ملفوظات مع مختصر سوانح - شیخ الحدیث مولانا محمد یونس صاحب جونپوریؒ مرتب مرتب : مولانا محمد جابر بن عمر پالنپوری

ملفوظات مع مختصر سوانح - شیخ الحدیث مولانا محمد یونس صاحب جونپوریؒ

ملفوظات مع مختصر سوانح - شیخ الحدیث مولانا محمد یونس صاحب جونپوریؒ
ملفوظات مع مختصر سوانح - شیخ الحدیث مولانا محمد یونس صاحب جونپوریؒ


کتاب : ملفوظات مع مختصر سوانح - شیخ الحدیث مولانا محمد یونس صاحب جونپوری
مرتب : مولانا محمد جابر بن عمر پالنپوری

عرض مرتب

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ
الحمد لله رب العالمين، والصلوة والسلام على سيد الأنبياء و
المرسلين، أما بعد........
سبق آموز واقعات بھی ہیں۔

الغرض اس مجموعہ ملفوظات میں وہ اخلاقی ، روحانی علمی عملی اور تربیتی غذا ہے جو علماء وطلبہ کی علمی و عملی زندگی کے لیے بہترین تو شہ ہے۔
احقر نے ملفوظات کی کاپی رمضان المبارک ۱۴۳۲ھ مطابق : ۲۰۱۱ء میں حضرت کی خدمت میں پیش کی تو اس پر حضرت نے فرمایا: ارے بچے ! ملفوظات تو بس حضرت اقدس تھانوی کے ہیں ۔ اس کے بعد ۲۲ / رمضان المبارک / ۱۴۳۸ھ مطابق : ۲۰۱۷ ء (یعنی جس رمضان کے بعد حضرت کی وفات ہو گئی ) کو دوسری مرتبہ حضرت کے سامنے ملفوظات کا ذکر کرتے ہو ئےعرض کیا کہ حضرت! میں جب ان ملفوظات کو پڑھتا ہوں تو آپ کی بہت یاد آتی ہے تو حضرت نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تجھے خوش رکھے ۔“
حضرت کے انتقال کے بعد راقم السطور نے حضرت کے ملفوظات اپنے رفیق مکریم مفتی زبیر احمد صاحب (استاذ حدیث و فقہ جامعہ قاسمیہ عربیہ کھروڈ) کو بغرض مطالعہ پیش کیے، آں جناب نے پڑھنے کے بعد کئی مرتبہ مشورہ دیا کہ ان ملفوظات کو کتابی شکل میں منظر عام پر لانا چاہیے، چنانچہ احقر نے بنام ایزدی طباعت کا بیڑہ اٹھا لیا، تا کہ حضرت کے بیش قیمت ارشادات سے اہل علم حضرات ، طلبہ، مریدین اور عوام الناس تک سبھی فیض یاب ہو سکیں اور اپنی علمی و عملی زندگی سنوار سکیں۔
اس بات میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ جس طرح اہل اللہ کا کلام حین حیات از دل خیز و بر دل ریزڈ کا مصداق ہوتا ہے ، ان کی محفلیں دلوں کی دنیا بدل دیتی ہیں اور محض ان کی زیارت ہی سے سینکڑوں گم شدہ راہ راہیاب ہو جاتے ہیں، اسی طرح اولیاء اللہ کی وفات کے بعد ان کی تالیفات و تصنیفات سے ہزاروں تشنگانِ علم سیراب ہوتے ہیں اور کے بعد کی سے ہزاروں علم سراب ہوتے ہیں ار ان کے ملفوظات لوگوں کے دلوں میں ایمانی روح پھونکتے رہتے ہیں، بالخصوص اس شخص کے لیے بڑی تسکین کا باعث بن جاتے ہیں جو ان کی خدمت کا شرف حاصل کر چکا ہو، اپنے شیخ سیدی و مولائی امیر المؤمنین فی الحدیث حضرت اقدس شیخ محمد یونس صاحب نور اللہ مرقدہ کی خدمت عالیہ میں پہلی مرتبہ حضرت اقدس مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب پالن پوری کی معیت میں رمضان کے آخری دو عشرے گزارنے کے لیے ۱۴۲۴ھ مطابق : ۲۰۰۳ء میں حاضری ہوئی ، یہ میری سب سے پہلی زیارت و ملاقات تھی ، اس کے بعد کئی بار بحمد اللہ حضرت اقدس کی خدمت عالیہ میں حاضری ہوتی رہی۔
پھر ھ ۱۴۲۶ اور ۱۴۲۷ھ دو سال مظاہر علوم میں درجہ مشکوۃ و دورہ حدیث پڑھے کا موقع ملا، ان دو سالہ مدت تعلیم میں حضرت اقدس کی مجلس میں جانے کا معمول رہا، جو نماز عصر کے بعد ہوا کرتی تھی، گرچہ حضرت اقدس مجلس میں بیٹھے تسبیحات کا ورد فرماتے رہتے ، مگر گا ہے گا ہے نصیحت بھی فرماتے ، تو راقم السطور ان نصائح قیمہ کو حضرت کے الفاظ میں ہو بہ ہو نقل کرنے کی کوشش کرتا ، اسی طرح درس بخاری و مسلم میں حضرت اقدس کی درسی تقریر کو تحریر کرنے کے ساتھ دوران درس جو نصیحت فرماتے اس کو بھی قلمبند کرتا ۔

حضرت کے یہ ملفوظات جہاں ایک طرف سالکین اور مدارس اسلامیہ کے علماء و طلبہ کے لیے مشعل راہ ہیں وہیں عوام الناس کے لیے راہِ حیات میں روشن چراغ ہیں، البتہ چوں کہ حضرت کی زندگی کا اکثر حصہ علماء و طلبہ کے درمیان گزرا اور عموماً یہی طبقہ حضرت کا مخاطب رہا ہے؛ اس لیے حضرت کے ان ملفوظات میں خصوصاً طالبان علم نبوت کے لیے زریں اصول و ہدایات اور گراں قدر رہنمائیاں ہیں، جابجا بزرگوں کے اور خود حضرت کے سبق آموز واقعات بھی ہیں۔

الغرض اس مجموعہ ملفوظات میں وہ اخلاقی ، روحانی علمی عملی اور تربیتی غذا ہے جو علماء وطلبہ کی علمی و عملی زندگی کے لیے بہترین تو شہ ہے۔

احقر نے ملفوظات کی کاپی رمضان المبارک ۱۴۳۲ھ مطابق : ۲۰۱۱ء میں حضرت کی خدمت میں پیش کی تو اس پر حضرت نے فرمایا: ارے بچے ! ملفوظات تو بس حضرت اقدس تھانوی کے ہیں ۔ اس کے بعد ۲۲ / رمضان المبارک / ۱۴۳۸ھ مطابق : ۲۰۱۷ ء (یعنی جس رمضان کے بعد حضرت کی وفات ہو گئی ) کو دوسری مرتبہ حضرت کے سامنے ملفوظات کا ذکر کرتے ہو ئےعرض کیا کہ حضرت! میں جب ان ملفوظات کو پڑھتا ہوں تو آپ کی بہت یاد آتی ہے تو حضرت نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تجھے خوش رکھے ۔“

حضرت کے انتقال کے بعد راقم السطور نے حضرت کے ملفوظات اپنے رفیق مکریم مفتی زبیر احمد صاحب (استاذ حدیث و فقہ جامعہ قاسمیہ عربیہ کھروڈ) کو بغرض مطالعہ پیش کیے، آں جناب نے پڑھنے کے بعد کئی مرتبہ مشورہ دیا کہ ان ملفوظات کو کتابی شکل میں منظر عام پر لانا چاہیے، چنانچہ احقر نے بنام ایزدی طباعت کا بیڑہ اٹھا لیا، تا کہ حضرت کے بیش قیمت ارشادات سے اہل علم حضرات ، طلبہ، مریدین اور عوام الناس تک سبھی فیض یاب ہو سکیں اور اپنی علمی و عملی زندگی سنوار سکیں۔

اس بات میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ جس طرح اہل اللہ کا کلام حین حیات از دل خیز و بر دل ریزڈ کا مصداق ہوتا ہے ، ان کی محفلیں دلوں کی دنیا بدل دیتی ہیں اور محض ان کی زیارت ہی سے سینکڑوں گم شدہ راہ راہیاب ہو جاتے ہیں، اسی طرح اولیاء اللہ کی وفات کے بعد ان کی تالیفات و تصنیفات سے ہزاروں تشنگانِ علم سیراب ہوتے ہیں اور کے بعد کی سے ہزاروں علم سراب ہوتے ہیں ار ان کے ملفوظات لوگوں کے دلوں میں ایمانی روح پھونکتے رہتے ہیں، بالخصوص اس شخص کے لیے بڑی تسکین کا باعث بن جاتے ہیں جو ان کی خدمت کا شرف حاصل کر چکا ہو، اپنے شیخ کے لیل و نہار اس کے سامنے ہوں ، اپنے شیخ کے ملفوظات پڑھتے وقت اس کے سامنے ایک خاص کیفیت بندھ جاتی ہے جسے الفاظ میں ڈھالنا مشکل ہے۔

الغرض ان ہی فوائد کے پیش نظر قرونِ اولیٰ سے ہی صالحین و اولیاء اللہ کے ارشادات و ملفوظات، پند و نصائح اور واقعات کو جمع کیا جاتا ہے، پیش خدمت ان ملفوظات میں حضرت مفتی ادریس صاحب و مفتی زبیر احمد صاحب ( اسا تذہ حدیث وفقہ جامعہ قاسمیہ عربیہ کھروڈ ) کے جمع کردہ ملفوظات بھی شامل کیے گئے ہیں، جو ان دونوں حضرات نے اپنے اپنے زمانہ طالب علمی میں قلمبند کیے تھے۔

بندہ بے حد ممنون ہے اُستاذ محترم حضرت مولانا محمد سلمان صاحب مظاہری مدظلہ العالی ، مخدوم مکرم حضرت مولانا محمد حنیف صاحب لو ہاروی اور حضرت مولانا یوسف صاحب شینکا روی دامت برکاتہم کا ، جنہوں نے اپنے گوناگوں مشاغل کے باوجود از راہ عنایت اپنے قیمتی کلمات تحریر فرما کر کتاب کی توثیق میں اضافہ فرمایا۔

اسی طرح بندہ شکر گزار ہے حضرت مولانا ایوب صاحب پانولی دامت برکاتہم ناظم تعلیمات جامعہ قاسمیہ عربیہ کھروڈ ) کا ، جو وقتا فوقتا اس کام کے متعلق دریافت فرماتے رہے اور حوصلہ افزائی فرماتے رہے، نیز بندہ تہہ دل سے ممنون ہے حضرت مولانا قاری ناظر حسین صاحب ہتھوڑ وی دامت برکاتہم (استاذ حدیث دارالعلوم فلاح دارین ترکیسر ) کا، جنہوں نے اپنی درسی مشغولیات کے باوجود مسودہ کی تصحیح کا محنت طلب کام بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ بہت جلد انجام دیا۔ نیز مفتی عمران صاحب کو سمری (استاذ جامعہ قاسمیہ عربیہ کھروڈ ) کا بھی اسی طرح مولانا رشید احمد صاحب آچھودی (استاذ جامعہ قاسمیہ عربیہ کھروڈ ) کا بھی احسان مند ہے جنہوں نے بڑی خوش دلی سے کتاب کی کمپوزنگ کا کام اپنے ذمہ لے لیا، نیز عزیزانم مولوی علقمہ مہاراشٹری ، مولوی ابرار احمد کو ساڑی اور مولوی محمد بن جابر بمبئی سلمہم اللہ تعالیٰ (طلبہ جامعہ قاسمیہ عربیہ کھروڈ ) کا بھی ، جنہوں نے مختلف نوعیتوں سے اس کام میں بندہ کا ہاتھ بٹایا۔

بڑی ہی ناسپاسی ہوگی اگر اس موقع پر میں اپنے رفیق محترم حضرت مولانا ارشد صاحب پالن پوری (استاذ حدیث جامعہ قاسمیہ عربیہ کھروڈ) کا شکریہ ادا نہ کروں جن کی مخلصانہ سعی اور مفید ترین مشورے سے جامعہ قاسمیہ عربیہ کھروڈ کے ایک مخلص فاضل نے اپنے مصارف سے اپنی سعادت سمجھتے ہوئے اس کتاب کو طباعت کے مرحلہ سے گزارا۔

فجزاهم الله تعالى أحسن الجزاء.

نیز بندہ ان تمام حضرات کا بھی تہہ دل سے شکر ادا کرتا ہے جنہوں نے ملفوظات کے اس مجموعہ کی طباعت و اشاعت میں کسی بھی طرح تعاون کیا ہے۔

نوٹ: قارئین کرام اس کتاب میں کچھ ملفوظات مکرر پائیں گے، یہ تکرار دو وجہ سے باقی رکھی گئی ہے:

(۱) حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے دل و دماغ پر کیا فکر سوار تھی اور حضرت اپنے متعلقین سے کس بات کی توقع رکھتے تھے یہ بات قارئین کے سامنے آسکے، اس کا مشاہدہ وہ حضرات بخوبی کر سکتے ہیں جنہوں نے حضرت کی مجلسوں سے استفادہ کیا ہے۔

(۲) کئی مواقع ایسے ہیں جہاں ایک ملفوظ دوسرے ملفوظ کی وضاحت کرتا ہے، اس لیے بھی بعض ایسے ملفوظات باقی رکھے گئے ہیں۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان قیمتی ملفوظات سے استفادہ کی توفیق نصیب فرمائے ، آمین ۔

محتاج دعا

محمد جابر بن عمر با در پوری

استاذ جامعہ قاسمیہ عربیہ کھروڈ

١٢ / صفر المظفر / ۱۴۳۹ھ

مطابق : ۲ / نومبر ۲۰۱۷ء

Download PDF

إرسال تعليق

Type Your Feedback