا نا خوش گوار مستقبل کے اثرات صرف اس تک محدود ہیں۔ معاشرے میں اہل مذہب اور مذہب کے درمیان فرق کو ملحوظ نہیں رکھا ما جار ہا اور عوام الناس مذہب کو ابھی تک اہل مذہب کے افعال و اقوال کے آئینے میں دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چنانچہ مذہبی سیاست کا مستقبل اگر تاریک ہوتا ہے تو اس کے منطقی نستان میں ایک نتیجہ یہ بھی ہو گا کہ معاشرے میں Secularisation کی دعویدار تو میں مضبوط ہوں گی۔

اس پس منظر میں یہ سوال بڑی اہمیت حاصل کر لیتا ہے کہ پاکستان میں مذہبی سیاست کا مستقبل کیا ہے؟

اہل مذہب اگر اپنے موجودہ طرز عمل کو اختیار کیے رہتے ہیں تو معذرت کے ساتھ کہنا پڑے گا کہ مذہبی سیاست کا مستقبل اپنے ماضی اور حال سے زیادہ تاریک ہوگا ، اور جیسا کہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں اس زوال مسلسل سے Secularisation کے عمل کو تقویت ملے گی۔

اہل مذہب اگر خالص نیت کے ساتھ اعلائے کلمتہ الحق کے لیے کوشاں ہیں اور معاملہ محض یہ ہے کہ حکمت عملی میں چند خرابیاں  ہوگئی ہیں نیت نیک ہے، تو ان کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنی حکمت عملی پر غور فرمائیں۔

غلطی پر اصرار

غلطی انسان کی سرشت میں ہے۔ اہل مذہب سے کئی ایک غلطیاں سرزد ہوئی ہوں گی ، بہت کی عوام پر آشکار ہو چکی ہوں گی اور کتنی ہی ایسی ہوں گی جن کا علم خود اہل مذہب ہی کو ہوگا۔ جب یہ ثابت ہو جائے کہ فلاں موقع پر اختیار کیے جانے والا موقف غلط تھا تو اس غلطی کے اعتراف میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔ اہل مذہب کو خود احتسابی کے عمل سے گزر کر ایسی غلطیوں کا کھوج لگانا ہو گا۔ یہ کام منظم طریقے سے ہو تو زیادہ بہتر نتائج سامنے آسکتے ہیں ۔ اہل مذہب کوئی ایسا گروہ نہیں جو غلطیوں ، کوتاہیوں اور لغزشوں سے پاک ہو۔ لیکن اہل مذہب کی جانب سے ماضی اور حال کی دو متضاد پالیسیوں کی صحت پر جب اصرار بڑھتا ہے تو یہ ایک افسوسناک صورت حال ہوتی ہے۔ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ان پر یہ حقیقت مکمل طور پر واضح ہو جاتی ہے کہ ماضی میں ، فلاں موقع پر ان کا رویہ یا موقف غلط تھا۔ یہ اپنے موقف میں حالات کے مطابق تبدیلی بھی لے آتے ہیں لیکن المیہ یہ ہوتا ہے کہ نیا موقف اختیار کرتے وقت پرانے موقف کو بھی Justify کرنے کی کوشش کی جاتی ہے چنانچہ تضادات کی ایک مضحکہ خیز دنیا وجود میں آتی ہے۔ جماعت اسلامی نے ضیاء الحق ریفرنڈم کی حمایت کی لیکن مشرف ریفرنڈم کے وقت اس نے اصولی موقف اپنایا۔ یعنی جماعت کو ایک طرح سے احساس ہو گیا تھا کہ ضیاء مرحوم کی حمایت ایک غلط فیصلہ تھا۔ لیکن اعتراف کی بجائے حیلہ کی راہ اختیار کی گئی اور پروفیسر خورشید احمد جیسی علمی شخصیت کو انتہائی سطحی استدلال پیش کرنا پڑا۔ یہ استدلال پیش کرتے ہوئے وہ پرویز مشرف حکومت کو آئینی اور ضیاء حکومت کو غیر آئینی کہہ گئے۔ یعنی جماعت پر اٹھی ایک انگلی کے جواب میں بے جا منطق کا سہارا لیتے ہوئے انہوں نے مختلف حلقوں کو ایک اور انگلی اٹھانے کا موقع دے دیا۔ اب اگر ہم ، یہ سوال کریں کہ کیا وجہ تھی ضیاء الحق مرحوم کی غیر آئینی حکومت کی آپ نے حمایت کی لیکن پرویز مشرف صاحب کی دستوری حکومت کی آپ مخالفت کر رہے ہیں تو جماعت اسلامی کے پاس کیا جواب ہو گا ؟

خوابوں سے نکلیں

خوابوں کی دنیا سے نکل کر حقائق کی دنیا میں جینا سیکھیے ۔ حقائق چیخ کر کہہ رہے ہوتے ہیں کہ جماعت اسلامی کو صرف 2 یا 3 نشستیں ملیں گی ، جناب طاہر القادری ایک نشست لینے کے بھی قابل نہیں ، لیکن یہ ہیں کہ دعوے کر رہے ہوتے ہیں دو تہائی اکثریت سے جیتیں گے۔ جو لوگ سامنے کے حقائق نہیں دیکھ سکتے ان میں اتنی اہلیت کہاں کہ قوم کی قیادت کریں۔

First Deserve... Then Desire

جناب خرم مراد اسی بات کا شکوہ کرتے اللہ کے حضور جا پہنچے۔ جماعت نے ان کے الفاظ کو خوبصورت کتابوں کا روپ تو دے دیا ۔ شاید پڑھنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔

3- دعوت ، دعوت ....... اور دعوت

اہل مذہب کو یہ بات خاص طور پر بجھنی چاہیے کہ ان کا مقام کوتوال اور تھانے دار کا نہیں داعی کا ہے۔

معاشرے میں میلوں ٹھیلوں پر یلغار اور ایک تعلیمی ادارے میں محافل موسیقی روکنے کے لیے دوسرے تعلیمی ادارے سے اپنے وابستگان کی کمک منگوا کر معرکہ بپا کر دینا، اہلِ مذہب کا کام نہیں۔ ایک یونیورسٹی میں کوئی محفل ہونے والی ہے تو آپ زیادہ سے زیادہ یہ کریں کہ اس کی انتظامیہ سے بات کریں دوسری یونیورسٹی سے طلباء منگوا کر وہاں یلغار کر دینا شریعت کا تقاضا ہے نہ ملکی قانون ہی اس بات کی اجازت دیتا ہے۔

اس معاملے میں حضرت امام ابوحنیفہ کا فتوی قابل غور ہے۔

امام صاحب فرماتے ہیں کہ:

گانے بجانے کے آلات جو ممنوعات شرعیہ میں سے ہیں، اگر کسی مسلمان کے پاس ہوں، اور دوسرا مسلمان ان کو غیر شرعی قرار دیتے ہوئے توڑ دے تو اس کا تاوان ادا کرنا پڑے گا کیونکہ اس نے ان حدود میں تصرف کیا ہے جو اس کے فرائض کے دائرے سے خارج تھے    (01)

مناظر احسن گیلانی مرحوم لکھتے ہیں :

قریب قریب مختلف الفاظ میں مالکی اور شافعی علماء کی کتابوں میں بھی یہی لکھا ہے، یعنی مارنے پیٹنے پر یا قتل و قتال پر آمادہ ہو جانا ، یہ عام لوگوں کا کام نہیں ہے ۔        (02)

اہل مذہب اس وقت صرف داعی ہیں ۔ ان کا کام دعوت ہے۔ اقتدار مل جائے تو بہت سی دوسری ذمہ داریاں بھی عائد ہو جاتی ہیں لیکن اقتدار کے بغیر اہل مذہب کا کام صرف دعوت ہے۔

سید ابو الاعلیٰ مودودی نے کیا خوب بات فرمائی :

اب اصلاح کی صورت اس کے سوا کچھ نہیں کہ اسلام کو از سر نو ایک تحریک کی صورت میں اٹھایا جائے اور مسلم کے معنی کو پھر سے تازہ کیا جائے ۔ مردوں کی اس بستی میں جو تھوڑے بہت مسلمان دل ابھی حرکت کر رہے ہیں اور جن کی گہرائیوں سے ابھی تک یہ شہادت بلند ہو رہی ہے کہ اسلام ہی حق اور صدق ہے اور انسانیت کی فلاح صرف طریق اسلامی ہی میں ہے، ان کو جان لینا چاہیے کہ اب کرنے کا کام یہی ہے ۔ مگر اس کام کو کرنا کھیل نہیں ہے۔ یہ وہ کوہ کنی ہے جس کے تصور ہی سے فرہاد کا زہرہ آب ہو جاتا ہے۔         (03)

لیکن کرنے کا کام تو یہی ہے ۔

اگر انتخابی سیاست کے لیے متحدہ مجلس عمل وجود میں آسکتی ہے تو قوم کی سنجیدہ فکری رہنمائی کے لیے کوئی کاوش کیوں نہیں ہو سکتی ؟

مختلف مکاتیب فکر کے حامل رہنما، اپنی فکر کی صحت پر اصرار کر کے اور ہر دوسری فکر پر نقد اور اسے باطل قرار دے کر سیاسی مفادات کے لیے ایک تو کیا ڈھیروں متحدہ مجلس عمل بھی بنالیں تو اس سے کوئی خیر برآمد ہوتا نظر نہیں آتا ۔

البتہ اگر یہ رہنما مل بیٹھیں اور مختلف مکاتیب فکر کے رہنما حضرات کو بٹھا کر ایک دوسرے کے نظریات اور تعبیر دین کے بارے صحت مندانہ مکالمہ کر کے ایک دوسرے کے خیالات کا تقابلی جائزہ لیتے ہوئے ، اسلامی نظام کے لیے کسی ایک تعبیر پر اتفاق کر لیں اور مشتر کہ پروگرام لے کر سامنے آئیں تو یہ ایک خوشگوار ابتداء ثابت ہو سکتی ہے۔

حواشی:

01 -  مولانا مناظر احسن گیلانی مرحوم ، امام ابوحنیفہ کی سیاسی زندگی (ص: 259)

02 - مولانا مناظر احسن گیلانی مرحوم ، امام ابو حنیفہ کی سیاسی زندگی (ص: 260)

03- تحریک آزادی ہند اور مسلمان، جلد دوم (ص:43)

إرسال تعليق

Type Your Feedback