تاریخ پر تحقیق کا طریق کار : فن تاریخ کے بنیادی مباحث کا مطالعہ حصہ اول

اس مضمون میں ہم فن تاریخ کے بنیادی مباحث کا مطالعہ کریں گے تاکہ اس فن کے بارے میں یہ جان سکیں کہ تاریخی معلومات کیسے حاصل کی جاتی ہیں ؟

فن تاریخ کے بنیادی مباحث کا مطالعہ

حصه اول

باب 1: تاریخ پر تحقیق کا طریق کار
فن تاریخ کے بنیادی مباحث کا خلاصہ:: حصہ اول


تمہید:-

 اس مضمون میں ہم فن تاریخ کے بنیادی مباحث کا مطالعہ کریں گے تاکہ اس فن کے بارے میں یہ جان سکیں کہ تاریخی معلومات کیسے حاصل کی جاتی ہیں ؟ انہیں مرتب کیسے کیا جاتا ہے ؟ عہد صحابہ سے متعلق تاریخی معلومات کسی شکل میں دستیاب ہیں ؟ کیا یہ معلومات ہم تک درست شکل میں پہنچی ہیں ؟ فن تاریخ میں ایسے کون سے طریق ہائے کار (Procedures) موجود ہیں جن کی مددسے ان معلومات کی جانچ پڑتال کی جاسکتی ہے اور اس کی صحت (Authenticity) کا جائزہ لیا جا سکتا ہے؟


تاریخی معلومات کیسے مرتب کی جاتی ہیں ؟ :-

تاریخی معلومات، خواہ ان کا تعلق کسی بھی زمانے سے ہو ، کو مرتب کرنے کا ایک پر اسیس ہوتا ہے جس میں متعدد مرحلوں سے گزر کر یہ معلومات بعد کی نسلوں تک پہنچتی ہیں۔ وہ مرحلے یہ ہیں:

پہلا مرحلہ : واقعہ رونما ہونا اور عینی شہادت

جب کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے، تو اس کے کچھ عینی شاہدین ہوتے ہیں۔ یہ لوگ اس واقعے کی تفصیلات کو نوٹ کرتے ہیں اور پھر اسے آگے بیان کر دیتے ہیں۔ اگر کسی واقعے کو عینی شاہدین میسر نہ آسکیں تو اس کی تفصیلات بالعموم مخفی رہتی ہیں۔ عینی شاہدین اگر موجود ہوں تو وہ اپنے اپنے رجحان، دلچسپی اور افتاد طبع کے لحاظ سے معلومات کو مرتب کرتے ہیں۔ انسان کی یہ نفسیات ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی واقعے کے ہر پہلو کو جزوی تفصیلات کی حد تک یاد نہیں رکھتا بلکہ اس کی یہ فطرت ہے کہ وہ کسی بھی واقعے کو اپنے خیالات، نظریات، دلچسپیوں اور تعصبات کی عینک سے دیکھتا ہے۔ مثلاً اگر کسی جگہ کوئی قتل کا واقعہ ہو جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ ایک گواہ تو پوری تفصیل سے قاتل کا حلیہ بتا دیتا ہے لیکن اس کے قتل کرنے کے انداز کو زیادہ تفصیل سے بیان نہیں کر پاتا کیونکہ اس طریقے میں اس کی دلچسپی نہیں ہوتی اور وہ اسے مناسب حد تک نوٹ نہیں کر پا سکا ہوتا۔ اس کے برعکس دوسرا گواہ قاتل کے حلیے کو تو زیادہ تفصیل سے نوٹ نہیں کرتا لیکن قتل کرنے کے انداز کو بڑے واضح انداز میں بیان کر دیتا ہے کیونکہ اس کی دلچسپی اس میں ہوتی ہے۔

اسی طریقے سے اگر اس واقعے کو کوئی ایسا شخص بھی دیکھ رہا ہو جو اسلحے میں بڑی دلچسپی رکھتا ہو تو وہ باقی چیزوں کی نسبت آلہ قتل کی جزئیات کو بڑی تفصیل سے بیان کر دیتا ہے۔ ایسا بھی ممکن ہوتا ہے کہ کسی شخص نے قاتل کو پہچان لیا ہو لیکن وہ کسی ذاتی مفاد یا خوف کی وجہ سے اس کے بارے میں غلط معلومات فراہم کر دے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ہی واقعے کو بیان کرنے والوں میں تفصیلات کے بارے میں کچھ نہ کچھ اختلاف رونما ہو ہی جاتا ہے۔ اس طرح سے تاریخی معلومات کو مرتب کرنے کا پہلا مرحلہ طے پاتا ہے۔ یہ مرحلہ بالعموم واقعے کے فوراً بعد مکمل ہو جاتا ہے اور اس میں زیادہ سے زیادہ چند دن ہی لگتے ہیں۔

چنانچہ ہم اپنے زمانے میں دیکھتے ہیں کہ کوئی اہم واقعہ رونما ہوتے ہی مقامی صحافی اور پولیس موقع پر پہنچ جاتے ہیں اور اس کا ریکارڈ مرتب کر لیا جاتا ہے۔ عینی شاہدین کے بیانات قلم بند کر لیے جاتے ہیں۔ سرکاری ریکارڈ کے علاوہ اخبارات میں اس کی رپورٹس شائع ہو جاتی ہیں۔


دوسر امرحلہ : معلومات کو یکجا کرنا

دوسرے مرحلے میں عینی شاہدین سے معلومات کو اکٹھا کر کے ایک جگہ درج کیا جاتا ہے۔ مختلف عینی شاہدین کے بیانات قلم بند کیے جاتے ہیں اور ان تمام معلومات کو اکٹھا کیا جاتا ہے۔ اگر معلومات کو درست طور پر مرتب کرنے کی کوشش کی جائے تو ایسا کرنے والا یہ کوشش کرے گا کہ جتنے زیادہ عینی شاہدین مل سکیں، ان سے معلومات اکٹھی کر لی جائیں۔ اگر کسی واقعے کو بہت سے لوگوں نے دیکھا ہے، تو اس میں قدرتی طور پر عینی شاہدین بہت زیادہ ہونے چاہیں۔ اگر کوئی واقعہ کسی بند جگہ پر پیش آیا ہے اور موقع پر عینی شاہدین موجود نہیں ہیں، تو اس کے بارے میں بالعموم التباس پیدا ہو جاتا ہے۔ عام واقعات کو تو نظر انداز کر دیا جاتا ہے لیکن اگر کوئی جرم ہوا ہو یا تاریخی نوعیت کا اہم واقعہ ہو تو اس کی باقاعدہ تفتیش کی جاتی ہے اور مختلف طرز کے ثبوت اکٹھے کیے جاتے ہیں۔


تیسر امرحلہ : تصویر کا مکمل کرنا

جب ممکنہ حد تک معلومات کو اکٹھا کر لیا جاتا ہے تو پھر ان کی مدد سے واقعے کی تصویر کو مکمل کیا جاتا ہے، کڑیوں سے کڑیاں جوڑی جاتی ہیں اور یہ کوشش کی جاتی ہے کہ واقعے کی حقیقی صورت سامنے آجائے۔ یہ عمل بالکل جگ سا پزل (Jigsaw Puzzle) سے مشابہت رکھتا ہے۔ جیسے جگ سا پزل میں تصویر کے مختلف کئے ہوئے حصے ہوتے ہیں اور انہیں جوڑ کر ایک تصویر بنانا ہوتی ہے، بالکل ویسے ہی عینی شاہدین کے بیانات کو سن کر تصویر بنائی جاتی ہے۔ البتہ اس معاملے میں مختلف پہلو یہ ہے کہ یہاں ایک سے زائد تصاویر بننے کا امکان موجود ہوتا ہے۔ اگر عینی شاہدین کے بیانات میں تضاد پایا جائے یا پھر دیگر شواہد (Evidence) کچھ مختلف بات پیش کرے تو یہ بات ممکن ہوتی ہے کہ واقعے کی ایک سے زائد تصاویر سامنے آئیں۔ یہ بالکل بصری التباس (Optical Illusion) کی طرح ہوتا ہے، جس میں ایک ہی تصویر میں مختلف زاویہ نظر سے ایک سے زائد تصاویر نظر آتی ہیں۔ ایسا ہی ایک التباس نیچے کی تصویر میں دیا گیا ہے۔

Image 01 Optical illusion

اس تصویر کو دیکھ کر کوئی پان کھانے والا شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ اگال دان کی تصویر ہے۔ جبکہ دوسرا یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ دو آدمیوں کی تصویر ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی شخص اسے شراب کا جام قرار دے دے۔ اس کا انحصار ہر شخص کے طرز فکر ، سماجی بیک گراؤنڈ اور ذہنی ساخت پر ہے۔ بالکل اسی طرح تاریخی راویات کی بنیاد پر حاصل ہونے والی معلومات سے ایک شخص اپنے طرز فکر، سماجی بیک گراؤنڈ اور ذہنی ساخت کے لحاظ سے ایک تصویر بنائے گا اور دوسرا دوسری۔

مثال کے طور پر ہمارے زمانے میں اہم واقعات کی ایک سے زائد تو جیہات موجو د رہتی ہیں۔ جیسے نائن الیون کے واقعے کے بارے میں بہت سے مسلمان یہ کہتے ہیں کہ یہ امریکہ اور یہودیوں کی سازش تھی۔ اس کے برعکس امریکیوں کا موقف یہ ہے کہ اس کی ذمہ دار القاعدہ تھی۔ ایسا ہی اختلاف دنیا کے ہر اہم واقعے کے بارے میں موجود رہتا ہے۔


چوتھا مرحلہ : واقعات کے تسلسل کو تاریخ کی شکل میں مرتب کرنا

جب واقعات کو مرتب کر لیا جاتا ہے تو پھر اگلا مرحلہ ان واقعات کے تسلسل اور ان کے باہمی تعلق کو بیان کرنا ہوتا ہے۔ عام طور پر یہ کام مورخین کرتے ہیں اور اس کے لیے کتابیں لکھتے ہیں۔ اس طرح سے تاریخ ایک مسلسل عمل کی شکل میں ہمیں نظر آتی ہے۔ مورخ کے ذاتی رجحانات اور تعصبات اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر اور نگ زیب عالمگیر کی اپنے بھائیوں سے جو جنگیں ہوئیں اور ان کے نتیجے میں وہ سب مارے گئے۔ سیکولر قسم کے مورخین اس پر عالمگیر کے بارے میں طعنہ زنی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ " اور نگ زیب نے کبھی نماز نہیں چھوڑی اور نہ ہی اپنا کوئی بھائی۔ “ اس کے برعکس مذہبی مورخین عالمگیر کو پسند کرتے ہیں اور ان جنگوں کا جواز پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ بقا کی جنگ تھی۔ اگر اور نگ زیب اپنے بھائیوں کو قتل نہ کرتا تو وہ اسے قتل کر دیتے۔

اسی طرح تاریخ پاکستان کے مختلف واقعات جیسے قیام پاکستان ، 1965 اور 1971 کی جنگیں، قیام بنگلہ دیش، افغان سوویت جنگ ، نائن الیون، طالبان امریکہ جنگ اور اسی نوعیت کے دیگر واقعات سے متعلق مختلف مورخین اپنے اپنے تعصبات اور جھکاؤ کے مطابق تاریخی واقعات کو بیان کرتے نظر آتے ہیں۔

تاریخی معلومات کی ترتیب و تدوین میں دور جدید اور زمانہ قدیم کے طریق ہائے کار کا موازنہ ہمارے زمانے کے اہم واقعات کی صورت میں عینی شہادت، آثار و شواہد اور گواہیوں کو یکجا کرنے کا مرحلہ عام طور پر صحافی انجام دیتے ہیں۔ جیسے ہی کوئی واقعہ ہوتا ہے تو اخباری رپورٹرز اور نیوز چینلز کے نمائندے وہاں پہنچ جاتے ہیں اور اس واقعے کو تحریری رپورٹ یا ویڈیو کی شکل میں ریکارڈ کر لیتے ہیں۔ جرم کی صورت میں یہ کام پولیس کرتی ہے اور وہی صحافیوں کو معلومات فراہم کرتی ہے۔ اس کے بعد تصویر کو مکمل کرنے کا عمل ہوتا ہے۔ یہ کام عام طور پر تجزیہ نگار کرتے ہیں۔ مختلف اخباروں اور ٹی وی چینلز کے تجزیہ نگاروں بھاری معاوضے پر یہ خدمت انجام دیتے ہیں۔ جو واقعہ جتنا اہم ہوتا ہے، اسے اتنی ہی زیادہ کوریج ملتی ہے۔ کم اہم واقعات کو زیادہ کوریج نہیں مل پاتی ہے۔ ہم روزانہ دیکھتے ہیں کہ تجزیہ نگاروں کے درمیان بہت سے واقعات کی تصویر کو مکمل کرنے میں اختلاف رائے پیدا ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد تاریخ کو مدون کرنے کا مرحلہ آتا ہے جو کہ مورخین انجام دیتے ہیں۔ عام طور پر مورخین کا کام واقعے کے کافی عرصہ بعد ہوتا ہے۔ روزانہ بنیادوں پر واقعات کی ریکارڈنگ اور تجزیہ نگاری کا کام تو واقعے کے چند دن کے اندر اندر ہو جاتا ہے لیکن مورخین اپنا کام کافی عرصہ بعد کرتے ہیں۔

مثال کے طور پر مشہور سیاستدانوں جیسے بھٹو، ضیاء الحق اور بے نظیر بھٹو کے قتل کے واقعات (بالترتیب 2007 ,1988 ,1979) کو لیجیے۔ ان واقعات کی رپورٹنگ کا کام فوری طور پر کیا گیا۔ اب تک تجزیہ نگار، ان پر لکھتے چلے آرہے ہیں۔ مگر مورخین نے اپنا کام کافی بعد میں شروع کیا۔ مثلاً تاریخ کی جو کتا بیں 1990 کے عشرے میں لکھی گئیں، ان میں بھٹو کے قتل کی تفصیلات موجود ہیں۔ اسی طرح2000 کے عشرے میں لکھی جانے والی کتب میں ہمیں ضیاء الحق کے قتل کا ذکر ملتا ہے۔ اس کتاب کی تحریر (2012) تک بے نظیر بھٹو کے قتل کے واقعے پر مبنی تاریخ کی کوئی کتاب ہماری نظر سے نہیں گزری۔ ممکن ہے کہ 2020 کے عشرے میں پاکستان کی تاریخ کی جو کتب لکھی جائیں گی، ان میں اس واقعے کا ذکر ہو گا۔

پہلے زمانوں میں یہ سارا کام اس درجے کی تفصیل اور نفاست (Sophistication) سے انجام نہیں دیا جاتا تھا کیونکہ اس زمانے میں نہ تو اخبارات تھے اور نہ ٹی وی چینل، نہ کمپیوٹر تھا اور نہ کیمرہ نہ صحافیوں کا کوئی الگ طبقہ تھا اور نہ ہی معلومات کو ریکارڈ کرنے کا کوئی انتظام۔ عہد صحابہ میں تو کیفیت یہ تھی کہ کاغذ بھی آسانی سے دستیاب نہ ہو تا تھا بلکہ اسے دور دراز ممالک سے امپورٹ کرنا پڑتا تھا، اس وجہ سے کاغذ نایاب اور مہنگا تھا۔ ان وجوہات کی بنیاد پر لوگ تاریخی واقعات کو اپنے ذہنوں میں محفوظ رکھا کرتے تھے۔ قرآن مجید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کے بارے میں البتہ اتنا اہتمام کر لیا گیا کہ انہیں لکھا جانے لگا۔ دوسری اور تیسری صدی ہجری میں جب کاغذ عام ہو ا تو علم کے پورے ذخیرے کو کتابوں کی صورت میں مدون کر لیا گیا۔

ہبد صحابہ کے واقعات پہلی صدی ہجری میں وقوع پذیر ہوئے تھے۔ جو لوگ ان واقعات کے عینی شاہد تھے، ان میں سے بعض نے انہیں اگلی نسل کے سامنے بیان کیا، اس اگلی نسل نے اپنے سے اگلی نسل اور اس نے اپنے سے اگلی نسل کے سامنے یہ واقعات بیان کیے۔ ایسا کم ہی ہوا کہ کسی بیان کرنے والے نے پورے واقعے کو مکمل تفصیلات کے ساتھ بیان کیا ہو بلکہ کسی نے مختصر آبات بیان کی اور کسی نے کچھ تفصیل ہے۔ اس طرح سے یہ واقعات بیان کرنے والوں کے بیانات" کی صورت میں مرتب ہوئے۔ ان بیانات کو اصطلاح میں " روایت " کہا جاتا ہے اور بیان کرنے والے کو "راوی " کہا جاتا ہے۔ عالم اسلام میں یہ رواج عام ہو گیا کہ ہر روایت کو بیان کرتے ہوئے اس کے راویوں کی پوری سند (Trail) کو بیان کر دیا جائے۔ مثلاً ایک راوی احمد نے زید سے بات سنی، اس زید نے عمرو سے سنی، عمرو نے خالد سے سنی تو احمد اس روایت کو بیان کرنے سے پہلے یہ کہے گا: " زید نے ہم سے یہ روایت بیان کی، انہوں (زید) نے کہا کہ ان سے عمرو نے یہ بیان کیا اور عمرو نے کہا کہ میں نے خالد سے یہ بات سنی۔ " اس کے بعد وہ اصل روایت کو بیان کرے گا۔

یہ سب کام زبانی ہو رہا تھا یا زیادہ سے زیادہ اتنا تھا کہ کسی نے اپنی ذاتی ڈائری پر یہ واقعات لکھ رکھے تھے۔ سو برس اسی طرح گزر گئے اور دوسری صدی ہجری میں کا نغذ کا وہ انقلاب آگیا جس کی تفصیلات ہم آگے بیان کریں گے۔ دیگر علوم کی طرح علم تاریخ پر کتابیں لکھنے کا بھی آغاز ہوا۔ اس زمانے میں بعض ایسے مورخین پیدا ہوئے جنہوں نے تاریخی روایات کو اکٹھا کرنے پر غیر معمولی محنت سے کام کیا اور عالم اسلام کا سفر کر کے جس جس کے پاس جو جو روایتیں موجود تھیں، انہیں اکٹھا کیا۔ یہ لوگ " اخباری " کہلاتے تھے کیونکہ ان کا کام خبروں اور واقعات کو اکٹھا کرنا تھا۔ ان میں محمد بن اسحاق (151/768)، محمد بن عمر الواقدی (207/822 .d)، سیف بن عمر التیمی  (185/800 d.) ، ابو مخنف لوط بن یحی (170/786 .d)، محمد بن سائب الکلبی (185/800 .d) اور ان کے بیٹے ہشام بن محمد الکلبی (204/819 ) کو غیر معمولی شہرت حاصل ہوئی۔

یہ وہی زمانہ تھا جب ماہرین حدیث ( جنہیں محدثین کہا جاتا ہے ) بھی اسی انداز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مرتب کر رہے تھے۔ یہ احادیث بھی اسی طرح روایات کی شکل میں موجود تھیں۔ ان محد ثین نے احادیث نبوی کو مرتب کرنے میں غیر معمولی احتیاط سے کام لیا جبکہ اخباریوں کے طبقے نے اس درجے کی احتیاط کو ملحوظ خاطر نہ رکھا جس کی وجہ سے تاریخی روایات میں اعلی درجے کا معیار بر قرار نہ رہ سکا۔ اس کی تفصیل کو ہم آگے چل کر بیان کریں گے۔


تاریخی معلومات کیسے مسخ ہو جاتی ہیں ؟

آپ نے دور جدید اور عہد قدیم تاریخی معلومات کے مرتب کرنے کے پراسیس کا جو مطالعہ کیا ہے، اس کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ یہ بات جان سکتے ہیں کہ اس پورے پر اسیس میں بہت سے ایسے خلا (Loopholes) موجود ہیں، جن کی مدد سے تاریخی معلومات مسخ ہو سکتی ہیں۔ یہ کام غیر ارادی طور پر ہوتا ہے اور ارادی طور پر بھی۔ ہم ان دونوں امور کو تفصیل سے بیان کرتے ہیں۔


غیر ارادی طور پر تاریخی معلومات کا مسخ ہو جانا

آپ نے وہ کھیل تو دیکھا ہو گا جس میں شریک ایک شخص کے کان میں کوئی بات کہی جاتی ہے، وہ یہ دوسرے کے کان میں بیان کرتا ہے اور وہ تیسرے کے ، لیکن جب یہ بات آخری شخص بیان کرتا ہے تو بات بالکل تبدیل ہو چکی ہوتی ہے۔ جو واقعات تو ایسے ہوں کہ انہیں ہزاروں افراد نے دیکھا ہو ، وہ بالکل ٹھیک ٹھیک اگلی نسلوں تک منتقل ہو جاتے ہیں لیکن جن واقعات کے گواہ ایک دو افراد ہی ہوں، ان کی صحیح تصویر اگلی نسلوں تک منتقل نہیں ہو پاتی ہے۔ اس کی وضاحت ہم ایک مثال سے کرتے ہیں۔ جیسے کوئی جنگ ہوئی۔ ظاہر ہے کہ اس میں ہزاروں افراد شریک ہوں گے ، جن میں سے اگر آٹھ دس بھی اس جنگ کے واقعہ ہونے کو بیان کر دیں تو بعد کے دور کے مورخین کے لیے تاریخ لکھنے کا کافی مستند مواد دستیاب ہو جائے گا۔ مورخ کے لیے یہ ممکن ہو گا کہ وہ ان صاحبان کے بیانات کا ایک دوسرے سے موازنہ کر کے حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کریں۔ لیکن اس جنگ کے آغاز میں کسی کمانڈر نے اپنے تین قریبی ساتھیوں کے ساتھ بیٹھ کر کیا خفیہ پلاننگ کی ؟ یہ وہ بات ہے کہ جس تک رسائی بہت ہی مشکل کام ہے۔ ہماری انفارمیشن ایج میں بھی شاید کوئی صحافی یا مورخ اس کی صحیح تفصیلات بیان نہ کر سکے۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ کے بڑے بڑے واقعات کے بارے میں تو مورخین میں کوئی اختلاف رائے نہیں ہوتا ہے لیکن جزوی تفصیلات کے بارے میں ان کے ہاں اکثر اختلاف پیدا ہو جاتا ہے۔

جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا ہے، واقعہ کی تصویر پر گرد پڑتی چلی جاتی ہے اور اس کے بارے میں تحقیق و تفتیش مشکل ہوتی چلی جاتی ہے۔ فرض کیجیے کہ اب سے سو سال بعد ایک مورخ ہمارے زمانے کی تاریخ لکھنا چاہتا ہے۔ اہم واقعات کی رپورٹنگ کا کام ہمارے زمانے کے صحافی کر رہے ہیں اور تجزیہ نگار ان کی تصویر مکمل کرتے جارہے ہیں۔ سو سال بعد کا مورخ جب ہمارے زمانے کی تاریخ لکھے گا تو اس کے لیے یہ ممکن نہ ہو گا کہ وہ واقعات کی از سر نو چھان بین کرے کیونکہ اس وقت تک واقعے کے گواہوں میں شاید ہی کوئی زندہ بچا ہو۔ دیگر قرائن و آثار بھی ضائع ہو چکے ہوں گے ۔ مورخ کے لیے صرف اور صرف صحافیوں اور تجزیہ نگاروں کا کیا ہوا کام باقی بچے گا۔ اگر اخبارات اور نیوز چینلز نے اپنے آرکائیوز میں پرانے اخبارات اور خبروں کی ویڈیوز سنبھال کر رکھی ہوں گی تو شاید یہ مورخ کو دستیاب ہو جائیں ورنہ صرف تجزیہ نگاروں کا کام ہی اس مورخ کو مل سکے گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ تجزیہ نگاروں کی تحریر میں یا ویڈیوز اس مورخ کو نہ مل سکیں اور اسے دیگر وسائل جیسے سابقہ مورخین کے کام ہی پر اکتفا کرنا پڑے۔

اس مثال کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ یہ دیکھ سکتے ہیں کہ دور جدید کے مورخین کے لیے بھی تاریخ کی تصویر پر پڑی گرو ہٹانا ایک مشکل کام ہے۔ ہمارے پڑوس میں رات کے وقت تنہائی میں کسی کو قتل کر دیا جائے تو بھی ہمارے لیے یہ بہت مشکل ہوتا ہے کہ تمام تر وسائل رکھتے ہوئے ہم صحیح مجرم تک پہنچ جائیں، کجایہ کہ سینکڑوں برس پہلے کے کسی قتل یا اور واقعے سے متعلق ہم صحیح مجرم تک پہنچ سکیں جب نہ اخبارات تھے اور نہ صحافی، نہ نیوز چینل تھے اور نہ ہی تجزیہ نگار اور کمپیوٹر یا پر لیں تو بہت دور کی بات، کاغذ بھی پوری طرح دستیاب نہ تھا۔ آج کے اس دور میں جب کمیونی کیشن کا انقلاب آچکا ہے اور وسائل نقل و حمل اس درجے میں ایجاد ہو چکے ہیں کہ چند گھنٹوں میں دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے کا سفر ممکن ہے، ہم یہ دعوی نہیں کر سکتے ہیں کہ ہر ہر بات بالکل صحیح طریقے پر ریکار ڈہو رہی ہے اور بالکل ٹھیک ٹھیک اگلی نسلوں تک منتقل ہو رہی ہے۔ پھر یہ دعوی پرانے زمانے کے بارے میں کرنا کیسے ممکن ہے؟

بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ محض غلط فہمی کی وجہ سے بات صحیح طور پر منتقل نہیں ہو پاتی۔ ایک شخص اس واقعے یا بات کو صحیح سمجھ نہیں سکا اور اپنی ناقص فہم کو اس نے آگے منتقل کر دیا۔ بعد میں یہ بات کتب تاریخ کا حصہ بن گئی۔


جان بوجھ کر تاریخی معلومات کا مسح کیا جانا

او پر دی گئی تفصیلات سے ہم یہ جان چکے ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ محض غلط فہمی یالا پرواہی یا معلومات کی کمی کے باعث تاریخی معلومات صحیح طور پر انگلی نسلوں کو منتقل نہیں ہوتیں۔ اس عمل میں اس وقت زیادہ شدت پیدا ہو جاتی ہے جب کوئی شخص یا گروہ اپنے شخصی یا گروہی مفادات کے تحت جان بوجھ کر تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کرے۔ سیاسی معاملات میں چونکہ لوگ اقتدار کے حصول کے لیے ایک دوسرے کے خلاف جد وجہد میں مصروف ہوتے ہیں، اس وجہ سے وہ تاریخ کو بھی محض اپنا ہتھیار ہی سمجھتے ہیں اور اسے مسح کرنے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے ہیں۔

ہم جانتے ہیں کہ پہلی اور دوسری صدی ہجری میں متعدد سیاسی جماعتیں وجود پذیر ہو چکی تھیں۔ ان میں سے ہر ایک کی خواہش یہ تھی کہ اقتدار اسے نصیب ہو۔ اس دور کی سیاسی جماعتوں کو ہم اپنے دور کی پارٹیوں پر قیاس نہیں کر سکتے کیونکہ اس زمانے میں جو بھی اقتدار کا خواہش مند ہوتا، اس کے لیے ایک ہی راستہ تھا کہ وہ بغاوت برپا کرے اور لڑ جھگڑ کر اقتدار حاصل کرلے۔ ہر پارٹی کی کوشش یہ تھی کہ وہ زیادہ سے زیادہ عوامی حمایت حاصل کرلے تاکہ اسے سیاسی کارکن دستیاب ہو سکیں۔ اس کے لیے ہر پارٹی نے اپنے مقاصد کے حصول کے پراپیگنڈا کا ہتھیار استعمال کیا۔ ہٹلر کے قریبی ساتھی اور اس کی پراپیگنڈا مشینری کے انچارچ گوئبلز کا یہ قول بہت مشہور ہے کہ جھوٹ کو اتنی مرتبہ بولو کہ لوگ اسے سچ مان لیں۔ پر اپیگنڈا گوئبلز کی ایجاد نہیں ہے بلکہ ہزاروں برس سے لوگ اسی قول پر عمل کرتے آئے ہیں جن میں مسلمانوں کی پہلی دو صدیوں کی سیاسی پارٹیاں بھی شامل ہیں۔

دوسری صدی ہجری میں جن لوگوں میں تاریخ دانی کا شوق پیدا ہوا، وہ بالعموم انہی میں سے کسی ایک پارٹی سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنے سیاسی تعصبات کے مطابق کچی جھوٹی ہر قسم کی روایات اکٹھی کیں اور ان پر کتابیں لکھیں۔ ان متعصب مورخین کو اس سے غرض نہ تھی کہ بات مستند ہے یا نہیں، انہیں تو اپنی تصویر مکمل کرنا تھی اور اس کے لیے انہیں جو بھی رطب و یابس ملا، قبول کر کے انہوں نے اپنے ذہن کے مطابق تصویر مکمل کرنے کی کوشش کی۔ بعد میں جب تاریخ طبری اور دیگر کتب لکھی گئیں، تو یہی بچی جھوٹی روایتیں ان کا حصہ بھی بن گئیں۔ اس کے بعد ہر ہر گروہ اپنے اپنے نظریات کے مطابق جب تاریخ کی کوئی تصویر بنانا چاہتا ہے تو اسے اس کا پورا مصالحہ انہی تاریخی کتب سے مل جاتا ہے۔

تاریخ سے متعلق یہ تمام حقائق ہم اپنے پاس سے بیان نہیں کر رہے ہیں بلکہ علم التاریخ کے بانی ابن خلدون - 808/1332-732) (1405 نے بھی یہی بات کہی ہے۔ اپنے شہرہ آفاق مقدمہ تاریخ میں لکھتے ہیں:

چونکہ خبر میں جھوٹ اور سچ کا امکان ہوتا ہے، اس لیے تاریخ میں بھی جھوٹ اور سچ اور غلطی کا احتمال (Probability) رہتا ہے۔ تاریخ میں تغلطیوں کے کئی اسباب ہوتے ہیں:

پہلا سبب :-

 اختلاف آراء و نقطہ ہائے نظر ہے۔ جب ذہن راہ اعتدال پر ہوتا ہے اور کوئی بات سنتا ہے تو اس کی تحقیق کرتا ہے اور اس میں غور و فکر کرتا ہے یہاں تک کہ اسے معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ خبر بچی ہے یا جھوٹی۔ لیکن جب ذہن کسی رائے یا نقطہ نظر میں ڈوبا ہوتا ہے تو وہ فورا اس خبر کو درست مان لیتا ہے جو اس کی رائے یا نقطہ نظر کے موافق ہو کیونکہ اس کی بصیرت پر تعصب و محبت کی پٹی بندھی ہوتی ہے جو اسے تحقیق و تنقید سے روک دیتی ہے۔ اب وہ جھوٹی خبر قبول کر کے غلطی کا شکار ہو جاتا ہے اور اس جھوٹی خبر کو بلا تامل آگے نقل کر دیتا ہے۔

دوسرا سبب:-

 نقل کرنے والوں پر بھروسہ ہے کہ اس کے خیال میں وہ قابل اعتماد ہیں اور غلط بیانی ان کے شایان شان نہیں ہے۔ اس وجہ سے وہ جرح و تعدیل کے اصول پر ان کے احوال کی جانچ پڑتال نہیں کرتا ہے۔

تیسرا سبب:-

 مقصد سے لاپر واہی ہے۔ بہت سے راوی اپنی مشاہدہ کی ہوئی یا سنی ہوئی خبروں کے اغراض و مقاصد سے آگاہ نہیں ہوتے ہیں۔ وہ محض اپنے گمان اور انکل پیچھ کی بنیاد پر روایت کر دیتے ہیں۔ اس لیے وہ غلطی کا شکار ہو جاتی ہیں۔

چوتھا سبب :-

 کسی خبر کے بارے میں سچا ہونے کا وہم ہے۔ یہ کئی طرح سے پیدا ہوتا ہے۔ زیادہ تر اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ راویوں پر اعتماد کر لیا جاتا ہے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ خبروں کو (اس دور کے) دیگر خارجی واقعات سے میچ نہیں کیا جاتا ہے تا کہ اس خبر اور دیگر واقعات میں مطابقت (Reconciliation) پیدا ہو جائے۔ اس تطبیق سے عدم واقفیت کے باعث جعلی اور من گھڑت باتوں کو بھی فروغ حاصل ہو جاتا ہے اور صحیح و غلط کی تمیز نہیں رہتی ہے۔ سننے والا خبر کو جوں کا توں نقل کر دیتا ہے حالانکہ وہ جعلی ہونے کے سبب سچائی سے کوسوں دور ہوتی ہیں۔

پانچواں سبب:-

 معزز اور بڑے لوگوں کی خوشامد کر کے انہیں خوش کرنا اور ان کا قرب حاصل کرنا مقصود ہوتا ہے۔ اکثر خوشامدی لوگ بڑے لوگوں کی ہر بات خوبصورت رنگ میں رنگ کر اسے پھیلا دیتے ہیں اور کسی طرح وہ جھوٹی خبریں دنیا میں پھیل جاتی ہیں کیونکہ انسان کو فطری طور پر اپنی تعریف اچھی لگتی ہے۔ لوگ دنیا اور اس کے مال و متاع کے انتہائی حریص ہوتے ہیں اور حقیقی فضیلت اور اہل فضیات کو نہیں چاہتے ہیں۔

چھٹا سبب :-

جو مذکورہ بالا تمام اسباب سے زیادہ اہم ہے، اس معاشرے کے احوال سے ناواقفیت ہے ( جس کی وہ خبر ہو۔) ہر زمانے کا ایک مخصوص ماحول (Fthos) ہوتا ہے اور اس زمانے کے ہر واقعے کے لیے، اس زمانے کی خصوصیات سے مطابقت ضروری ہوتی ہے۔ اگر خبر سننے والاء اس ماحول کے تقاضوں اور واقعات کی مخصوص مخصوصیات سے باخبر ہو تو اسے اس خبر کی تحقیق میں بڑی مدد ملے گی۔۔۔۔


بعض اوقات لوگ بالکل ہی محال و نا ممکن خبروں پر یقین کر کے انہیں نہ صرف مان لیتے ہیں بلکہ دوسروں سے روایت بھی کر دیتے ہیں۔ لوگ ان سے یہ خبریں نقل کرتے چلے آئے ہیں ۔ 

(مقدمہ ابن خلدون، مقدمہ 1/46- الکتاب الاول: في طبيعة العمران۔ بیروت)


اس کے بعد ابن خلدون نے تاریخ کی سابقہ کتب سے بعض مثالیں نقل کی ہیں جیسے اسکندر یونانی کے بارے میں مشہور ہے کہ جب اس نے اسکندریہ شہر آباد کرنا چاہا تو سمندری بلاؤں نے اس کی مخالفت کی۔ اس نے شیشے کا ایک صندوق بنوایا اور اس میں بیٹھ کر سمندر میں اترا۔ یہاں اس نے تہہ میں موجود کچھ شیطانی جانوروں کی تصاویر کھینچ لیں اور واپس آکر ان کے مجسمے بنوا کر ساحل پر لگوا دیے۔ بلائیں جب رکاوٹ ڈالنے آئیں تو ڈر کر بھاگ گئیں اور اس طرح اسکندریہ کے شہر میں رکاوٹ دور ہو گئی۔ اس قسم کی بہت کی داستانیں داستان گو حضرات نے محض اس لیے گھڑیں کہ ان کی مدد سے وہ لوگوں کو محظوظ کر سکیں۔ بعض مورخین نے زیادہ تردد کیے بغیر انہیں بھی کتب تاریخ کا حصہ بنادیا۔

(جاری ہے)








تعليق واحد

  1. غير معرف
    پارٹ ٹو؟
Type Your Feedback